Urwatul-Wusqaa - Maryam : 23
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ١ۚ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
فَاَجَآءَهَا : پھر اسے لے آیا الْمَخَاضُ : دردِ زہ اِلٰى : طرف جِذْعِ : جڑ النَّخْلَةِ : کھجور کا درخت قَالَتْ : وہ بولی يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں مِتُّ : مرچکی ہوتی قَبْلَ ھٰذَا : اس سے قبل وَكُنْتُ : اور میں ہوجاتی نَسْيًا مَّنْسِيًّا : بھولی بسری
پھر اسے (یعنی سیّدہ مریم کو) دردِ زہ کھجور کے ایک درخت کے نیچے لے گیا ، تو اس نے (دردِ زہ کے باعث) کہا کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی ، میری ہستی لوگ یک قلم بھول گئے ہوتے
سیدہ مریم (علیہ السلام) کو دردزہ کا آنا اور اس سے اضطراب واضطرار کا ہونا : 23۔ بیت لحم کو جانے والے ابھی راستہ ہی میں تھے یا وہاں سے فارغ ہو کر واپس آرہے تھے یا وہی کسی مقام پر تھے کہ سیدہ مریم (علیہ السلام) کو درد زہ نے آلیا جو عورتوں کو بچہ وضع ہونے سے تھوڑی دیر قبل شروع ہوجاتا ہے ، یہ حالت نہایت ہی اضطراب واضطرار کی ہوتی ہے پھر ایسے موقع پر کوئی عورت اپنے گھر پر بھی موجود نہ ہو بلکہ کسی راستہ کی ایک مسافر ہو اور ایسا وقت آجائے تو دل وجان میں کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ ایک عورت ہی لگا سکتی ہے مراد اس سے آشنا ہی نہیں ۔ یہ نازک حالت جس مقام پر ہوئی اس کی قرآن کریم نے ” ایک کھجور کا درخت “ کہہ کر نشاندہی فرمائی وہ کوئی خاص مقام تھا جہاں جانے کا اشارہ غیبی ہوا یا اتفاقی صورتحال اس طرح قائم ہوگئی ، فرمایا جب وہ درد کے کرب والم میں مبتلا ہوئیں تو فطرت نسوانی کے مطابق آپ کے زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ ” کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی ‘ میری ہستی لوگ یک قلم بھول گئے ہوئے ۔ “ (آیت) ” قالت یلیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا “۔ ہمارے مفسرین کرام نے آیت کے اس ٹکڑے پر جو جو حاشیے تحریر کئے ہیں وہ نہایت ہی عجیب و غریب اور بیحد قابل افسوس ہیں ، ہم نے ان سب کو عمدا ترک کیا ہے کہ ایسی باتیں قلم کو زیب نہیں دیتیں ، ہاں ! ہم اتنا ضرور عرض کریں گے سیدہ مریم (علیہ السلام) کے اس طرح حاملہ ہونے اور پھر درد زہ وغیرہ کے اس تذکرہ کی آخر ضرورت کیا تھی کہ اس کو بیان کیا گیا اور بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ؟ سو گزارش ہے کہ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں تو اس کی وجہ روزروشن سے بھی زیادہ عیاں نظر آئے گی ۔ دراصل یہ مضمون عیسائیوں کے سامنے بیان کیا گیا ہے چونکہ وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ اللہ کا جزء یعنی بیٹا اور تین میں کا ایک مانتے ہیں ان کے سامنے اس طرح ذکر کر کے ان کو بتانا مقصود ہے کہ تم عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس طرح سے کیوں تسلیم کرتے ہو کیا کبھی خدا بھی کسی ماں کے پیٹ میں بطور حمل رہتا ہے اور پھر اس طرح وضع ہوتا ہے جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی ماں مریم کے پیٹ میں رہے اور مریم نے ان کو بہت کرب والم کی حالت میں وضع کیا ؟ کیا خدا کی ماں بھی ہوں ہے ؟ کیا کبھی خدا بھی کھاتا پیتا اور پشاعب وپاخانہ کرتا ہے ؟ تم کیسے لوگ ہو اور تمہاری مت کیوں ماری گئی ہے ؟ ہمارے پیارے رسول محمد رسول اللہ ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کے سامنے جو آپ سے مدینہ منورہ میں الوہیت عیسیٰ ہی پر مناظرہ کی خاطر آئے تھے اسی طرح کے سوالات رکھے تھے اور ہر سوال پر عیسائی خود بخود ” بلی “ ہاں ہاں کہتے جاتے تھے اس مناظرہ کا ذکر ہم نے پیچھے سورة آل عمران کی آیت 46 ‘ 47 کے تحت کردیا ہے ۔ ” عروۃ الوثقی “ جلد دوم ص 179 تا 193 ملاحظہ کریں۔
Top