Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 5
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا
فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آیا وَعْدُ : وعدہ اُوْلٰىهُمَا : دو میں سے پہلا بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عِبَادًا لَّنَآ : اپنے بندے اُولِيْ بَاْسٍ : لڑائی والے شَدِيْدٍ : سخت فَجَاسُوْا : تو وہ گھس پڑے خِلٰلَ الدِّيَارِ : شہروں کے اندر وَكَانَ : اور تھا وَعْدًا : ایک وعدہ مَّفْعُوْلًا : پورا ہونے والا
پھر جب ان دو وقتوں میں سے پہلا وقت آگیا تو ہم نے تم پر اپنے ایسے بندے بھیج دیئے جو بڑے ہی خوفناک تھے پس وہ تمہاری آبادیوں کے اندر پھیل گئے اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہا
زیر نظر آیت میں پہلے حملے سے مراد بخت نصر کا حملہ ہے : 7۔ آپ سورة بقرہ میں طالوت کا ذکر پڑھ چکے کہ طالوت نے 1020 قبل مسیح ان کی گرتی ہوئی سلطنت کو سہارا دے کر دوبارہ کھڑا کردیا اور اس کے بعد داؤد (علیہ السلام) 1000 سے 961 قبل مسیح تخت سلطنت پر متمکن ہوئے اور آپ نے اپنے تدبر اور حسن انتظام سے سارے ملک میں امن وامان قائم کیا اس کے بعد ان کے فرزند ارجمند حضرت سلیمان (علیہ السلام) سربراہ حکومت ہوئے آپ کا عہد 961 تا 922 قبل مسیح بنی اسرائیل قبل مسیح بنی اسرائیل کے لئے ایک زریں عہد تھا لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے انتقال کے بعد ہماری اس حکومت کا شیرازہ منتشر ہو گا ے اور یہ دن بدن راہ ہدایت سے دور ہوتے چلے گئے ، ہر عہد کے نبی نے ان کو راہ راست پر لانے کی انتہائی کوشش کی لیکن ان کی حالت پھر بھی دن بدن بگڑتی ہی چلی گئی ، حضرت یسعیاہ ‘ (علیہ السلام) حضرت یرمیاہ عیہہ السلام اور حضرت حزقائیل (علیہ السلام) نے انہیں اپنے اپنے دور میں عذاب الہی سے ڈرایا لیکن یہ اپنی بےروی سے باز نہ آئے اور اسی طرح جب ان کی مہلت کی گھڑیاں ختم ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ کا عذاب بابل کے جابر اور سفاک بادشاہوں کے حملوں کی صورت میں ظاہر ہوا 598 اور 599 قبل مسیح بابلیوں نے ان پر حملے کر کے ان کے ملک میں تباہی مچائی اور ان کے بڑے بڑے شہروں کو پیوند خاک کردیا لیکن یہ بدبخت پھر بھی بیدار نہ ہوئے اگست 587 قبل مسیح میں بخت نصر ایک لشکر جرار کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوا اور یہی ان پر پہلا حملہ تھا جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں کیا گیا ۔ بخت نصر نے شہر یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہیکل سلیمانی کو مسمار کر کے رکھ دیا بیشمار یہودی بھیڑ بکری کی طرح ذبح کئے گئے جن میں مرد زن ‘ بچے اور بوڑھے ہر طرح کے لوگ تھے ۔ اس نے ان کے شاندار محلات کو جلا خاکستر کا ڈھیر بنا دیا جو یہودی زندہ بچ گئے ان کی زیادہ تعداد کو وہ پابہ زنجیر بابل لے گیا اور وہاں ان کو غلام کی حیثیت سے رکھا گیا اور اپنے لوگوں میں اس نے ان کو تقسیم کردیا ۔ (آیت) ” بعثنا علیکم عبادالنا “۔ سے بلاشبہ مراد سب مفسرین نے بخت نصر اور اس کے لشکر ہی کو لیا ہے اگرچہ وہ کوئی دیندار اور خدا ترس انسان نہ تھا بلکہ نہایت سفاک قسم کا بادشاہ تھا جس نے ظلم وستم کی انتہاکر دی لیکن اس عالم اسباب میں سزا اور غضب الہی کا نفاذ بھی ہمیشہ کسی نہ کسی مخلوق ہی کے ذریعہ اور واسطہ سے طے ہے اور جب کسی قوم پر عذاب نازل کرنا مقصود ہوتا ہے ان پر ظالم و جابر حکمران مقرر کردیا جاتا ہے اور وہ ان کے سارے ظلم وستم سے بڑھ کر ظلم وستم ڈھانے لگتا ہے اور اس طرح بھی کہ انسان خواہ کتنا ہی ظالم اور سفاک کیوں نہ ہو آخر مخلوق ہے اور پھر مخلوق بھی اللہ تعالیٰ ہی میں سے ہے اس لئے ایسے ظالموں اور فاسقوں کو بھی (آیت) ” عبادالنا “۔ کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے اور اس میں ان لوگوں کے لئے درس عبرت بھی ہے جو معمولی لفظ کے ایر پھیر سے چکر دے کر کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں جیسے ہمارے ہاں ” سید “ ” اہل بیت “ ” آل رسول “ ” اولاد علی “ ” علوی “ ” فاطمی “ اور ” حسینی “ جیسے ناموں کی بحث اٹھائی جاتی ہے اور اس طرح ” عبد ‘ ’ اور ” عبدہ “ کی نسبت سے کچھ کا کچھ بنا دیا جاتا ہے ۔ قرآن کریم کی زبان میں ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔ جس طرح اس جگہ بخت نصر اور اس کے لشکر کے سارے ظالموں کو (آیت) ” عبادالنا “۔ کہا گیا اس لئے کہ انہوں نے بنی اسرائیل جیسی قوم کے سارے ظلموں پر بیک قلم پانی پھیر دیا اور ان پر وہ ظلم ڈھائے کہ ان ظالموں کے ہوش و حواس خطا ہوگئے اور اس طرح ان کے سارے ظلم اس ظالم نے ملیا میٹ کردیئے ، اس طرح یہاں بعثت سے مراد تشریعی بعثت نہیں محض بعثت مراد ہے اور جو کچھ زیر نظر آیت میں بیان ہوا بالکل اسی طرح کا بیان خود صحیفہ یرمیاہ میں بھی ہے ” یہ خداوند فرماتا ہے تم نے میری نہ سنی تاکہ اپنے ہاتھوں کے کاموں سے اپنی زبان کے لئے مجھے غضب ناک کرو اس لئے رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم نے میری بات نہ سنی دیکھو میں تمام شمالی قبائل کو اور اپنے خدمت گزار شاہ بابل بند کروفر کو بلا بھیجوں گا۔ “ (یرمیاہ 25 : 8 ، 9) اس لئے (آیت) ” عبادالنا “۔ وہی لوگ ہیں جن کو ” اپنے خدمت گزار “ کہا گیا ہے لہذا ان لوگوں کو جو بعثت تکوینی کے طور پر عذاب الہی کے کارندوں کی حیثیت سے ان پر مسلط کئے گئے تھے ان کے لئے یہ ضروری نہ تھا کہ وہ خود بھی مومنین صالحین میں سے ہوں ۔ بخت نصر کی خون آشامی کی داستانیں آج تک صفحات تاریخ میں درج چلی آرہی ہیں اور قرآن کریم نے (آیت) ” فجاسوا خلال الدیار “۔ کہ وہ گھروں میں گھس پڑے کے الفاظ سے وہ سب کچھ کہہ دیا جو بیسیویں صفحات میں بھی نہیں سما سکتا اور یہی وہ اس کلام الہی کا کمال ہے جو کسی دوسرے کلام میں ممکن نہیں ہے یہ کو زے میں دریا بند کرنا نہیں بلکہ پورا سمندر ہی کو زہ میں بند کردینا ہے ۔ فرمایا یہی وہ ہمارا پہلا وعدہ تھا جس کا ہم نے تورات میں بار بار اعلان کیا۔
Top