Urwatul-Wusqaa - Maryam : 11
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پاس قَوْمِهٖ : اپنی قوم مِنَ : سے الْمِحْرَابِ : محراب فَاَوْحٰٓى : تو اس نے اشارہ کیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَنْ سَبِّحُوْا : کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
پھر وہ نکلا اور اپنے لوگوں میں آیا اس نے اشارے سے کہا کہ صبح و شام اللہ کی پاکیزگی و جلال کی صدائیں بلند کرتے رہو !
زکریا (علیہ السلام) عبادت خانہ سے باہر آئے تو خاموش تھے : 11۔ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ زکریا (علیہ السلام) بطور علامت یا نشان گونگے ہوگئے تھے یہ یقینا اس واقعہ کے بعد کی تعبیرات ہیں اور قرآن کریم نے ان تعبیرات کی تصدیق نہیں کی اور تردید کا انداز ایسا اختیار کیا کہ یہ باتیں قابل بحث نہ بن جائیں اور اپنے مدعا کی بات بھی کہہ دی جائے چناچہ فرمایا کہ وہ اپنے حجرہ سے باہر تشریف لائے جو حسب معمول آپ کا انتظار کر رہے تھے تو اس نے زبان نہ کھولی اور اشارہ سے صرف یہ بات کہی کہ میں تین دن رات تک عام باتیں نہیں کروں گا اس وقت آپ چلے جائیں اور تین دن کے بعد تشریف لائیں اور بہتر ہے کہ تم لوگ بھی سارا سارا دن اور ساری ساری رات نہیں تو کم از کم ہر روز صبح وشام ان نعمت عظمی کی خوشخبری ملنے کے بعد اللہ کی یاد میں مصروف رہنے کے لئے وقت نکالو تاکہ آپ لوگوں بھی اس کی تسبیح وتہلیل میں میرے ساتھ شریک ہوں ۔ اگر تم میری بھلائی کے خرظ خواہ ہو تو ایسا ضرور کرو ، اس مختصر ذکر کے بعد زکریا (علیہ السلام) کے موعود بیٹے سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر شروع ہوتا ہے جس میں بہت زیادہ اختصار سے کام لیتے ہوئے ان کی ساری ضروری باتوں کی طرف اشارہ کردیا ‘ کچھ کہا بھی نہیں اور سب کچھ کہہ بھی دیا ۔ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت : قرآن کریم میں زکریا (علیہ السلام) کا ذکر چار سورتوں میں آیا ہے آل عمران ، الانعام ‘ مریم ‘ اور الانبیاء میں ۔ ان میں سے سورة الانعام میں تو صرف انبیاء کرام (علیہم السلام) کی فہرست میں آپ کا نام ذکر کیا گیا ہے اور باقی تین سورتوں میں آپ کا مختصر تذکرہ منقول ہے ، خیال رہے کہ قرآن کریم میں جن زکریا (علیہ السلام) کا ذکر منقول ہے یہ وہ زکریا نہیں ہیں جن کا مجموعہ توراۃ کے صحیفہ زکریا میں کیا گیا ہے اس لئے کہ تورات میں جن زکریا (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے اس صحیفہ میں آیا ہے انکا ظہور داریوس (دارا) کے زمانہ میں ہوا ہے جیسا کہ زکریا نبی کی کتاب میں ہے کہ : ” دارا کے دوسرے برس کے آٹھویں مہینے میں خداوند کا کلام زکریا نبی بن برکیاہ بن عدو پر نازل ہوا۔ “ (زکریا باب ! : 1) اور یہ بات سب پر واضح ہے کہ دارابن گشتاسپ کا زمانہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت سے پانچ سو سال قبل ہے کیونکہ وہ کیقباد وکیخسرو کے انتقال کے بعد 521 ق م تحت نشین ہوا تھا اور قرآن کریم نے جن زکریا (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم ؓ کے مربی اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ایک لحاظ سے معاصر ہیں اور ان کے اور یحییٰ بن زکریا اور مسحا (علیہ السلام) کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور یہ زکریا (علیہ السلام) سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے والد ماجد ہیں جیسا کہ فتح الباری 6 ص 365 میں ذکر کیا گیا ہے ۔ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کے والد ماجد کا نام کیا تھا ؟ اس میں اصحاب سیر کے مختلف اقوال ذکر کئے گئے ہیں اور ان اقوال میں سے کس قول کو ترجیح دی جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا ، چناچہ حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں اور حافظ ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر اور اپنی تاریخ میں ابن عساکر سے وہ سب اقوال جمع کردیئے ہیں جو فتح الباری ج 6 اور تاریخ ابن کثیر ج 2 ص 67 میں دیکھے جاسکتے ہیں لیکن یہ بات سب کے نزدیک مسلم اور تسلیم شدہ ہے کہ حضرت سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کی ذریت میں سے ہیں ۔ (تاریخ ابن کثیر ج 2 ص 47) زکریا (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے حالات سیر کی کتابوں میں نہیں ملتے تاہم جس قدر قرآن کریم اور سیروتاریخ کی قابل اعتماد روایات میں مذکور ہیں وہ اس طرح ہیں : جیسا کہ آپ نے پیچھے بنی اسرائیل میں سورة التوبہ وغیرہ میں پڑھا ہے کہ بنی اسرائیل میں ” کاہن “ ایک معزز مذہبی عہدہ تھا اور اس کے ذمہ ہیکل کی خدمت ہوتی تھی یعنی بیت المقدس کی مقدس رسوم ادا کرنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور چونکہ بنی اسرائیل الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہوچکے تھے اس لئے ہر گروہ کا اپنا ” کاہن “ ہوتا تھا اور اپنی اپنی باری پر اس خدمت کو انجام دیتے تھے ، چناچہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں ایک معزز کاہن بھی تھے اور جلیل القدر پیغمبر بھی جیسا کہ قرآن کریم نے ان کو انبیاء کرام کی فہرست میں شمار کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” ۔۔۔۔۔۔۔ وزکریا ویحیٰ و عیسیٰ والیاس کل من الصلحین “۔ ” اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس یہ سب نیکوں کاروں میں سے ہیں “ اور لوقا کی انجیل میں ان کو کاہن کہا گیا ہے جیسا کہ تحریر ہے کہ : ” یہودیہ کے بادشاہ ” ہیرودیس “ کے زمانہ میں ابیاہ کے فریق میں زکریا نام کا ایک کاہن تھا اور اس کی بیوی ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام الیشبع تھا اور وہ دونوں خدا کے حضور راست باز اور خداوند کے سارے حکموں اور قانونوں پر بےعیب چلنے والے تھے ۔ “ (لوقا باب 1 : 5 ، 6) اور انجیل برنباس میں بصراحت مذکور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ پیغمبر تھے چناچہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یہود کو مخاطب کرکے ایک جگہ فرمایا کہ : ” وہ وقت قریب ہے جب تم پر ان انبیاء کرام (علیہم السلام) کا وبال پڑنے والا ہے جن کو تم نے سیدنا زکریا (علیہ السلام) کے زمانہ تک قتل کیا اور جب کہ زکریا (علیہ السلام) کو ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا ۔ “ (انجیل برنباس) سیدنا زکریا (علیہ السلام) سلالہ داؤد (علیہ السلام) سے تھے اور ان کی زوجہ مطہرہ ” ایشاع “ یا ” الیشبع “ سیدنا ہارون (علیہ السلام) کی ذریت میں سے تھیں (فتح الباری ج 6 اور تاریخ ابن کثیر جلد 2) تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) خواہ وہ بادشاہ اور صاحب حکومت ہی کیوں نہ تھے اپنی روزی اپنے ہاتھوں سے کمایا کرتے تھے اور کسی دوسرے کے لئے بار دوش نہیں ہوتے تھے جیسا کہ پیچھے سورة ہود میں (آیت) ” وما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العلمین “۔ ” میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے پاس نہیں ہے ۔ “ اسی طرح سیدنا زکریا (علیہ السلام) بھی اپنی روزی کے لئے نجاری کا کام کیا کرتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم ، ابن ماجہ اور مسند احمد میں بصراحت مذکور ہے کہ : عن ابی ہریرہ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال کان زکریا نجارا “۔ (کتاب الانبیاء) ” ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سیدنا زکریا (علیہ السلام) نجاری (بڑھئی کا کام) کرتے تھے ۔ “ اور یہ بات بھی پیچھے عرض کی جا چکی ہے کہ وہ خاندان سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کی نسل میں سے تھے ، عمران بن ناش اور ان کی بیوی حنہ بنت خاتوذ نیک نفس انسان تھے ۔ (فتح الباری ج 6 ص 364) جو پارسائی کی زندگی بسر کرتے تھے مگر لاولد تھے ان کا ذکر سیدہ مریم کے ذکر میں تفصیل کے ساتھ آئے گا ان کے گھر میں ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام انہوں نے اللہ کے حکم سے ” مریم “ رکھا اور ان کی والدہ محترمہ حنہ نے اپنی منت کے مطابق مریم کو جب وہ خدمت کرنے کے قابل ہوگئیں تو ہیکل کی نذر کردیا اور اس طرح یہ سوال پیدا ہوا کہ اب ان کی پرورش کی ذمہ داری کس کے سپرد کی جائے ؟ کاہنوں کے درمیان اس مقبول کے درمیان اس مقبول نذر الہی کے بارے میں اختلاف ہو کر جب بات قرعہ اندازی پر آکر ٹھہری تو قرعہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) ہی کے نام نکلا اور وہی مریم (علیہ السلام) کے کفیل قرار پائے ، جس کا ذکر قرآن کریم کی سورة آل عمران میں آپ پڑھ چکے ہیں ۔ علمائے سیروتاریخ کہتے ہیں کہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) ویسے بھی مریم (علیہ السلام) کی کفالت کے حق دار تھے اس لئے کہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کی بیوی ایشاع یا الیشبع سیدہ مریم ؓ کی والدہ ماجدہ سیدہ حنہ کی حقیقی بہن تھیں جیسا کہ فتح الباری ج 6 ص 364 میں بیان کیا گیا ہے اور خالہ بمنزلہ والدہ کے ہوتی ہے جیسا کہ خود نبی اعظم وآخر ﷺ نے عمارہ بنت حمزہ ؓ کے متعلق فرمایا تھا کہ ان کی پرورش حضرت جعفر ؓ کی بیوی کریں کیونکہ وہ عمارہ ؓ کی خالہ ہیں ۔ (الخالہ بمنزلہ الام ہوتی ہے ) (بخاری باب الحضانہ) جب مریم ؓ سمجھدار ہوگئیں تو سیدنا زکریا (علیہ السلام) نے ان کے لئے ہیکل کے قریب ایک حجرہ یعنی خانہ خلوت مخصوص کردیا جہاں وہ دن میں عبادت الہی میں مشغول رہتی اور رات اپنی خالہ کے پاس گزارتی تھیں ، جب کبھی سیدنا زکریا (علیہ السلام) مریم کے حجرہ میں داخل ہوتے تو دیکھتے کہ ان کے پاس عطیات اور ہدایا کی آئی ہوئی چیزیں اور پھل کافی مقدار میں موجود ہیں تو اکثر پوچھ لیتے کہ مریم یہ اتنا کچھ کہاں سے آگیا تو مریم ؓ ہمیشہ یہی جواب مرحمت فرماتیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے وافر رزق عطا کردیتا ہے ۔ اس وقت تک سیدنا زکریا (علیہ السلام) کے پاس کوئی اولاد نہ تھی اور وہ اکثر یہ محسوس کرتے تھے کہ اس بات کے علاوہ کہ میں اولاد کی دولت سے محروم ہوں زیادہ فکر اس امر کا ہے کہ میرے بھائی بند ہرگز اس کے اہل نہیں ہیں کہ میرے بعد بنی اسرائیل کی رشد وہدایت کی خدمت انجام دے سکیں اس لئے ان کے دل میں مریم کا کردار اور گفتار دیکھ کر اکثر یہ خیال پیدا ہوتا کہ اگر اللہ تعالیٰ ایسے کردار وگفتار کا کوئی لڑکا مجھے عطا فرما دیتا تو مجھ کو یہ اطمینان ہوجاتا کہ بنی اسرائیل کی راہنمائی کا خدمت گزار میری بعد موجود ہے مگر چونکہ ان کی عمر کافی ہوچکی تھی اور شادی کو بھی ایک عرصہ گزر چکا تھا اور اولاد نہ ہونے کے باعث وہ مایوسی کی حد تک پہنچ چکے تھے کہ شاید اب اولاد ہونے کی کوئی صورت نہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے دعا کا سلسلہ منقطع نہیں کیا تھا اور مریم کے کردار وگفتار نے اتنا متاثر کیا تھا کہا انہوں نے مزید الحاح وزاری سے دعا مانگنا شروع کردی چناچہ آپ کی آہ بھری دعا نے اپنا اثر دکھایا اور قوم کی رشد وہدایت کی خاطر مانگی ہوئی دعا رب ذوالجلال والا کرام نے منظور فرما لی ، سیدنا زکریا (علیہ السلام) ہیکل ہی میں مصروف عبادت تھے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک فرستادہ فرشتہ آپ سے مخاطب ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیٹے کی خوشخبری سیدنا زکریا (علیہ السلام) کو سنا دی کہ اے زکریا اللہ تعالیٰ نے تیری دعا قبول کرلی اور تجھے ایک بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لئے مجھے روانہ کیا گیا ۔ چناچہ آپ سن لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹے کی خوشخبری دی ہے اور ہاں ! اسی بیوی سے دی ہے جس کو تو نے بانجھ سمجھ لیا تھا اللہ نے اس کی اصلاح کردی اور اب اس کے ہاں تیرا ایک بچہ پیدا ہوگا جس کا نام آپ کو یحییٰ رکھنا ہوگا ۔ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کو اس بشارت سے بیحد خوشی ہوئی اور متعجب ہو کر دریافت کیا کہ اے میرے اللہ ! اس کے شکریہ میں میرے اوپر کیا لازم آیا جب کہ میں بوڑھا اور میری بولی ایک عرصہ کی بانجھ تھی ، اب اس خوشخبری کو سن کر اس نعمت کا شکریہ میں کیونکر ادا کروں ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ آپ تین دن رات تک اللہ کی عبادت میں پہلے سے بھی زیادہ توجہ کے ساتھ مصروف ہوجاؤ اور اپنے دوسرے لوگوں کو بھی عبادت میں مصروف رہنے کا حکم دو ۔ چناچہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم کو سر آنکھوں پر رکھا اور تین دن رات کا اعتکاف مکمل کیا اور اب اس مولود بیٹے کی خوشخبری نے سیدنا زکریا (علیہ السلام) کو چاک وچوبند کردیا کیونکہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کے لئے فی الواقع یہ بشارت باعث صد ہزار مسرت کے تھی جو یقینا قوم بنی اسرائیل کے لئے بھی کچھ کم خوشی کا باعث نہ تھی کہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کا ایک صحیح جانشین اور علم و حکمت اور نبوت کا سچا وارث عالم وجود میں آنے والا ہے ۔ انجیل میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : ” جب وہ خدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا تو ایسا ہوا کہ کہانت کے دستور کے موافق اس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خداوند کے مقدس میں جا کر خوشبو جلائے اور لوگوں کی ساری جماعت خوشبو جلاتے وقت باہر دعا کر رہی تھی کہ خداوند کا فرشتہ خوشبو کے مذبح کی داہنی طرف کھڑا ہوا اس کو دکھائی دیا اور زکریا (علیہ السلام) دیکھ کر گھبرایا اور اس پر دہشت چھا گئی مگر فرشتہ نے اس سے کہا اے زکریا خوف نہ کر کیونکہ تیری دعا سن لی گئی ہے اور تیرے لئے تیری بیوی الیشبع کے بیٹا ہوگا تو اس کا نام یوحنا رکھنا اور تجھے خوشی وخرمی ہوگی اور بہت سے لوگ اس کی پیدائش کے سبب سے خوش ہوں گے کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگا اور ہرگز نہ مے اور نہ کوئی اور شراب پئے گا اور اپنی ماں کے بطن سے روح القدس سے بھر جائے گا اور بہت سے بنی اسرائیل کو خداوند کی طرف جو ان کا خدا ہے پھرے گا اور وہ ایلیاہ کی روح اور قوت میں اس کے آگے آگے چلے گا کہ والدوں کے دل اولاد کی طرف اور نافرمانوں کو راست بازوں کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خداوند کے لئے ایک مستعد قوم تیار کرے زکریا نے فرشتہ سے کہا میں اس بات کو کس طرح جانوں کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے ، فرشتہ نے جواب میں اس سے کہا میں جبرائیل ہوں جو خدا حضور کھڑا رہتا ہوں اور اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تجھ سے کلام کروں اور تجھے اور دیکھو جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہولیں تو چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا اس لئے کہ تو نے میری باتوں کو جو اپیر وقت پر پوری ہوں گی یقین نہ کیا اور لوگ زکریا کی راہ دیکھتے اور تعجب کرتے تھے کہ اسے مقدس میں کیوں دیر لگی اور جب وہ باہر آیا تو ان سے بول نہ سکا ، پس انہوں نے معلوم کیا کہ اس نے مقدس میں رویا دکھیں اور وہ ان سے اشارے کرتا تھا اور گونگا ہی رہا پھر ایسا ہوا کہ جب اس کی خدمت کے دن پورے ہوگئے تو وہ اپنے گھر گیا ان دنوں کے بعد اس کی بیوی الیشبع حاملہ ہوئی اور اس نے پانچ مہینے تک اپنے تائیں یہ کہہ کر چھپائے رکھا کہ جب خداوند نے میری رسوائی لوگوں میں دور کرنے کے لئے مجھ پر نظر کی ان دنوں میں اس نے میرے لئے ایسا کیا۔ “ (لوقا باب 1 : 8 تا 25) اناجیل کا اصل نسخہ دنیا ہی سے ناپید ہے اور جو کچھ اس وقت ہے وہ صرف ترجمہ ہی ترجمہ ہے خواہ وہ کسی زبان میں دستیاب ہو ، ہمارے سامنے اردو ترجمہ جو برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور نے 1956 ء میں طبع کرایا تھا اس نسخہ سے ہم نے وہ عبارت درج کی ہے جو اوپر مذکور ہے ، ہم اس وثوق کے ساتھ جو اللہ کی کتاب کے ساتھ ہمیں حاصل ہے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں مترجمین نے اپنی طرف سے بہت کچھ اضافہ کیا ہے اور اصل اور حقیقت صرف اور صرف وہ ہے جو اس وقت قرآن کریم میں موجود ہے بجائے اس کے کہ قرآن کریم پر انحصار کرتے ہوئے مفسرین کرام وہ تفسیر اختیار کرتے جس کے حامل قرآن کریم کے الفاظ تھے انہوں نے سہل انگاری سے اس عبارت کو قرآن کریم کے الفاظ میں بطور تفسیر لکھ دیا کہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کی زبان تین دن رات تک بند ہوگئی اور وہ بول نہ سکتے تھے حالانکہ قرآن کریم کے اندر کوئی لفظ ایسا موجود نہیں ہے جس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہنا اور عام بول چال ترک کردینا بلاشبہ اسلام میں آج بھی اعتکاف کی حالت میں قابل تحسین و خوبی ہے لیکن کسی نہ سکنا مرض اور بیماری تو ہو سکتی ہے کوئی خوبی کی بات نہیں جیسا کہ لوقا کی عبارت میں آپ نے پڑھا کہ جب وہ ہیکل سے باہر آیا تو ” وہ بول سکا اور وہ ان سے اشارے کرتا تھا اور گونگا ہی رہا ۔ “ (لوقا 1 : 22) حالانکہ یہ اس بشارت کی خوشی کے اظہار کی صورت بتائی گئی ہے جب کہ ابھی بچے کے سلالہ کی بنیاد بھی نہیں رکھی گئی تھی فقط بشارت تھی اور اس بشارت کے بعد وہ زدواجی تعلق پیدا ہوا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے زکریا کے موعود بیٹے کا اپنا وعدہ پورا کردیا اور سیدنا زکریا (علیہ السلام) کی بیوی الیشبع یا ایشاع حاملہ ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے وقت پر یحییٰ تولد ہوئے جو وعدہ الہی کے مطابق حلیم وکریم طیبعت کے مالک تھے اور اعجازی طور پر ان کو دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے مقابلہ میں صغر سنی ہی میں نبوت سے نوازا گیا اگرچہ اس صغر سنی سے مراد گود کا بچہ نہیں بلکہ بمقابلہ دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) ابھی بچہ ہی تھے اگرچہ سن رشد کو پہنچ چکے تھے ۔ بہرحال سیدنا زکریا (علیہ السلام) نہ گونگے ہوئے اور نہ ان کی زبان بند ہوئی بلکہ یہ بشارت سن کر انہوں نے بحکم الہی روزہ رکھا اور اعتکاف کی سی کیفیت اختیار کرلی تاکہ اس بشارت کی خوشی کا اظہار بارگاہ رب ذوالجلال والاکرام میں پیش کرسکیں جو ایک خوبی کی بات تھی اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے جو الفاظ اختیار کئے وہ (آیت) ” الا تکلم الناس ثلث لیال سویا “۔ کے الفاظ ہیں یعنی تین دن رات لگاتار لوگوں سے بات نہ کر ۔ غور کیجئے کہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) گونگے ہوگئے تھے یہ یقینا بعد کی تعبیرات ہیں جو حسب معمول پیدا ہوگئیں صاف بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کو روزہ رکھنے اور مشغول عبادت رہنے کا حکم ہوا اور یہودیوں کے ہاں روزہ کے اعمال میں سے ایک عمل خاموشی بھی تھا ۔ اب ایک بار پھر غور کرو کہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) نے جس بیٹے کے لئے دعا کی تھی اس بیٹے کے ساتھ آپ کی کیا امیدیں وابستہ تھیں ۔ 1۔ اے میرے رب ! مجھے اپنے بھائی بندوں سے اندیشہ ہے اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اپنے خاص فضل سے مجھے ایک وارث بخش دے ‘ ایسا وارث جو میرا بھی وارث ہو اور خاندان یعقوب کا بھی ۔ (مریم) 2۔ اے میرے رب ! اس بچے کو ایسا کر دیجئے کہ تیرے بندوں کی نظر میں پسندیدہ ہو ۔ (مریم) 3۔ اے میرے رب ! مجھے اپنے فضل سے پاکیزہ اولاد عطا فرما بلاشبہ تو ہی دعا کا سننے والا ہے ۔ (آل عمران) اللہ تعالیٰ نے کی دعا دعا کو شرف قبولیت بخشا اور بیٹے کی خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا : (آیت) ” فنادتہ الملئکۃ وھو قائم یصلی فی المحراب ان اللہ یبشرک بیحی مصدقا بکلمۃ من اللہ وسیدا وحصورا ونبیا من الصلحین “۔ (ال عمران 3 : 39) ” پھر جب زکریا حجرہ کے اندر نماز پڑھ رہا تھا تو فرشتوں نے اس کو آواز دی کہ اللہ تجھ کو یحی کی ولادت کی خوشخبری دیتا ہے جو شہادت دے گا اللہ کے ایک کلمہ (عیسی علیہ السلام) کی اور وہ صاحب مرتبہ ہوگا ‘ پارسا ہوگا اور اللہ کے نیک بندوں میں سے ایک نبی ہوگا۔ “ گویا سیدنا زکریا (علیہ السلام) نے جو تین باتیں بیٹے کے لئے طلب کی تھیں وہ تینوں آپ کے بیٹے کو عطا کردیں اور ان تین باتوں سے بہت کچھ زائد بھی دیا ۔ 1۔ زکریا (علیہ السلام) کو خاندان یعقوب کے وارث ہونے کے ضمن میں نبوت عطا کی گئی ۔ 2۔ پسندیدہ ہونے کی صورت میں اس کے سردار ہونے کی اطلاع دی اور ۔ 3۔ پاکیزہ ہونے کے باعث پارسا ہونے کا وعدہ الہی ہوا اور ایک کلمہ کی تصدیق جس کے معنوں میں بڑی وسعت ہے اس کی زائد صفت بتا دی اور اس کا نام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھا گیا اور یہ بھی خوشخبری سنائی گئی تیرے بیٹے کے نام کا اس سے پہلے کوئی انسان دنیا میں پیدا نہیں ہوا اور گویا زندگی اس کے نام کے اندر داخل کردی کہ ایک عرصہ تک زندہ رہے گا اور ایک نئی نبوت کو زندگی بخشے گا ۔ بلاشبہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور کبھی نہیں مرے گا لیکن یہ بھی بہت ناانصافی ہے کہ ایسے بیٹے کو زکریا (علیہ السلام) کی موجودگی میں قتل کرا دیا جائے اور کبھی نہیں مرے گا لیکن یہ بھی بہت ناانصافی ہے کہ بات کی طرف دھیان نہ دیا اور اسرائیلی روایات کو اتنی اہمیت دی کہ ان کے سامنے قرآنی آیات کی کوئی قدر و قیمت نہ رہی اور جو قرآن کریم نے بیان دیا تھا اور اس میں جو اشارات بطور پیش گوئی دیئے تھے ان سب کو طاق نسیان پر رکھ دیا گیا اور پھر قرآن کریم کے وہ الفاظ جو یحییٰ (علیہ السلام) کے مناقب اور فضیلت میں بیان کئے گئے تھے ان کو مثالب اور ذم بنا کر رکھ دیا کیوں ؟ اس لئے کہ وہ روایات جن کا نہ سر ہے نہ پیران کو صحیح ثابت کیا جاسکے قرآن کریم کے الفاظ اس مفہوم کے متحمل ہوں یا نہ ہوں لیکن انہوں نے وہ مفہوم بزور طاقت ان میں رکھ دیا اور قوم کو اس پر مجبور کردیا کہ اس مطلب کو قبول کرو ورنہ کفر کے فتوی کے لئے تیار ہوجاؤ پھر کتنے تھے جو فی الواقعہ مجبور ہوگئے تھے جنہوں نے کفر کو قبول کیا لیکن اس مفہوم کو قبول نہ کیا جو انہوں نے قرآن کریم کے الفاظ کے منہ میں بزور داخل کیا تھا ۔ زکریا (علیہ السلام) کی یہی وہ حالات تھے جو قرآن کریم اور صحیح احادیث کی روشنی میں بیان کئے گئے علاوہ ازیں یا تو اسرائیلی روایات ہیں جو بیشتر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے بیان کردہ واقعات کی مطابقت نہیں کرتیں اس لئے ساقط الاعتبار ہیں اور بعض وہ روایات وآثار ہیں جو روایت کے اعتبار سے ناقابل حجت اور غیر مستند ہیں ۔ زکریا (علیہ السلام) کی دعا کا سلسلہ کب تک چلتا رہے لیکن جب بات منظور ہونے پر آئی تو کوئی دیر نہ لگی اور باوجود اس کے خود صاحب دعا کو تعجب تھا کہ میری دعا کیسے قبول ہوگئی لیکن بگڑی حالت درست کرنے والے رب ذوالجلال والاکرام نے خوشخبری کے ساتھ یہ بات بھی سنا دی کہ ” ہم نے تیری بیوی کی اصلاح کردی “ جس کا صاف مطلب یہ ہے ۔ کہ فریقین میں سے ایک کی اصلاح کی ضرورت تھی اور جب تک اصلاح نہ ہوئی اولاد نہ ہوئی اور جب اولاد عطا کرنا تھی اس کی اصلاح کردی تاکہ اصول خداوندی قائم رہے کہ ولد کے لئے والد کے ساتھ والدہ کا ہونا لازم وضروری ہے اور والدہ کے ساتھ ولد کے والد کا ہونا بھی لازم ہے احد الزوجین سے ولد نہیں ہوتا رہا مخلوق کا معاملہ تو اس کے لئے نہ والد کی ضرورت ہے اور نہ والدہ کی کیونکہ اس طرح کی مخلوق کو مخلوق تو کہیں گے لیکن کسی کا ولد نہیں کہہ سکتے ۔ زکریا (علیہ السلام) کے واقعات میں سے صرف قرآن کریم میں آپ کی دعاء قبولیت دعا اور فہرست انبیاء میں فقط نام پر اکتفا کیا گیا ہے اس سے زیادہ حالات زندگی ‘ زمانہ بعثت اور آپ کی تبلیغ کے کسی پہلو پر بحث نہیں کی گئی اس لئے ہم بھی اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق سمجھنے اور حق کے مطابق عمل کرنے اور اس پر زندہ رہنے اور اسی پر مرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین ثم آمین) ہاں ! اتنی بات مزید قابل ذکر ہے کہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) کی وفات طبعی موت سے واقع ہوئی یا وہ شہید کئے گئے اور پھر یہ کہ وہ یحییٰ (علیہ السلام) سے پہلے قتل ہوئے یا طبعی طور پر وفات پائی ؟ ہمارے خیال میں یحی (علیہ السلام) سیدنا زکریا (علیہ السلام) کے بعد بھی زندہ رہے لیکن دونوں طرح کی روایات موجود ہیں اور تعجب یہ ہے کہ دونوں کی سند وہب بن منبہ ہی پر جا کر پہنچتی ہے ۔ اور یہ بھی تحریر ہے کہ ” جب یحییٰ (علیہ السلام) کو شہید کردیا گیا تو پھر سیدنا زکریا (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے کہ ان کو بھی قتل کریں سیدنا زکریا (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو وہ بھاگے تاکہ ان کے ہاتھ نہ لگ سکیں ‘ سامنے ایک درخت آگیا اور وہ اس کے شگاف میں گھس گئے ، یہودی تعاقب کر رہے تھے تو انہوں نے دیکھا تو ان کو نکلنے پر مجبور کرنے کی بجائے درخت پر آ رہ چلا دیا جب آ رہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) پر پہنچا تو اللہ کی وحی آئی اور زکریا سے کہا کیا گیا اگر تم نے کچھ بھی آہ وزاری کی تو یہ سب زمین تہ وبالا کردی جائے گی اور اگر تم نے صبر سے کام لیا تو ہم یہود پر فورا اپنا غضب نازل نہیں کریں گے ، چناچہ سیدنا زکریا (علیہ السلام) نے صبر سے کام لیا اور اف تک نہیں کی ۔ “ اور علاوہ ازیں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے لیکن ہم ایک ہی روایت پر اکتفا کرتے ہیں اور قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ خود اپنی عقل وفکر سے کام لے کر فیصلہ کرلیں کہ گزشتہ واقعات کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے کیا ان کی کوئی حقیقت بھی ہے ؟ یا کم از کم یہ کہ ان کا کوئی فائدہ بھی ہے ‘ جن چیزوں کو قرآن وحدیث میں چھوا تک نہیں گیا ان کے پیچھے لگنے اور ان کی تحقیق وتفتیش کا کوئی فائدہ ؟
Top