Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 79
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا
اَمَّا : رہی السَّفِيْنَةُ : کشتی فَكَانَتْ : سو وہ تھی لِمَسٰكِيْنَ : غریب لوگوں کی يَعْمَلُوْنَ : وہ کام کرتے تھے فِي الْبَحْرِ : دریا میں فَاَرَدْتُّ : سو میں نے چاہا اَنْ : کہ اَعِيْبَهَا : میں اسے عیب دار کردوں وَكَانَ : اور تھا وَرَآءَهُمْ : ان کے آگے مَّلِكٌ : ایک بادشاہ يَّاْخُذُ : وہ پکڑ لیتا كُلَّ سَفِيْنَةٍ : ہر کشتی غَصْبًا : زبردستی
سب سے پہلے کشتی کا معاملہ لو وہ چند مسکینوں کی تھی جو سمندر میں مزدوری کرتے تھے وہ جس طرف بڑھ رہے تھے وہاں ایک بادشاہ تھا وہ جس کی کشتی پاتا زبردستی لے لیتا میں نے چاہا کہ ان کی کشتی میں ایک عیب نکال دوں
کشتی جس کو عیب دار بنایا گیا اس کی اصلیت کیا تھی ؟ 85۔ صاحب موسیٰ نے کہا کہ تفریق سے پہلے اس سفر میں جن باتوں پر آپ صبر نہ کرسکے ایک بار سن لیں ، آپ کو معلوم ہے کہ پہلا واقعہ کشتی کا تھا جس کو میں نے عیب دار بنادیا تھا اور آپ کو یہ بات بری لگی تھی اس کی اصلیت کیا تھی ؟ اس کی حقیقت یہ تھی کہ وہ کشتی چند مساکین کی ملکیت تھی جو اس دریا میں چلا کر اس کی قلیل مزدوری پر گزارہ کرتے تھے اور بڑی مشکل سے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرتے تھے ، میں نے ان کی کشتی کو عیب دار کیا تاکہ اپنے عیب کی وجہ سے ظلما لی جانے سے بچ جائے اور اس کے ظلما لی جانے کی اصلیت یہ تھی کہ یہاں کی حکومت کے کارندوں کو کچھ کشتیوں کی ضرورت تھی اور وہ ظلما ان کو عارضی طور پر لوگوں سے لے لینا چاہتے تھے تاکہ اپنی ضرورت کے لئے ان کو کام میں لاسکیں اور پھر جب ضرورت پوری ہوجائے تو کشتیاں واپس کردی جائیں مجھے ان کی اس اسکیم کا علم تھا میں نے اس کو اس لئے عیب دار بنایا کہ وہ لوگ اس کا ظاہری عیب دیکھ کر غصب کرنے سے باز آجائیں گے اور ان مسکینوں کی روزی کا سلسلہ چلتا رہے گا اور ظاہر ہے کہ میری اس اسکیم سے کشتی والے بھی واقف تھے تب ہی تو انہوں نے مجھ پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور میرے اس فعل پر انہوں نے کوئی نکیر نہیں کی ظاہر ہے کہ وہ مجھ سے بھی واقف تھے اور میرے اس کام کا بھی ان کو علم تھا ، آپ نے غور نہیں کیا ورنہ آپ کو بھی خود بخود معلوم ہوجاتا کہ اس عیب سے کشتی ڈوب نہیں سکتی تھی ، ہاں ! عیب دار وہ ہوئی اور وہ میں نے اس کو خود کیا اور اس کی وجہ بھی آپ کو بتا دی اور میرا یہ فعل ان کے حق میں اچھا رہا کہ وہ ایک بہت بڑے نقصان سے بچ گئے ورنہ نہ ان کا پتہ چلتا اور نہ ہی ان کی کشتی کا اور گھروالے ان کے علیحدہ پریشان ہوتے ، ظاہر ہے کہ گورنمنٹ کی ایسی اسکیموں کا اگر عوام کو پتہ چل جائے تو وہ اسکیمیں کیسے کامیاب ہو سکیگ ہیں اور حکومت کے ایسے رازوں کو کسی حال میں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا ہاں ! اپنی جگہ اپنی حفاظت کے پیش نظر ایسا کام کیا جاسکتا ہے جس سے اپنا فائدہ ہو اور دوسروں کا کوئی نقصان نہ ہو۔ (فاردت) کے الفاظ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ میں نے احسانا یہ کام اس لئے کیا ہے کہ کشتی والے زیادہ غریب ومسکین ہیں اور چونکہ میں حکومت کی اسکیم کو بھی جانتا ہوں لہذا یہ سہولت میں نے کشتی والوں کو فراہم کردی ہے اور حکومت کے غصب کا نہ راز فاش ہوا ہے اور نہ ہی کوئی نقصان اس لئے کہ ملک کے اندر بیشمار اور ان گنت کشتیاں موجود ہیں اگر ان کی ایک کشتی اس سے مستثنی ہوگئی تو اس سے کیا فرق پڑے گا ؟ اور ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو حکومت کے اس قضیہ کا علم نہیں تھا جس کا علم صاحب موسیٰ کے پاس تھا ۔
Top