Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 19
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا
وَمَنْ : اور جو اَرَادَ : چاہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَسَعٰى : اور کوشش کی اس نے لَهَا : اس کے لیے سَعْيَهَا : اس کی سی کوشش وَهُوَ : اور (بشرطیکہ) وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ كَانَ : ہے۔ ہوئی سَعْيُهُمْ : ان کی کوشش مَّشْكُوْرًا : قدر کی ہوئی (مقبول)
لیکن جو آخرت کا طالب ہوا اور اس کیلئے جیسی کچھ کوشش کرنی چاہیے کی نیز وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش مقبول ہو گی
آخرت میں قبول ہونے والی کوشش ہی کامیاب کوشش کہی جاسکتی ہے : 25۔ طالب دنیا کا انجام بیان کرنے کے بعد اب طالب آخرت کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو حقیقتا طالب الہی ہے فرمایا اس کو ایمان اور سعی حسن عمل کے بعد جزائے کامل یقینا ملے گی اور اس کی کوئی نیکی فراموش نہیں کی جائے گی بلکہ راہ حق میں جو قدم بھی اس نے اٹھایا ہوگا جو عمل بھی اس نے کیا ہوگا اسے ضرور قبول بخشا جائے گا ، رہی یہ بات کہ طالب آخرت جو حقیقتا طالب اہی ہو اس کی پہچان کیا ہے ؟ زیر نظر آیت میں اس کی شناخت کی تین علامتیں بیان کی گئی ہیں : 1۔ (من اراد الاخرۃ) کہ ہر عمل سے اس کا اصل مقصد آخرت کی سرخروئی ہو کوئی بھی صرف دنیوی مقصد اس کا اعمال کا محرک نہ ہو ۔ 2۔ (وسعی لھا سعیھا) اور اس کے لئے وہ پوری طرح اپنی امکانی کوشش بروئے کار لائے ، قربانی کا وقت آئے تو بصد مسرت دل وجان پیش کر دے اس راہ کے ہر کانٹے کو پھول سے زیادہ عزیز جانے ، مصائب وآلام کے طوفان امڈ کر آئیں تو چٹان بن کر کھڑا ہوجائے ، غرض کہ اپنی جسمانی وروحانی قوتوں اور دیگر وسائل کو حق کی سربلندی کے لئے واقف کر دے اور اپنے ذہن و دماغ میں یہ تصور قائم کرے کہ یہ کتنی شرم کی بات ہوگی کہ دنیا کے طلب گار تو اپنی لیلائے مقصود کے لئے دوڑ دھوپ کی انتہا کردیں اور طالب آخرت صرف باتیں بنانے اور آرزوئیں کرنے ہی پر اکتفا کرے اس لئے راہ حق میں قدم رکھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ (سعی لھا سعیھا) کے الفاظ کو ہر وقت اپنے پیش نظر رکھیں ، طالب آخرت کی تیسری علامت جو اس جگہ بیان ہوئی وہ ہے ۔ 3۔ (وھو مؤمن) کہ اس کا دل نور ایمان سے چمک رہا ہو۔ کفر اور شرک اور نفاق کا کوئی اندھیرا موجود نہ ہو کیونکہ اعمال کی قبولیت کا انحصار صرف ایمان پر ہے اگر ایمان نہ ہو تو عمر بھر کی ساری ریاضتیں بےسود ہوجاتی ہیں ، اس لئے فرمایا گیا کہ ” ایسے ہی لوگ ہیں جن کی کوششیں مقبول ہوں گی ۔ “
Top