Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 97
فَمَا اسْطَاعُوْۤا اَنْ یَّظْهَرُوْهُ وَ مَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا
فَمَا اسْطَاعُوْٓا : پھر نہ کرسکیں گے اَنْ : کہ يَّظْهَرُوْهُ : اس پر چڑھیں وَ : اور مَا اسْتَطَاعُوْا : وہ نہ لگا سکیں گے لَهٗ : اس میں نَقْبًا : نقب
یہ ایک ایسی دیوار بن گئی کہ وہ (یاجوج ماجوج) نہ تو اس پر چڑھ سکتے تھے نہ اس میں سرنگ لگا سکتے تھے
سدذوالقرنین کے متعلق قرآن کریم کا بیان : 103۔ یہی وہ دیوار ہے جس سے میتھین قوم یعنی یاجوج ماجوج کے حملے رک گئے ، اس پر چڑھنا بھی ان کے لئے ممکن نہیں ہے اور اس دیوار کا توڑنا بھی آسان نہیں ہے کہ اس میں سرنگ لگا کر نکل آئیں اس لئے کہ اینٹ گارا اس طرح کی دوسری اشیاء سے نہیں بنائی گئی حتی کہ یہ پتھر بھی نہیں کہ اس کو کاٹ لیا جائے بلکہ اس اس میں لوہے کی بڑی بڑی سلوں سے کام لیا گیا ہیں اور پھر سلوں کے شگافوں کو پگھلے ہوئے تانبے سے جوڑ دیا گیا ہے اس طرح اس کے جوڑ اس کی سلوں سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں ، مورخین نے چونکہ اس طرف تین چار دیواروں کو ڈھونڈ نکالا ہے اور پھر ان دیواروں کو اپنے علم کے مطابق مختلف بادشاہوں کی طرف منسوب کیا ہے کوئی دیوار سد سکندری کے نام سے معروف ہے کوئی نوشیروان کے نام سے کوئی دیوار چین کے نام سے معروف ہے کوئی درہ دربند کے نام سے پھر دربند بھی ایک سے زیادہ ثابت کئے گئے ہیں اس لئے یہ بحث بہت طول پکڑ گئی ہے کہ وہ دیوار جس کو ” ذوالقرنین “ کے نام سے قرآن کریم نے بائن کیا ہے وہ کونسی دیوار ہے سب نے اپنے دلائل اور اپنی راؤں کا اظہار کیا ہے جس سے یہ بحث مزید طویل ہوتی چلی گئی ہے اس تحقیق میں خود ” ذوالقرنین “ کی ذات زیر بحث آئی ہے اور مختلف لوگوں نے اس کے متعلق مختلف بیانات دیئے ہیں کسی نے سکندر اور ذوالقرنین کو ایک بنا دیا ہے اور کسی نے اس نظریہ کی سخت تغلیط بیان کی ہے بحرحال یہ ساری باتیں اشارتا عرض کی جا رہی ہیں ورنہ اس وقت سب حالات روز روشن کی طرح واضح ہوچکے ہیں اور دلائل نے سب کچھ روشنی میں لا کر رکھ دیا ہے اور فرسودہ بحثوں کو دیکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ گزشتہ لوگوں سے بھی کیا کیا غلطیاں ہوئی ہیں جو جان بوجھ کر نہ سہی تاہم جب علمی روشنی نہیں تھی تو باتیں کس کس رنگ میں بیان کی جاتی تھیں اور وہی رنگ مذہب یا دین اسلام کا رنگ سمجھا گیا ہے اور روشنی کے دور میں بھی ہم اکثر انہیں چیزوں کو زیر بحث رکھتے ہیں جن کو اب زیر بحث لانا مذاق و استہزاء سمجھا جاتا ہے لیکن ہم سلف کے ناموں کی بحث آج بھی بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہی کی شخصیتوں کی جانچ پڑتال میں لگے رہتے ہیں اور کبھی خیال نہیں کرتے کہ اس روشنی کے زمانہ میں اس کی ضرورت نہیں انہوں نے جو خدمت کی اس کے ہم معترف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں کے دم سے آج دین اسلام کا نام روشن ہے تاہم وہ انسان تھے اور ہر انسان کا علم محدود ہے اور ہر انسان جو علم رکھتا ہے اس میں غلطی کا امکان ہے غلطی سے کوئی چیز مبرا ہے تو وہ کلام اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسل وانبیاء ہیں جو کبھی جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتے اور اگر کوئی بھول ہوجائے تو فورا اس کو تسلیم کرتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ اس روشنی کے زمانہ میں جب لوگوں نے زمین کا چپہ چپہ چھان مارا ہے کوئی بات صاحب علم حضرات سے پوشیدہ نہیں لہذا اس وقت جو بات روشنی میں آئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ سدذوالقرنین وہی ہے جو آج کل کی زبان میں درہ دارپال کی سد کے نام سے معروف ہے کیوں ؟ اس لئے یہی وہ دیوار ہے جو قرآن کریم کی بتائی ہوئی باتوں کی عملی تصدیق کرتی ہے اور اس کے مقابلہ میں درہ دربند کی دونوں دیواریں اور دیوار چین میں وہ باتیں نہیں پائی جاتیں ۔ قرآن کریم نے اس دیوار کے متعلق جو بیان دیا ہے وہ اوپر آپ پڑھ چکے ہیں کہ وہ دیوار لوہے کی سلوں سے تعمیر کی گئی ہے جس کے شگافوں اور جوڑوں میں تانبا پگھلا دیا گیا ہے جس سے وہ یک جان ہوچکی ہے اور یہ کہ اس دیوار میں اینٹ ‘ پتھر اور گارا استعمال نہیں کیا گیا اور ان ساری دیواروں کا جب تجزیہ کیا گیا تو ان میں سے درہ دارپال کے علاوہ کوئی دوسری دیوار اس کی تصدیق نہیں کرتی کیونکہ علاوہ ازیں سب دیواریں ‘ پتھر کی سلوں اور اینٹ ‘ گارے سے تعمیر کی گئی تھیں جن میں اکثر ٹوٹ پھوٹ بھی چکی ہیں اور صرف کھنڈرات سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کوئی دیوار بنائی گھی تھی لیکن سد ذوالقرنین تاحال موجود ہے اور وہ اس محل وقوع کے مطابق ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ۔ ہاں ! اس پہلی دیوار کے بعد اس نے مزید دیواریں بھی بنوائی ہوں یہ ممکن ہے اور یہ بھی کہ اس کے جانشینوں نے اپنی اپنی ضرورتوں کے مطابق ان کو تعمیر کرایا ہو کیونکہ جب ایک کام ہوتا ہے تو اس کی نقالی اور اس کی طرز کے دوسرے کام ہونا بعید از عقل و قیاس نہیں ۔
Top