Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 104
اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ ضَلَّ : برباد ہوگئی سَعْيُهُمْ : ان کی کوشش فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَهُمْ : اور وہ يَحْسَبُوْنَ : خیال کرتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ يُحْسِنُوْنَ : اچھے کر رہے ہیں وہ صُنْعًا : کام
وہ جن کی ساری کوششیں دنیا کی زندگی میں کھوئی گئیں اور وہ اس دھوکے میں پڑے ہیں کہ بڑا اچھا بنا رہے ہیں
وہی لوگ جن کا کیا کرایا خراب ہوگیا انعام کی بجائے جوتے پڑے : 110۔ زیر نظر آیت کے دو مطلب بیان کئے جاسکتے ہیں اور دونوں ہی اس سے مراد ہو سکتے ہیں یا مراد لئے جاسکتے ہیں ایک تو وہی جن کا ذکر اوپر آچکا یعنی اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام ونامراد وہی ہوئے جن کی دنیاوی زندگی میں ساری جدوجہد اور سعی و کوشش راہ راست سے بھٹکی ہی رہی اور انہوں نے جو قدم اٹھایا منزل مقصود سے دور ہی ہوتے چلے گئے ، بجائے اس کے کہ ان کے قدم رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق اٹھتے انہوں نے جو قدم اٹھایا بدعت وگمراہی کی طرف اٹھایا اور سنت سے منہ موڑے ہی رہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کی ساری سعی و کوشش دنیا کی زندگی ہی کے لئے رہی ان کا مقصد زندگی کمانے ‘ کھانے اور عیش و عشرت سے زندگی گزارنے کے سوا کچھ نہ تھا اس کی محنت تھی تو اس زندگی کے لئے انہوں نے کمایا تو اس زندگی کے لئے خرچ کیا تو اس زندگی کے لئے ‘ جمع کیا تو اس زندگی کے لئے گویا ان کی عقل وفکر میں اس دنیا کے سوا کسی دنیا کا تصور ہی نہ تھا اور اگر تھا تو وہ کہیں وہم و گمان ہی کی نذر ہوگیا ، ان ساری جدوجہد اس زندگی کے لئے تھی اور اس ادھیڑ بن میں وہ لگے رہے ، انہوں نے عقل سے کام لیا تو اس زندگی کی خاطر انہوں نے فکر کا استعمال کیا تو پیش نظر یہی زندگی تھی لیکن جب دنیا میں ہی عارضی تھی تو ان کی ساری کوشش بھی عارضی ہی رہی اور جب آخرت آئی تو اس وقت وہ خالی ہاتھ تھے معلوم ہوا کہ جس کو وہ بہت اچھا اور بہت خوب سمجھتے رہے وہ ایک راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہ نکلا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہوا کے ایک ہی جھونکے نے کا حلیہ بگاڑ دیا ان کے چہروں پر راکھ ہے اور دل ان کے اڑ رہے ہیں کسی حال میں بھی ان کو چین نہیں اور اس حال سے اب نکلنے کی بھی کوئی صورت نہیں ایسا کیوں ہوا ؟
Top