Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 34
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ١۪ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ١ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْرَبُوْا : اور پاس نہ جاؤ مَالَ الْيَتِيْمِ : یتیم کا مال اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : اس طریقہ سے ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے بہتر حَتّٰى : یہاں تک کہ يَبْلُغَ : وہ پہنچ جائے اَشُدَّهٗ : اپنی جوانی وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِالْعَهْدِ : عہد کو اِنَّ : بیشک الْعَهْدَ : عہد كَانَ : ہے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جانا ، مگر ہاں ! ایسے طریقہ پر جو بہتر ہو یہاں تک کہ یتیم جوان ہوجائیں اور اپنا عہد پورا کیا کرو ، عہد کے بارے میں تم سے باز پرس کی جائے گی
منشور اسلامی کی نویں اور دسویں شق یتیموں کے مال اور عہد کے پورا کرنے کے متعلق : 45۔ زیر نظر آیت میں منشور اسلامی کی نویں اور دسویں شق بیان کی گئی ہے ، نویں شق میں بےباپ بچوں کے مال کو ناجائز طریقے سے کھانے کی ممانعت ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کا بیان ہے اور دسویں شق میں عہد کی پابندی کو نبھانے کا حکم ہے بےباپ بچے جو باپ کے سایہ محبت سے محروم ہیں جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ ان کی دیکھ بھال کرے اور ان کو آغوش محبت سے ‘ پیار سے ان کی نگرانی و حفاظت کرے اور خصوصا وہ لوگ جو کسی ایسے بچے کے کفیل ونگران مقرر ہوں وہ پوری دیانت وامانت سے اس کی کفالت ونگرانی کریں ، اس کی متروکہ جائیداد کی حفاظت کرتے ہوئے جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کی آزمائش کرے کہ یہ مال کی حفاظت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ مال کی حفاظت کا اہل ہے تو اس کا مال اس کی طرف لوٹا دے ، پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺ خود بھی بےباپ تھے ، آپ ﷺ سے اور آپ ﷺ کے ذریعہ سے بےباپ بچوں کی حفاظت ونگرانی کے جو احکام دیئے گئے آپ ﷺ نے آپ ﷺ کی ازواج مطہرات نے آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں نے اس معاملہ میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ، عربوں میں روزانہ کی قتل و غارت اور بدامنی کے باعث ایسے بچوں کی کثرت تھی مگر جیسا کہ چاہئے ان کے غور وپرداخت کا سامان نہ تھا وہ اپنے مرحوم والد کی وارثت سے محروم رہتے تھے کیونکہ چھوٹے بچوں کو وہ وراثت نہیں دیا کرتے تھے اور نہ ہی ان سنگ دل عربوں میں عام طور پر ان کے ساتھ رحمت و شفقت کا جذبہ تھا ، قرآن کریم میں ان کی اس بدسلوکی کا ذکربار بار کیا گیا ہے ، چناچہ ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” ارایت الذی یکذب بالدین فذلک الذی یدع الیتیم “۔ (الماعون 107 : 1 ، 2) کیا تو نے اس کو دیکھا جو انصاف کو جھٹلاتا ہے سو وہی ہے جو یتیم کو دکھے دیتا ہے ۔ ایک اور آیت میں ان متولیوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو یتیموں کے جوان ہوجانے کے ڈر سے انکے باپوں کی متروکہ وراثت کو جلد جلد کھا کر ہضم کر جانا چاہتے ہیں ۔ (آیت) ” کلا بل لا تکرمون الیتیم ولا تحضون علی طعام المسکین وتاکلون التراث اکلا لما وتحبون المال حبا جما “۔ (الفجر 89 : 17 تا 20) ” نہیں یہ بات نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور نہ ایک دوسرے کو مسکین کے کھانے پر آمادہ کرتے ہو اور مردے کا مال پورا سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور دنیا کے مال و دولت پر جی بھر کر ریجھتے ہو۔ “ اسلام سے پہلے کے مذاہب میں اس واجب الرحم گروہ کے ساتھ رحم و شفقت اور انکی امداد وپرورش کا ذکر بہت کم ملتا ہے ، تورات میں عشر اور زکوۃ کے مستحقین میں دوسرے لوگوں کے ساتھ یتیم کا نام بھی دو ایک جگہ ملتا ہے کہ شہر کے پھاٹک کے اندر جو یتیم ہوں وہ آئیں اور کھائیں اور سیر ہوں ۔ “ (استثناء 14 : 29 ، 26 ، 12) انجیل نے ان بیچاروں کی کوئی داد رسی نہیں کی ہے اور نہ کسی تعلیم میں ان کا ذکر کیا ہے ۔ اس مظلوم فرقہ کی داد رسی کا وقت اس وقت آیا جب مکہ کا یتیم دین کامل کی شریعت لے کر دنیا میں آیا ۔ وحی الہی نے سب سے پہلے خود اسی کو خطاب کرکے یاد دلا دیا ۔ (آیت) ” الم یجدک یتیما فاوی فاما الیتیم فلا تقھر “۔ (الضحی 93 : 6 اور 9) کیا تجھ کو خدا نے یتیم نہیں پایا تو اس نے پناہ دی پس تو جب یتیم کو دیکھے تو مت ڈانٹ ڈپٹ کر۔ آنحضرت ﷺ جب تک مکہ مکرمہ میں بےبسی کے عالم میں رہے ‘ یتیموں کے متعلق اخلاقی ہداتیں فرماتے رہے اور قریش کے جفا پیشہ رئیسوں کو اس بےکس گروہ پر رحم وکرم کی دعوت دیتے رہے ۔ چناچہ مکی آیتوں میں یہ تعلیمات وحی ہوتی رہیں ‘ دولت مندوں کو غریبوں کے ساتھ فیاضی کی تلقین کے سلسلہ میں فرمایا گیا کہ انسانی زندگی کی گھاٹی کو پار کرنا اصلی کامیابی ہے ۔ اس گھاٹی کو تم کیونکر پار کرسکتے ہو ؟ ظلم وستم کے گرفتاروں کی گردنوں کو چھڑا کر ‘ بھوکوں کو کھلا کر اور یتیموں کی خدمت کر کے ۔ (آیت) ” اواطعام فی یوم ذی مسغبۃ یتیما ذا مقربۃ “۔ (بلد 90 : 14 : 15) یا بھوک والے دن میں کسی رشتہ دار یتیم کو کھلانا ۔ نیکوں اور نیک بختوں کی تعریف میں فرمایا کہ وہ یہ ہیں جو (آیت) ” ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما “۔ (الدھر 76 : 8) اور اس کی محبت کے ساتھ کھانا کسی غریب اور یتیم کو کھلاتے ہیں ۔ مدینہ میں آنے کے بعد ان اخلاقی ہدایتوں نے قانون کی صورت اختیار کی ۔ سورة نساء میں اس بےکس گروہ کے متعلق خاص احکام آئے ۔ ان کو وراثت کا حق دلایا گیا اور متولی جو جاہلیت میں طرح طرح کی بددیانتی کرتے تھے ان سے کہا گیا ۔ (آیت) ” واتوالیتمی اموالھم ولا تتبدلوا الخبیث بالطیب ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم انہ کان حوبا کبیرا “۔ (النساء : 4 : 2) اور یتیموں کو ان کے وارثوں کا چھوڑا ہوا مال دے دو اور ان کے اچھے مال کو اپنے برے مال سے بدلا نہ کرو اور نہ اپنے مال کے ساتھ ملا کر ان کا مال کھا جاؤ ، یہ بڑے گناہ کی بات ہے۔ دولت مند یتیم لڑکیوں کو ان کی جائیداد پر قبضہ کرلینے کی غرض سے متولی اپنے نکاح میں لے آتے تھے اور بےوالی ووارث بنا کر ان کو ستاتے تھے ۔ اس پر حکم آیا ۔ (آیت) ” وان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ما طاب لکم من النسآء “۔ (النساء : 4 : 3) اگر تم کو ڈر ہے کہ ان یتیم بچیوں کے حق میں انصاف نہ کرسکو گے تو (ان کو چھوڑو اور) عورتوں سے جو تمہیں پسند ہو نکاح کرلو۔ یتیم بچوں کے مال کو بددیانتی اور اسراف سے خرچ بھی نہیں کردینا چاہئے اور نہ جب تک ان کو پورا شعور آئے وہ ان کے سپرد کیا جائے بلکہ ان کے سن رشد کو پہنچنے کے بعد ان کی عقل کو دیکھ بھال کر انکی یہ امانت ان کو واپس کی جائے ، فرمایا : (آیت) ” وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَہَاء أَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّہُ لَکُمْ قِیَاماً وَارْزُقُوہُمْ فِیْہَا وَاکْسُوہُمْ وَقُولُواْ لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفاً (5) وَابْتَلُواْ الْیَتَامَی حَتَّیَ إِذَا بَلَغُواْ النِّکَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْہُمْ رُشْداً فَادْفَعُواْ إِلَیْْہِمْ أَمْوَالَہُمْ “۔ (النساء 4 : 5 ، 6) اور بیوقوفوں کو اپنے مال جس کو خدا نے تمہارے قیام کا ذریعہ بنایا ہے نہ پکڑا دو اور ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو ، اور ان سے معقول بات کہو اور ییتموں کو جانچتے رہو جب وہ نکاح کی (طبعی) عمر کو پہنچیں تو ان میں اگر ہوشیاری دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالہ کر دو ۔ ان آیات پاک میں بلاغت کا ایک عجیب نکتہ ہے غور کرو کہ آیت کے شروع میں جہاں متولیوں کو ناسمجھ یتیموں کے مال کو اپنے پاس سنبھال کر رکھنے کا حکم ہے وہاں مال کی نسبت متولیوں کی طرف کی ہے کہ تم اپنا مال ان کو نہ دو ۔ اور آیت کے آخر میں جہاں بلوغ اور سن رشد کے بعد متولیوں کو یتیموں کو مال واپس کردینے کا حکم ہے وہاں اس مال کی نسبت یتیموں کی طرف کی گئی کہ ” تم ان کا مال انکو واپس کر دو “ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جبتک یہ امانت متولیوں کے پاس رہے تو اس کی ایسی ہی حفاظت ونگہداشت کرنی چاہئے جیسی اپنے مال کی اور جب واپسی کی نوبت آئے تو اس طرح ایک ایک تنکا تک چن کر واپس کیا جائے ‘ جیسا کہ کسی غیر کا مال دیانت کے ساتھ واپس کیا جاتا ہے جس پر تمہارا کوئی حق نہیں ‘ متولیوں کو جو یتیموں کے مال کو اس ڈر سے جلد جلد خرچ کرکے برابر کردیتے تھے کہ یہ بڑے ہو کر تقاضا نہ کریں ۔ اس بدیانتی پر تنبیہہ فرمائی گئی ۔ (آیت) ” ولا تاکلوھا اسرافا وبدارا ان یکبروا “۔ (النساء : 4 : 6) اور اڑا کر اور جلدی کرکے ان کا مال نہ کھاجاؤ کہ کہیں یہ بڑے نہ ہوجائیں ۔ صاحب جائیداد ییتموں کے متولی اگر خود کھاتے پیتے ہوں تو انکے لئے ان یتیموں کی جائیداد کی دیکھ بھال اور نگرانی کا معاوضہ قبول کرنا بھی خلاف اخلاق قرار دیا گیا اور اگر تنگ دست ہوں تو منصفانہ معاوضہ لینے کی اجازت دی گئی ۔ (آیت) ” ومن کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف “۔ (النساء : 4 : 6) اور جو (متولی) بےنیاز ہے اس کو چاہئے کہ بچتا رہے اور جو محتاج ہے تو منصفانہ دستور کے مطابق کھائے ۔ اور آخر میں یہ جامع تعلیم دی گئی ۔ (آیت) ” وان تقوموا للیتمی بالقسط “۔ (النساء 4 : 127) اور یہ کہ ییتموں کیلئے انصاف پر قائم رہو۔ سورة انعام میں یہودیوں کی ظاہری شریعت نوازی اور جانوروں کی حلت و حرمت میں بےمعنی جزئیات پرستی اور روحانی گناہوں سے بےپرواہی دکھا کر جن اصلی روحانی اور اخلاقی تعلیمات کی طرف توجہ دلائی ان میں ایک یہ ہے کہ : (آیت) ” ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتیھی احسن حتی یبلغ اشدہ “۔ (الانعام 6 : 152) اور بہتری کی غرض کے سوا یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی طاقت کی عمر کو پہنچ جائیں ۔ سورة اسراء کے آٹھ اخلاقی اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سوائے بہترین کی نیت اور اصلاح کے خیال کے صاحب جائیداد یتیموں کی جائیداد کے پاس کسی اور غرض سے نہ پھٹکنا چاہئے اور دیانتداری کے ساتھ ہمیشہ اپنا دامن بچائے رکھناچاہئے ۔ یہ تو صاحب جائیداد یتیموں کی نسبت تعلیم ہے جو یتیم غریب ومفلس ہوں ان کی مناسب پرورش اور امداد عام مسلمانوں کا فرض ہے ، چناچہ قرآن پاک نے سورة بقرہ ‘ انساء الانفال اور حشر میں بار بار ان کی پرورش اور ان کے ساتھ نیک سلوک اور احسان کرنے کی ہدایت کی ۔ (آیت) ” والیتمی والمساکین) خیرات وصدقات کے بہترین مصرف قرار دیئے گئے ۔ اپنی اس متواتر وحی کی تشریح میں بےوالی ووارث امت کے سرپرست ﷺ نے اپنی امت کے ان نیک دلوں کو جو بےوالی ووارث یتیموں کے کفیل ہوں خود اپنے برابر جگہ دی ‘ فرمایا ” میں اور کسی یتیم کی کفالت کرنے والا ‘ جنت میں یوں دو انگلیوں کی طرح قریب ہوں گے۔ “ (صحیح بخاری باب فضل من یغول یتیما) یہ بھی فرمایا کہ جو کسی یتیم بچہ کو اپنے گھر بلا کر لائے اور اس کو کھلائے پلائے گا تو اللہ اس کو جنت کی نعمت عطا فرمائے گا بشرطیکہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہ کیا ہو جو بخشائش کے لائق نہ ہو ۔ (ترغیب وترھیب منذری ج 2 ، ص 132) نیز ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ ” مسلمانوں کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ بھلائی کی جارہی ہو اور سب سے بدتر گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہو “۔ (ترغیب وترھیب منذری ج 2 : ص 132) آنحضرت ﷺ کی ان تعلیمات نے عرب کی فطرت بدل دی ، وہی جو بےکس وناتواں یتیموں کے لئے پتھر سے زیادہ سخت تھے وہ موم سے زیادہ نرم ہوگئے ۔ ہر صحابی کا گھر ایک یتیم خانہ بن گیا ، ایک ایک ییتم کے لطف و شفقت کیلئے کئی کئی ہاتھ ایک ساتھ بڑھنے لگے اور ہر ایک اس کی پرورش اور کفالت کیلئے اپنے آغوش محبت کو پیش کرنے لگا ۔ (ابو داؤد) بدر کے یتیموں کے مقابلہ میں جگر گوشہ رسول فاطمہ ؓ اپنے دعوی کو اٹھا لیتی ہے (صحیح بخاری باب عمرۃ القضا) حضرت عائشہ ؓ اپنے خاندان اور انصار وغیرہ کی یتیم لڑکیوں کو اپنے گھر لے جا کر دل وجان سے پالتی ہیں ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا یہ حال تھا کہ وہ کسی یتیم بچہ کو ساتھ لئے بغیر کبھی کھانا نہیں کھاتے تھے ۔ (مسند احمد ‘ موطاء امام مالک تذکرۃ الحفاظ ‘ ادب المفرد بخاری) صحابہ نے نے صرف یہی نہیں کیا کہ یتیموں کو انکا حصہ دینے اور انکے مال و دولت کی تولیت اور نگرانی میں دیانتداری برتنے لگے بلکہ ان کی جائیدادوں کی حفاظت میں فیاضی اور سیر چشمی کا پورا ثبوت دیا ، ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی عدالت میں ایک یتیم نے ایک شخص پر ایک نخلستان کے متعلق دعوی پیش کی مگر وہ دعوی ثابت نہ ہوسکا اور آپ ﷺ نے وہ نخلستان مدعاعلیہ کو دلادیا ، وہ یتیم اس پر رو پڑا ‘ آپ ﷺ کو رحم آیا اور مدعا علیہ سے فرمایا کہ تم یہ نخلستان اس کو دے دو ، خدا تم کو اس کے بدلہ جنت دے گا ۔ وہ اس ایثار پر راضی نہ ہوا ۔ ابو الدحداح ؓ حاضر تھے انہوں نے اس شخص سے کہا کیا تم اپنا یہ نخلستان میرے فلاں باغ سے بدلتے ہو اس نے آمادگی ظاہر کی انہوں نے فورا بدل دیا اور وہ نخلستان اپنی طرف سے اس یتیم کو ہبہ کردیا ۔ آج دنیا کے شہر شہر میں یتیم خانے قائم ہیں مگر اگر یہ سوال کیا جائے کیا محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے بھی یہ بدقسمت گروہ اس نعمت سے آشنا تھا تو تاریخ کی زبان سے جواب نفی میں ملے گا ، اسلام پہلا مذہب ہے جس نے اس مظلوم فرقہ کی داد رسی کی ، عرب پہلی سرزمین ہے جہاں کسی یتیم خانہ کی بنیاد پڑی اور اسلام کی حکومت دنیا کی پہلی حکومت ہے جس نے اس ذمہ داری کو محسوس کیا اور عرب ‘ مصر ‘ شام ‘ عراق ‘ ہندوستان جہاں جہاں مسلمانوں نے اپنی حکومتوں کی بنیادیں ڈالیں ساتھ ساتھ ان مظلوموں کے لئے بھی امن و راحت کے گھر بنائے ، ان کے وظیفے مقرر کئے ، مکتب قائم کئے جائیدادیں وقف کیں اور دنیا میں ایک نئے ادارے lnstitution کی طرح ڈالی اور قانون اپنے قاضیوں کا یہ فرض قرار دیا کہ وہ بےوالی و سرپرست یتیموں کے سرپرست ہوں ، ان کی جائیدادوں کی نگرانی ‘ ان کے معاملات کی دیکھ بھال اور ان کی شادی بیاہ کا انتظام کریں اور یہ وہ دستور ہے جس کی پیروی آج یورپ کے ملکوں میں کی جاتی ہے اور لندن کے لارڈ میئر یا آرفس کورٹ کے حکام مسلمان قاضیوں کے ان فرائض کی نقل کرتے ہیں ۔ دسویں شق میں عہد کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے اور عہد کی پابندی کیا ہے ؟ یہی کہ کسی شخص سے جو وعدہ یا کسی قسم کا قول وقرار کرلیا جائے اس کو پورا کرنا ایک راست باز انسان کا شعار ہے اور خود اللہ تعالیٰ اپنے عہد کا پابند ہے اور وہ کبھی اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور نہ ہی خلاف ورزی ہونے دیتا ہے اگرچہ ہمارے علماء اس بات کو کفر قرار دیتے ہیں کہ اللہ کو عہد کا پابند کہنا سخت گناہ ہے جو انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے اور اس سے اللہ پابند ہوجاتا ہے جو محتاجی کی ایک صورت ہے اور اس طرح کہنے سے اس کی قدرت کا انکار نکلتا ہے ، حالانکہ یہ ساری بات بالکل فرضی ہے اللہ تعالیٰ کو وعدہ کا پابند کہنے سے نہ اس کی محتاجی کا اظہار ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی قدرت کا انکار یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ہمارے کچھ بھائی یہ کہتے ہیں کہ ” اجی اللہ اپنے رسول کو بشر کہے اور رسول بھی اپنے آپ کو بشر کہے تو کہہ سکتا ہے لیکن چونکہ ہم نہ اللہ ہیں اور نہ رسول اس لئے ہم رسول کو بشر نہیں کہہ سکتے اگر ایسا کہیں گے تو یہ کفر ہوگا ۔ “ اللہ اپنے وعدوں کا پابند ہے لیکن اس کو مجبور کرکے کسی نے پابند نہیں کیا بلکہ اس نے خود یہ اعلان فرمایا ہے کہ میں اپنے وعدہ کا خلاف نہیں کروں گا اور یہ بھی کہ کسی غلط یا برے کام کی قدرت ہونے کے باوجود اس کو نہ کرنا خوب ہے نقص نہیں اور نقص سے اللہ پاک ہے اس لئے اس طرح کہنے سے اس کی قدرت کا مطلق انکار نہیں ہوتا ، یہ خود ناقص العقل لوگوں کی عقل کا نقص ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو علماء کہتے ہوں اور لوگ ان کو علماء مانتے اور سمجھتے ہوں ، مختصر یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی نسبت بار بار اعلان فرمایا ہے کہ : (آیت) ” ان اللہ لا یخلف المیعاد “۔ الرعد 3 : 31) ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “ (آیت) ” لا یخلف اللہ المیعاد “۔ (الزمر 39 : 20) ” اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “ (آیت) ” انک لا تخلف المیعاد “ (آل عمران 3 : 194) ” (اے ہمارے پروردگار) بلاشبہ تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “ (آیت) ” وعداللہ لا یخلف اللہ وعدہ “۔ (الروم 30 : 6) ” اللہ کا وعدہ ہے ‘ اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “ (آیت) ” ولن یخلف اللہ وعدہ “۔ (الحج 22 : 47) ” اور اللہ ہرگز نہ ٹالے گا اپنا وعدہ ۔ “ (آیت) ” فلن یخلف اللہ عہدہ “۔ (البقرہ : 2 : 80) ” پس اللہ تعالیٰ اپنے قول وقرار کے خلاف نہ کرے گا۔ “ (آیت) ” ومن اوفی بعھدہ من اللہ “۔ (التوبہ 9 : 111) ” اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے ۔ “ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کا سچا اور اپنے عہد کا پکا ہے ‘ اسی طرح اس کے بندوں کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی سے جو وعدہ کریں وہ پورا کریں اور جو قول وقرار کریں اس کے پابند رہیں ‘ سمندر اپنا رخ پھیر دے تو پھیر دے اور پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو ٹل جائے مگر کسی مسلمان کی یہ شان نہ ہو کہ منہ سے جو کہے وہ اس کو پورا نہ کرے اور کسی سے جو قول وقرار کرے اس کا پابند نہ رہے ۔ عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول وقرار کے سمجھتے ہیں لیکن اسلام کی نگاہ میں اس کی حقیقت بہت وسیع ہے وہ اخلاق ‘ معاشرت ‘ مذہب اور معاملات کی ان تمام صورتوں پر مشتمل ہے جن کی پابندی انسان پر عقلا شرعا قانونا اور اخلاقا فرض ہے اور اس لحاظ سے یہ مختصر سا لفظ انسان کے بہت سے عقلی ‘ شرعی قانونی اخلاقی اور معاشرتی فضائل کا مجموعہ ہے اسی لئے قرآن مجید میں بار بار اس کا ذکر آیا ہے اور مختلف حیثیتوں سے آیا ہے ، ایک جگہ اصلی نیکی کے اوصاف کے تذکرہ میں ہے ۔ (آیت) ” والموفون بعھدھم اذا عاھدوا “۔ (البقرہ 2 : 177) اور اپنے قول وقرار اور عہد کو پورا کرنے والے جب وہ عہد کریں ۔ بعض آیتوں میں اس کو کامل ال ایمان مسلمانوں کے مخصوص اوصاف میں شمار کیا گیا ہے ۔ (آیت) ” والذین ھم لامنتھم وعھدہم راعون “۔ (المومنون 23 : 8) اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں ۔ ایک دوسرے سورة میں جنتی مسلمانوں کے اوصاف کا نقشہ کھینچا گیا ہے اس کی تصویر کا ایک رخ یہ ہے : (آیت) ” والذین ھم لامنتھم وعھدہم راعون “۔ (المعارج 70 : 32) اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں ۔ کسی کی امانت کو رکھ کر بلاکم وکاست ٹھیک وقت پر ادا کردینا ‘ معاملات حیثیت سے ایک قسم کے عہد کی پابندی ہے جو عہد کے وسیع معنی میں داخل ہے ‘ اس لئے پہلے عہد کی اس خاص قسم کا ذکر کیا اور اس کے بعد عہد کا عام ذکر کیا یعنی تاکیدا پہلے ایک خاص عہد کی پابندی کو مسلمانوں کا مخصوص وصف قرار دیا ‘ اس کے بعد عہد کا ذکر کیا یعنی تاکیدا پہلے ایک خاص عہد کی پابندی کو مسلمانوں کا مخصوص وصف قرار دیا ‘ اس کے بعد عہد کی ایک خاص قسم کی پابندی کا حکم دیا کہ : (آیت) ” واوفوا بالعھد ان العھد کان مسئولا واوفوا الکیل اذا کلتم وزنوا بالقسطاس المستقیم ذلک خیر واحسن تاویلا “۔ (بنی اسرائیل 17 : 34 ‘ 35) اور عہد و پورا کرو کیونکہ (قیامت میں) عہد کی باز پرس ہوگی اور جب ناپ کرو تو پیمانہ کو پورا بھر دیا کرو اور (تول کردینا ہو تو) ڈنڈی سیدھی رکھ کر تولا کرو (معاملہ کا) یہ بہتر (طریق ہے) اور (اس کا) انجام بھی اچھا ہے ۔ قانون یارسم و رواج سے جو وزن یا پیمانہ مقرر ہوجاتا ہے ، وہ درحقیقت ایک معاہدہ ہوتا ہے جس کی پابندی بائع اور خریدار پر فرض ہوتی ہے ‘ اس لئے تاکیدا پابندی عہد کے عام حکم کے بعد اس خاص عہد کی پابندی کا ذکر کیا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد کے لئے زبانی قول وقرار کی ضرورت نہیں بلکہ عرف عام کے سارے مسلمات سوسائٹی کے قول وقرار ہیں۔ تمام عہدوں میں سے سب سے پہلے انسان پر اس عہد کو پورا کرنا واجب ہے جو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ہوا ہے ‘ یہ عہد ایک تو وہ فطری معاہدہ ہے جو روز الست کو بندوں نے اپنے خدا سے باندھا اور جس کو پورا کرنا اس کی زندگی کا پہلا فرض ہے اور دوسر وہ عہد ہے جو خدا کا نام لے کر کسی بیعت اور اقرار کی صورت میں کیا گیا ہے ، تیسرا عہد وہ ہے جو عام طور پر قول وقرار کی شکل میں بندوں میں آپس میں ہوا کرتا ہے اور چوتھا عہد وہ ہے جو اہل حقوق کے درمیان فطرتا قائم ہے اور جن کے ادا کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے ۔ ارشاد ہے : (آیت) ” الذین یوفون بعھد اللہ ولا ینقضون المیثاق والذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل “۔ (الرعد 13 : 20 ، 21) جو اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اپنے اقرار کو نہیں توڑتے اور جو خدا نے جن تعلقات کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان کو جوڑے رکھتے ہیں ۔ اس آیت میں پہلے اس فطری عہد کے ایفاء کا ذکر ہے جو خدا اور بندہ کے درمیان ہے پھر اس قول وقرار کا جو باہم انسانوں میں ہوا کرتا ہے ‘ اس کے بعد اس فطری عہد کا ہے جو خاص کر اہل قرابت کے درمیان قائم ہے ۔ سورة نحل میں اللہ کے عہد کا مقدس نام اس معاہدہ کو بھی دیا گیا ہے جو خدا کو حاضر وناظر بتا کر یا خدا کی قسمیں کھا کھا کر بندے آپس میں کرتے ہیں ، فرمایا : (آیت) ” واوفوا بعھد اللہ اذا عاھدتم ولا تنقضو ال ایمان بعد توکیدھا وقد جعلتم اللہ علیکم کفیلا “۔ (النحل 16 : 91) اور اللہ کا نام لے کر جب تم آپس میں ایک دوسرے سے اقرار کرو تو اس کو پورا کرو اور قسموں کو پکی کرکے توڑا نہ کرو اور اللہ کو تم نے اپنے پر ضامن ٹھہرایا ہے ۔ اس معاہدہ کے عموم میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے وہ عہد میں داخل ہیں جو اسلام لاتے وقت انہوں نے رسول اللہ سے کئے اور وہ نیک معاہدے بھی اس کے اندر شامل ہیں جو جاہلیت میں کسی اچھی غرض سے کئے گئے تھے ‘ ساتھ ہی وہ سب معاہدے بھی اس میں آجاتے ہیں جو خدا کا واسطہ دے کر اور خدا کی قسمیں کھاکر بھی مسلمان ایک دوسرے سے کریں ۔ سورة انعام میں ایک اور عہد الہی کے ایفا کی نصیحت کی گئی ہے ، فرمایا : (آیت) ” وبعھد اللہ اوفوا ذلکم وصکم بہ لعلکم تذکرون “۔ (الانعام 6 : 152) اور اللہ کا اقرار پورا کرو ‘ یہ اس نے تم کو نصیحت کردی ہے تاکہ تم دھیان رکھو۔ اس عہد الہی میں خدا کے دو فطری احکام بھی داخل ہیں ‘ جن کے بجا لانے کا اقرار تم نے خدا سے کیا ہے یا خدا نے تم سے لیا ہے اسی طرح اس نذر اور منت کو مشتمل ہے جس کو خدا کے مقدس نام سے تم نے مانا ہے اور انسانوں کے اس باہمی قول وقرار کو بھی شامل ہے جو خدا کی قسمیں کھا کھا کر لوگ کیا کرتے ہیں ۔ صلح حدیبیہ میں مسلمانوں نے کفار سے جو معاہدہ کیا تھا ‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی کارسازی نے یہ موقع بہم پہنچایا کہ فریق مخالف کی قوت روز بروز گھٹتی اور اسلام کی قوت بڑھتی گئی اس حالت میں اس معاہدہ کو توڑ دینا کیا مشکل تھا مگر یہی وہ وقت تھا جس میں مسلمانوں کے مذہبی اخلاق کی آزمائش کی جاسکتی تھی کہ اپنی قوت اور دشمنوں کی کمزوری کے باوجود وہ کہاں تک اپنے معاہدہ پر قائم رہتے ہیں ‘ چناچہ اللہ تعالیٰ نے بار بار اس معاہدہ کی استواری اور پابندی کی یاد دلائی اور فرمایا کہ تم اپنی طرف سے کسی حال میں اس معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کرو جن مشرکوں نے اس معاہدہ کو توڑا تھا ان سے لڑنے کی گو اجازت دے دی گئی تھی اور مکہ فتح بھی ہوچکا تھا پھر بھی یہ حکم ہوا کہ انکو چار مہینوں کی مہلت دو ۔ (آیت) ” برآء ۃ من اللہ ورسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین فسیحوا فی الارض اربۃ اشھر واعلموا انکم غیر معجزی اللہ “۔ (التوبہ 9 : 1) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو پورا جواب ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا تو پھر لو (تم اے مشرکو) ملک میں چار مہینے اور یقین مانو کہ تم اللہ کو تھکا نہیں سکتے ۔ آگے چل کر جب یہ اعلان ہوتا ہے کہ اب ان مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے معاہدہ کی ذمہ داری نہیں رہی تو ساتھ ہی ان مشرکوں کے ساتھ ایفائے عہد کی تاکید کی گئی جنہوں نے حدیبیہ کے معاہدہ کی حرمت کو قائم رکھا تھا فرمایا : (آیت) ” الا الذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا ولم یظاھروا علیکم احدا فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم ان اللہ یحب المتقین “۔ (التوبہ 9 : 4) مگر جن مشرکوں سے تم نے عہد کیا تھا پھر انہوں نے تم سے کچھ کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کو مدد دی تو ان سے ان کے عہد کو ان کی مقررہ مدت تک پورا کرو ‘ بیشک اللہ کو پسند آتے ہیں تقوی والے ۔ اور ان مشرکوں کے ساتھ اس ایفائے عہد کو اللہ تعالیٰ تقوی بتاتا ہے اور جو اس عہد کو پورا کریں ان کو متقی فرمایا اور ان سے اپنی محبت اور خوشی کا اظہار فرمایا آگے بڑھ کر ان مشرکوں سے اپنی براءت کا اعلان کرتے وقت جنہوں نے اس معاہدہ کو توڑا تھا اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو پھر تاکید فرماتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ جوش میں ان عہد شکن مشرکوں کے ساتھ ان مشرکوں کے ساتھی بھی خلاف ورزی کی جائے جنہوں نے اس معاہدہ کو قائم رکھا ہے ۔ (آیت) ” کیف یکون للمشرکین عھد عند اللہ وعند رسولہ الا الذین عاھدتم عند المسجد الحرام فما استقاموا لکم فاستقیموا لھم ان اللہ یحب المتقین “۔ (التوبہ 9 : 7) مشرکوں کے لئے ان کے پاس اور اس کے لئے رسول کے پاس کوئی عہد ہو ‘ مگر وہ جن سے تم نے مسجد حرام کے نزدیک معاہدہ کیا جب تک وہ تم سے سیدھے رہیں تم ان سے سیدھے رہو بیشک اللہ کو تقوی والے پسند آتے ہیں ۔ سیدھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں تم بھی اس عہد کو پورا کرتے رہو اور جو لوگ اپنے عہد کو اس احتیاط سے پورا کریں ان کا شمار تقوی والوں میں ہے جو قرآن پاک کے محاورہ میں تعریف کا نہایت اہم لفظ ہے اور تقوی والے اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضامندی کی دولت سے سرفراز ہوتے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ معاہدہ کا ایفا اللہ تعالیٰ کی خوشی اور پیار کا موجب ہے اور یہ وہ آخری انعام ہے جو کسی نیک کام پر بارگاہ الہی سے استعمال کیا گیا ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود “۔ (المائدہ : 5 : 1) مسلمانو ! (اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ (عقد) کے لفظی معنی گرہ اور گرہ لگانے کے ہیں اور اس سے مقصود لین دین اور معاملات کی باہمی پابندیوں کی گرہ ہے اور اصطلاح شرعی میں یہ لفظ معاملات کی ہر قسم کو شامل ہے چناچہ امام رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں ” اوفوا بالعھد “۔ خداوند تعالیٰ کے اس قول کے مشابہ ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود “۔ اور اس قول میں تمام عقد مثلا عقد بیع ‘ عقد شرکت ‘ عقد یمین ‘ عقد نذر ‘ عقد صلح ‘ اور عقد نکاح داخل ہیں ، خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کا اقتضاء یہ ہے کہ دو انسانوں کے درمیان جو عقد اور جو عہد قرار پایا جائے اس کے مطابق دونوں پر اس کا پورا کرنا واجب ہے ۔ (تفسیر کبیر جلد 2 ص 505) لیکن (عقد) کا لفظ جیسا کہ کہا گیا صرف معاملات سے تعلق رکھتا ہے اور عہد کا لفظ اس سے بہت زیادہ عام ہے یہاں تک کہ تعلقات کو اس ہمواری کے ساتھ قائم رکھنا جس کی توقع ایک دوسرے سے ایک دو دفعہ ملنے جلنے سے ہوجاتی ہے حسن عہد میں داخل ہے ، صحیح بخاری کتاب الادب میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ مجھ کو حضرت خدیجہ ؓ سے زیادہ کسی عورت پر رشک نہیں آیا ‘ میرے نکاح سے تین سال پیشتر انکا انتقال ہوچکا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ ان کا ذکر کیا کرتے تھے اور بکری ذبح کرتے تھے تو اس کا گوشت ان کی سہیلیوں کے پاس ہدیتا بھیجا کرتے تھے یعنی حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد بھی ان کی سہیلیون کے ساتھ وہی سلوک قائم رکھا جو ان کی زندگی میں جاری تھا ۔ امام بخاری (رح) نے کتاب الادب میں ایک باب باندھا ہے جس کی سرخی یہ ہے ” حسن العھد من ال ایمان “ اور اس باب کے تحت میں اسی حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں حاکم اور بیہقی کے حوالہ سے یہ روایت کیا ہے کہ ” ایک بڑھیا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ، آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ تم کیسی رہیں ‘ تمہارا کیا حال ہے ‘ ہمارے بعد تمہارا کیا حال رہا ؟ اس نے کہا اچھا حال رہا ۔ جب وہ چلی گئی تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ آپ ﷺ نے اس بڑھیا کی طرف اس قدر توجہ فرمائی ؟ فرمایا عائشہ ‘ یہ خدیجہ کے زمانہ میں ہمارے ہاں آیا کرتی تھی اور حسن عہد ایمان سے ہے ۔ “ یعنی اپنے ملنے جلنے والوں سے حسب توقع یکساں سلوک قائم رکھنا ایمان کی نشانی ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی ایک مشہور حدیث میں فرمایا ہے اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ہر خطبہ میں اس کو ضرور فرمایا کرتے تھے : لا دین لمن لا عھد لہ “۔ (احمد طبرانی وابن حبان) جس میں عہد نہیں اس میں دین نہیں۔ یعنی اس قول وقرار کو جو بندہ خدا سے کرتا ہے یا بندہ بندہ سرے کرتا ہے پورا کرنا حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنا ہے جس کے مجموعہ کا نام دین ہے ‘ اب اس عہد کو پورا نہیں کرتا وہ دین کی روح سے محروم ہے۔
Top