Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ
: اور پیچھے نہ پڑ تو
مَا لَيْسَ
: جس کا نہیں
لَكَ
: تیرے لیے۔ تجھے
بِهٖ
: اس کا
عِلْمٌ
: علم
اِنَّ
: بیشک
السَّمْعَ
: کان
وَالْبَصَرَ
: اور آنکھ
وَالْفُؤَادَ
: اور دل
كُلُّ
: ہر ایک
اُولٰٓئِكَ
: یہ
كَانَ
: ہے
عَنْهُ
: اس سے
مَسْئُوْلًا
: پرسش کیا جانے والا
اور دیکھو جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو (بلکہ اپنی حد کے اندر ہی رہو) یاد رکھو کان ، آنکھ ، عقل ان سب کے بارے میں یقیناً باز پرس ہونے والی ہے
بےسوچے سمجھے کسی کے پیچھے مت چلتے رہو علم کی یہ شان نہیں ہے ۔ 47۔ یہ منشور اسلامی کی بارہویں شق بیان کی گئی ہے اور کتنے واضح اور کھلے الفاظ میں ہدایت دی گئی ہے کہ ” جس چیز کا تم کو علم نہ ہو اس کے پیچھے مت چلو۔ “ اس جملہ نے تقلید شخصی اور آباء و اجداد کی پیروی کو بیخ وبن سے اکھار کر رکھ دیا ، کسی فرد یا قوم کو جب من حیث العقل اور نقل دعوت دی جائے اور وہ شخص یا قوم عقل ونقل کا جواب اس طرح دے کہ ” آج تک ہمارے آباء و اجداد نے یہ بات نہیں کہی اور ہم نے کسی اور سے یہ بات نہیں سنی کیا یہی شخص ہے جس کی سمجھ میں یہ بات آئی ‘ آج تک جتنے لوگ گزرے ہیں ان میں بڑے بڑے سمجھ دار اور عقل وفکر والے تھے کیا وہ سارے غلط ہی تھے ؟ “ تو سمجھ لو کہ یہ شخص منشور اسلامی کی بارہویں شق کا بالکل منکر ہے اگرچہ وہ اس کا واضح الفاظ میں انکار نہ کرتا ہو ۔ قرآن کریم میں انبیاء کرام (علیہم السلام) کے نذکار کا مطالعہ کرو جب بھی کوئی نبی آیا اور اس نے قوم کو عقل ونقل کی طرف بلا ای تو ہر قوم نے اس کو یہی جواب دیا چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس بات کی طرف آؤ جو اللہ نے نازل کی ہے نیز اللہ کے رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں ہمارے لئے تو وہی طریقہ بس کرتا ہے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو چلتے دیکھا ہے ‘ اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ جانتے بوجھتے بھی نہ ہوں اور سیدھے راستے پر بھی نہ ہوں ۔ “ (المائدہ 5 : 104) یہ بات نبی اعظم وآخر ﷺ کی قوم قریش اور عربوں نے کہی جب ان کے رسم و رواج کے خلاف آپ ﷺ نے تبلیغ کی اور ان کی عقل ونقل کی طرف بلایا جس کو قرآن کریم کی زبان میں (علم) کہا گیا ہے ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور یہ لوگ جب بےحیائی کی باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے اور اللہ نے ایسا ہی کرنے کا ہم کو حکم دیا ہے آپ کہہ دیجئے اے پیغمبر اسلام ! بلاشبہ اللہ کبھی بےحیائی کی باتوں کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کے نام پر ایسی بات کہنے کی جرات کرتے ہو جس کے لئے تمہارے باپ کوئی علم نہیں ۔ “ (الاعراف : 7 : 28) اس آیت سے واضح ہوا کہ گمراہی کا سب سے برا چشمہ اپنے بزرگوں کی تقلید ہے ، یہ بات بھی نبی اعظم وآخر ﷺ کو مشرکین مکہ نے کہی تھی اور انہوں نے سب سے بڑی دلیل جو دی وہ یہی تھی کہ ” ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے “ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ تعلی بھی کردی کہ ہمارے رب کا بھی یہی حکم ہے تو ان کو فورا جواب سنایا گیا ” اللہ تو کبھی بےحیائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کے نام پر بھی ایسی بات کہنے کی جرات کرتے ہو جس کے لئے تمہارے پاس کوئی علم (عقلی ونقلی دلیل) نہیں ۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” انہوں نے کہا کیا تم اس لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ جس راہ پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو چلتے دیکھا ہے اس سے ہمیں ہٹا دو اور ملک میں تم دونوں بھائیوں کے لئے سرداری ہوجائے ہم تو تمہیں ماننے والے نہیں ۔ “ (یونس 10 : 78) یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو مخاطب کرکے کہی اور کب کہی ؟ قرآن کریم کہتا ہے اس وقت ” جب ہماری جانب سے سچائی ان پر نمودار ہوگئی ۔ “ اس سچائی کو انہوں نے سچائی ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ” یہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ جادو ہے صریح جادو۔ “ گویا علم یعنی سچائی ان کے ہاں جادو قرار پائی اور سچائی وہ قرار پائی جو ان کے آباء و اجداد کرتے آرہے تھے اور ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” اور اس سے پہلے ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے درجہ کے مطابق سمجھ بوجھ عطا فرمائی اور ہم اس کی حالت سے بیخبر نہ تھے ، جب اس نے اپنے باپ اور قوم کے سارے لوگوں سے کہا تھا یہ کیا مورتیاں ہیں جن کی پوجا پر تم جم کر بیٹھ گئے ہو ؟ تو انہوں نے جواب دیا تھا ، ہم نے اپنے باپ دادوں کو دیکھا وہ انہی کی پوجا کرتے تھے ۔ “ (الانبیاء 21 : 52 ‘ 53) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” قوم کے لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو جواب دیا ‘ انہوں نے کہا کچھ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں اور انہی کی سوا میں ہم لگے رہتے ہیں ‘ اس نے پھر پوچھا کیا یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم انہیں پکارتے ہو ؟ یا یہ تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا نہیں ‘ بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے ۔ “ (الشعراء 26 : 71 تا 74) اس جگہ ابراہیم (علیہ السلام) کے قوم سے دو سوالوں کا ذکر کیا گیا ، ابراہیم (علیہ السلام) کا قوم کے لوگوں سے پہلا سوال یہ تھا کہ ” یہ کیا چیزیں ہیں جن کو تم پوجتے ہو۔ “ جواب ملا کہ ” کچھ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں “ ظاہر ہے کہ سائل اور مسئول دونوں کے سامنے یہ امر واقعہ عیاں تھا کہ ” وہ بت ہیں “ واضح ہوا کہ اس جواب کی اصل روح اپنے عقیدے پر ان کا اثبات اور اطمینان تھا اور دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہاں ! ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ لکڑی اور پتھر کے بت ہیں جن کی ہم پوجا کر رہے ہیں اور آخر جن کے یہ بت بنائے گئے ہیں ہمارے عقیدہ کی اصل اساس تو وہ ہیں ‘ یہ بت تو محض ان کی یاد گار شبیہ ہیں اور ایمان بھی یہی ہے کہ ہم ان کی پرستش اور خدمت کرتے ہیں اور آج قبر پرستوں اور شخصیت پرستوں کی بھی یہی حالت ہے جو بعینہ ان کی تھی پھر فرق کیا رہا ؟ یہی کہ انہوں نے بت تراشے اور انہوں نے قبریں بنا لیں یا بعض نے کسی شخصیت کو ذہن و خیال میں رکھا وہ مردہ ہو یا زندہ اور دوسرا فرق یہ رہا کہ قبروں کے پجاری مطمئن رہے کہ قرآن کریم نے بتوں کی پرستش کرتے ہیں نہ قبروں پر سجدہ وسلام بلکہ ہم تو پیروں اور امیروں کی پیروی میں لگے ہیں اور یہ تو قرآن کریم کا واضح حکم ہے کہ ” اپنے امیر کی اطاعت کرو۔ “ اور ہم یہی کچھ کر رہے ہیں اور ان موحدوں کے ذہن میں یہ نہ رہا کہ پیرومرشد اور امیر اس وقت تک امیر ہوتا ہے جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق حکم دے جب وہ اپنی مرضی کرے تو وہ اطاعت کے قابل نہیں رہتا بلکہ اس امیر کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف واپس لانا پڑتا ہے جو بت پرستی اور قبرپرستی کے نظریہ سے بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ وہاں تو بت یا قبر کو فقط چھوڑنا ہے اور یہاں اس زندہ امیر اور پیرومرشد سے جھگڑا کھڑا کرکے اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف واپس بھی لانا ہے ۔ رہا ابراہیم (علیہ السلام) کا دوسرا سوال تو وہ یہ تھا کہ کیا تم کو نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں ؟ ابراہیم (علیہ السلام) کو جواب ملا کہ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ ہماری پرستش کی یہ وجہ نہیں ہے جو آپ سمجھے ہیں بلکہ ہماری پرستش کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے باپ دادا کے وقتوں سے یہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس طرح انہوں نے خود یہ اعتراف کرلیا کہ ان کے مذہب کے لئے باپ دادا کی اندھی تقلید کے سوا کوئی سند نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آخر تم نئی بات کیا بتانا چاہتے ہو ؟ کیا ہم خود نہیں دیکھتے کہ یہ لکڑی اور پتھر کی مورتیں ہیں ؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ لکڑی اور پتھر سنا نہیں کرتے ؟ لیکن اصلیت تو یہ ہے کہ یہ ہمارے بزرگ جو صدیوں سے نسلا بعد نسل ان کی پرستش کرتے چلے آرہے ہیں تو کیا وہ سب تمہارے نزدیک بیوقوف تھے ؟ آخر ضرور کوئی وجہ تو ہوگی کہ وہ ان کی پرستش کرتے رہے اور ہمیں آپ کی نسبت اپنے باپ دادا پر زیادہ اعتماد ہے کہ جو انہوں نے کیا وہ صحیح تھا کیونکہ ان میں بھی بڑے بڑے سمجھدار اور عقل مند لوگ تھے تمہارے حقیقت ہی ان کے مقابلہ میں کیا ہے اور آج قبر پرستوں اور شخصیت پرستوں کے پاس بھی بالکل یہی جواب ہے جو اس وقت کے بت پرستوں کے پاس تھا ، ایک جگہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ : ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس چیز کی پروری کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ‘ کیا یہ ان کی پیروی ہی کریں گے خواہ ان کو شیطان بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو ۔ “ (لقمن 31 : 21) اور اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور انہوں نے کہا کہ اگر خدائے رحمن چاہتا تو ہم کبھی ان کی نہ پوجتے ‘ یہ اس معاملہ کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے محض تیر تکے لڑاتے ہیں کیا ہم نے اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی جس کی سند یہ اپنے پاس رکھتے ہیں ؟ نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ، اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے اے پیغمبر اسلام ! جس بستی میں بھی کوئی ڈرانے والا بھاجہ اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہیں کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں ، ہر نبی نے اپنی قوم سے کہا کہ کیا تم اس ڈگر پر چلے جاؤ گے خواہ میں اس راستے سے زیادہ صحیح راستہ تمہیں بتاؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ؟ انہوں نے سارے رسولوں کو یہی جواب دیا کہ جس دین کی طرف بلانے کے لئے تم بھیجے گئے ہو ہم اس سے انکار کرتے ہیں ‘ آخر کار ہم نے ان کی خبر لے ڈالی اور دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ؟ “ (الزخرف 43 : 20 تا 25) سورة الزخرف میں مشرکین عرب کی نامعقولیت کو پوری طرح بےنقاب کرکے رکھ دیا ہے وہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور ہم اللہ کی بیٹیون کو سفارش کے لئے پکارتے ہیں کہ وہ ہماری سفارش کریں گی کیونکہ بیٹی کی سفارش زیادہ قابل قبول سمجھی جاتی تھی اور پھر ان کا استدلال یہ تھا کہ ہمارا فرشتوں کی عبادت کرنا اس لئے تو ممکن ہوا کہ اللہ نے ہمیں یہ کام کرنے دیا (آیت) ” لوشآء الرحمن ماعبدنھم “۔ اگر وہ نہ چاہتا کہ ہم یہ فعل کریں تو ہم کیسے کرسکتے تھے پھر مدت ہائے دراز سے ہمارے ہاں یہ کام ہوتا آ رہا ہے اور اللہ کی طرف سے اس پر کوئی عذاب نازل نہ ہوا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ہمارا یہ کام ناپسند نہیں ہے گویا یہ لوگ اپنی جہالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ دنیا کا ہو رہا ہے وہ چونکہ اللہ کی مشیت کے تحت ہو رہا ہے اس لئے ضرور اس کو اللہ کی رضا بھی حاصل ہے حالانکہ اگر یہ استدلال صحیح ہو تو دنیا میں ایک شرک ہی تو نہیں ہو رہا ہے ۔ چوریاں ‘ ڈاکے ‘ قتل و غارت ‘ زنا ‘ رشوت ‘ بدعہدی اور اسی طرح کے دوسرے بیشمار جرائم بھی ہو رہے ہیں جنہیں کوئی شخص یا قوم بھی اچھا نہیں سمجھتی تھی اور نہ ہی ان کاموں کو کوئی نیکی اور بھلائی سمجھتا ہے پھر کیا ان کے اس استدلال کی بنا پر یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ تمام افعال حلال وطیب ہیں کیونکہ اللہ اپنی دنیا میں انہیں ہونے دے رہا ہے اور جب وہ انہیں ہونے دے رہا ہے تو ضرور وہ ان سب کاموں کو پسند بھی کرتا ہے ؟ کیا اللہ کی پسند اور ناپسند معلوم ہونے کا ذریعہ یہی دلیل ہے ؟ حالانکہ ہر انسان جس میں ذرا بھی عقل ہے وہ کہے گا کہ نہیں ‘ ہرگز نہیں بلکہ اللہ کی پسند اس کے احکام ہیں جو اس نے اپنے رسولوں پر ناز کئے اور خصوصا نبی اعظم وآخر ﷺ پر قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمائے اور اللہ نے بتا دیا کہ اسے کون سے عقائد و اعمال اور اخلاق پسند ہیں ۔ اور کون سے پسند نہیں۔ ہاں ! قرآن کریم سے پہلے اتری ہوئی کوئی کتاب ان لوگوں کے پاس موجود ہو تو وہ اس کو پیش کریں اگر وہ کوئی ایسی بات پیش نہیں کرسکتے تو یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہ جھوٹے ہیں اور سارا کام اپنی چرب زبانی اور دنیوی مال و دولت اور کروفر کی بدولت کر رہے ہیں اور اللہ نے اس کو اپنی مشیت کے مطابق ڈھیل دے رکھی ہے عنقریب ان کو ان ساری چیزوں سے خالی ہاتھ کردیا جائے گا اور حقیقت کو وہ دیکھ لیں گے تو شرمندہ ہو کر رہ جائیں گے اگرچہ اس وقت شرمندہ ہونا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا ۔ قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے بیان فرما دیا کہ اگر تم خود راہ ہدایت پر گامزن ہونا چاہو گے تو ان کی گمراہی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی اور تم کو تمہارے کئے کے متعلق پوچھا جائے گا ان کے کئے کے متعلق تم سے کوئی سوال نہیں ہوگا ارشاد فرمایا کہ : ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اپنی فکر کرو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہار کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو اللہ کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ۔ “ (المائدہ 5 : 105) واضح ہوگیا کہ بجائے اس کے آدمی ہر وقت یہ دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کر رہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا برائی ہے ‘ اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے اسے فکر اپنے خیالات کی اپنے اخلاق و اعمال کی ہونی چاہئے کہ ہو کہیں خراب نہ ہوں اگر خود اللہ کی کی اطاعت کر رہا ہو ‘ اللہ اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کر رہا ہے اور راست روی وراست بازی کے مقتضیات پورے کر رہا ہو جس میں لازما امر بالمعروف ونہی عن المنکر بھی شامل ہے تو یقینا کسی شخص کی گمراہی وکج روی اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہو سکتی ، مزید تفصیل کے لئے تفسیر ” عروۃ الوثقی “ جلد سوم سورة مائدہ کی آیت 104 ‘ سورة الاعراف آیت 28 ‘ جلد چہارم ‘ سورة یونس آیت 78 کی تفسیر دیکھیں ایک بات اچھی طرح یاد رکھو کہ قرآن کریم متضاد باتوں کا حکم نہیں دیتا اور نہ ہی متضاد باتین اس میں پائی جاتی ہیں اگر کہیں ایسی بات سمجھ میں آئے تو سمجھ لو کہ ہماری سمجھ میں کوئی نقص ہوا ہے یا جو ہم نے سمجھا ہے وہ صحیح نہیں ہوگا اس کو دو بار سمجھنے کی کوشش کرو اگر سمجھ میں نہ آئے تو کسی صاحب علم سے دریافت کرو۔ ہرانسان کے کان ‘ آنکھ اور دل کے متعلق سوال کیا جائے گا : 48۔ انسان کے سارے اعضاء کی الگ الگ گواہی ایک طے شدہ بات ہے جس کو کتاب وسنت میں بار بار بیان کیا گیا ہے اور اس میں کوئی استحالہ نہیں بات بالکل واضح ہے اور خصوصا آج کل اس کو سمجھنا بالکل آسان ہے کسی انسان کو ہاتھ سے کرتے اور کان سے کسی دوسرے کی سنتے تو دکھا دیا جانا عام ہے اور اسی طرح آنکھ سے دیکھنا بھی دکھایا جاسکتا ہے البتہ دل کی ابھی دکھائی نہیں جاسکتی اور زیر نظر آیت کے اس حصہ سے یہ ضرور وضاحت نکلتی ہے کہ دوسرے کے دل کے راز جاننے کے لئے بھی یقینا ایجادات ہوں گی اور قیامت کے بعد میدان حشر ونشر میں ان اعضاء وجوارح کی گواہی کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے اور یقینا یہی ہوگا ، ہر مسلمان کے لئے ایمان بالغیب کے طور پر ایسا ہونے پر یقین ضروری ہے اس کی کیفیت خواہ کچھ بھی ہو اور جب یہ کہا گیا کہ ہر ہر فرد اور ہر ہر شخص سے سوال ہوگا ‘ کان سے سننے کا آنکھ سے دیکھنے کا اور دل سے سمجھنے کا اور یقین کرنے کا کہ جائز اور صحیح موقعوں پر ان سے کتنا کام لیا اور ناجائز اور غلط موقعوں پر کتنا ! ۔۔۔۔۔۔۔ غور کرو کہ احساس ذمہ داری کی تعلیم ہر فرد وبشر کو اس سے بہتر اور کہاں ملے گی ؟ اور کیا ملے گی ؟ ایک بار پھر غور کرو کہ ہر ہر فرد وبشر کو مخاطب کرکے یہ کہا گیا ہے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں کہ دوسروں کے سنے ہوئے ‘ دوسروں کے دیکھے ہوئے اور دوسروں کے دلوں سے سمجھی ہوئی باتیں سننے ‘ دیکھنے اور سمجھنے کے عادی ہوچکے ہیں اور ہماری خیال کبھی بھی اس طرف نہیں گیا کہ ہم کیا کر رہے ہیں ؟ اس پر آج عمل ہونے لگے تو شخصی ‘ قومی ‘ انفرادی ‘ اور اجتماعی دونوں قسم کے جھگڑے قضئے آج ہی دنیا میں مٹ جائیں گے ۔ حدیث میں ہے کہ ’ ‘ ’ مشکل بن حمید نے بیان کیا کہ جناب رسول مقبول ﷺ نے میری درخواست پر مجھ سے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ‘ کہہ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کان کے شر سے ‘ آپنی آنکھ کے شر سے اور اپنی زبان کے شر سے اور اپنے دل کے شر سے اور اپنی منی کے شر سے میں نے یہ دعا یاد کرلی ۔ “ (رواہ الترمذی ‘ ابو داؤد ‘ النسائی والحاکم والبغوی اور حاکم نے اس کو صحیح کہا) اس حدیث کے ایک راوی سعید نے کہا کہ منی کے شر سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنا پانی ایسے مقام پر نہ ڈالوں جو جائز اور حلال نہیں ہے ۔ مذکورہ تین اعضاء کا ذکر اس جگہ خاص کر کیا گیا ہے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہی آلات علم ہیں اور محسوسات کا علم آنکھ اور کان سے ہوتا ہے اور غیر محسوس چیزوں کا ادراک فقط دل سے ہوتا ہے ورنہ سورة یٓس میں ہے کہ ” آج ہم ان کے منہ بند کردیتے ہیں ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ۔ “ (یس 36 : 45) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور ذرا اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف لے جانے کے لئے گھیر لئے جائیں گے ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائجے گا پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسموں کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کرتے رہے ہیں اور وہ اپنے جسموں کی کھالوں کسے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ وہ جواب دیں گی ہمیں اس خدا نے گویائی دی جس نے ہرچیز کو گویا کردیا ہے اس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو ، تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری اپنی آنکھیں اور تمہارے اپنے جسموں کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا تمہیں لے ڈوبا اور اس کی بدولت تم خسارے میں پڑے ۔ “ (حم السجدہ 41 : 19 تا 23) مختصر یہ کہ زیر نظر آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ ملت کا ہر ہر فرد اپنے تمام افعال کے لئے اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے اس کے دیکھنے کی قوتیں ‘ اس کے عقل وفہم کی صلاحیتیں ہر ایک کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا جو بلاشبہ ان کی استعداد کے مطابق ہوگا اور استفار یہ ہوگا کہ اس نے نہیں کیسے اور کہاں استعمال کیا ہے وہ قوم جس کو اس کے خالق نے واشگاف الفاظ میں احساس ذمہ داری کا سبق دیا وہی قوم آج اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ، کاش ! ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے سچے دل سے کوشش کریں تو جن تکالیف پر ہم شکوہ سنج رہتے ہیں اور جن مصائب میں گھرے ہوتے ہیں وہ خود بخود ختم ہوجائیں ۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دوسروں کی بےراہ روی اور بےاعتدالی ہماری بےراہ روی اور بےاعتدالی کے لئے وجہ جواز نہیں بن سکتی ، اگر آپ اپنے موجودہ معاشرے سے مطمئن نہیں ہیں اگر آپ لوگ اصلاح واحوال کے تہ دل سے خواہاں ہیں تو اس میں وقت ضائع نہ کریں کہ دوسرے لوگ ٹھیک ہو لیں تو میں بھی ٹھیک ہوجاؤں گا ۔ اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے فرمائیے آپ کو دیکھ کر کئی بگڑے ہوئے اصلاح پذیر ہوجائیں گے ۔ زندگی کے کسی موڑ پر زیر نظر آیت کو اپنے آنکھوں کے سامنے رکھنے سے نہ بھولیں اور ہر معاملہ میں ہر وقت اپنا تجزیہ اور موازنہ اس کے ساتھ کرنا فراموش نہ کریں ۔
Top