بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
پاکیزگی ہے اس ذات کے لیے جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کہ اس کی اطراف کو ہم نے بڑی ہی برکت دی ہے ، سیر کرائی اور اس لیے سیر کرائی کہ اپنی نشانیاں اسے دکھا دیں ، بلاشبہ وہی ذات ہے جو سننے والی اور دیکھنے والی ہے
وہ ذات کیا ہے جو تمام پاکیزگیوں کی اصل مالک ہے ؟ وہ اللہ تعالیٰ ہے : 1۔ (سبحن) وہ ذات ہے جو ہر نقص اور کمی سے پاک ہے ‘ ہر عجز سے منزہ ہے ‘ ہر قید اور ہر حد بندی سے بالاتر ہے ۔ تسبیح کا لفظ لایا ہی ایسے موقع پر جاتا ہے جہاں کسی امراہم وعظیم الشان کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے ، نبی کریم ﷺ کا مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے جانا بھی ایک عظیم الشان امر الہی ہے اور واقعہ معراج بھی بعض لوگوں نے اس سے ہجرت کی پیش گوئی مراد لی ہے اور بعض نے اس سے واقعہ الاسراء یا معراج مراد لیا ہے اور دونوں واقعات ہی اتنے اہم ہیں کہ ان کے بیان کو لفظ (سبحان) سے شروع کرنا ان کے شایان شان ہے ۔ اگر ہجرت کی پیش گوئی مراد لی جائے تو بات تو پہلے ہی واضح ہے لیکن اگر اس سے مراد واقعہ الاسراء ومعراج ہے تو بھی اس کے ضمن میں وہ پیش گوئی جس کو بعد میں ہجرت کا نام دیا گیا اپنی جگہ ثابت و محفوظ ہے اور آپ کو ہجرت کے بعد جو پروگرام دیا جانے والا تھا اس کا ایک خاکہ آپ کو بتا دیا گیا ہے اور جو کچھ پیش آنے والا تھا اس کی ایک مختصر جھلک تھی جو آپ ﷺ کو کرائی گئی جس طرح سارے رسل عظام کو اپنے اپنے وقتوں میں کرائی جاتی رہی ۔ (سبحان) کا لفظ قرآن کریم میں 18 بار بیان ہوا جس میں سب سے پہلے سورة یوسف کی آیت 108 میں بیان ہوا اس کا مختصر خاکہ بیان کیا جارہا ہے تاکہ قارئین حضرات ان جگہوں کا مطالعہ کر کے مضامین کی اہمیت کو ملاحظہ کرسکیں پوری تفصیل یہاں نہیں بیان کی جاسکتی ۔ سورة یوسف کے بعد یہ لفظ سورة الاسراء یعنی بنی اسرائیل میں تین بار استعمال کیا گیا بنی اسرائیل کی آیت 1 ‘ 93 اور 108 میں سورة الانبیاء 21 کی آیت 22 ‘ المومنون 23 کی آیت 91 ‘ سورة النمل 27 کی آیت 8 ‘ سورة القصص 28 کی آیت 28 کی آیت 68 سورة الروم 20 کی آیت 17 ‘ سورة یس 36 کی آیت : 36 : 83 ‘ سورة الصف 37 کی 159 ‘ 180 سورة الزخرف 43 کی آیت 13 ‘ 82 ‘ سورة الطور 52 کی آیت 43 ‘ سورة الحشر 59 کی آیت 23 ، اور سورة القلم 68 کی آیت 29 میں ۔ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے خاص بندے ہیں : 2۔ (الاسرآء) کی اصل س ر یا س ر ی تسلیم کی گئی ہے (اسری) کا لفظ قرآن کریم میں اس مقام پر صرف ایک جگہ ہی استعمال ہوا ہے اور (اسر) کا قرآن کریم میں پانچ بار استعمال ہوا ہے جیسے (فاسر باھلک) ہود کی آیت 81 میں لوط (علیہ السلام) کے ذکر میں سورة الحجر 15 کی آیت 65 میں لوط (علیہ السلام) ہی کی ہجرت کے لئے استعمال ہوا ہے اور سورة طہ 20 کی 77 ‘ سورة الشعراء 26 : آیت 52 اور سورة الدخان 44 کی آیت 23 میں موسیٰ (علیہ السلام) کی ہجرت کے حکم کے لئے بولا گیا ہے ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی اس سیر روحانی سے وہ ” عبد “ سے نکل نہیں گئے بلکہ ” عبدخاص “ کے مرتبہ پر فائز ہوئے ہیں یہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی شرکت الوہیت و ربوبیت میں ہوگئی ۔ اس طرح گویا رد ہوگیا نصرانیوں کی حیرت انگیز مثال کا جو انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” ابن اللہ “ کہہ کر پیش کی اور دوسری طرف عوام وجہلا کے اس نظریہ کا کہ ” مقام عبدیت “ کوئی پست مقام ہے بلکہ یہ بات واضح فرما دی کہ مخلوق میں اگر کوئی بلند سے بلند مقام ہے تو صرف اور صرف ” عبدیت “ ہی کا ہے ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی اس سیر کو ” معراج نبوی “ کا نام دیا گیا ہے : 3۔ ہجرت مدینہ سے تقریبا 5 سال ‘ 3 سال ‘ ایک سال سات ماہ یا صرف ایک سال قبل پیغمبر اسلام ﷺ کو اسری کا معاملہ پیش آیا جو عام طور پر معراج کے نام سے مشہور ہے ۔ اس سورت کی ابتداء اس واقعہ کے ذکر سے کی گئی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس معاملہ سے مقصود کیا تھا ؟ (آیت) ” لنریہ من ایتنا “۔ تاکہ اللہ کی نشانیاں ان کے مشاہدہ میں آجائیں اور دلائل حقیقت کا عینی مشاہدہ کرلیں گویا یہ معاملہ وحی الہی کی تکمیل اور آنے والے واقعات کا ایک خاکہ تھا جس کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب اسلام کی سخت اور پرخطر زندگی کا باب ختم ہونے کو تھا اور ہجرت کے بعد سے اطمینان و سکون کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا تھا تو وہ شب مبارک آئی اور اس شب مبارک میں وہ ساعت ہمایوں آئی جو دیوان قضا میں سرور عالم ﷺ کی سیر ملکوت کے لئے مقرر تھی اور جس میں پیش گواہ ربانی سے احکام خاص کا اجراء اور نفاذ عمل میں آنے والا تھا ۔ رضوان جنت کو حکم ہوا کہ آج مہمان سرائے غیب کو نئے ساز وبرگ سے آراستہ کیا جائے کہ شاہد عالم آج یہاں مہمان بن کر آئے گا اور روح الامین کو پیغام پہنچا کہ وہ سواری جو بجلی سے زیادہ تیز گام اور روشنی سے زیادہ سبک خرام ہے اور جو خطہ لاہوت کے مسافروں کے لئے مخصوص ہے حرم ابراہیم یعنی کعبہ میں لے کر حاضر ہو اور کارکنان عناصر کو یہ حکم ہوا کہ اس راستہ کی ساری طبعی پابندیاں اٹھا دی جائیں اور حکم الہی کی تکمیل کردی گئی ، اور عین ایسی حالت میں جب کہ نبی کریم ﷺ نہ سوتے تھے اور نہ جاگتے تھے جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ” بین النائم والیقظان “ تو آپ ﷺ کو وہ سیر کرائی گئی جس کو قرآن وحدیث کی زبان میں (اسراء) اور معراج کا نام دیا گیا ہے ۔ صحیحین میں حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ مکہ میں تھے کہ آپ ﷺ کے گھر کے چھت کھلی اور جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے انہوں نے پہلے آپ ﷺ کا سینہ مبارک چاک کیا پھر اس کو آب زمزم سے دھویا اس کے بعد سونے کا ایک طشت ایمان اور حکمت سے بھرلائے اور ان کو سینہ مبارک میں ڈال کر بند کردیا ‘ پھر آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے جب آپ ﷺ آسمان پر پہنچے تو جبرئیل (علیہ السلام) نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ کھولو اس نے کہا کہ کون ؟ انہوں نے جواب دیا ” جبرئیل “ اس نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں ۔ اس نے سوال کیا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا بہرحال آپ ﷺ جب پہلے آسمان پر چڑھے تو آپ ﷺ کو ایک شخص بیٹھا ہوا نظر آیا جس کے دائیں بائیں بہت سی پرچھائیاں تھیں ‘ جب وہ دائیں جانب دیکھتا تھا تھا تو ہنستا تھا اور جب بائیں جانب نگاہ جاتی تھی تو روتا تھا ۔ آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر اس نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور اے فرزند صالح نبی کریم ﷺ نے جبرئیل (علیہ السلام) سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ آدم (علیہ السلام) ہیں اور ان کے دائیں بائیں پر چھائیاں ان کی اولاد کی روحیں ہیں ۔ دائیں جانب والے جنتی اور بائیں جانب والے دوزخی ہیں اس لئے وہ دائیں جانب دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں اور جب بائیں جانب نگاہ کرتے ہیں تو روتے ہیں اس کے بعد آپ ﷺ دوسرے آسمان پر پہنچے تو اس قسم کا سوال و جواب ہوا اور ہر آسمان پر کسی نہ کسی پیغمبر سے ملاقات ہوئی ‘ پہلے پر آدم (علیہ السلام) اور چھٹے پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ابوذر ؓ نے مجھ سے پیغمبروں کے منازل کی تعیین نہیں بیان کی بہرحال حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کو حضرت ادریس (علیہ السلام) کے پاس سے لے کر گزرے انہوں نے آپ ﷺ کو دیکھ کر کہا ‘ مرحبا اے نبی صالح اور برادر صالح ۔ آپ ﷺ نے نام پوچھا ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے نام بتایا اور پھر یہی واقع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آیا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے نبی صالح اور برادر صالح کہہ کر اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نبی صالح اور فرزند صالح کہہ کر آپ ﷺ کا خیر مقدم کیا اس کے بعد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کو اور اوپر لے گئے اور آپ ﷺ اس مقام پر پہنچے جہاں پر قلم قدرت کے چلنے کی آواز آتی تھی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو امت پر پچاس وقت کی نماز فرض کی ۔ نبی کریم ﷺ اس عطیہ ربانی کو لے کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ اللہ نے آپ ﷺ کی امت پر کیا فرض کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پچاس وقت کی نماز ‘ انہوں نے کہا اللہ کے پاس دوبارہ جائیے کہ آپ ﷺ کی امت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ گئے اور اللہ نے ایک حصہ کم کردیا ۔ آپ ﷺ واپس آئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ دوبارہ اللہ کے پاس جائیے ۔ آپ ﷺ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی ۔ آپ ﷺ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ کی پھر تخفیف کردی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر کہا آپ ﷺ کی امت میں اس کی بھی قوت نہیں ۔ آپ ﷺ پھرگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تعداد گھٹا کر پانچ وقت کردیا اور ارشاد ہوا کہ گرنمازیں پانچ وقت کی ہوں گی لیکن ثواب ان ہی پچاس وقتوں کا ملے گا کیونکہ میرے حکم میں تغیر وتبدل نہیں ہوتا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے مزید تخفیف کی عرض کی ‘ نبی کریم ﷺ کو پھر اللہ تعالیٰ کے پاس مراجعت کا مشورہ دیا لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب تو مجھے شرم آتی ہے اس کے بعد آپ ﷺ کو (آیت) ” سدرۃ المنتھی “۔ کی سیر کرائی گئی جو ایسے مختلف رنگوں سے ڈھکا ہوا تھا جن کو آپ ﷺ جان نہ سکے ۔ پھر آپ ﷺ کو جبرئیل (علیہ السلام) جنت میں لے گئے وہاں آپ ﷺ کو موتی کی عمارتیں نظر آئیں اور آپ ﷺ نے دیکھا کہ اس کی مٹی مشک کی ہے ۔ (بخاری جلد اول کتاب الصلوۃ باب کیف فرضت الصلوۃ فی الاسراء ص 50 ‘ 51) کتب حدیث میں واقعہ معراج کے متعلق یہ مقدم ترین اور معتبر ترین روایت ہے اس کے بعد حضرت مالک بن صعصعہ کی روایت کا درجہ ہے جو درج ذیل ہے : انس بن مالک ؓ نے مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ میں کعبہ کے پاس کچھ سوتا اور کچھ جاگتا تھا پھر ذکر کیا ایک شخص کا دو شخصوں کے درمیان پھر سونے کا لگن حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا لایا گیا پھر میرا سنہص پیٹ کی زمر کی لگ تک چیرا گیا پھر اندر کی چیز آب زمزم سے دھو کر حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا ۔ اور پھر ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا یعنی براق ۔ پھر میں جبرئیل (علیہ السلام) کے ساتھ چلا گیا یہاں تک کہ ہم پہلے آسمان تک پہنچے ۔ پوچھا گیا کہ کون ہے ؟ کہا محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا کہ کیا وہ بلائے گئے ؟ کہا ہاں ! کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا ۔ پھر میں آدم (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو سلام کیا کہا مرحبا اے فرزند اور نبی پھر میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا ، دونوں نے کہا مرحبا ! اے بھائی ! اور نبی پھر ہم تیسرے آسمان پر پہنچے پوچھا یہ کون ہے ؟ کہا جبرئیل ۔ پوچھا یہ تیرے ساتھ کون ہے ؟ کہا محمد ﷺ ہیں ۔ اس نے پوچھا کیا بلائے گئے ‘ کہا ‘ ہاں ! کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا پھر میں یوسف کے پاس آیا اور ان کو سلام کیا کہا مرحبا تم پر اے بھائی اور نبی ! پھر ہم چوتھے آسمان پر پہنچے پوچھا گیا کون ہے ؟ کہا جبرئیل (علیہ السلام) پوچھا گیا تیرے ساتھ اور کون ہے ؟ کہا محمد ﷺ ہیں ‘ کہا کیا بلائے گئے ہیں ؟ کہاں ہاں ! پھر میں پانچویں آسمان پر پہنچا ۔ پوچھا کون ہے ؟ کہا جبرئیل ۔ کہا تیرے ساتھ اور کون ہے ؟ کہا محمد ﷺ ہیں کہا گیا بلائے گئے ؟ کہا ہاں ! کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا پھر ہم ہارون کے پاس پہنچے میں نے ان کو سلام کیا ؟ کہا مرحبا تم پر اے نبی اور برادر ! پھر ہم چھٹے آسمان پر پہنچے پوچھا کون ہے ؟ کہا جبرئیل ! پوچھا گیا تیرے ساتھ کون ہے ؟ کہا محمد ﷺ ہیں پوچھا کہ کیا بلائے گئے ہیں ؟ کہا ہاں ! کہا مرحبا ! کیا خوب آنا ہوا ۔ پھر میں موسیٰ کے پاس پہنچا ان کو میں نے سلام کیا ‘ کہا مرحبا اے برادر اور نبی ۔ جب میں وہاں سے بڑھا تو وہ روئے پوچھا گیا تم کیوں روتے ہو ۔ کہا اے خدا ! یہ لڑکا جو میرے بعد مبعوث ہوا اس کی امت کے لوگ میری امت والوں سے زیادہ جنت میں داخل ہوں گے پھر ہم ساتویں آسمان پر پہنچے کہا کون ہے ؟ کہا جبرئیل ! کہا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد ﷺ ہیں ۔ پوچھا گیا کہ کیا بلائے گئے ہیں ؟ کہا ہاں ! کہا مرحبا ! کیا خوب آنا ہوا پھر میں ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچا میں نے ان کو سلام کیا کہا مرحبا تم پر اے فرزند اور نبی ! پھر بیت المعمور میرے قریب لایا گیا میں نے جبرئیل سے پوچھا تو کہا کہ یہ بیت المعمور ہے اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب یہاں سے نکلتے ہیں تو پھر کبھی نہیں آتے پھر (آیت) ’ ) ’ سدرۃ المنتھی “۔ مجھ سے نزدیک ہوا جس کے بیرہجر کے مٹکوں کے برابر بڑے تھے اور پتے ہاتھیوں کے کان کے برابر تھے ، چار نہریں اس کی جڑ میں سے نکلتی تھیں میں نے جبرئیل سے پوچھا تو کہا دو پوشیدہ نہریں تو جنت میں ہیں اور دو ظاہر فرات اور نیل ہیں پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں پھر میں موسیٰ کے پاس آیا پوچھا آپ ﷺ نے کیا کیا ؟ میں نے کہا مجھ پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں ‘ کہا ‘ میں لوگوں کے حال سے آپ ﷺ سے زیادہ واقف ہوں میں نے بنی اسرائیل کی اصلاح میں سخت تکلیف اٹھائی ہے ، آپ ﷺ کی امت اس کا تحمل نہ کرسکے گی پس آپ اللہ کی پاس پھر جائیے اور درخواست کیجئے میں پھر گیا اور اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تو چالیس نمازوں کا حکم دیا پھر ایسا ہوا پھر تیس کا حکم دیا ، پھر ایسا ہی ہوا پھر بیس کا حکم ہوا پھر ایسا ہی ہوا پھر دس کا حکم دیا پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازوں کا حکم دیا میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا کہا آپ ﷺ نے کیا کیا ؟ میں نے کہا اب پانچ کا حکم دیا ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا میں نے کہا کہ اب میں تو قبول کرچکا ۔ پھر آواز آئی کہ ہم نے اپنا فرض جاری کیا اور اپنے بندوں کو آسانی دی اور ہم ایک نیکی کے بدلے دس کا ثواب دیں گے ، ہمام نے قتادہ سے اس نے حسن سے اور اس نے ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے کہ یہ واقعہ بیت المعمور میں ہوا ۔ (صحیح بخاری ص 455 ‘ 456 کتاب بداء الخلق باب ذکر الملائکہ) اس روایت میں بہت سی باتیں پہلی روایت سے زائد ہیں ، ابوذر غفاری ؓ کی روایت میں اس کی تصریح نہیں کہ آپ ﷺ اس وقت بیدار تھے یا خواب میں تھے اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ حطیم میں یا حجر میں لیٹے ہوئے تھے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے ، حضرت ابوذر غفاری ؓ کی روایت میں براق کا ذکر نہیں اور اس روایت میں ہے کہ آپ ﷺ براق پر سوار ہو کر گئے حضرت ابوذر غفاری ؓ کی روایت میں منازل انبیاء کرام (علیہم السلام) نہیں بیان کئے گئے ہیں لیکن اس روایت میں نام بنام تصریح ہے حضرت ابوذر غفاری ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اوقات نماز کی تعداد تین مرتبہ میں گھٹائی گئی لیکن اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اس غرض سے اللہ کے پاس پانچ بار گئے ، ان دونوں روایتوں میں درحقیقت اجمال و تفصیل کا فرق ہے ۔ حضرت ابوذر غفاری ؓ کی روایت مجمل ہے اور حضرت مالک بن صعصعہ کی روایت واقعات کی کسی قدر تفصیل ہے تاہم یہ دوسری روایت بھی تمام واقعات معراج کو محیط نہیں ہے اب نیچے ہم ان دونوں روایات کا اصل متن بغیر ترجمہ کے درج کرتے ہیں کیونکہ متن کے بغیر ترجمہ تو اوپر ذکر کردیا گیا اور پھر اس متن کے بعد صحیحین کی روایات کی نشاندہی کریں گے تاکہ قارئین اگر چاہیں تو ان روایات کو اصل کتاب یعنی صحیح بخاری سے دیکھ سکیں اور اس کے بعد آگے بڑھیں گے ۔ صحیح بخاری کی مذکورہ دونوں احادیث کا اصل متن : حدثنا یحییٰ بن بکیر قال : ثنا اللیت عن یونس عن ابن شھاب عن انس بن مالک قال : کان ابوذر یحدث ان رسول اللہ ﷺ قال : (فرج عن سقف بیتی وانا بمکۃ ، فنزل جبریل (علیہ السلام) ففرج صدری ، ثم غسلہ بماء زمزم ، ثم جاء بطست من ذھب ممتلیء حکمۃ وایمانا فافرغہ فی صدری ثم اطبقہ ، ثم اخذ بیدی فعرج بی الی السماء فلما جئت الی السماء الدنیا قال جبریل (علیہ السلام) لخازن السماء : افتح قال : من ھذا ؟ قال : ھذا جبریل قال ھل معک احد قال نعم معی محمد فقالء ارسل الیہ قال نعم فلما فتح علونا السماء الدنیا ، فاذا رجل قاعد علی یمینہ اسودۃ وعلی یسارہ اسودۃ ، اذا نظر قبل یمینہ ضحک ، واذا نظر قبل شمالہ ، بکی ، فقال : مرحبا بالنبی الصالح والابن الصالح ، قلت لجبریل : من ھذا ؟ قال : ھذا آدم ، وھذہ الاسودۃ عن یمینہ وشمالہ نسم بنیہ ، فاھل الیمین منھم اھل الجنۃ ، والاسودۃ التی عن شمالہ اھل النار ، فاذا نظر عن یمینہ ضحک ، واذا نظر قبل شمالہ بکی ، حتی عرج بی السماء الثانیۃ فقال لخازنھا افتح فقال لہ خازنھا مثل ما قال الاول ، ففتح) قال انس : فذکر انہ وجد فی السماوات آدم وادریس وموسی ووعیسی وابراھیم صلوات اللہ علیھم ، ولم یثبت کیف منازلھم ، غیر انہ ذکر انہ وجد ادم فی السماء الدنیا ، وابراھیم فی السماء السادسۃ وقال انس : فلما مر جبریل (علیہ السلام) بالنبی ﷺ بادریس قال : (مرحبا بالنبی الصالح والاخ الصالح ، فقلت من ھذا ؟ قال ھذا ادریس ، ثم مررت بموسی فقال : مرحبا بالنبی الصالح والاخ الصالح ، قلت : من ھذا ؟ قال : ھذا موسیٰ ، ثم مررت بعیسی فقال : مرحبا بالاخ الصالح والنبی الصالح ، قلت : من ھذا ؟ قال عیسیٰ ، ثم مررت بابراھیم فقال : مرحبا بالنبی الصالح والابن الصالح : قتل من ھذا ؟ قال : ھذا ابراھیم ) قال ابن شھاب فاخبرنی ابن حزم ان ابن عباس واباحبۃ الانساری کانا یقولان : قال النبی ﷺ : (ثم عرج بی حتی ظھرت المستوی اسمع فیہ صریف الاقلام) قال ابن حزم وانس بن مالک : قال انبی ﷺ (ففرض اللہ عزوجل علی امتی خمسین صلاۃ ، فرجعت بذلک حتی مررت علی موسیٰ فقال : ما فرض اللہ لک علی امتک ؟ قلت : خمسین صلاۃ قال : فارجع الی ربک ، فان امتک لا تطیق ذلک ، فراجعت فوضع شطرھا ، فرجعت الی موسیٰ قلت : وضع شطرھا ، فقال : راجع ربک فان امتک لا تطیق ذالک فراجعت ، فوضع شطرھا ، فرجعت الیہ فقال رجع الی ربک ، فان امتک لا تطیق ذلک ، فراجعتہ فقال : ھی خمس وھی خمسون ، لا یبدل القول لدی ، فرجعت الی موسیٰ فقال : راجع ربک : فقلت استحییت من ربی ، ثم انطلق بی حتی انتھی بی الی سدرۃ المنتھی ، وغشیھا الوان لا ادری ماھی ، ثم ادخلت الجنۃ ، فاذا فیھا حبایل الؤلو ، واذا ترابھا المسک) حدثنا ھدبہ بن خالد ھمام عن قتداۃ حدثنا انس بن مالک عن مالک بن صعصعۃ ؓ : قال النبی ﷺ (بینا انا عند البیت بین النائم والیقضان ۔ وذکر یعنی رجلا بین الرجلین ۔ فاتیت بطست من ذھب ملیء حکمۃ وایمانا فشق صدری من النھر الی مراق البطن ، ثم غسل البطن بماء زمزم ، چم ملیء حکمۃ وایمانا ، واتیت بدابۃ ابیض دون البغل وفوق الحمار البراق فانطلقت مع جبریل ، حتی اتینا السماء الدنیا ، قیل : من ھذا ؟ جبریل قیل : من معک ؟ قیل : محمد قیل : وقد ارسل الیہ قال : نعم قیل : مرحبا ولنعم المجیء جاء فاتیت علی وآدم فسلمت علیہ فقال : مرحبا بک من ابن ونبی فاتینا السماء الثانیۃ ، قیل : من ھذا ؟ قال : جبریل ، قیل : من معک ؟ قال : محمد ﷺ قیل ارسل الیہ ، قال : نعم : قیل : مرحبا بہ ، ونعم المجیء جاء فاتیت علی عیسیٰ ویحی ، فقالا : مرحبابک : من اخ ونبی ، فاتینا السماء الثالثۃ ، قیل : من ھذا ؟ قیل : جبریل ، قیل من معک ؟ قیل : محمد قیل : وقد ارسل الیہ ؟ قال نعم قیل : مرحبا بہ ، ولنعم المجیء جاء فاتیت یوسف فسلمت علیہ ، فقالا : مرحبا بک من اخ ونبی ، فاتینا السماء الرابعۃ ، قیل من ھذا ؟ جبریل قل معک ؟ قیل : محمد ﷺ قیل : وقد ارسل الیہ ؟ قال : نعم قیل : مرحبابہ ، ولنعم المجیء : جاء ، فاتیت علی ادریس فسلمت علیہ فقال : مرحبا من اخ ونبی فاتیتا المساء الخامسۃ ، قیل من ھذا ؟ جبریل قل معک ؟ قیل : محمد ﷺ قیل : وقد ارسل الیہ ؟ قال : نعم قیل : مرحبابہ ، ولنعم المجیء : جاء ، فاتینا علی ہارون فسلمت علیہ ، فقال : مرحبا بک من اخ ونبی فاتینا علی السماء السادسۃ ، قیل من ھذا ؟ جبریل قل معک ؟ قیل : محمد ﷺ قیل : وقد ارسل الیہ ؟ قال : نعم قیل : مرحبابہ ، ولنعم المجیء : جاء ، فاتیت علی موسیٰ فسلمت فقال : مرحبابک من اخل ونبی ، فلما جاوزت بکی ، فقیل : ما ابکاک ؟ قال : یا رب ھذا الغلام الذی بعث بعد یدخل من امتہ افضل مما یدخل من امتی فاتینا السماء السابعۃ ، قیل من ھذا ؟ جبریل قل معک ؟ قیل : محمد ﷺ قیل : وقد ارسل الیہ ؟ قال : نعم قیل : مرحبابہ ، ولنعم المجیء : جاء ، فاتیت علی ابراہیم فسلمت علیہ فقال : مرحبا بک من ابن ونبی فرفع لی البیت المعمور ، فسالت جبریل فقال : ھذا بیت المعمور ، یصلی فیہ کل یوم سبعون الف ملک ، اذا خرجوا لم یعودوا الیہ آخر ماعلیھم ، و رفعت لی سدرۃ المنتھی فاذا نبقھا کانہ قلال ھجر وورقھا کانہ اذان الفیول ، فی اصلھا اربعۃ انھار : نھران باطنان ونھران ظاھران فسالت جبریل فقال : اما الباطنان ففی الجنۃ واما الظاھران : النیل والفرات ، ثم فرضت علی خمسون صلاۃ ، فاقبلت حتی جنت موسیٰ فقال : ما صنعت ؟ قلت : فرضت علی خمسون صلاۃ ، فاقبلت حتی جئت موسیٰ فقال : ماصنعت : ؟ قلت : فرضت علی خمسون صلاۃ ، قال انا اعلم بالناس منک عالجت بنی اسرائیل اشد المعالجۃ ، وان امتک لا تطیق ، فارجع الی ربک فسلہ ، فرجعت فسالتہ ، فجعلھا اربعین ثم مثلہ ثم ثلاثین ، ثم مثلہ فجعل عشرین ، ثم مثلہ فجعل عشرا ، فاتیت موسیٰ فقال مثلہ مجعلھا خمسا : فاتیت موسیٰ فقال : ما صنعت قلت جعلھا خمسا فقال مثلہ قلت سلمت : خیر فنودی انی قد امضیت فریضتی ، وخففت عن عبادی ، واجزی الحسنۃ عشرا) ۔ قال ھمام عن قتادۃ عن الحسن عن ابی ہریرہ ؓ عن النبی ﷺ (فی البیت المعمور) ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی دوسری احادیث کے اشارات : 3۔ (صحیح بخاری ص 548 ‘ 549 ‘ 550 مطبوعہ دہلی کتاب بدء الخلق باب المعراج) 4۔ صحیح بخاری ص 459۔ باب بدء الخلق باب اذا قال احدکم امین الخ) 5۔ (صحیح بخاری 470 ‘ 471 مطبوعہ دہلی کتاب بدء الخلق باب ذکر ادریس) 6۔ (صحیح بخاری ص 1120 ‘ 1121 کتاب الرد علی الجھمیعہ باب کلم اللہ موسیٰ تکلیما) 7۔ (صحیح بخاری 484) 8۔ (صحیح بخاری ص 487 ‘ 488) 9۔ (صحیح بخاری ص 489) 10۔ (صحیح بخاری ص 689) 11۔ صحیح بخاری ص 484) 12۔ (صحیح بخاری ص 684) 13۔ (صحیح بخاری ص 548) 14۔ (صحیح بخاری ص 221) 15۔ (صحیح بخاری ص 504) 1۔ (صحیح مسلم جلد اول ص 91) 2۔ (صحیح مسلم جلد اول ص 92) 3۔ (صحیح مسلم جلد اول ص 93) 4۔ (صحیح مسلم جلد اول ص 95) 5۔ (صحیح مسلم جلد اول ص 95) 6۔ (صحیح مسلم جلد اول ص 97) 7۔ (صحیح مسلم جلد اول ص 96) 8۔ (صحیح مسلم جلد اول ص 96) علاوہ ازیں ترمذی شریف میں پانچ احادیث درج ہیں لیکن بہت اختصار کے ساتھ ہیں ، نسائی شریف میں بھی پانچ احادیث آئی ہیں ، ابن ماجہ میں صرف ایک حدیث ہے ، موطا امام مالک اور سنن ابی داؤد میں معراج کے متعلق کوئی حدیث نہیں دی گئی ‘ کیوں ؟ وجہ اہل فن سے پوچھیں ، اب ہم صحیحن کی تمام روایتوں کو ملا کر معراج کے سوانح ومشاہدات کا ایک جامع بیان لکھتے ہیں جو درج ذیل ہیں : کتب احادیث کی روشنی میں معراج نبوی کی راہ اصلیت کا خلاصہ : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اصل کعبہ کی جو عمارت بنوائی تھی وہ سیلاب سے کئی دفعہ گز چکی تھی اور پھر بنی تھی اس طرح قریش کے زمانہ میں جب نبی اعظم وآخر ﷺ ہنوز پیغمبر نہیں ہوئے تھے سیلاب سے گر گئی ، قریش نے اس کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہا تو سرمایہ کی کمی کے باعث ایک طرف سے اندر کی تھوڑی سی زمین چھوڑ کر دیوار کے طول کو کم کردیا اس طرح کعبہ کی تھوڑی سی زمین چار دیواری سے باہر رہ گئی اور اب تک وہ اسی طرح ہے اس زمین کا نام حجر اور حطیم ہے ، قریش کے نوجوان اور رؤسا اکثر یہاں آرام فرمایا کرتے تھے ، نبوت سے پہلے آپ ﷺ کو حالت رویا میں فرشتے نظر آئے تھے ۔ (بخاری کتاب التوحید باب صفت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس شب کو معراج ہوئی آپ ﷺ اس مقام پر استراحت فرما رہے تھے ‘ بیداری اور خواب کی ایک درمیانی حالت تھی اور اس حالت میں آپ ﷺ تنہائی میں اکثر رہتے تھے ۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ آپ کے گھر کی چھت کھلی اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے ان کے ساتھ چند اور فرشتے بھی تھے وہ آپ ﷺ کو چاہ زمزم کے پاس لے گئے اور وہاں آپ ﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلب اطہر کو نکال کر آپ زمزم سے دھویا اس کے بعد سونے سینہ میں رکھ کر اس کو برابر کردیا ۔ اس کے بعد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا سفید رنگ کا لمبا جانور براق نامی لایا گیا جس کی تیز رفتاری کا یہ حال تھا کہ اس کا ہر قدم وہاں پڑتا تھا جہاں نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی ، آپ اس پر سوار ہو کر بیت المقدس آئے اور براق کو اس قلابہ میں باندھ کر جس میں انبیاء کرام (علیہم السلام) اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے آپ نے مسجد اقصی کے اندر قدم رکھا اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی ، یہاں سے نکلے تو جبرئیل (علیہ السلام) نے شراب اور دودھ کے دو پیالے آپ کے سامنے پیش کئے آپ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا ، جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا آپ ﷺ نے فطرت کو پسند فرمایا ، اگر شراب کا پیالہ اٹھاتے تو آپ ﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی ، اس کے بعد جبرئیل (علیہ السلام) نبی اعظم وآخر ﷺ کو لے کر آسمان پر چڑھے ، پہلا آسمان آیا تو جبرئیل (علیہ السلام) نے دربان کو آواز دی اس نے کہا کون ہے ؟ جبرئیل (علیہ السلام) نے اپنا نام بتایا ، پوچھا تمہارے ساتھ اور کون ہے ؟ جواب دیا محمد رسول اللہ ﷺ ۔ پھر دریافت کیا گیا کیا وہ بلائے گئے ؟ کہا ‘ ہاں ! یہ سن کر فرشتہ نے دروازہ کھول دیا اور مرحبا ‘ خوش آمدید کہا اور کہ اس خبر کو سن کر آسمان والے خوش ہوں گے خدا اہل زمین کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتا ہے جب تک وہ آسمان والوں کو اس کا علم نہ بخشے وہ جان نہیں سکتے اب آپ پہلے آسمان میں داخل ہوئے تو ایک شخص نظر آیا جس کی داہنی اور بائیں طرف بہت سی پرچھائیاں تھیں ، جب وہ داہنی طرف دیکھتا تو ہنستا اور جب بائیں طرف دیکھتا تو رو دیتا تھا ‘ وہ آپ ﷺ کو دیکھ کر بولا ‘ مرحبا اے نبی صالح واے فرزند صالح ، آپ ﷺ نے جبرئیل (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟ جبرئیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ آپ ﷺ کے باپ آدم ہیں ‘ ان کی داہنی اور بائیں طرف جو پرچھائیاں ہیں یہ ان کی اولادوں کی روحیں ہیں ‘ داہنی طرف والے اہل جنت اور بائیں طرف والے دوزخی ہیں ، اس لئے جب ادھر دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور ادھر دیکھ کر آزردہ ہوتے ہیں ۔ اس آسمان میں آپ ﷺ کو ایک اور نہر نظر آئی جس پر لولوء وزبرجد کا ایک محل تعمیر تھا اور اس کی زمین مشک اذخر کی تھی ، جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا یہ نہر (کوثر) ہے جس کو پروردگار نے آپ ﷺ کے لئے مخصوص کر رکھا ہے ۔ اسی طرح ہر آسمان سے گزرتے گئے اور ہر آسمان کے دربان اور جبرئیل (علیہ السلام) سے اس قسم کی گفتگو ہوتی گئی اور ہر ایک میں کسی نہ کسی پیغمبر سے ملاقات ہوئی ، دوسرے میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے جو دونوں خالہ زاد بھائی تھے ملاقات ہوئی ، تیسرے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) ملے جن کو حسن کا ایک حصہ عطا ہوا تھا ، چوتھے میں ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جن کی نسبت اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے (آیت) ” ورفعناہ مکانا علیا) ہم نے اس کو ایک بلند مقام تک اٹھایا ہے اور پانچویں میں حضرت ہارون (علیہ السلام) سے ملے اور ہر ایک نے اے پیغمبر صالح اور اے برادر صالح کہہ کر خیر مقدم کیا ، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی انہوں نے کہا ” مرحبا اے پیغمبر صالح اور برادر صالح ! “ جب آپ ﷺ آگے بڑھے تو موسیٰ (علیہ السلام) روپڑے آواز آئی کہ اے موسیٰ ! اس گریہ کا کیا سبب ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے اللہ ! میرے بعد تو نے اس نوجوان کو مبعوث کیا اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ بہشت میں جائیں گے پھر ساتویں آسمان میں داخل ہوئے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے مرحبا اے پمبرت صالح اور اے فرزند صالح ! کہہ کر خیر مقدم کیا ‘ جبرئیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیت معمور (آباد گھر) سے پیٹھ لگا کر بیٹھے تھے جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے تھے ‘ آپ ﷺ کو جنت کی سیر کرائی گئی جس کے گنبدموتی کے تھے اور زمین مشک کی تھی ، اس مقام تک پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی ، آگے بڑھ کر آپ ﷺ ” سدرۃ المنتھی “۔ (انتھی کی بیری کا درخت) تک پہنچے اس درخت پر شان ربانی (امر اللہ) کا پر تو تھا ۔ جس نے آکر جب اس کو چھا لیا تو اس کی ہئیت بدل گئی اور اس میں حسن کی وہ کیفیت پیدا ہوئی جس کو کوئی زبان بیان نہیں کرسکتی اور اس میں رنگ برنگ کے ایسے انوار کی تجلی نظر آئی جن کو الفاظ ادا نہیں کرسکتے ، یہی وہ مقام ہے جہاں سے چیزیں نیچے زمین پر اترتی ہیں اور زمین سے چڑھ کر اوپر وہاں تک جاتی ہیں یہاں پہنچ کر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) اپنی اصل کمالی صورت میں آپ ﷺ کے سامنے نمودار ہوئے پھر شاہد مستور ازل نے چہرے سے پردہ اٹھایا اور خلوت گاہ راز میں راز ونیاز کے وہ پغاوم ادا ہوئے جن کی لطافت ونزاکت الفاظ کے بوجھ کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ (آیت) ” فاوحی الی عبدہ ما اوحی) اس وقت آپ ﷺ کو بارگاہ الہی سے تین عطیے مرحمت ہوئے ۔ سورة البقرہ کی آخری آیتیں جن میں اسلام کے عقائد و ایمان کی تکمیل اور اس کے دور مصائب کے خاتمہ کی بشارت ہے۔ رحمت خاص سے مژدہ سنایا گیا کہ امت محمدی میں سے ہر ایک جو شرک کا مرتکب نہ ہوا کرم مغفرت سے سرفراز ہوگا اور ندا آئی کہ امت پر پچاس وقت کی نماز مقرر کی گئی ، آپ ﷺ ان عطیوں کو لے کر واپس پھرے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو انہوں نے دریافت کیا کہ بارگاہ خاص سے کیا کام عطا ہوئے ؟ فرمایا امت پر پچاس وقت کی نماز ، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں نے بنی اسرائیل کا خوب تجربہ کیا ہے آپ ﷺ کی امت سے یہ بار نہ اٹھ سکے گا ، آپ ﷺ واپس جائیے اور عرض کیجئے ، آپ ﷺ نے رجعت کی اور عرض پرواز ہوئے کہ بارالہی میری امت نہایت کمزور اور اس کے قوی نہایت ضعیف ہیں ، حکم ہوا کہ دس وقت کی نمازیں معاف ہوئیں ، لوٹے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر ٹوکا اور دوبارہ عرض کرنے کا مشورہ دیا اس پر دس اور معاف ہوئیں ، اسی طرح آپ چند بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مشورے سے بارگاہ الہی میں عرض پرواز ہوتے رہے یہاں تک کہ شب وروز میں صرف پانچ وقت کی نمازیں رہ گئیں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر مشورہ دیا کہ اب بھی مزید تخفیف کی درخواست کیجئے ۔ فرمایا اب مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے ۔ ندا آئی کہ اے پیغمبر ﷺ میرے حکم میں تبدیلی نہیں ہوتی اس لئے نمازیں پانچ ہوں گی لیکن ہر نیکی کا بدلہ دس گنا بخشوں گا اور یہ پانچ ‘ پانچ نہیں بلکہ پچاس ہوں گی میں نے اپنے بندوں پر تخفیف کردی اور اپنا فیصلہ نافذ کردیا ۔ اب آسمان سے اتر کر نبی کریم ﷺ زمین پر تشریف لائے اور بیت المقدس میں داخل ہوئے دیکھا کہ یہاں انبیاء کرام (علیہم السلام) کا مجمع ہے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز میں مصروف ہیں ۔ آپ ﷺ نے ان میں سے چند پیغمبروں کی شکل و صورت بھی بیان کی ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نسبت فرمایا کہ ان کا لمبا قد اور گندمی رنگ تھا اور الجھے ہوئے گھنگریالے بال تھے ‘ ازشندہ کے قبیلہ کے آدمی معلوم ہوتے تھے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا میانہ قد اور سرخ وسفید رنگ تھا سر کے بال سیدھے اور لمبے تھے اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی حمام سے نہا کر نکلے ہیں ، عروہ ابن مسعود ثقفی ؓ ایک صحابی سے ان کی صورت ملتی تھی ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صورت تمہارے پیغمبر (خود نبی اعظم وآخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سی تھی بہرحال اسی اثناء میں نماز اغلبا صبح کی نماز کا وقت آگیا ، سردار انبیاء منصب امام سے سرفراز ہوئے نماز سے فراغت ہوئی تو ندا آئی اے محمد ﷺ دوزخ کا داروغہ حاضر ہے سلام کرو ، آپ ﷺ نے مڑ کر دیکھا تو داروغہ دوزخ نے سلام کیا ، بخاری میں ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ شب معراج میں دجال بھی آپ ﷺ کو دکھایا گیا (باب بدء الخلق) ان تمام منازل کے طے ہونے کے بعد آپ ﷺ مسجد حرام (کعبہ) میں صبح کو بیدار ہوئے ۔ بیان کیے گئے واقعہ کی تکذیب کس نے کی ؟ واضح ہے کہ کفار مکہ نے : خانہ کعبہ کے آس پاس روسائے قریش کی نشست رہتی تھی ، آپ ﷺ بھی وہیں مقام حجر میں تشریف فرما تھے صبح کو آپ ﷺ نے اس واقعہ کو بیان کیا تو انکو سخت اچنبھا ہوا جو زیادہ کور باطن تھے انہوں نے نعوذ باللہ ! آپ ﷺ کو جھٹلایا ۔ بعضوں نے مختلف سوال کئے ان میں اکثر شام کے تاجر تھے اور انہوں نے بیت المقدس کو بارہا دیکھا تھا اور انہیں معلوم تھا کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کبھی بیت المقدس نہیں گئے ہیں اس لئے آخر میں خاتمہ دلائل کے طور پر سب نے کہا کہ اے محمد ! تم کہتے ہو کہ ایک شب میں تم خانہ کعبہ سے بیت المقدس گئے اور واپس آئے اگر یہ سچ ہے تو بتاؤ بیت المقدس کی کیا ہئیت ہے ؟ نبی اعظم وآخر ﷺ فرماتے ہیں کہ میرے ذہن میں عمارت کا صحیح نقشہ نہ تھا ، بہت بےقراری ہوئی کہ ناگاہ نظر کے سامنے پوری عمارت جلوہ گر کردی گئی ، وہ سوال کرتے جاتے تھے اور میں اس کو دیکھ کر جواب دیتا جاتا تھا ۔ اس شب کو جس مقام پر آپ ﷺ استراحت فرما تھے اور جہاں معراج کا واقعہ پیش آیا اس کے تعیین میں اختلاف بیان کیا جاتا ہے ۔ صحنحیہ میں حضرت مالک ؓ اور حضرت انس ؓ کی جو روایتیں ہیں ان میں یہ تصریح تمام بہ مذکور ہے کہ آپ (علیہ السلام) مسجد حرام (کعبہ) میں تھے اور اس کے ایک بیرونی گوشہ میں جس کا نام حجر اور حطیم ہے آپ سو رہے تھے یہ تو صحیحین کا بیا ہے بعض نیچے درجے کی روایتوں میں ام ہانی ؓ کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ کو میرے ہی گھر میں معراج ہوئی ۔ ام ہانی ؓ کا گھر شعب ابی طالب میں تھا ، یہ روایت مشہور دروغ گو کلبی کی ہے اس میں حد درجہ لغو اور غریب ومنکر باتیں مذکور ہیں ، مسند ابو یعلی میں ام ہانی سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ عشاء کی نماز پڑھ کر ہم لوگوں کے ساتھ میرے ہی مکان میں سوئے ، شب کو میری آنکھ کھلی تو آپ ﷺ کو نہ پایا روسائے قریش کی دشمنی کے باعث دل میں عجیب عجیب بدگمانیاں پیدا ہونے لگیں ، صبح اٹھ کر آنحضرت ﷺ نے معراج کا واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ میں روسائے قریش سے کہنے جاتا ہوں ، میں نے آپ ﷺ کا دامن پکڑ لیا کہ خدا کے لئے ان سے یہ نہ کہے کہ وہ تکذیب کریں گے اور آپ ﷺ کی جان پر حملہ کریں گے لیکن آپ ﷺ نے نہ مانا اور دامن جھٹک کر چلے گئے ، ان روایتوں میں علاوہ اور لغویات کے عشاء اور صبح کی نماز اور جماعت کی تصریح کسی قدر لغو ہے کہ یہ نماز پنچ گانہ تو عین شب معراج میں فرض ہوئی ہے ‘ ظاہر ہے کہ اس قسم کی روایتوں کا صحیحین کے مقابلہ میں کیا رتبہ اور کیا اعتبار ہو سکتا ہے اس لئے اس میں کوئی شک نہیں کہ معراج کی شب آپ ﷺ خانہ کعبہ میں تھے البتہ بخاری ومسلم میں حضرت ابوذررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ میں مکہ میں تھا کہ میرے گھر کی چھت کھلی اور جبرئیل (علیہ السلام) آئے ہمارے نزدیک اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ آپ ﷺ آرام تو خانہ کعبہ میں فرما رہے تھے لیکن مشاہدہ آپ ﷺ کو یہ کرایا گیا کہ آپ ﷺ اپنے گھر میں ہیں اور اس کی چھت کھلی اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے ۔ معراج کے متعلق کتب روایت کی غیر محتاط کتابوں مثلا ابن ابی حاتم ‘ ابن جریر طبری ‘ بیہقی ‘ دلائل النبوۃ وغیرہ میں دوزخ کے بہت سے عجیب و غریب مناظر ومشاہدات اور پیغمبروں اور فرشتوں کی تعجب انگیز ملاقاتوں اور گفتگوؤں کی تفصیل ہے ۔ ان روایتوں کے ناقل ابو ہارون العبدی ‘ ابو جعفر رازی اور خالد بن یزید ہیں۔ ابو ہارون عبدی اور خالد بن یزید ہیں۔ ابوہارون عبدی اور خالد بن یزید تو مشہور دروغ گو ہیں اور ابو جعفر رازی کو گو بعضوں نے ثقہ کہا ہے لیکن اکثروں کے نزدیک وہ ضعیف اور راوی منکرات ہیں اور ان کی تنہا روایت قبول نہیں کی جاتی ‘ نیز ان روایتوں میں بہت سی لغو ومنکر باتیں مذکور ہیں جن کو محدثین تسلیم نہیں کرتے علاوہ یہ مناظر ومشاہدات جیسا کہ صحیح بخاری کتاب الرویا میں ہے کہ معراج کے سوا ایک اور موقع پر بھی آنحضرت ﷺ کو دکھائے گئے تھے سرے یہ معراج کے مشاہدات ہی نہیں ہیں۔ واقعہ اسری کی مختصر نوعیت برائے تفہیم عام : واقعہ اسری کی نوعیت کیا تھی ؟ یہ عالم بیداری میں پیش آیا یا عالم خواب میں ؟ صرف روح پر طاری ہوا تھا یا جسم بھی اس میں شریک تھا ، اس بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین وسلف صالحین کا اختلاف معلوم ہے اکثر صحابہ وتابعین اس طرف گئے کہ روح وجسم دونوں پر طاری ہوا لیکن حضرت عائشہ ؓ حذیفہ بن الیمان ؓ ‘ حسن ؓ ‘ معاویہ ؓ ‘ ابن اسحاق ؓ سے مروی ہے کہ یہ ایک روحانی معاملہ تھا اور گزشتہ روایات جو صحیح بخاری اور صححب مسلم سے نقل کی گئی ہیں ان کے ارشاد کے مطابق جس شب کو معراج ہوئی آپ ﷺ مقام حجر یا حطیم پر استراحت فرما رہے تھے اور ان تمام منازل کے طے ہونے کے بعد آپ ﷺ مسجد حرام (کعبہ) میں صبح کو بیدار ہوئے تھے کو پڑھ لینے کے بعد کسی انسان کو اختلاف کا کیا حق باقی رہ جاتا ہے اور کونسی بات ہے جو مبہم رہ گئی اور پھر جو کچھ دیکھا گیا وہ خود پکار پکار کر کیا کہہ رہا ہے ۔ ؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے احوال ومداردات ایک ایسے عالم سے تعلق رکھتے ہیں جس کے لئے ہماری عام تعبیرات کام نہیں دے سکتیں ، ہماری ہر تعبیر کسی ایسی حالت کا تصور پیدا کردے گی جو عام طور پر ہمیں پیش آتی رہتی ہیں لیکن انبیاء کرام (علیہم السلام) کو جو حالات پیش آئے ہیں ان کی نوعیت ہی دوسری ہوتی ہے ، وہ ہمارے محسوسات ومفہومات کے دائرہ سے باہر کے معاملات ہیں ۔ خود نبوت کی حقیقت کیا ہے ؟ وحی کا معاملہ کیوں کر انجام پاتا ہے ؟ کیا اس بارے میں کوئی تعبیر بھی حقیقت حال کی کامل تعبیر ہوسکتی ہے ؟ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ سے فرمایا جب وحی آتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے صلصلہ الجرس کی آواز ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک تمثیل ہے جو اس لئے اختیار کی گئی ہے کہ اس معاملہ کا ایک قربی تخیل ہمارے اندر پیدا ہوجائے ورنہ وحی کی آمد محض گھنٹیوں کی آواز کی طرح نہیں ہو سکتی ۔ اس طرح اسری کے معاملہ کے لئے بھی ہماری محدود تعبیرات کام نہیں دے سکتیں یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے تاثرات مختلف ہوئے جن لوگوں نے اس کی نفی کی کہ بیداری میں پیش آیا تھا وہ اس طرف گئے کہ یہ ہماری جسمانی نقل و حرکت کا معاملہ نہ تھا ، جن لوگوں نے اس پر زور دیا کہ بیداری میں پیش آیا تھا وہ اس طرف گئے کہ اسے محض خواب کی طرح کا معاملہ نہیں کہہ سکتے اور اس میں شک نہیں دونوں اپنے تاثرات مختلف ہوئے جن لوگوں نے اس کی نفی کی بیداری میں پیش آیا تھا وہ اس طرف گئے کہ یہ ہماری جسمانی نقل و حرکت کا معاملہ نہ تھا ، جن لوگوں نے اس پر زور دیا کہ بیداری میں پیش آیا تھا وہ اس طرح گئے کہ اسے محض خواب کی طرح کا معاملہ نہیں کہہ سکتے اور اس میں شک نہیں دونوں اپنے تاثرات میں برسرحق تھے ، خود صحیحین کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں اس وقت ایک ایسا عالم میں تھا کہ نہ تو سوتا تھا نہ جاگتا تھا ۔ بین النائم والیقظان اس سے معلوم ہوگیا کہ اس معاملہ کو نہ تم ایسا معاملہ قرار دے سکتے ہو جیسا ہمیں جاگتے میں پیش آیا تھا اور نہ ایسا جیسے سوتے میں دیکھا کرتے ہیں وہ ان دونوں حالتوں سے ایک مختلف قسم کی حالت تھی اور ہماری تعبیرات میں اس کے لئے کوئی تعبیر نہیں ہے ۔ (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر ملاحظہ ہو اگلی آیت کی تفسیر میں)
Top