Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 99
وَ تَرَكْنَا بَعْضَهُمْ یَوْمَئِذٍ یَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنٰهُمْ جَمْعًاۙ
وَتَرَكْنَا : اور ہم چھوڑ دیں گے بَعْضَهُمْ : ان کے بعض يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّمُوْجُ : ریلا مارتے فِيْ بَعْضٍ : بعض (دوسرے) کے اندر وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ : اور پھونکا جائے گا صور فَجَمَعْنٰهُمْ : پھر ہم انہیں جمع کرینگے جَمْعًا : سب کو
اور جس دن وہ بات ظہور میں آئے گی تو ایک قوم دوسری قوم کے درمیان بسنے لگے گی اور نرسنگھا پھونکا جائے گا اور اس وقت ساری قوموں کی بھیڑ اکٹھی ہوجائے گی
وہ دن آئے گا تو ہم قوموں کو سمندر کے پانیوں کی طرح چلادیں گے ۔ 105۔ گزشتہ آیت میں ” ذوالقرنین “ نے جو اشارہ قیامت کے وعدہ برحق کی طرف کیا تھا اس کی مزید تشریح فرما دی اور فرمایا کہ جب مقررہ وقت آئے گا تو یہ ساری قومیں نکلیں گی اور وہ سمندر کی موجوں کی طرح ایک دوسرے پر آپڑیں گی پھر ایک وقت آئے گا جب سب کو اکٹھا ہوجانا ہے اور اس وقت منکرین حق دیکھ لیں گے کہ دوزخ ان کے سامنے ہے ، اس وقت جب لوگوں کو جمع کرنا مقصود ہوتا تھا تو نرسنگھا پھونکا جاتا تھا اور اس کی آواز سنتے ہی ہر گوشہ سے لوگ نکل آتے تھے فرمایا ایک ایسی ہی بات اس روز بھی ہونے والی ہے ۔ ‘ نرسنگھا پھونکا جائے گا کہ سب لوگ نکل آئیں گے ۔ قرآن کریم میں قیامت کے ذکر میں صور پھونکنے کا بار بار ذکر آیا ہے ۔ (آیت) ” فاذا نفخ فی الصور “ پھر جب صور پھونکا جائے گا ۔ اس لفظ (صور) کے معنی نرسنگھا کے ہیں اور اصل اس کی یہ ہے کہ قدیم الایام میں بابلیوں ‘ کنعانیوں ‘ آرامیوں اور عبرانیوں وغیرہ تمام پرانی قوموں میں بادشاہ جلال وجلوس اور اعلان جنگ کے علاقوں پر نرسنگھا پھونکا جاتا تھا اس لئے نرسنگھا پھونکنے کے معنی شاہی جلال کا اظہار یا غیر معلولی خطرہ کا اعلان سمجھا جاتا تھا اس کے پیش نظر قرآن کریم میں یہ الفاظ بولے گئے جس کے معنی دراصل سب لوگوں کو اکٹھا کرنے کے ہیں ۔
Top