Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ : اور اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَي : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنٰهُ : اور ہم نے بنایا اسے هُدًى : ہدایت لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَلَّا تَتَّخِذُوْا : کہ نہ ٹھہراؤ تم مِنْ دُوْنِيْ : میرے سوا ‎وَكِيْلًا : کارساز
اور (اسی طرح) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (یعنی شریعت) دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ ٹھہرایا (اور حکم دیا) کہ میرے سوا اور کسی کو اپنا کارساز (حاجت روا اور مشکل کشا) نہ ٹھہراؤ
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) واقعہ اسری کی قرآنی تشریح جو خود قرآن کریم ہی میں بیان ہوئی : مزید یہ کہ اس کی تشریح خود قرآن کریم نے اس سورت کی آیت 60 میں کردی جہاں ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” وما جعلنا الرؤویا التی اریناک الا فتنۃ للناس “۔ میں (رؤیا) سے مقصود یہی واقعہ ہے ، چناچہ عبداللہ بن عباس ؓ سعید بن جبیر ‘ حسن ‘ مسروق ‘ قتادہ ‘ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ اور ابن جریج وغیرہم سے ایسا ہی مروی ہے اور حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس پر محققین تفسیر کا اجماع ہوچکا ہے پس جن مفسرین نے یہاں (رؤیا) سے مراد کوئی دوسری رؤیا لی ہے مثلا فتح مکہ کی رؤیا وہ قابل حجت وقابل اعتناء نہیں کیونکہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور وہ معاملہ ایک عرصہ کے بعد مدینہ میں پیش آیا تھا اور تطبق کے لئے طرح طرح کے تکلفات کرنا قرآن کریم کو چیستان بنا دینا ہے ۔ ان مفسرین نے یہ تکلفات اس لئے کئے کہ (رؤیا) کا اطلاق خواب پر ہوتا ہے اور اگر اس (رؤیا) سے مقصود واقعہ اسری ہو تو پھر ان صحابہ کا قول تسلیم کرنا پڑے گا جو اس کے بیداری میں ہونے کے قائل نہیں لیکن تعجب ہے کہ ان لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی تفسیر پر نظر نہ ڈالی ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ان صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعنر میں سے ہیں جو معراج کو عالم بیداری کا معاملہ سمجھتے تھے اور اس مذہب کے سب سے بڑے پیشرو تھے ۔ بایں ہمہ انہوں نے بھی اس آیت میں (رؤیا) کی یہی تفسیر کی ہے کہ واقعہ اسری مراد ہے کہ رثویا عین اریھا رسول اللہ صی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بخاری) ایک آنکھوں سے دییھع ہوئی رؤیا جو لیلہ الاسری میں نبی کریم ﷺ کو دکھائی گئی تھی اگر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو اس آیت کی اس تفسیر میں کوئی دقت پیش نہ آتی جو اس خیال کے سب سے بڑے حامی تھے تو پھر اور لوگوں کو کیوں دوراز کار توجیہوں کی ضرورت پیش آئے ؟ اور یہ جو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا ” رویا عین اریھا “ تو اس نے سارا مسئلہ حل کردیا اور حقیقت آشکارا ہوگئی جس کی طرف ابھی ابھی ہم اشارہ کرچکے ہیں یعنی جو کچھ پیش آیا تھا تو رؤیا ؟ ویسی ہی رؤیا جیسی عالم خواب میں ہم دیکھا کرتے ہیں ؟ نہیں ‘ ” رثویا عین “ ایسی رؤیا جس میں آنکھیں غافل نہیں ہوتیں بیدار ہوتی ہیں کچھ دیکھا جاتا ہے اور وہ ایسا ہوتا ہے جیسے آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہو (آیت) ” مازاغ البصر وما طغی ولقد رای من ایات ربہ الکبری “۔ (النجم 52 : 17 ‘ 18) واقعہ اسرای کی تفہیم شاہ ولی اللہ محدت دہلوی (رح) کی زبان میں : اس واقعہ پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ مزید کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں اور قارئین کو اس سارے مجموعہ سے واقف کرانا مقصود ہو تو اس کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن ماحصل اس سب کا ہم نے مختصر الفاظ میں عرض کردیا ہے اور مزید ہم ان تعبیرات کو سمجھنے کے لئے اور ان استعارات سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہنا چاہتے بلکہ تاریخ اسلام سے ایک ایسے شخص کو انتخاب کرتے ہیں جس کے صاحب حال ہونے اور محدت ومتکلم ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں اور اس شخصیت کا اسم گرامی اس قدر معروف ہے کہ اس کا نام زبان پر آتے ہی مزید کسی کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں رہتی جس کا نام نامی الشاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) ہے ۔ شاہ صاحب کے متعلق سب کو معلوم ہے کہ وہ دیگر اہل باطن کی طرح عالم برزخ اور عالم مثال نام عالم جسد وعالم روح کے درمیان ایک تیسرے عالم کے قائل ہیں ‘ جہاں جسم پر روح کے خواص طاری ہوتے ہیں اور روح اپنی خصوصیت اور مناسبت کے مطابق جسمانی شکل و صورت میں نمایاں ہوتی ہے ، شاہ صاحب اس بات کے قائل ہیں کہ معراج بیداری میں اور جسم کے ساتھ ہوئی لیکن یہ عالم برزخ کی ایک سیر تھی جہاں آپ ﷺ کے جسم پر روحانی خواص طاری کئے گئے اور معانی وواقعات مختلف اشکال وصور میں مشاہدہ کرائے گئے چونکہ ایک بیگانہ کے لئے اس نادیدہ شہرستان کی ہو بہو تشریح اپنی زبان میں مشکل ہے اس لئے ہم اس ملک کے اس سیاح کا بیان نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں کیونکہ ہم نے جو کچھ پایا ہے اس جگہ سے پایا ہے ، چناچہ شاہ صاحب (رح) حجۃ اللہ البالغہ میں معراج کی حقیقت ان الفاظ میں لکھتے ہیں ۔ عربی عبارت درج ذیل ہے اور اس کے بعد اس کا ترجمہ بھی درج کردیا گیا ہے ۔ واسری بہ الی المسجد الاقصی ثم الی سدرۃ المنتھی والی ماشاء اللہ وکل ذلک لجسدہ ﷺ فی الیقظۃ ولکن ذلک فی فی موطن ھو برزخ بین المثال والشھادۃ جامع لاحکامھا فظھر علی الجسد احکام الروح وتمثل الروح والمعانی الروحیۃ اجسادا ولذلک بان لکل واقعہ من تلک الوقائع تعبیر وقد ظھر نحز قیل وموسی وغیرھما علیھم السلام نحو من تلک الوقائع وکذلک الاولیاء الامہ لیکون علو درجاتھم عند اللہ کحالھم فی الرویا (واللہ اعلم) ” آپ ﷺ کو معراج میں مسجد اقصی میں لے جایا گیا پھر سدرۃ المنتھی اور جہاں خدا نے چاہا اور یہ تمام جسم مبارک کے لئے بیدار کی حالت میں ہوا لیکن اس مقام میں جو عالم امثال اور عالم ظاہر کے بیچ میں ہے اور جو دونوں عالموں کے احکام کا جامع ہے اس لئے جسم پر روح کے احکام ظاہر ہوئے اور روح پر معاملات روحانی جسم کی صورت میں نمایاں ہوئے اور اسی لئے ان واقعات میں سے ہر واقعہ کی ایک تعبیر ظاہر ہوئی اور اسی طرح کے واقعات حضرت حزقیل (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) وغیرہ کے لئے ظاہر ہوئے تھے جیسے اولاء امت کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں کہ خدا کے نزدیک انکے درجہ کی بلندی مثل اس حالت کے ہوتی ہے جو رویا میں ان کو معلوم ہوتی ہے ۔ (واللہ اعلم) اس کے بعد شاہ صاحب نے معراج کے مشاہدات میں سے ایک ایک کی تعبیر کی ہے ‘ خود احادیث صحیحہ اور معتبر روایات میں جہاں یہ واقعہ مذکور ہے کہ ” آپ ﷺ کے سامنے دودھ اور شراب کے دو پیالے پیش کئے گئے تو آپ ﷺ نے دودھ کا پاکلہ اٹھا لیا ، اس پر فرشتہ نے کہا کہ آپ ﷺ نے فطرت کا اختیار کیا ‘ اگر شراب کا پیالہ اٹھاتے تو آپ ﷺ کی تمام امت گمراہ ہوجاتی “ اس عالم تمثیل میں گویا فطرت کو دودھ اور ضلالت کو شراب کے رنگ میں مشاہدہ کرایا گیا ۔ شاہ صاحب (رح) معراج کو عالم برزخ کا واقعہ بنا کر اسی طرح معراج کے تمام واقعات کی تشریح کرتے ہیں فرماتے ہیں : اما شق الصدر وملوۃ ایمان فحقیقۃ غلبۃ انوار الملکیہ وانطفاء لھیب الطبیعۃ وخصوعھا لھا یفبیض علیھا من خطیرۃ القدس اما رکوبہ علی البراق فحقیقتۃ استواء نفسہ النطقیۃ علی نسمۃ التیھی لکمال الحیوانی فاستوی راکبا علی البراق کما غلبت احکام نفسہ النطقیۃ علی البھیمۃ وتسلطت علیھا واما اسراءہ الی المسجد القصی فلانہ محل ظھور شعائر اللہ متعلق ھمم الملاء الاعلی ومطمع انظار الانبیاء (علیہم السلام) فکانہ کوۃ الی الملکوت واما ملاقاتہ مع الانبیاء صلوت اللہ علیہم ومفاخرتہ معھم فحقیق تھا اجتماعھم من حیث ارتباط ھم بخطیرۃ القدس و ظھور ما اختصر بہ من بینھم وجوہ الکمال واما رقیہ الی السموات سماء سماء فحقیقتۃ الا انسلاخ الی مستوی الرحمن منزلۃ بعد منزلۃ ومعرفۃ حال الملائکۃ الموکلہ بھار من الحق بھم من افاضل البشر والتدبیر الذی اوحاہ اللہ فیھا والاختصام الذی یحصل فی ملئھا واما بکاء موسیٰ فلیس بجسد ولکنہ مثال لفقد عموم الدعوۃ وبقاء کمال لم بحصلہ مما ھو فی وجھہ واما سدرۃ المنتھی فشجرہ الکون وترتیب بعضھا علی بعض وانجماعھا فی تدبیر واحد کا نجماع الشجرۃ فی الغاذیہ والنامیہ ونحوھما ولم تتمثل حیوانا لان التدبیر الجملی الاجمالی الشبیہ بسیاسۃ الکلی (لا) فرادہ وانما اشیہ الاشیاء بہ الشجرۃ دون الحیوان ‘ فان الحیوان فیھا قوی تفضیلیۃ والارادہ فیہ اصرح من سنن الطبیعۃ واما الانھار فی اصلھا فرحمۃ فائضۃ فی الملکوت حذ والشھادۃ وحیاۃ وانما فلذالک تعین ھنالک بعض الامور النافعۃ فی الشھادۃ کالنیل والفرات واما الانوار التی عشی تھا فتدلیات الھیہ وتدبیرات رحمانیہ تلعلعت فی الشھادہ حیثما استعدت لھا والتصرعائھا تمثل بینناعلی حذو ماعتدھم من الکعبہ وبیت المقدس ثم اتی باناء من لبن واناء من الخمر فاختار اللبن ۔ جبرئیل ھدیت الفطرت ولواخذت الخمر لغوت امتک فکان ھو صلی اللہ علہن والہ وسلم جامع امہ ومنشاء ظھورھم وکان اللبین اختیارھم لذات الدنیا وامر بخمس صلوۃ بلسان التجوز لانھا خمسون باعتبار الثواب ثم اوضح اللہ مرادہ تدریجا لیعلم ان الحرج مدفوع وان النعمۃ کاملۃ وتمثل ھذا المعنی مستندا الی موسیٰ (علیہ السلام) فانہ اکثر الانبیاء معالجۃ لامہ ومعرفۃ بساباسنھا (باب الاسراء) ” لیکن سینہ کا چیرنا اور اس کا ایمان سے بھرنا تو اس کی حقیقت ملکیت کے انوار کا غلبہ اور طبیعت (بشری) کے شعلہ کا بجھنا اور طبیعت کی فرمانبرداری اس فیضان کے قبول کرنے کے لئے جو خطیرۃ القدس سے خدا اس پر فائض کرتا ہے لیکن آپ ﷺ کا براق پر سوار ہونا تو اس کی حقیقت آپ ﷺ کے نفس ناطقہ (بشری) کا اپنے اس روح حیوانی پر استیلاء حاصل کرنا ہے ۔ جو کمال حیوانی ہے تو آپ ﷺ براق پر اسی طرح سوار ہوگئے جس طرح آپ ﷺ کی روح بشری کے احکام آپ ﷺ کی روح حیوانی پر غالب آگئے اور اس پر مسلط ہوگئے ، لیکن آپ ﷺ کا رات کو مسجد اقصی لے جانا تو وہ اس لئے کہ یہ مقام شعائر الہی کے ظہور کا امکان ہے اور ملا اعلی کے ارادوں کا تعلق گاہ ہے اور انبیاء کرام (علیہم السلام) کی نگاہوں کا نظارہ گاہ ہے گویا وہ اعلی کی طرف ایک روشندان جہاں سے روشنی چھن چھن کر اس روشندان کے ذریعہ اس کرہ انسان پر فائز ہوتی ہے لیکن آپ ﷺ کی انبیاء کرام (علیہم السلام) سے ملاقات اور مفاخرت اور (اور امامت) تو اس کی حقیقت کو ان کا اجتماع سے بحیثیت اس کے کہ وہ سب ایک ہی رشتہ میں خطیرہ القدس سے مربوط ہیں اور آپ ﷺ کی ان حیثیات کمال کا ظہور ہے جو ان تمام پیغمبروں میں آپ ﷺ کی ذات سے مخصوص تھیں لیکن آپ ﷺ کا آسمانوں پر ایک ایک آسمان کرکے چڑھنا (اور فرشتوں اور مختلف پیغمبروں سے ملاقات) تو اس کی حقیقت درجہ بدرجہ (تحت کی منزلوں سے) کھینچ کر عرش الہی تک پہنچنا ہے اور ہر آسمان پر جو فرشتے متعین ہیں اور کامل انسانوں میں سے جو جہاں جس جس درجہ تک پہنچ کر ان کے ساتھ مل کر گیا ہے ان کے حالات سے اور اس تدبیر سے جو ہر آسمان میں خدا نے وحی کی اور اس مباحثہ سے جو اس آسمان کے فرشتوں کی جماعت میں ہوتا ہے آگاہی ہے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رونا تو ازراہ حسد نہ تھا بلکہ وہ اس بات کی تمثیل تھی کہ انکو دعوت عامہ نہیں ملی تھی اور اس کامل کی بقا ان کو عنایت نہیں ہوئی تھی جو عموما دعوت سے حاصل ہوتی ہے لیکن ” سدرۃ المنتھی “ تو وہ وجود کا درخت ہے ‘ اس کا ایک دوسرے پر مرتب ہونا اور پھر ایک ہی تدبیر میں مجتمع ہونا ہے ‘ جس طرح درخت اپنی شاخوں کے بیشمار افراد کے (اختلافات کے باوجود) اپنی قدرت غاذیہ اور اپنی قوت نامیہ کہ تدبیر میں متحد ومجتمع ہوتا ہے ” سدرۃ المنتھی “ حیوان کی شکل میں نمایاں نہیں ہوا اس لئے اجمالی اور مجموعی تدبیر اس طرح ہے جس طرح کلی اپنے افراد کی سیاست (اجمالی) کرتی ہے اور اس تدبیر اجمالی کی بہترین تشبیہہ درخت ہے نہ کہ حیوان ، کیونکہ حیوان میں تفصیلی قوتیں ہوتی ہیں اور خصوصا اس میں ارادہ قوت طبعی سے زیادہ مصرح صورت میں ہوتا ہے ‘ لیکن نہروں (کی جڑوں اور سوتوں کا وہاں نظر آنا) تو وہ رحمت وحیات ونشو ونما کا منبع ہے جو عالم ملکوت میں اسی طرح جاری ہے جس طرح عالم ظاہر میں ‘ اسی لئے وہاں بھی بعض وہ پر فیض امور نظر آئے جو یہاں کے عالم میں ہیں ‘ جیسے دریائے نیل اور نہر فرات ، لیکن وہ انوار جو اس درخت کو ڈھانکتے تھے تو وہ تنزلات الہیہ اور تدبیرات رحمانیہ ہیں جو اس عالم ظاہر میں وہاں چمکتی ہیں ‘ جہاں جہاں ان کے قبول کی استعداد ہوتی ہے ، لیکن بیت معمور تو اس کی حقیقت وتجلی سے ہے ‘ جس کی طرف انسانوں کے تمام سجدے اور بندگیاں متوجہ ہوتی ہیں وہ گھر کی صورت میں اس لئے نمایاں ہوا کہ وہ ان قبلوں کی طرح ہو جو انسانوں کے درمیان کعبہ اور بیت المقدس کی صورت میں ہیں ‘ پھر آپ ﷺ کے سامنے ایک دودھ کا پیالہ اور ایک شراب کا پیالہ لایا گیا ‘ آپ ﷺ نے دودھ پسند فرمایا تو جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا کہ فطرت کی طرف آپ ﷺ نے ہدایت پائی ۔ اگر آپ ﷺ شراپ پسند فرماتے تو آپ ﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی ۔ “ آپ ﷺ کے پسند و قبول کی امت کی پسند و قبول کہنا اس لئے تھا کہ آپ ﷺ اپنی امت کے جامع و مرکز اور اس کے ظہور کے منشاء مولد تھے اور دودھ کا پیالہ پسند کرنا فطرت کا پسند کرنا تھا اور شراب کو لینا دنیاوی لذتوں کو پسند کرنا تھا اور آپ ﷺ کو بزبان مجاز پانچ وقتوں کی نمازوں کا حکم دیا گیا کیونکہ وہ درحقیقت ثواب کے اعتبار سے پچاس وقت ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنے مقصد کو (کہ پچاس وقتوں سے پانچ وقت مقصود ہیں) بدفعات اور بتدریج اس لئے ظاہر کیا تاکہ یہ معلوم ہو کہ (50 وقت کو پانچ کردینے میں) تنگی دور کردی گئی ہے اور نعمت پوری ہوئی ہے اور یہ بات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مکالمہ کی طرف منسوب ہو کر اس لئے ظاہر ہوئی کہ تمام پیغمبروں میں امت کا تجربہ اور امت کی سیاست کی آگاہی ان ہی کو سب سے زیادہ تھی ۔ “ یہ آپ ان عبارات کو پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ قبلہ شاہ صاحب معجزات کے منکر ہیں اور ان کو تہ دل سے نہیں مانتے اس لئے ہر بات کی تاویل کرتے ہیں یا آپ یہ کہیں گے کہ شاہ صاحب نے ان استعارات واشارات کو ایک لحاظ سے کھول کر رکھ دیا ہے تاکہ اس معراج کے معجزہ ہونے میں کسی قسم کا شک وابہام نہ رہے اور وہ اس کی حقیقت کو سمجھ سکے ، اس طرح شاہ ولی اللہ ﷺ نے کتنی ہی احادیث ہیں جن کی تفہیم کرا کر محمد رسول اللہ ﷺ کی امت پر بہت بڑا احسان کیا ، اس جگہ ایک مزید جھلک آپ کو کرائی جارہی ہے یہ عبارت بھی شاہ صاحب کی معجزانہ تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں موجود ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ : جاننا چاہئے کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عالم موجودات میں ایک ایسا عالم بھی ہے جو غیر مادی ہے اور جس میں معانی (اعراض وحقائق) ان اجسام کی صورت میں متشکل ہوتے ہیں ، جو اوصاف کے لحاظ سے ان کے مناسب ہیں پہلے اس عالم میں اشیاء کا ایک گونہ وجود ہو لیتا ہے ‘ تب دنیا میں ان کا وجود ہوتا ہے اور یہ دنیاوی وجود ایک اعتبار سے بالکل اس عالم مثال کی وجود کے مطابق ہوتا ہے ۔ اکثر وہ اشیاء جو عوام کے نزدیک جسم نہیں رکھتیں اس عالم میں منتقل ہوتی اور اترتی ہیں اور عام لوگ انکو نہیں دیکھتے ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب خدا نے رحم کو پیدا کیا تو وہ کھڑی ہو کر بولی کہ یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحم سے پناہ مانگ کر تیرے پاس پناہ ڈھونڈتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سورة بقرہ اور آل عمران قیامت میں بادل یا سائبان یا صف بستہ پرندوں کی شکل میں آئیں گی ، اور ان لوگوں کی طرف وکالت کریں گی جنہوں نے ان کی تلاوت کی ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت میں اعمال حاضر ہوں گے تو پہلے نماز آئے گی ‘ پھر خیرات ‘ پھر روزہ الخ ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نیکی اور بدی دو مخلوق ہیں جو قیامت میں لوگوں سامنے کھڑی کی جائیں گی ‘ نیکی نیکی والوں کو بشارت دے گی اور برائی برائی والوں کو کہے گی کہ ” ہٹو ہٹو “ لیکن وہ لوگ اس سے چمٹے ہی رہیں گے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت میں اور جتنے دن ہیں وہ معمولی صورت میں حاضر ہوں گے لیکن جمعہ کا دن چمکتا دمکتا ہوا آئے گا ، اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت میں دنیا ایک بڑھیا کی صورت میں لائی جائے گی جس کے بال کھچڑی ‘ دانت نیلے اور صورت بدنما ہوگی اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو میں دیکھتا ہوں کیا تم بھی دیکھتے ہو ؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ فتنے تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح بادل سے قطرے ۔ “ اور آنحضرت ﷺ نے معراج کی حدیث میں فرمایا کہ اچانک چار نہریں نظر آئیں ‘ دو نہریں اندر تھیں اور دو باہر ‘ میں نے جبرئیل (علیہ السلام) سے پوچھا کہ ” یہ کیا ہے ؟ “ بولے اندر کی نہریں تو جنت کی ہیں اور باہر کی نیل اور فرات ہیں۔ اور آنحضرت ﷺ نے کسوف کی نماز میں فرمایا کہ بہشت اور دوزخ میرے سامنے مجسم کرکے لائی گئیں اور ایک روایت میں ہے کہ میرے اور قبلہ کی دیواروں کی بیچ میں بہشت اور دوزخ مجسم ہو کر آئیں ‘ میں نے ہاتھ پھیلائے کہ بہشت سے ایک انگور کا خوشہ توڑ لوں ، لیکن دوزخ کی گرمی کی لپیٹ سے رک گیا اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حاجیوں کے چور کو اور ایک عورت کو دوزخ میں دیکھا جس نے ایک بلی کو باندھ کر مار ڈالا تھا اور ایک فاحشہ عورت کو بہشت میں دیکھا جس نے کتے کو پانی پلایا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دوزخ کی وسعت جو عام لوگوں کے خیال میں ہے وہ اس قدر مسافت (یعنی کعبہ کی چار دیواری ) میں نہیں سما سکتی اور حدیث میں ہے کہ ” بہشت کو مکروہات نے اور دوزخ کو شہوات نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ۔ “ پھر جبرئیل (علیہ السلام) کو خدا نے حکم دیا کہ دونوں کو دیکھیں اور حدیث میں ہے کہ بلا جب نازل ہوتی ہے تو دعا اس سے کشتی لڑتی ہے اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ خدا نے عقل کو پیدا کیا اور اس سے کہا کہ آگے آ ‘ تو وہ آگے آئی پھر کہا کہ پیچھے ہٹ تو پیچھے ہٹ گئی اور حدیث میں ہے کہ یہ دونوں کتابیں پروردگار عالم کی طرف سے ہیں الخ اور حدیث میں ہے کہ (قیامت میں) موت ایک مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی ، پھر دوزخ اور بہشت کے درمیان ذبح کردی جائے گی اور خدا نے فرمایا کہ ” ہم نے اپنی روح مریم کے پاس بھیجی تو وہ ان کے سامنے ٹھیک آدمی کی شکل بن کر آئی ۔ “ اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کے سامنے آتے تھے اور آپ ﷺ سے باتیں کرتے تھے اور کوئی ان کو نہیں دیکھتا تھا اور حدیث میں ہے کہ قبر ہفتاد در ہفتاد گز چوڑی ہوجاتی ہے یا اس قدر سمٹ آتی ہے کہ مردہ کی پسلیاں بھرکس ہوجاتی ہیں اور حدیث میں ہے کہ فرشتے قبر میں آتے ہیں اور مردہ سے سوال کرتے ہیں اور مردہ کا عمل مجسم ہو کر اس کے سامنے آتا ہے اور نزع کی حالت میں فرشتے حریر یا گزی کا کپڑے لے کر آتے ہیں اور فرشتے مردہ کو لوہے کے گرز سے مارتے ہیں ، مردہ شور کرتا ہے اور اس کے شور کی آواز مشرق سے مغرب تک کی چیزیں سنتی ہیں اور حدیث میں ہے کہ قبر میں کافر کے اوپر ننانوے اژدھے مسلط ہوتے ہیں جو اس کو کاٹتے ہیں تا قیامت اور حدیث میں ہے کہ جب مردہ قبر میں آتا ہے تو اس کو نظر آتا ہے کہ آفتاب غروب ہو رہا ہے ‘ وہ اٹھتا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹھہرو نماز پڑھ لوں اور حدیث میں اکثر جگہ آیا ہے کہ قیامت میں خدا بہت سی مختلف صورتوں میں لوگوں کے سامنے جلوہ گر ہوگا اور آنحضرت ﷺ خدا کے پاس اس حالت میں جائیں گے کہ خدا اپنی کرسی پر بیٹھا ہوگا اور یہ کہ خدا انسانوں سے بالمشافہ بات چیت کرے گا ‘ اس قسم کی اور بہت سی حدیثیں ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا ۔ ان حدیثوں کو جو شخص دیکھے گا تین باتوں میں سے ایک نہ ایک بات اس کو ماننی پڑے گی یا تو ظاہری معنی مراد لے اور اس صورت میں اس کا ایک ایسے عالم کا قائل ہونا پڑے گا جس کیفیت ہم بیان کرچکے ہیں (یعنی عالم مثال) اور یہ صورت وہ ہے جو اہلحدیث کے قاعدے کے مطابق ہے چناچہ سیوطی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور خود میری بھی یہی رہے ہیں اور یہی مذہب ہے یا اس بات کا قائل ہو کہ کہ دیکھنے والے کے حسہ میں واقعات کی یہی شکل ہوگی اور اس کی نظر میں وہ اسی طرح جو جلوہ گر ہوں گے گو اس کے حاسہ کے باہر اس کو وجود نہ ہو ، قرآن مجید میں جو آیا ہے کہ ” آسمان اس دن صاف دھواں بن کر آئے گا ۔ “ اس کے معنی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اسی کے قریب قریب لئے ہیں یعنی یہ کہ لوگوں پر قحط پڑا تھا تو جب کوئی آسمان کی طرف دیکھا تھا تو اس کو بھوک کی وجہ سے آسمان دھواں سا معلوم ہوتا ہے ، ابن ماجثون (مشہور محدث تھے) سے مروی ہے کہ جن حدیثوں میں خدا کے اترنے اور مرئی ہونے کا ذکر ہے ان کے معنی یہ ہیں کہ خدا مخلوقات کی نظر میں ایسا تغیر پیدا کر دے گا کہ وہ خدا کو ایسی حالت میں دیکھیں گے کہ وہ اتر رہا ہے اور جلوہ دکھا رہا ہے اور اپنے بندوں سے گفتگو اور خطاب کر رہا ہے ، حالانکہ خدا کی جو شان ہے اس میں نہ تغیر ہوگا نہ منتقل ہوگا اور نہ اس لئے ہوگا کہ لوگ جان لیں کہ خدا ہرچیز پر قادر ہے ، تیسری صورت یہ ہے کہ یہ سب باتیں بطور تمثیل کے باان کی گئی ہیں جن سے مقصود کچھ اور ہے لیکن جو شخص صرف اسی احتمال پر بس کرتا ہے میں اس کو اہل حق میں شمار نہیں کرتا ۔ امام غزالی (رح) نے عذاب قبر کے بیان میں ان تینوں مقامات کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ ان تمام واقعات کے ظاہری معنی صحیح ہیں اور ان کے اندرونی اسرار مخفی ہیں لیکن ارباب بصیرت کے نزدیک یہ اسرار فاش اور کھلے ہیں تو جن لوگوں پر یہ اسرار فاش نہ ہوں ان کو ان کے ظاہری معنوں کا انکار مناسب نہیں ہے کہ ایمان کا آخری درجہ تسلیم اور اقرار ہے ۔ (حجۃ اللہ البالغہ عالم مثال) ان عبارات کا ماحصل صرف اسی قدر ہے کہ بظاہر ان چیزوں کے تسلیم کرنے میں عقل کو جو استحالہ یا کم از کم استبعاد نظر آتا ہے وہ کم یا دور ہوجائے اس لئے ہر گواہ نے اپنے اپنے ذوق اور طریق فکر کے مطابق اپنے تجربات ومشاہدات کے ذریعہ سے ایک ایسا تمثیلی نظریہ قائم کیا ہے جس پر قیاس کرکے وہ باتیں جو تجربہ ومشاہدہ سے ماوراء ہیں ان کا کچھ دھندلا سا خاکہ ذہن انسانی میں قائم ہوجائے کہ وہ ان کے انکار واستبعاد کی جرات نہ کرسکے اور قلب بدگمان اور عقل نارسا کسی قدر تسلی پاسکے ورنہ ظاہر ہے کہ شاہد سے غائب پر محسوسات غیر محسوسات پر تجربات سے ناممکن التجربہ حقائق پر جسمانی قانون فطرت سے روحانی خصائص پر استشہاد کیونکر کیا جاسکتا ہے ۔ کہ کسی نہ کشود نہ کشاید بہ حکمت ایں معمارا : امام غزالی (رح) نے اپنی کتاب ” تفرقہ بین الاسلام والزندقۃ “۔ میں اس ساری لمبی چوڑی بحث کو بالکل مختصر الفاظ میں سمیٹ دیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ تصدیق کے معنی یہ ہیں کہ جس چیز کے وجود کی خبر نبی اعظم وآخر ﷺ نے دی ہے اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے لیکن وجود کے پانچ مدارج ہیں اور انہیں مدارج سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہر فرقہ دوسرے فرقہ کی تکذیب کرتا ہے اس لئے ان مراتب خمسہ کی تفصیل درج کی جارہی ہے کہ وہ کیا ہیں ۔ 1۔ وجود ذاتی یعنی وجود خارجی جیسے تم اور میں اور دنیا کی باقی ساری چیزیں ۔ 2۔ وجود حسی یعنی صرف حاسہ میں موجود ہونا مثلا خواب میں انسان جن اشیاء کو دیکھتا ہے ان کا وجود صرف ہمارے حاسہ میں موجود ہوتا ہے یا جس طرح بعض بیماروں کو جاگنے کی حالت میں خیالی صورتیں نظر آتی ہیں یا اس کی مثال شعلہ جوالہ کے دائرہ سے دی جاسکتی ہے جو دراصل دائرہ نہیں لیکن ہم کو دائرہ نظر آتا ہے ۔ 3۔ وجود خیالی مثلا زید کو ہم نے دیکھا پھر آنکھیں بند کرلیں تو زید کی صورت جو اس وقت ہماری آنکھوں میں پھرتی ہے وہ خیالی وجود ہے ۔ 4۔ وجود عقلی یعنی کسی شے کی اصل حقیقت مثلا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز ہمارے ہاتھ میں ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری قدرت اور اختیار میں ہے تو قدرت اور اختیار ہاتھ کا وجود عقلی ہے ۔ 5۔ وجود شبہی یعنی وہ شے خود تو موجود نہیں لیکن اس کے مشابہ ایک چیز موجود ہے اس پر قیاس کرکے اس نے تصور قائم کرلیا تو یہ اس کا وجود شبہاء اور اس مشابہت سے وہ چیز پہچان لی گئی ۔ ان اقسام کو بیان کرنے کے بعد امام صاحب نے ہر ایک وجود کی متعدد مثالیں بیان کی ہیں تفصیل دیکھنے کے لئے ان کی اصل کتاب کی طرف مراجعت کرنی چاہئے ، بہرحال ازیں بعد امام صاحب فرماتے ہیں کہ وجود نہیں ہوسکتا تو پھر وجود حسی ‘ پھر خیالی ‘ پھر عقلی اور آخر میں شبہی تسلیم کرنا چاہئے اور اب اختلاف ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی ایک چیز کا وجود ذاتی تسلیم کرتا ہے لیکن دوسرا حسی یا خیالی تو یہ تعبیر کی غلطی ہوئی اور اختلاف رونما ہوا لیکن اس اختلاف کی کوئی پروا نہ کرنی چاہئے اور ایک دوسرے پر کفر کا فتوی سرزد نہ کرنا چاہئے اور آزادی کے ساتھ دونوں کو اپنا نظریہ بیان کرنا چاہئے لیکن اس اختلاف کو کفر واسلام کا اختلاف نہیں کہنا چاہئے صرف نظریہ کا اختلاف سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہئے ۔ دلائل ومعجزات سے پہلے روحانی نوامیس کے وجود پر غور کرنا چاہئے : انبیاء کرام (علیہم السلام) کا عموما اور نبی اعظم وآخر ﷺ کے مخصوص حالات ‘ مشاہدات اور کیفیات کا بیان جن کا تعلق اس دنیا سے نہیں بلکہ اس عالم سے ہے جو ہمارے اس مادی عالم اور اس کے مادی قوانین کے حدود سے باہر ہے جس طرح ہماری یہ مادی دنیا ایک نظام خاص پر چل رہی ہے مثلا رات کے بعد دن نمودار ہوتا ہے ‘ خزان کے بعد بہار آتی ہے ‘ ستارے غروب ہوتے ہیں تو آفتاب نکلتا ہے ‘ گرمی جاتی ہے تو جاڑے آتے ہیں ‘ پھول اپنے وقت پر کھلتے ہیں ‘ درخت اپنے موسم میں پھلتے پھولتے ہیں ‘ ستارے اپنے معین اوقات میں ڈوبتے اور نکلتے ہیں اسی طرح روحانی عالم بھی ایک خاص نظام رکھتا ہے اس کا بھی ایک آسمان و زمین ہے ‘ وہاں بھی تاریکی اور روشنی ہے ‘ خزاں اور بہار ہے ‘ فصل وموسم ہے ، جب بھی روئے زمین پر گناہوں کی تاریکی اور بدیوں کی ظلمت محیط ہوجاتی تھی تو صبح کا وقت ہوتا تھا اور آفتاب ہدایت نمودار ہوجاتا تھا اور باغ عالم میں جب برائیوں کی خزاں چھا جاتی تھی تو موسم بدلتا تھا اور بہار نبوت رونق افزا ہوتی تھی ، خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کے وجود باوجود سے پہلے انبیاء کرام (علیہم السلام) کا سلسلہ جاری رہا اور اب نبی اعظم وآخر ﷺ کی آمد کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور کوئی نیا یا پرانا نبی ورسول نہیں آئے گا تو یہ کام جانشیناں نبوت محمدی ﷺ یعنی مجدد دین ملت کے سپرد ہوا جو ایک عرصہ سے چل رہا ہے اور رہتی دنیا تک چلتا رہے گا ، مجدد دین حلت رسول اللہ ﷺ کے متبع کامل ہوتے ہیں اور منصب نبوت سے عاری ہوتے ہیں اسی لئے نہ اس کا کوئی دعوی ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے نہ ماننے سے کفر لازم آتا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی کے وجود کو تسلیم کرنا ضروریات دین میں سے ہے اس لئے یہی وہ بہت انعام ہے جو امت محمد رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی دوسری امت کے حصہ میں نہ آیا اور اب ان کی پہچان ان کا کام ہے وہ اس طرح کہ وہ عقائد و اعمال ‘ اخلاق اور طرق دعوت میں محمد رسول اللہ ﷺ کے تابع کامل کے نمونے ہوتے ہیں ان کا کام وقت کے ادہام رسوم اور اعمال کو جو باہر سے آکر دین اسلام میں داخل ہوگئے ہوں ان کا دور کرنا ہے اور امور دین میں سے جو مٹتے جا رہے ہوں ان کو دوبارہ جاری کرنا ہے اور وہ یہ کام کر رہے ہیں اور انشاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک کرتے رہیں گے ، اس لئے ان کے اجسام کی بجائے ان کے کام پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے اور جو ایسا کرتا ہے وہی کامیاب وکامران ہوتا ہے ۔ انبیاء کرام اور رسل عظام ہی کی وہ ذات تھی جس کا تعلق بیک وقت عالم دنیا اور عالم آخرت دونوں سے رہتا تھا اس لئے ان کے حالات عالم دنیا کے قوانین ونظام کے تابع بھی تھے اور عالم آخرت سے تعلقات قائم ہونے کے باعث اس عالم کے قوانین ونظام کے تابع بھی چونکہ عالم دنیا کے قوانین ونظام مکمل طور پر عالم آخرت کے قوانین ونظام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اس لئے انبیاء کرام کے بعض حالات جو عالم دنیا کے قوانین ونظام کے ساتھ مطابقت نہ رکھتے تھے اس لئے عالم دنیا میں رہنے والے لوگوں کی نگاہوں میں وہ سما نہ سکے اور انہوں نے ان کا انکار کردیا حالانکہ ان کا تعلق براہ راست اس عالم میں رہتے ہوئے انبیاء کرام کی روحانیت کے باعث عالم آخرت کے ساتھ تھا جو انہی قوانین ونظام کے تابع تھے نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے انکی روحانیت کے ساتھ مخصوص مسائل کو ان کے اجسام کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں غلطی کی اور ان کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں جس میں قصور سارا ان کے اپنے فہم وادراک کا تھا لیکن انہوں نے ناسمجھی کے باعث بعض نے تو انبیاء کرام (علیہم السلام) کو کوئی مافوق الادراک شخصیت مانا اور بعض نے ان کی روحانیت کے ساتھ مخصوص باتوں اور حالات سے انکار کردیا اور وہ نبوت کے دلائل ومعجزات کو سمجھ نہ سکے ۔ معجزہ کا لفظ جو زبان زد خاص وعوام ہے اس کی حقیقت : انبیاء کرام (علیہم السلام) کی وہ باتیں جو عام روحانیت سے تابع تھیں جن کے سمجھنے اور ماننے میں طرح طرح کی غلطیاں کی گئیں اور کی جارہی ہیں اور کی جاتی رہیں گی ان کو عام طور پر معجزہ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا لیکن یہ اصطلاح کئی حیثیتوں سے غلط ہے اول تو اس لئے کہ قرآن کریم میں یہ لفظ ان معنوں میں مستعمل نہیں ہے اور نہ ہی کہیں احادیث میں اس کا استعمال ہوا ہے بلکہ اس مفہوم کے لئے قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ” آیت “ یعنی نشانی اور ” برھان “ یعنی دلیل کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو اپنے مفہوم کو نہایت خوبی سے ظاہر کرتے ہیں قدیم محدثین نے ان کی جگہ دلائل و علامات کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو الفاظ قرآن کریم کے ہم معنی ہیں ان الفاظ پر کیوں اکتفا نہ کیا گیا ؟ اور ان کا اصل نام بدل کر ” معجزہ “ کے نام سے ان کو کیوں موسوم کیا گیا ؟ اور یہ نام کس نے تجویز کیا ؟ اور یہ بات معلوم ہونے کے بعد بھی کہ یہ لفظ قرآن کریم میں اور احادیث رسول میں ان معنوں میں استعمال نہیں ہوا اس کا استعمال ترک کیوں نہ کیا گیا ؟ اس لئے کہ علمائے اسلام کی اکثریت کو جو وسعت لفظ ” معجزہ “ میں نظر آئی اور جو کچھ وہ اس لفظ کے متعلق لوگوں کی تفہیم کرچکے تھے وہ آیات بینات اور دلائل وبراہین کے الفاظ کے ضمن میں وہ سما نہ سکے تھے اور وہ آج بھی بجائے اس کے وہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے نام کی طرف آجائیں اور اس نام کو چھوڑ دیں جو انہوں نے یا ان کے بڑوں نے تجویز کیا تھا کبھی تیار نہیں بلکہ یہ بات بھی یہاں عرض کی جارہی ہے اس طرح بیان کرنے والوں پر الزام دیں گے کہ یہ لوگ دراصل معجزات کے منکر ہیں اس لئے ایسی باتیں کرتے ہیں حالانکہ یہ لفظ تو بہت پرانا ہے اور ہمارے آباء و اجداد اس کو معجزہ کہتے ہیں گویا اس وقت وہی بات جو وہ ضرورت کے وقت دوسروں کو کہتے ہیں خود کہنا شروع کردیتے ہیں اور وہی اینٹ روڑا جو انکو کسی نے مارا تھا اس کو اٹھا کر دوسروں پر پھینک دیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ معجزہ کا لفظ لوگوں میں جب استعمال ہوتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ خاص لوازم ذہن پیدا ہوجاتے ہیں جو حقیقت میں صحیح نہیں ہیں مثلا اس لفظ سے لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوگیا ہے کہ وہ خود پیغمبر کا فعل ہوتا ہے جس کا صدور اس کے اعضاء وجوراح سے ہوتا ہے اور نیز یہ کہ اس لفظ کے سبب سے اس کا معجز ہونا گویا اس کی حقیقت میں داخل ہوگیا ہے حالانکہ یہ دونوں خیالات غلط ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ معجزہ پر عقلی حیثیت سے جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں ان کا ایک بڑا حصہ خود لفظ معجزہ کے غلط استعمال سے پیدا ہوگیا ہے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم کو ایک ایسا جامع لفظ درکار ہے جس میں نبوت کے نبوت کے تمام خواص ‘ کیفیات ‘ مشاہدات ‘ اور اعمال ‘ خارق عادت ‘ غیرغارق عادت سب داخل ہوں لیکن معجزہ کا لفظ اتنا وسیع نہیں ‘ جہاں از روئے قرآن کریم معجزہ کی حقیقت پر بحث آئے گی وہاں اس کے متعلق مزید تفصیل کی جائے گی جس سے معلوم ہوگا کہ قرآن کریم کی اصطلاح کس قدر صحیح اور موزوں ہے ان وجوہ کی بنا پر صحیح طریقہ تو یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کی اصطلاح (آیت) ‘ (برھان) اور محدثین کی اصطلاح ” علامات و دلائل “ کو اختیار کریں تاکہ ہمارا مفہوم زیادہ صحیح طریقہ سے اور زیادہ وسیع طور سے ادا ہو سکے اور اس لفظ ” معجزہ “ کو کلی طور پر ان معنوں میں ترک کردیں اور اس کی اصلیت اپنے واعظ ودرس میں لوگوں کو سمجھائیں لیکن چونکہ ہماری زبان میں معجزہ کا لفظ عام طور پر چل گیا ہے اس لئے اس کو یک قلم ترک بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسا کرنے سے وہ الزام جو اکثر ہم پر لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ معجزات کے منکر ہیں اس کی مزید تشہیر کرکے اس کو حقیقت کا لباس پہنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ دلائل وبراہین کا تعلق انبیاء کرام (علیہم السلام) کی سیرتوں سے : قرآن کریم اور دیگر صحف آسمانی میں انبیاء وسابقین (علیہم السلام) کے جو قصص اور واقعات مذکور ہیں ان کے روحانی حالات و کیفیات یعنی دلائل وبراہین اور آیات کا ذکر نہایت موثر اور عبرت انگیز طریقہ سے کیا گیا ہے ، سیر ملکوت ‘ مکالمہ الہی ‘ رویت ملائکہ ‘ روئے صادقہ ‘ استجابت دعا ‘ طوفان نوح یعنی قوموں کی ہلاکت ‘ آتش خلیل ‘ عصائے موسیٰ ‘ نفس عیسیٰ اور اس قسم کی اور بھی بہت سی کیفیات و حالات کا ذکر قرآن کریم میں بار بار آیا ہے اور ان کے ساتھ ان کے عواقب ونتائج بھی نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کی سیرت سے ہر زمانہ میں ان چیزوں کو خاص تعلق رہا ہے اور اس وجہ سے وہ ان کے واقعات زندگی کا جزاء لاینفک ہوگئے ہیں ۔ انبیاء کرام (علیہم السلام) کی زندگی اگرچہ گوناں گوں واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے ان تمام واقعات کا مرکز صرف یہ ہوتا ہے کہ اس خاکدان کو اخلاق ذمیمہ کے خس و خاشاک سے پاک کر کے محاسن اخلاق کے گل وریحان سے آراستہ کیا جائے تاکہ برکات آسمانی کا دامن کانٹوں سے الجھنے نہ پائے اس مقدس فرض کے ادا کرنے میں اگرچہ کبھی کبھی انبیاء کرام (علیہم السلام) کو مادی آلات سے بھی کام لینا پڑتا ہے لیکن وہ لوگ اکثر اپنی روحانی طاقت سے اس مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں اور مادی آلات کے استعمال میں بھی ان کے جسمانی دست وبازو سے زیادہ ان کے روحانی دست وبازو کام کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے واقعات زندگی میں ان دلائل وآیات کو نہایت اہمیت دی ہے اور ان کے ذکر سے گویا انبیائے کرام (علیہم السلام) کے تمام حالات زندگی کا سلسلہ علل واسباب سے مربوط کردیا ہے ۔ دلائل وآیات کا تعلق سیرت محمدی ﷺ سے نہایت اہم ہے : نبی اعظم وآخر ﷺ کی سیرت تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کے واقعات زندگی کا خلاصہ ‘ انکی تعلیمات کا عطر اور ان کے حالات ومشاہدات کا برزخ ہے ۔ آپ ﷺ ایک عالمگیر اور ابدی مذہب لے کر مبعوث ہوئے تھے اس لئے آپ ﷺ نے ایک ہی خطاب کے ساتھ ان تمام لوگوں کو مخاطب فرمایا جن کو طوفان نوح دفعتا بہا لے گیا تھا اور ان سب سے بڑھ کر آپ ﷺ کا مخاطب ایک گروہ اور بھی تھا جو ان چیزوں کو صرف عجائب پرستی کی نگاہ سے نہیں بلکہ ژدرف نگاہی سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا اسی بناء پر جس چشمہ فیض نے اسباط موسیٰ کو سیراب کیا تھا وہ ان تشنہ کا سان روحانیت سے کیونکر بےپروا ہو سکتا تھا چناچہ اس نے نبی اعظم وآخر ﷺ کی ذات کو ان تمام دلائل وآیات کا مجموعہ بنادیا جو اعلی قدر و مراتب ہر طبقہ ‘ ہر فرقہ اور ہر گروہ کے لئے ضروری تھے ۔ آپ ﷺ کے اخلاق و عادات ” آیات “ تھے ‘ آپ ﷺ کی شریعت مجموعہ ” آیات و دلائل “ تھی ‘ آپ ﷺ پر جو کتاب نازل ہوئی اس سے بڑی کوئی اور ” آیت “ ہی نہ تھی اور اگر کوئی تھی تو وہ آپ ﷺ ہی کی ذات گرامی تھی ، علاوہ ازیں آپ ﷺ کی روحانی طاقت نے جسم وروح دونوں کی کائنات میں بہت کچھ اثر ڈالا ، اس نے کبی طوبی کے سایہ میں آپ ﷺ کے لئے بستر لگایا کبھی ” سدرۃ المنتھی “ کے حدود میں زخرف کی سواری کھڑی کی کبھی (ماکذب الفواد) کے نور سے قلب مبارک کو منور کیا اور کبھی (آیت) ” مازاغ البصر “ کے سرمہ سے آپ ﷺ کی آنکھوں کو روشن کیا ‘ کبھی نزول رحمت الہی کے سایہ سے آسمان کے دروازے کھولے کبھی وادی حق کے پیاسوں کے لئے زمین کی تہ سے پانی کے چشمے ابالے ‘ کبھی سنگ خار کے شراروں کی روشنی میں قیصر و کسری کے خزانے دکھائے ‘ کبھی انبیاء سابقین (علیہم السلام) کی زبان الہام سے اپنی کامیابی کے نغمہ ہائے بشارات سنائے اور آئندہ دنیا کے واقعات غیب بتا کر رہروان عالم کو منزل حقیقت کے نشان دکھائے اور یہ سب کچھ کیا تھا ؟ استعارات واشارات ہی تو تھے جو اپنے اندر ایک بہت بڑا شاندار مفہوم رکھتے تھے ۔ واقعہ معراج کے متعلق قرآن کریم کا اپنا فیصلہ : زیر نظر ایک ہی ” آیت “ اور ایک ہی ” دلیل “ جو اپنے اندر ان گنت آیات رکھتی تھی جس کے متعلق خود الہام الہی نے فرمایا کہ (آیت) ” لنریہ من ایاتنا “ جس کے اندر ہجرت اور ہجرت کے بعد کے سارے واقعات سما گئے ، غور کرو کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کے واقعات زندگی کا سب سے بڑا جزء غزوات ومحاربات ہیں ان ہنگامہ خیز واقعات کے تاریخی عمل واسباب اور ان کے نتائج کا ذکر سورة الانفال اور سورة التوبہ میں بہ تصریح گزر چکا ہے لیکن جہاد کے میدان میں آپ ﷺ کو جو فتوحات عظیمہ حاصل ہوئیں ان میں انسانوں کے لشکر اور سپاہیوں کے تیغ وخنجر سے زیادہ فرشتوں کے پر اور امانت کے سائے ‘ دعاؤں کے تیر ‘ توکل علی اللہ کی سپر ‘ اعتماد الی الحق کی تیغ براں ‘ کام کرتی نظر آتی ہے ۔ آپ ﷺ کی زندگی کا سب سے بڑا فرض اسلام کی اشاعت ہے اور روئے انور نے ‘ نگاہ کیمیا اثر نے ‘ تقریر دل پذیر نے ‘ اعجاز نما اخلاق نے آیات و دلائل بن کر بہت سے لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا ‘ غرض آپ ﷺ کی پیغمبرانہ زندگی کے ہر مظہر میں یہ دلائل ‘ یہ براہین ‘ یہ آیات یہ معجزات ‘ اسباب ظاہری کے پہلو بہ پہلو اسباب حقیقی بن کرن رونما ہوتے رہے ہیں ۔ یہ نبی اعظم وآخر ﷺ کی پوری زندگی آیات و دلائل کا ایک مجموعہ ہی تو ہے جو سارے معجزات سے بڑا معجزہ اگر معجزہ کے لفظ ہی سے آپ کو تسکین ہوتی ہے اور آیات و دلائل کے نام سے آپ کی تشنہ کامی ظاہر ہونے لگتی ہے تو آپ ﷺ کی ذات کے بعد آپ ﷺ پر نازل ہونے والا کلام اتنا بڑا معجزہ ہے کہ اس سے بڑا معجزہ آپ ﷺ کی زندگی کے سوا کوئی دوسرا قرار نہیں دیا جاسکتا ، قرآن کریم کی بلاغت ‘ اس کی یکسانی اور عدم اختلاف ‘ قوت تاثیر ‘ تعلیم وہدایت ‘ قرآن کریم کا جواب لانے کی کسی کو قدرت نہ ہونے کا اعلان الہی ‘ ایک امی نبی کی زبان سے ادا ہونے والا حفظ وبقاء کا وعدہ ‘ قوت دلائل ‘ امیت نبوی ‘ ذات نبوی کی حفاظت ‘ جنوں کا مشرف بہ اسلام ہونا ‘ شق قمر کی خبر صادق ‘ غلبہ روم کی پیش گوئی ‘ طیر ابابیل کی نشانی ‘ شہاب ثاقب کی کثرت کا ذکر ‘ شرح صدر ‘ ہجرت کی پیش گوئی ‘ قریش پر قحط سالی کا عذاب ‘ موقعہ ہجرت کی معجزانہ نشانیاں ‘ خواب میں کفار کا کم دیکھنا ‘ مسلمانوں کا کافروں کی نظر میں اور کافروں کا مسلمانوں کی نظر میں کم کرکے دکھانا ۔ پھر کافروں کی نظروں میں مسلمانوں کا دوگنا نظر آنا ‘ فرشتوں کا نزول ‘ میدان جنگ میں پانی برسانا ‘ لڑائیوں میں نیند کا طاری ہونا ‘ آپ ﷺ کا کنکریاں پھینکنا ‘ غزوہ بدر میں دو کاموں میں سے ایک کا وعدہ ‘ غزوہ احزاب کی خبر ‘ غزوہ احزاب میں آندھی ‘ غزوہ حنین میں نصرت الہی ‘ غیب پر اطلاع بنو نصیر کی سازش کی اطلاع ‘ مہاجرین حبش کو بشارت ‘ ہجرت کے بعد قریش مکہ کو مہلت نہ ملنے کی پیش گوئی ۔ مدینہ میں بڑے بڑے مصائب کا سامنا ‘ دینی اور دنیاوی سیادت وشہنشاہی کا وعدہ ‘ قبائل عرب کی شکست کا اعلان عام ، قریش کی شکست اور بربادی کے وعدے ‘ فتح مکہ کی پیش گوئی ‘ یہود کا اعلان ‘ یہود کی دائمی ناکامی ‘ روم کی قوت ٹوٹ جائے گی ‘ بت خانوں سے روحانی آوازیں ‘ استغراق کی حالت میں شق صدر ‘ نیند کا طاری ہونا ‘ پتھروں سے سلام کی آوازیں ‘ خواب میں فرشتوں کی آمد ‘ روحانی اثر سے ستون کا رونا ‘ منبر کا ہلنا ‘ آپ ﷺ کے اشارہ سے بتوں کا گرنا ‘ کھانوں سے تسبیح کی آوازیں ‘ درختوں کا چلنا ‘ سست سواری کا تیز رفتار ہونا ‘ اندھیرے میں روشنی ہونا ‘ جانوروں کا سجدہ کرنا ‘ دکھتی آنکھوں کا درست ہوجانا ‘ بیمار کا تندرست ہونا ‘ حضرت عمر ؓ کا اسلام ‘ سراقہ کے گھوڑے کا واقعہ ‘ مدینے کی آب وہوا کا موافق ہونا ‘ قحط کا دور ہونا ‘ پانی کا برسنا ‘ بارش کا تھم جانا ، لوگوں کے حق میں دعائے برکت کی قبولیت کا اچر ‘ سعد بن ابی وقاص کی شفایابی کی دعا ‘ مغرور کا ہاتھ شل ہوجانا ‘ سلطنت کسری کی تباہی ‘ تھوڑے سے کھانے میں برکت ‘ قلیل تعداد میں برکت ‘ دودھ کے ایک برتن سے کتنے صحابہ کا سیر ہوجانا ‘ ایک وسق جو میں برکت ‘ انگلیوں سے پانی جاری کرنا ‘ اہل کتاب کے مختلف سوالوں کا جواب ‘ فتوحات عظیمہ کی اطلاع ‘ قیصر و کسری کی بربادی ‘ سازوسامان کی بشارت ‘ امن وامان کی بشارت ‘ ابو صفوان کے قتل کی خبر ‘ خود اپنی وفات کی اطلاع فتح یمن کی خبر ‘ فتح شام کی خبر ‘ فتح عراق کی خبر ‘ غزوہ ہند کی خبر ‘ بحرروم کی لڑائیاں ‘ خلفاء کی بشارت جیسے اتنے واقعات ہیں کہ اگر ان کی فہرست تیار کی جائے تو ہزاروں میں سمائے اور تشریح بیان شروع ہو تو جلدوں میں بھی نہ سمائے یہ حالات کیونکر اور کیسے کیسے پیش آئے ‘ کب پیش آئے ؟ کیا نتیجہ رہا ؟ ان میں وہ واقعات بھی ہیں جو روحانی ہیں اور وہ بھی بیداری اور خواب کے بین بین ہیں اور وہ بھی ہیں جو خالصتا بیداری میں ہوئے ۔ ابھی اوپر آپ پڑھ آئے کہ اس واقعہ معراج سے واپسی پر جب اعتراض کرنے والوں نے مختلف قسم کے سوال کئے تو ان کے علمی جواب دیئے گئے اور واضح طور پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیت المقدس کا نقشہ بیداری کی حالت میں میرے سامنے لایا گیا اور ا میں اس کو دیکھ دیکھ کر ان کے سوالوں کا جواب دیتا رہا ۔ کون ہے جو ان واقعات سے انکار کرسکتا ہے ؟ اور کون ہے جو ان کو نشانات نبوت تسلیم نہیں کرتا ؟ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس نے بیان شدہ استعارات کو اشارات کو اور ان کے اندر جو مضمون مستور ہے اس کو مان لیا تو اب اس کے سامنے جو کچھ بھی کوئی بیان کرے اور اس کو نبی کریم کی طرف نسبت دے دے اس پر ہاں ! ہاں ! کرتا جائے اور یہ پوچھنے کی زحمت ہی نہ کرے کہ اس کا ماخذ کیا ہے ؟ اور پھر اگر کوئی یہ غلطی کر بیٹھے تو اس پر جھٹ الزام رکھ دیا جائے کہ یہ معجزات کا منکر ہے اور لوگوں کے اس الزام سے بچنے کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ کار نہ رہے کہ ان کی ہاں ہاں ملائی جائے ۔ مختصرا ہم یہ عرض کریں گے کہ واقعہ معراج جس صورت اور جس کیفیت کے ساتھ پیش آیا بہرحال ایک ” آیہ “ اور ” معجزہ “ ہے جو اختیاری چیز نہیں بلکہ عام بشری تجربہ کی دسترس سے باہر کی چیز ہے اس کے نفسی وقوع پر ایمان رکھنا ضروری ولازمی بات ہے اور پیغمبروں کو جو تجربے کروائے گئے اور اکیلے سید الانبااء ہی کو نہیں ابراہیم خلیل (علیہ السلام) ” موسیٰ کلیم اللہ “ اور دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) کو بھی کرائے گئے ان کی پوری تفصیلات عام انسانوں کے ذہن میں آہی کب سکتی ہیں ؟ عارف رومی (رح) نے خوب فرمایا ۔ درنیابد حال پختہ ہیچ خام : پس سخن کوتاہ باید والسلام۔ سورة بنی اسرائیل کی زیر نظر آیت واقعہ معراج کے متعلق نہیں : بعض مفسرین نے زیر نظر آیت اور سورت کو واقعہ معراج کے متعلق ہونے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ فی نفسہ معراج کا واقعہ بالکل صحیح اور سچ ہے لیکن اس سورت یا اس آیت سے اس واقعہ کی کوئی نسبت نہیں بلکہ معراج کا واقعہ اس سورت کے نزول سے بہت پہلے سورة النجم میں گزرچکا ہے ۔ اس سورت اور آیت کا تعلق واقعہ ہجرت سے ہے گویا ہجرت کی پیش گوئی بیان کی گئی ہے کہ وہ مکہ سے بطرف مسجد اقصی ہوگی اور قرآن کریم کی اس پیش گوئی کے بعد پہلا واقعہ جو پیش آیا وہ مکہ سے مسجد اقصی کی طرف ہجرت ہی کا پیش آیا ۔ بلاشبہ یہ بات اپنے اندر وزن رکھتی ہے لیکن اس وقت جب سورة بنی اسرائیل کی اس پہلی آیت کے بعد پوری سورت سے اس واقعہ معراج کا کوئی تعلق یا جوڑ نہ جوڑا جاسکتا ہو اور اگر پوری سورت کی ہدایت کا تعلق اس واقعہ معراج ہی سے مانا جائے تو پھر اس کی اس بات میں کوئی وزن نہیں رہتا اور بغور مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اس پوری سورت کے مضامین کا تعلق واقعہ معراج کے ساتھ ہے اور یہی حقیقت ہے تو پھر تسلیم کرنا ہوگا کہ زیر نظر آیت سے بھی اس واقعہ کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے جس کو واقعہ معراج کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ سورج النجم اور احادیث میں اس واقعہ معراج کے پورے سفر کی نشاندہی تو کی گئی ہے لیکن اس کی تفصیل کہیں سے نہیں ملتی کہ آپ ﷺ کو جو سیر کرائی گئی ہے اس کا ماحصل کیا تھا ؟ اور کیا پروگرام تھا جو آپ ﷺ کو مرتب کرکے اس اہتمام کے ساتھ دیا گیا ؟ اگر اس پوری سورت کا تعلق اس واقعہ سے مان لیا جائے تو یہ ابہام خودبخود ختم ہوجاتا ہے اور اس کا جواب واضح طور پر نکل آتا ہے کہ اس سورت میں جو احکام بیان ہوئے وہ آپ کو اس سیر روحانی کے نتیجہ میں دیئے گئے اور اسی سفر کی پہلی ضرورت تھی ان بلندیوں کے طے کرلینے کے بعد آپ کو وہ ہدایت و احکام دیئے جائیں جو آپ کی ہجرت کے بعد پوری زندگی کے لئے کافی ووافی ہوں یعنی جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کا احکام عشرہ دیئے گئے بعینہ اسی طرح ہمارے نبی اعظم وآخر ﷺ کو بارہ احکامات عطا ہوئے جو اس سورت کی آیت 23 تا 39 میں بیان ہوئے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے احکام عشرہ سے زیادہ جامع ہیں اور نہایت عمدہ ضابطہ اخلاق وضع کرتے ہیں جن کی تفصیل اپنے مقام پر کی جائے گی ۔ انشاء اللہ العزیز۔ واقعہ معراج کب پیش آیا ؟ رہی یہ بات کہ یہ عدیم النظیر واقعہ کب پیش آیا ؟ اس کے تعین میں اگرچہ متعدد اقوال مذکور ہیں لیکن ان دو باتوں پر سب کا اتفاق نظر آتا ہے ایک یہ کہ واقعہ معراج قبل از ہجرت پیش آیا اور دوسری بات یہ کہ سیدہ خدیجۃ الکبری ؓ کی وفات کے بعد وقوع میں آیا اور واقعہ ہجرت باتفاق 13 نبوی کو پیش آیا اور بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق سیدہ خدیجہ الکبری ؓ کا انتقال ہجرت سے تین سال قبل ہوا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد دوم ص 22 مطبوعہ مصر) تو اب واقعہ معراج کو ہجرت سے قبل کے ان تین برسوں کے اندر ہی ہونا چاہئے اور کتب تاریخ وسیر دونوں شاہد ہیں کہ معراج اور ہجرت کے درمیان کوئی اہم واقعہ موجود نہیں ہے اور یہ تحقیق نظر ان ہر دو کے درمیان نہایت گہرا رشتہ اور ربط وعلاقہ پایا جاتا ہے تو بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ واقعہ معراج ہجرت سے بہت قریب زمانہ میں پیش آیا ہے اور درحقیقت یہ واقعہ ہجرت ہی کی پر جلال و پر عظمت ” تمہید “ تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ابن سعد نے طبقات میں اور امام بخاری (رح) نے اپنی صحیح بخاری میں واقعہ معراج اور ہجرت کو کسی تیسرے واقعہ کی مداخلت کے بغیر آگے پیچھے بیان کیا ہے اور جو حضرات امام بخاری (رح) کے اپنے صحیح میں ابواب وتراجم کی باہمی ترتیب کی دقیقہ سنجی سے واقف اور ان کے تفقہ کی بالغ نظری سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کا رجحان یہی ہے کہ ان ہر دو واقعات کے درمیان زمانہ اور تعلق دونوں اعتبار سے انتہائی قریب ہے ۔ اس لئے اب یہ کہنا آسان ہے کہ جو ارباب سیروتاریخ یہ فرماتے ہیں کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال یا ڈیڑھ سال قبل پیش آیا ان کا یہ بیان پایہ تحقیق رکھتا ہے ۔ مہینہ کی تعین کے متعلق ارباب سیر کے پانچ اقوال ہیں کوئی ربیع الاول کہتا ہے کسی نے ربیع الاخر کے روایت کی ہے اور بعض رجب کی تعیین کرتے ہیں بعض رمضان یا شوال کہتے ہیں ۔ تفصیل کے لئے زرقانی جلد اول ص 355 تا 358 کا مطالعہ کریں ۔ ایک دن مقرر کرکے اس روز طرح طرح کے خرافات اٹھانے والوں نے اب 27 رجب کا دن متعین کرلیا ہے اور اس روز وہ معراج کا دن مناتے ہیں اگرچہ اس کے لئے کوئی پختہ دلیل ان کے پاس موجود نہیں بلکہ مختلف روایات کو یک جا کر کے سب پر غور وفکر کیا جائے تو ہر صاحب الرائے انسان کو ربیع الاول کا مہینہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوگا ، حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے پڑ کر ایک مہینہ یا دن مقرر کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں اور نہ ہی یہ کوئی اسلام کا کام ہے بلکہ اس اختلاف کا باقی رہنا زیادہ بہتر اور صحیح ہے کہ خاص خاص دن منانے والوں کے لئے تازیانہ الہی برابر ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیٹوں میں آگ بھرنے کے لئے اپنی طرف سے یہ دن مقرر کر لئے ہیں اور ان کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ پر اتاری گئی کتاب تورات کا ذکر : 4۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کو واقعہ معراج کے نتیجہ میں دی گئی ہدایات کے تذکرہ سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر اتاری گئی ہدایت کا ذکر سنایا گیا تاکہ ایک طرف یہود اپنی بداعتدالیوں پر غور وفکر میں اور دوسری طرف مسلمان یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ جو احکام ان کو دیئے گئے ہیں اگر انہوں نے ان کی پابندی نہ کی تو ان کا بھی وہ حال ہوگا جو ان سے پہلی ایک قوم یہود کا ہوچکا ہے یا ہو رہا ہے جس کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) اس طرح کی ہدایات دے کر بھیجے گئے تھے جس طرح کی ہدایت آج پیغمبر اسلام نبی اعظم وآخر ﷺ کو دی جارہی ہیں ہاں ! ان میں جو واضح فرق ہے وہ یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے احکامات کے مخاطبین بنی اسرائیل قوم کے لوگ تھے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کے دیئے گئے احکامات ساری انسانیت کیلئے ہوں گے جو رہتی دنیا تک جاری وساری رہیں گے ۔ گویا آنے قوم قوم مسلم کو آگاہ کردیا گیا کہ واقعہ معراج کی اہمیت صرف اس قدر نہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے اور برگزیدہ رسول اللہ ﷺ کو زمین و آسمان بلکہ اس سے بھی ماوراء اپنی قدرت وکبریائی کی آیات بینات کا مشاہدہ کرایا بلکہ اس میں ستم رسیدہ اہل اسلام کے لئے ایک مژدہ بھی ہے کہ ان کی شب غم اب سحر آشنا ہونے والی ہے اور اے قوم مسلم ! تمہارا آفتاب اقبال ابھی طلوع ہوا چاہتا ہے مشرق ومغرب میں تمہاری سطوت کا ڈنکا بجے گا لیکن مسند اقتدار پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پروردگار کو فراموش نہ کرنا اس کی یاد اور اس کے ذکر میں غفلت سے کام نہ لینا اگر تم نے نشہ اقتدار میں آکر سرکشی کی راہ اختیار کی تو پھر اس کے ہولناک نتائج سے تمہیں دوچار ہونا پڑے گا ۔ دیکھو تم سے پہلے ہم نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی اور ظلم وستم سے نجات دی بحراحمر کو ان کے لئے پایاب کیا ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے جابر دشمن کو سمندر کی موجیں خس و خاشاک کی طرح بہا کرلے گئیں لیکن جب انہیں عزت ووقار بخشا گیا تو وہ اپنے مالک حقیقی کے احکام سے سترتابی کرنے لگے اور اس کے انعامات کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے انہوں نے نافرمانی اور ناشکر گزاری کو اپنا شعار بنا لیا تو ہم نے ان پر ایسے سنگدل دشمن مسلط کردیئے جنہوں نے ان کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا اور ان کے مقدس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور قوم مسلم کو یہ ساری تلقین بنی اسرائیل کی سرگزشت بیان کر کے سمجھا دی تاکہ بات اچھی طرح ان کے ذہن نشین ہوجائے ۔ بیت اسرائیل کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) کے بھیجے جانے کا ذکر کرنے کے بعد ان کے دیئے ہوئے احکامات میں سب سے پہلے حکم کا جو سارے احکام سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا اس کا مختصر ذکر بھی کردیا وہ یہ تھا کہ ” میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا۔ “ چناچہ اس طرح کی ہدایات آج تک تورات میں موجود ہیں مثلا ” خداوند تیرا خدا جو تجھے ملک مصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا ہوں ۔ میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی سورت نہ بنانا ، نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے ، تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عبادت کرنا کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں ۔ “ (خروج 20 : 2 تا 5) ” تم اپنے لئے بت بہ بنانا اور نہ کوئی تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لئے کھڑی کرنا اور نہ ہی اپنے ملک میں کوئی شیبہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو اس لئے کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں ۔ “ (احبا 26 : 1) یہود برائے نام تو ہمیشہ توحید کے قائل رہے ہیں البتہ دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر عملا اس راہ سے بار بار ہٹ جاتے تھے اور آج بدقسمتی سے یہی حال قوم مسلم کے عوام و خواص کا ہے ۔ الاماشاء اللہ ۔
Top