Urwatul-Wusqaa - Maryam : 24
فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِیًّا
فَنَادٰىهَا : پس اسے آواز دی مِنْ : سے تَحْتِهَآ : اس کے نیچے اَلَّا تَحْزَنِيْ : کہ نہ گھبرا تو قَدْ جَعَلَ : کردیا ہے رَبُّكِ : تیرا رب تَحْتَكِ : تیرے نیچے سَرِيًّا : ایک چشمہ
اس وقت اس فرشتہ نے اس کے نیچے سے پکارا کہ غمگین نہ ہو تیرے پروردگار نے تیرے تلے ایک بڑی ہستی پیدا کردی ہے
سیدہ مریم (علیہ السلام) کو تسلی دی گئی کہ تو ایک بہت بڑی شخصیت کو جنم دے رہی ہے صبر سے کام لے : 24۔ (فنادھا) پس مریم کو کسی نے پکارا (من تحتھا) اس کے نیچے سے ، یہ پکارنے والا کون تھا ؟ مفسرین نے اس کا فاعل تلاش کرنے میں بہت زور لگایا لیکن اتفاق نہ ہوسکا کسی نے اس کو ” صاحب نخلہ “ کہا کسی نے اس سے ” عیسیٰ (علیہ السلام) “ مراد لئے اور کسی نے اس پکارنے والے سے ” فرشتہ “ مراد لیا اور علاوہ ازیں بھی بہت کچھ کہا گیا ۔ اس سے پہلی آیت میں سیدہ مریم (علیہ السلام) کی جو حالت بیان کی گئی وہ ایک فطری چیز تھی اور واضع کے وقت اس طرح کی بات منہ سے نکلنا باعث مذمت نہیں ہے بلکہ عین فطرت کے مطابق ہے لیکن مخاض یعنی درد ذہ خواہ کتنا وقت لے جائے جب وضع کا وقت قریب آتا ہے تو زیادہ دیر نہیں لگتی کہ بچہ وضع ہوجاتا ہے سیدہ مریم (علیہ السلام) کے لئے یہ پہلا موقع تھا جو اور بھی مشکل ہوتا ہے بہرحال اس سے فارغ ہوئیں تو فرستادہ خداوندی نے آواز دی چونکہ مریم (علیہ السلام) ٹیلے پر تھیں ان کو محسوس ہوا کہ کہیں نیچے سے آواز آئی ‘ وہ آواز کیا تھی ؟ اے مریم ! غم گین مت بحمد للہ تیری یہ تکلیف رفع ہوگئی اور تیرے بطن اطہر سے اللہ نے ایک عظیم شخصیت کو پیدا کردیا ۔ (آیت) جعل ربک تحتک سریا “۔ جیسے فلان سری اسے عظیم اور اس طرح کہا جاتا ہے من قوم سراہ ای عظام لیکن چونکہ (سریا) چھوٹی نہر کو بھی کہا جاتا ہے اس لئے اکثر مفسریں نے اس سے مراد نہر یا چشمہ ہی لی ہے لیکن ہمارے خیال میں پہلا مطلب زیادہ واضح ہے کیونکہ محل بیان اس کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ سیدہ کا غم اور اضطراب پانی نہ ملنے کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ وضع حمل کے باعث تھا اور جب اس مرحلہ سے سیدہ بخیر و خوبی گزر گئیں تو تسلی اس معاملہ میں دی جاسکتی تھی کہ صبر کرو جو ہونا تھا وہ ہوچکا اور الحمد للہ ایسا ہی ہوا کہ وہ عظیم شخصیت اللہ نے پیدا فرما دی جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسے نازک موقع پر مریم مریم بالکل اکیلی تھیں اور آپ کے ساتھ کوئی دوسرا فرد نہیں تھا ہرگز نہیں لیکن جس تکلیف میں وہ مبتلا تھیں ظاہر ہے کہ اس میں وہ اکیلی ہی تھیں کوئی دوسرا اس میں شامل نہیں تھا اور نہ ہی اس میں کسی دوسرے کی شمولیت ممکن تھی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ایسی حالت میں جو پاس ہوں وہ اس تکلیف میں کچھ کام آسکتے ہیں قرآن کریم نے اس کو بیان نہیں کیا کیونکہ فرشتہ کی گفتگو سیدہ مریم (علیہ السلام) تک ہی محدود تھی دوسرے اس سے بالکل بیخبر تھے ۔
Top