بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
ساری ستائشیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر { الکتب } اتاری اور اس میں کسی طرح کی بھی کجی نہ رکھی
سب اچھی تعریفوں کے لائق ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر قرآن کریم نازل کیا : 1۔ گزشتہ سورت کو حمد و ستائش پر ختم کیا گیا تھا اور اس سورة کو اسی حمد و ستائش سے شروع کیا جارہا ہے تاکہ مضمون کی مناسبت قائم رہے اور انسان اللہ کی حمد و ستائش کرتا رہے کام کے شروع میں بھی اور اختتام میں بھی ، اسی طرح مضمون کے شروع ہی میں یہ بات بھی واضح فرما دی کہ جس شخص پر یہ قرآن کریم نازل کیا جارہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص بندہ ہے نہ وہ اللہ ہے اور نہ ہی اللہ کا بیٹا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کا تیسرا جز ہے بلکہ وہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے اور جو کچھ اس پر اتارا گیا ہے اس میں کوئی بات بھی ایسی نہیں جس میں کسی طرح کی کوئی کجی یا ٹیڑھ ہو گویا نہ تو اس میں کوئی میل عن الحق ہے اور نہ ہی کوئی التباس ہے بلکہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے بالکل صاف صاف اور ہر لحاظ سے سچ ہی سچ ہے جس میں نہ تو اختلال لفظی ہے اور ہی تناقض معنوی ہے گویا اس میں کوئی اینچ پینچ نہیں ہے کہ عام آدمی کے لئے اس کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آئے بلکہ صاف صاف سیدھی بات کہی گئی ہے جس سے ہر آدمی جان سکتا ہے کہ یہ کتاب کس چیز کو غلط کہتی ہے اور کیوں کہتی ہے ؟ اور کس چیز کو صحیح کہتی ہے اور کس بناء پر ؟ کیا منوانا چاہتی ہے اور کس طرح ؟ کس چیز کا انکار کرانا چاہتی ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے ؟ کن کاموں کا حکم دیتی ہے اور کن کاموں سے روکتی ہے ؟ اس مضمون کو قرآن کریم میں مزید دہرایا گیا ہے چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا : (آیت) ” قرانا عریبا غیر ذی عوج لعلھم یتقون “۔ (الزمر 39 : 28) ” ایسا قرآن کریم جو عربی زبان میں ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے ۔ “ بلکہ دین میں کجی پیدا کرنے والوں کو قرآن کریم نے ہر ممکن روکنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ تمہاری یہ عادت اچھی نہیں ہے اس سے باز آجاؤ جیسا کہ ارشاد فرمایا : (آیت) ” قل یاھل ال کتاب لم تصدون عن سبیل اللہ من امن تبغونھا عوجا وانتم شھدآء وما اللہ بغافل عما تعملون “۔ (آل عمران 3 : 99) ” اے پیغمبر اسلام ! آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب ! یہ تمہاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اسے بھی تم اللہ کے راستے سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے حالانکہ تم خود گواہ ہو۔ (یاد رکھو) تمہاری حرکتوں سے اللہ غافل نہیں ہے ۔ “ دوسری جگہ فرمایا : (آیت) ” الذین یصدون عن سبیل اللہ ویبغونھا عوجا وھم بالاخرۃ کافرون “۔ (الاعراف 7 : 45 ‘ ) (ھود 11 : 19) ” (اللہ کی لعنت) ان لوگوں پر جو اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے تھے اور وہ چاہتے تھے سیدھی نہ ہو ‘ اس میں کجی ڈال دیں اور وہ آخرت کی زندگی سے منکر تھے ۔ “ ایک جگہ فرمایا : (آیت) ” الذین یستحبون الحیوۃ الدنیا علی الاخرۃ ویصدون عن سبیل اللہ ویبغونھا عوجا اولئک فی ضلل بعید “۔ (ابراہیم 14 : 3) ” (خرابی ہے ان منکروں کے لئے) جنہوں نے آخرت چھوڑ کر دنیا کی زندگی پسند کرلی جو اللہ کی راہ سے انسانوں کو روکتے ہیں اور اس میں کجی ڈالنا چاہتے ہیں یہی لوگ ہیں جو بہت بڑی گہری گہرائی میں جا پڑے ہیں ۔ “ زیر نظر آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا ہے اور اس طرح قیم صورت میں نازل کیا ہے کہ جو لوگ راہ الہی سے روکنے اور کلام اللہ میں وساوس پیدا کرنے کے عادی ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسی ساری کجیوں سے پاک کردیا ہے اور جب اس کلام کے اندر وہ کمی بیشی نہیں کر پائیں گے تو اگر مفہوم میں وہ اپنی طرف سے کچھ ڈالیں گے بھی تو وہ ساتھ ساتھ صاف کرنے والے اس کو صاف بھی کرتے رہیں گے کیونکہ اصل ان کے پاس محفوظ ہوگا اور اس طرح یہ اللہ کا آخری کلام اس وقت تک محفوظ رہے گا جب تک اس دنیا کا نظام اسی طرح چلائے رکھنا چلانے والے کو منظور ہے ۔ چونکہ اس سورت میں سیدھا اور صاف خطاب عیسائیوں سے ہے اس لئے سب سے پہلے اس خطاب کے بھی وہی مصداق ہیں اس لئے خطاب شروع ہوتے ہیں ان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم کجی ڈالنے اور اینچ پینچ کے بڑے ماہر ہو تاہم اس کلام الہی میں تم ایسا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ اس کتاب کے اتارنے کا اصل مقصد ہی ان کجیوں اور گورکھ دھندوں کو دور کرنا ہے اس لئے ضروری ہے کہ جس غرض وغایت کے لئے یہ کتاب اتاری گئی ہے اس کو پورا کیا جائے یہی وجہ ہے کہ اس کی حفاظت کا اعلان کردیا گیا ہے جس کو نہ غلط کیا جاسکتا ہے نہ منسوخ کیا جاسکتا ہے ، غور کرو کہ آج سچائی کے لئے دنیا کی عالمگیر تعبیر یہ ہے کہ وہ سیدھی اور صاف بات ہو اور اس میں ٹیڑھا پن نہ ہو اور یہ کہ جس بات میں کجی ہو اینچ پینچ اور خم ہو اور الجھی ہوئی ہو وہ سچائی کی بات نہیں ہو سکتی ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے سعادت کی راہ کو صراط مستقیم سے تعبیر کیا ہے اور ہر جگہ وہ اپنا یہ وصف بیان کرتا ہے کہ اس میں کوئی بات بھی کجی کی نہیں ہے وہ اپنے ہر معاملہ میں دنیا کی زیادہ سے زیادہ سیدھی اور صاف بات کرتا ہے ، ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے اگر قرآن کریم کے اس ایک ہی اعلان کو مدنظر رکھا ہوتا تو آج ہمارے سامنے قرآن کی تفسیر اس طرح نہ ہوتی جس طرح پیش کی جاتی ہے اور ایک آیت کی تفسیر پیش کرتے ہوئے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی دوسری آیات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہو ۔ اس کی تفصیل تو اتنی لمبی ہے کہ اگر اس کو بیان کیا تو ایک کتاب تانر ہوجائے لیکن یہاں ایک مثال دی جاتی ہے تاکہ بات سمجھ میں آجائے مثلا قرآن کریم نے ” بہتان “ کی تعریف کی ہے کہ وہ کیا ہوتا ہے ؟ اور اس کی برائی بھی بیان کی ہے جس کی بہت بڑا جرم قرار دیا ہے ، اگر اس بات کو سمجھنا ہو تو سورة النساء کی آیت 112 کی تفسیر دیکھیں ، اگر ہمارے مفسرین کے پیش نظر بہتان کی یہ تعریف ہوتی تو وہ سورة یوسف کی آیت 70 کی تفسیر کرتے ہوئے کبھی یہ نہیں لکھ سکتے تھے کہ ” جب یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کا سامان تیار کروایا تو انہوں نے اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں اپنا پیالہ رکھوا دیا پھر ایک پکارنے والے نے پکارا اور کہا کہ اے قافلہ والو ! تم چور ہو ۔ “ ہمیں معلوم ہے کہ مفسرین نے اپنے پاس سے یہ بات گھڑی کہ یوسف (علیہ السلام) نے بنیامین سے مشورہ کرکے یہ بات کہی تھی ، لیکن کیا اس طرح کے فریب کرنے کی قرآن کریم نے اجازت دی ہے ؟ اگر دی ہے تو وہ اجازت کہاں اور کس جگہ ہے ؟ کیا ایسی بات سے حقیقت بدل جاتی ہے ؟ پھر ایک چیز نہیں اس طرح کی سینکڑوں جگہ قرآن کریم میں آئی ہیں جہاں آنکھیں بند کرکے صرف ایک واقعہ کو پیش نظر رکھ کر اس کی تفسیر کردی گئی ہے اور اپنی مرضی کے مطابق یا تورات کے محرف شدہ بیانات کی تصدیق میں ایسا کیا گیا ہے اگر اس واقعہ کو اٹھا کر کسی دوسری جگہ رکھا جائے تو اس کی صاف کجی نظرلگتی ہے ، حالانکہ صاف اور سیدھی بات کو جہاں بھی رکھوگے وہ صاف اور سیدھی ہی نظر آئے گی ، ایک بار آیت کا ترجمہ پھر پڑھ لیں تاکہ مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو فرمایا ” ساری ستائشیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے بندے پر (الکتاب) اتاری اور اس میں کسی طرح کی بھی کجی نہ رکھی ۔ “
Top