Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Maryam : 29
فَاَشَارَتْ اِلَیْهِ١ؕ قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا
فَاَشَارَتْ
: تو مریم نے اشارہ کیا
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
قَالُوْا
: وہ بولے
كَيْفَ نُكَلِّمُ
: کیسے ہم بات کریں
مَنْ كَانَ
: جو ہے
فِي الْمَهْدِ
: گہوارہ میں
صَبِيًّا
: بچہ
اس پر مریم نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا (جو آٹھ دس برس کا تھا) لوگوں نے کہا ، بھلا اس سے ہم کیا بات کریں جو ابھی گود میں بیٹھنے والا بچہ ہے
قوم کی سخت سست باتیں سننے کے بعدسیدہ مریم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا : 29۔ سیدہ مریم (علیہ السلام) نے قوم کے بزرگوں اور سربرآوردہ لوگوں کی سخت سست باتوں کو بڑے ٹھنڈے دل سے سنا اور قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق خود چپ رہیں اور اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ اس سے بات کرو ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ قوم کے لوگوں نے اس کی گستاخیوں کی شکایت کی تھی جو فی الواقعہ گستاخیاں نہیں تھیں بلکہ سچی اور کھری باتیں تھیں لیکن چونکہ قوم کے رسم و رواج کے خلاف تھیں اسی لئے انہوں نے ان باتوں کو گستاخی کی باتیں قرار دیا ۔ محاروہ ہے کہ ” عاقل را اشارہ کافی است “ سیدہ مریم (علیہ السلام) مریم نے بیٹے کی طرف اشارہ کرکے ساری بات واضھ کردی لیکن ہمارے علمائے کرام اور مفسرین عظام نے اس کو سمجھنے کی کوشش نہ کی ان کے ذہن و دماغ میں وہ دودھ پیتا بچہ ہی رچا بسا ہوا تھا ورنہ بات تو ہر لحاظ سے واضح تھی کہ جب بچہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ جس کے متعلق تم مجھ سے باتیں کر رہے ہو اور ان باتوں کا جواب بھی تم کو وہی دے گا ۔ وہ تو اس بچے کے سوال و جواب پہلے سن چکے تھے اور اپنے سوالوں کے کھرے کھرے جواب پا کر اور اس کے سوالوں کو جواب نہ دے کر اپنی اہانت محسوس کر رہے تھے ، گویا دوسرے لفظوں میں اس نے تنگ آکر اس کی طرف سے منہ موڑ کر اس کی ماں مریم کو مخاطب کیا تھا اور اپنا سارا غصہ اس پر نکالنے کی کوشش کی تھی لیکن جب مریم نے پھر اس کی طرف اشارہ کیا تو گویا اس کے اشارہ نے ان کے لئے جلتی پر تیل کا کام کیا اور وہ سرپیٹ کر رہ گئے ، انہوں نے کہا مریم ! تو بھی ہمارے ساتھ مذاق کرتی ہے وہ ابھی کل کا بچہ ہے اس کی باتوں سے تنگ آکر ہم نے تیرے ساتھ بات کی ہے اور تو پھر ہمیں اس کی طرف مراجعت کا اشارہ کرتی ہے تیری موجودگی میں ہم اس سے بات کیوں کریں ؟ اس کو سمجھانا تیرا کام ہے یا ہمارا ؟ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ تاریخی شہادتوں سے بھی یہ بات ثابت ہے اور انجیل میں بھی بڑی وضاحت سے موجود ہے اور مفسرین اسلام نے بھی اسے قبول کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جب قوم کے پاس آئے یا لائے گئے تو اس وقت آپ کی عمر بارہ سال سے زائد تھی اور مصر سے واپسی پر پہلی بار عیسیٰ (علیہ السلام) یروشلم لائے گئے تھے کہ آپ نے لوگوں سے اس طرح کی گفتگو کی جس سے قوم کے بڑے بوڑھے دنگ رہ گئے اور آپ کی باتوں اور سوالوں کا جواب نہ دے سکے اور اس کے بعد مسلسل وہ اپنی قوم ہی میں رہے یعنی ناصرہ اور اتنی چھوٹی عمر ہی میں وہ قوم کو رسم و رواج سے روکتے اور ان کی بداعتدالیوں پر ان کو سخت نادم کرتے تھے ‘ قوم کے فقیہوں اور فریسیوں کے پاس آپ کی باتوں کا جواب تو بن نہ آتا ہے لیکن وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہ تھے کہ اس لڑکے کی باتوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے اس کے عوض میں وہ مریم اور ان کے دوسرے اہل خانہ کو پریشان کرتے کہ اس لڑکے کو ایسی باتیں کرنے سے باز رکھیں عیسیٰ (علیہ السلام) تو خیر ابھی عمر میں بھی چھوٹے تھے لیکن ہمارے نبی کریم ﷺ نے چالیس سال کی عمر میں بعثت و رسالت کا اعلان کیا اور اس اعلان کو بھی پانچ چھ سال گزر چکے تھے کہ قریش کے لوگ ابو طالب کے پاس آئے اور کہا کہ یہ لڑکا تمہارے خاندان کا ہے کل تک اس کے اخلاق و اعمال بہت اچھے تھے لیکن اب معلوم نہیں اس کو کیا ہوگیا اس کو ایسی باتوں سے باز کرو ورنہ اس کا نتیجہ صحیح نہیں رہے گا ‘ چناچہ تاریخ میں ہے کہ : ” جب نبی اعظم وآخر ﷺ نے اعلان دعوت کیا اور بت پرستی کی اعلانیہ مذمت شروع کی تو قریش کے چند معزز لوگوں نے آکر ابو طالب سے شکایت کی ‘ ابو طالب نے نرمی سے سمجھا کر خاندان والوں کو رخصت کردیا لیکن چونکہ بنائے نزاع قائم تھی یعنی نبی کریم ﷺ بھی ادائے فرض سے باز نہ آسکتے تھے اس لئے یہ سفارت دوبارہ ابوطالب کے پاس آئی اس میں تمام رؤسائے قریش یعنی عتبہ بن ربیعہ ‘ شیبہ ‘ ابو سفیان ‘ عاص بن ہشام ‘ عمرو بن ہشام یعنی ابوجہل ‘ ولید بن مغیرہ ‘ عاص بن وائل وغیرہ شریک تھے ، ان لوگوں نے ابوطالب سے کہا کہ تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہے ہمارے آباء و اجداد کو گمراہ کہتا ہے ہم کو احمق ٹھہراتا ہے اس لئے یا تو تم بیچ سے ہٹ جاؤ تم بھی میدان میں آؤ کہ ہم دونوں میں سے ایک کا فیصلہ ہوجائے ‘ ‘۔ (ابن ہشام ج اول ص 89 اور امام بخاری (رح) نے بھی تاریخ میں یہ واقعہ مختصر نقل کیا ہے) سیدہ مریم (علیہ السلام) تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ تھیں اور اپنے خاندان میں سے اس وقت آپ ہی سب سے زیادہ معزز اور باوقار گنی جاتی تھیں یعنی خاندان عمران میں سے اور کوئی ان کے پائے کا انسان موجود نہیں تھا اس لئے قوم کے لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی بجائے اگر سیدہ مریم (علیہ السلام) کو مخاطب کیا ہے تو اس میں آخر تعجب کی کیا بات ہے ؟ پھر سیدہ مریم (علیہ السلام) نے اگر عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا ہے تو وہ محض اس وجہ سے تھا کہ وہ سمجھتی تھیں کہ جو کچھ میرا بیٹا کہتا ہے بات وہی صحیح ہے قوم کے لوگوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے لیکن اگر وہ اصلاح نہیں کرنا چاہتے تو آخر میں ایک صحیح بات کرنے والے کو کیوں منع کروں کہ تو قوم سے سچی بات کرنے سے باز آجا ، جیسا کہ ہم نے اوپر نبی اعظم وآخر ﷺ کا واقعہ درج کیا ہے کہ خاندان قریش کے لوگ جب ابو طالب سے جو کچھ کہنا تھا کہہ کر چلے گئے تو ابو طالب نے بھی بھتیجے سے کہا کہ ” جان عم ! میرے اوپر اتنا بار نہ ڈال کہ میں اٹھا نہ سکوں “ رسول اللہ ﷺ کی ظاہری پشت پناہ جو کچھ تھے ابوطالب ہی تھے آپ نے دیکھا کہ اب چچا کے پائے ثبات بھی لغزش کھا رہے ہیں تو آپ ﷺ نے آبدیدہ ہو کر فرمایا چچا ! ” خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہ آؤں گا ‘ خدا اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود اس پر نثار ہوجاؤں گا ۔ “ آپ کی پر اثر آواز نے ابو طالب کو متاثر کیا اور اس نے بھتیجے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ سے کہا جا بیٹا ! کوئی شخص تیرا بال بیکا نہیں کرسکتا ۔ “ (ابن ہشام) لیکن ادھر سیدہ مریم (علیہ السلام) تھیں انہوں نے مختصر بات کہی اور اس اختصار میں قوم سے وہ کچھ کہہ دیا جو کچھ اس سلسلہ میں کہا جاسکتا تھا کہ جاؤ جو تم کرنا چاہتے ہو کرو ، جس بچے نے تم سے باتیں کی ہیں وہ باتیں یقینا اس کی نہیں ہیں بلکہ اس سے اللہ ہی نے کروائی ہیں تو اب بھی اس سے بات کرو تمہاری بات کا جواب بھی اللہ کے حکم سے وہ بالکل سیدھا اور صاف دے گا ، قرآن کریم نے اتنے تفصیلی مضمون کو چند لفظوں میں بیان کردیا اور یہی وہ اعجاز قرآنی ہے جو دوسری جگہ نہیں مل سکتا فرمایا مریم نے قوم کے لوگوں کی ساری تقریر سنی اور اچھی طرح سن لینے کے بعد بڑے پروقار طریقہ سے (آیت) ” فاشارت الیہ “ عیسیٰ علہر السلام ہی کی طرف بات کرنے کا لوگوں کو اشارہ دیا اور لوگوں نے آپ کے اشارہ کا جواب بھی فورا سنا دیا کہ (آیت) ” کیف نکلم من کان فی المھد صبیا “ ہم اس سے کیونکر بات کریں جو ایکم سن بچہ ہے اس سے ہمارے مفسرین نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایک دودھ پیتا بچہ مراد لیا ہے حالانکہ ہم پیچھے سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے ذکر میں وضاحت کر آئے ہیں کہ (صبیا) کا مطلب ومفہوم دودھ پیتا بچہ نہیں بلکہ ایک نوعمر جوان ہے اور (آیت) ” ییحی خذ الکتب بقوۃ واتینہ الحکم صبیاہ “۔ میں ہمارے تمام مفسرین نے ایک نوعمر جوان ہی مراد لیا ہے اور بعض نے آپ کی عمر اس وقت تیس سال تسلیم کی ہے ، پھر یہی سورت ، بالکل ایک ہی طرح کے حالات ، ایک ہی طرح کے نام ‘ ایک ہی طرح کا کام اور ایک ہی زمانہ پھر ایک ہی جیسے الفاظ سے ایک جگہ تیس سالہ جوان مراد لینا اور دوسرے کو دودھ پیتا بچہ قرار دینا کہاں کا انصاف ہے ، اور کہاں کی دیانت وامانت ، معجزات کے شیدائیوں نے اتنا بھی نہ سمجھا کہ ہم بےسروپا باتیں کرکے جس طرح عیسائیوں کی ترجمانی کر رہے ہیں اور وہی باتیں جو انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ ‘ اللہ کا بیٹا اور اللہ کا تیسرا حصہ بنانے کے لئے کہی ہیں ہم ان سب کو کسی طرح سادگی سے تسلیم کر رہے ہیں اور قوم کے عوام سے تسلیم کروا رہے ہیں ، یہ اسلام کی خدمت ہے یا عیسائیت تعاون ؟ اس کے بعد سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی قرآن کریم نے وہ تقریر نقل کی ہے جو انہوں نے نبی ہونے کے بعد اپنی قوم کے سامنے کی گویا آیت 29 کے مضمون کے بعد ایک عرصہ گزر گیا اور درمیانی عرصہ کے حالات کو بیان کرنے کی ضرورت نہ سمجھتے ہوئے چھوڑ دیا گیا جیسا کہ پیچھے یحییٰ (علیہ السلام) کے ذکر میں آپ تفصیل کے ساتھ پڑھ آئے ۔ وہاں زکریا علہ السلام کو بیٹے کی بشارت دینے کے بعد ایک عرصہ کے حالات کو چھوڑ کر آپ کی نبوت سے آپ کا قصہ بیان کرنا شروع کیا تھا کیونکہ درمیانی عرصہ کے حالات کا ذکر کرنا ضروری نہیں تھا اور یہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات میں بھی یہی صورت پیش آئی لیکن افسوس کہ ہمارے علمائے کرام اور مفسرین عظام نے یہاں بھی بات کو واضح نہ کیا گویا وہ عیسائیوں کے چرکے میں آگئے اور دو دو چار روٹیوں ولی بات کردی یا ہل لمبی ڈال گئے ۔ سیدہ مریم (علیہ السلام) کا مختصر تذکرہ : سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کی نسل سے عمران بن ناشی اور اس کی بیوی حنہ بنت فاقوذ نیک نفس انسان تھے اور نہایت ہی پارسائی کی زندگی بسر کرتے تھے مگر بےاولاد تھے ، ایک مدت مدید کے بعد جن حالات میں اکثر لوگ مایوس ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے سیدہ حنہ کو امید لگائی جب وہ حاملہ ہوگئیں تو اس بڑھاپے میں بھی ان کو ای ہی بات سے محبت تھی کہ اے اللہ ! میں نے اس حمل کو تیرے گھر بیت المقدس کے نام پر وقف کیا کہ میری یہ اولاد تیرے گھر کی خدمت کرے گی جب حنہ نے حمل وضع کیا تو ان کو کہنا پڑا کہ (آیت) ” رب انی وضعتھا انثی “ کہ اے اللہ میں نے تو لڑکی جنی ہے ، بشر بن اسحاق کہتے ہیں کہ حنہ ابھی حاملہ ہی تھیں کہ ان کے شوہر عمران کا انتقال ہوگا ۔ (فتح الباری ج 6 ص 364) لیکن اوپر ہم بیان کر آئے ہیں کہ بعض لوگوں نے مریم کے حقیقی بھائی ہونے کا بھی ذکر کیا ہے ، اگر وہ بات صحیح ہے تو عمران کا انتقال کا یہ بھی صحیح نہیں ۔ بہرحال جہاں تک اولاد کا تعلق ہے حنہ کے لئے یہ لڑکی بھی لڑکے سے کم نہ تھی مگر ان کو یہ افسوس ضرور ہوا کہ میں نے جو نذر مانی تھی وہ شاید پوری نہ ہو سکے گی کیونکہ یہ لڑکی کس طرح مقدس ہیکل کی خدمت کرسکے گی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے افسوس کو یہ کہہ کر بدل دیا کہ ” ہم نے تیری لڑکی کو ہی قبول کیا اور اس کی وجہ سے تمہارا خاندان بھی پہلے سے زیادہ معزز اور مبارک قرار پائے گا ، حنہ نے لڑکی کا نام مریم رکھا یہ نام خود اللہ تعالیٰ ہی نے تجویز فرمایا اور حنہ کے دل میں القا کردیا کیونکہ سریانی زبانی میں اس کے معنی ” خادم “ کے ہیں چونکہ یہ ہیکل کی خدمت کے لئے وقف کردی گئی تھی اس لئے یہ نام موزوں سمجھا گیا ۔ سیدہ مریم ؓ جب کچھ شعور کو پہنچیں اور یہ سوال پیدا ہوا کہ مقدس ہیکل کی یہ امانت کس کے سپرد کی جائے تو کاہنوں میں سے ہر ایک نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اس مقدس امانت کا کفیل مجھ کو بنایا جائے لیکن اس امانت کی نگرانی کا اہل زکریا (علیہ السلام) کے سوا اور کوئی نہ تھا اس لئے کہ وہ مریم ؓ کی خالہ ایشاع کے شوہر بھی تھے اور مقدس ہیکل کے معزز کاہن اور خدائے برتر کے نبی بھی تھے اس لئے سب سے پہلے انہوں نے ہی اپنا نام پیش کیا مگر جب سب کاہنوں نے اپنا نام پیش کیا اور باہمی کشمکش کا اندیشہ ہونے لگا تو آپس میں طے پایا کہ قرعہ اندازی کے ذریعہ اس کا فیصلہ کرلیا جائے اور بقول روایت بنی اسرائیل تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی مگر ہر بار قرعہ میں نام زکریا (علیہ السلام) ہی کا نکلتا رہا ، کاہنوں نے جب یہ دیکھا کہ اس معاملہ میں زکریا (علیہ السلام) کے ساتھ تائید غیبی ہے تو انہوں نے بخوشی اس فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور اس طرح یہ ” سعید امانت “ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے سپرد کردی گئی ۔ کہا جاتا ہے کہ سیدہ مریم ؓ کی کفالت کا یہ معاملہ اس لئے پیش آیا کہ وہ یتیم تھیں اور مردوں میں سے کوئی انکا کفیل نہیں تھا اور بعض کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں قحط کا بہت زور تھا اس لئے کفالت کا سوال پیدا ہوا لیکن ان دونوں باتوں میں سے اگر ایک بھی نہ ہوتی تب بھی کفالت کا سوال اپنی جگہ باقی رہتا اس لئے کہ سیدہ مریم ؓ اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ” نذرہیکل “ ہوچکی تھیں اور چونکہ لڑکی تھیں اس لئے از بس ضروری تھا کہ وہ کسی مرد نیک کی کفالت میں اس خدمت کو انجام دیتیں ، مختصر یہ کہ زکریا (علیہ السلام) نے سیدہ مریم ؓ کے صنفی احترامات کا لحاظ رکھتے ہوئے ہیکل کے قریب ایک حجرہ ان کے لئے مخصوص کردیا تاکہ وہ دن میں وہاں رہ کر عبادت الہی سے بہرہ ور ہوں اور جب رات آتی تو ان کو اپنے مکان پر ان کی خالہ ایشاع کے پاس لے جاتے اور وہیں شب بسر کرتیں ۔ (روح المعانی سورة آل عمران) ابن کیرا فرماتے ہیں کہ جمہور کا قول یہ ہے کہ ایشاع سیدہ مریم ؓ کی ہمشیرہ تھیں اور حدیث معراج میں نبی اکرم ﷺ نے عیسیٰ اور یحییٰ (علیہما السلام) کے متعلق فرمایا ہے کہ ” وھما ابنا خالہ “ اس لئے آپ ﷺ نے جو رشتہ ظاہر فرمایا ہے اس سے بھی جمہور کے قول کی تائید ہوتی ہے لیکن اگر جمہور کا یہ قول ہے تو بھی قرآن کریم اور تاریخ دونوں کے خلاف ہے اس لئے کہ قرآن کریم نے سیدہ مریم ؓ کی ولادت کے واقعہ کو جس اسلوب کے ساتھ بیا کیا ہے وہ صاف بتا رہا ہے کہ عمران اور حنہ مریم ؓ کے ولادت سے قبل اولاد سے قطعا محروم تھے یہی وجہ ہے کہ حنہ نے مریم ؓ کی پیدائش کے وقت یہ نہیں فرمایا کہ خدایا میرے تو پہلے بھی ایک بچی تھی تو اب تو نے دوبارہ لڑکی ہی عطا فرمائی بلکہ درگاہ الہی میں یہ عرض کیا کہ جس شخص میں میری دعا تو نے قبول فرمائی ہے اس کو حسب وعدہ تیری نذر کیسے کروں ؟ نیز توراۃ اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی کہیں یہ ثابت نہیں ہے کہ عمران اور حنہ کے ہاں سیدہ مریم ؓ کے ماسوا کوئی اور اولاد بھی تھی بلکہ اس کے برعکس تاریخ یہود اور اسرائیلیات کا مشہور قول یہی ہے کہ ایشاع مریم ؓ کی خالہ تھیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہور کی طرف منسوب یہ قول صرف حدیث معراج کے مسطورہ بالا جملہ کے پیش نظر ظہور میں آیا ہے حالانکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ” وھما ابناخالہ “ مجاز متعارف کی شکل میں ہے یعنی آپ ﷺ نے یہ طریق توسع والدہ کی خالہ کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی خالہ فرمایا ہے اور اس طرح کا توسع فی الواقعہ بول چال میں عام ہے کہ ایک کو میں بھی خالہ کہتا ہوں اور میرا بیٹا بھی خالہ ہی کہتا ہے ۔ اور ابن کثیر (رح) کا اس کو جمہور کا قول کہنا بھی محل نظر ہے اس لئے محمد بن اسحاق ‘ اسحاق بن بشر ‘ ابن عساکر ‘ ابن جریر ‘ ابن حجر رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے جلیل القدر اصحاب حدیث وسیر کا رجحان اس جانب ہے کہ ایشاع حنہ کی ہمشیرہ اور سیدہ مریم ؓ کی خالہ ہیں حنہ کی بیٹی نہیں ۔ سیدہ مریم ؓ شب وروز عبادت الہی میں رہتیں اور جب خدمت ہیکل کے لئے ان کی نوبت آتی تو اس کو بھی بخوبی انجام دیتی تھیں حتی کہ ان کا زہد وتقوی بنی اسرائیل میں ضرب المثل بن گیا اور ان کی زہادتے و عبادت کی مثالیں دی جانے لگیں ، زکریا (علیہ السلام) مریم کی ضروری نگہداشت کے سلسلہ میں کبھی کبھار ان کے حجرہ میں بھی تشریف لے جاتے اور ان کو یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوتا کہ سیدہ مریم ؓ کے پاس مختلف پھل اور اشیاء ضرورت کی فراوانی ہوتی اور زکریا (علیہ السلام) کبھی کبھی پوچھ بھی لیا کرتے کہ ماشاء اللہ اتنا کچھ آپ کے پاس کہاں سے آتا ہے ؟ اور بلاشبہ یہ تربیت کے امتحان کی بات ہے تو مریم فورا بولتیں اور کہہ دیتیں کہ (ھذا من عنداللہ) کہ یہ سب کچھ میرے رب ذوالجلال والاکرام کا فضل و کرم ہے اور ظاہر ہے کہ وہ جس کو چاہتا بےوہم و گمان رزق پہنچا دیتا ہے ، زکریا (علیہ السلام) یہ جملہ سنتے تو بہت خوش ہوتے اور سمجھتے کہ مریم کا مقام بہت بلند وارفع ہے اور آپ کے دل کے اندر گہرائی میں یہ بات اتر جاتی اور فطری تقاضا کے مطابق آپ کے دل میں یہ سوال پیدا ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ اگر اس طرح کی اولاد مجھے بھی عطا فرما دیتا تو اس کے خزانہ میں آخر کمی کیا تھی ؟ اور یہ بات فطری ہے کہ انسان کے اندر جو کمزوری ہوتی ہے اس کا اظہار اس کی زبان پر آہی جاتا ہے ۔ زکریا (علیہ السلام) کے ہاں چونکہ اولاد نہیں تھی اس لئے ایک مرتبہ انہوں نے اس جگہ پہنچ کر بارگاہ ایزدی میں ہاتھ اٹھادئے کہ اے احکم الحاکمین اگر میرے لئے بھی کسی وارث کا انتظام فرما دیجئے اور اولاد نرینہ عطا فرما دیجئے جو میری اور یعقوب کے گھرانے کی ذمہ داریوں کو پورا کرے اور میرے اور یعقوب کے گھرانے کا وارث ہو تو آخر تیرے خزانے میں کمی کیا آئے گی ؟ اے اللہ میری دعا کو شرف قبولیت بخش دیجئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو اپنے وقت پر جب چاہا قبولیت بخش دی اور یحییٰ (علیہ السلام) جیسا فرزند عطا کیا۔ سیدہ مریم ؓ اس طرح ایک عرصہ تک اپنے مقصدس مشاغل کے ساتھ پاک زندگی بسر کرتی رہیں اور مقدس ہیکل کے سب سے مقدس مجاور حضرت زکریا (علیہ السلام) بھی ان کے زہد وتقوی سے متاثر تھے لیکن اب ان کی عمر کا تقاضا تھا کہ ان کو اس کفالت سے نکال کر ایک دوسری کفالت میں دے دیا جائے جو فطرت انسانی کے مطابق عورت کو والدین کی کفالت سے نکال کر ازدواجی کفالت میں منسلک کردینا لازم وضروری ہے ۔ زکریا (علیہ السلام) نے بھی اپنا فرض ادا کردیا اور سیدہ مریم ؓ کو اس کے حقیق چچا زاد یوسف نجار کے ساتھ نکاح کردیا جو ایک نہایت ہی پاکباز اور پارسا انسان تھا اور رشتہ داری میں بالکل قریب کا تعلق اس کے ساتھ موجود تھا لوگوں نے اس نکاح کی سخت مخالف کی کیونکہ ان کے خیال کے مطابق منذورہ ہونے کے باعث اس کو شادی منع تھی اس بات سے یوسف بھی بہت گھبرایا اور انجام کار ان کو بیت المقدس چھوڑ کر کیی دوسری طرف کو جانا پڑا ، قرآن کریم نے اس کو مشرق کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم ؓ کی عظمت و جلالت قدر کو اور زیادہ بلند کیا اور فرشتوں کے ذریعہ ان کو برگزیدہ بارگار الہی ہونے کی بشارت سنائی ، چناچہ ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَۃُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللّہَ اصْطَفَاکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلَی نِسَاء الْعَالَمِیْنَ (42) یَا مَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ (43) (آل عمران 3 : 42 ، 43) ” اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ فرشتوں نے کہا تھا اے مریم ! اللہ تعالیٰ تجھے اپنی قبولیت کے لئے چن لیا ہے اور برائیوں کی آلودگیوں سے پاک کردیا ہے اور تمام دنیا کی موجودہ عورتوں پر برگزیدگی عطا فرمائی ہے ، اے مریم ! اب تو اپنے پروردگار کی اطاعت ونیاز میں سرگرم ہوجا اور رکوع و سجود کرنے والوں کے ساتھ تو بھی رکوع و سجود میں مشغول ہہ ۔ “ اس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دیئے گئے الزامات سے مریم کو بری الذمہ قرار دیا اور ساتھ ہی ساتھ ان کی دلجوئی بھی فرما دی کہ لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم رکھنا کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہو بہرحال ان کو قائم رکھنا ہی بہادری اور برگزیدگی کی علامت ہے اور جس قدر حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کی قدروقیمت اتنی بڑھتی چلی جاتی ہے اس طرح جتنی زور دار آندھیاں چلتی ہیں اتنا ہی انسان بلند سے بلند تر اور بلند ترین مقامات کی طرف اڑتا چلا جاتا ہے ۔ تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے : دنیا میں عورتوں کی کوئی کمی نہ تھی لیکن منذورہ ہونے کا شرف کسی اور عورت کو کب ملا ؟ پھر یہ کہ منذورہ ہونے کا شرف کیوں ملا ؟ اس لئے کہ وہ ان بدرسوم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے اور تن تنہا وہ کام کر دکھائے جو اس وقت دنیا کا کوئی بہادر سے بہادر انسان بھی نہ کر پایا ، اس طرح اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی پارسائی اور برگزیدگی کا اس طرح اعلان کردیا کہ جب تک دنیا کا نظام قائم ہے ان کا تذکرہ جاری وساری رہے گا اور ان کی برگزیدگی کی قسمیں کھائی جائیں گی ۔ اتنے نازک حالات میں جو اس وقت اس بدرسم کے توڑنے سے پیدا ہوگئے تھے من جانب اللہ تعالیٰ ان کی تقدیس وتطہیر کا یہ اعلان بلاشبہ حق بہ حق دار رسید کا مصداق ہے تاہم علمی اور تاریخی اعتبار سے بلکہ خود قرآن کریم اور حدیث شریف کے مفہوم کے لحاظ سے یہ مسئلہ قابل توجہ ہے کہ آیت (واصطفاک علی نسآء العلمین) کی مراد کیا ہے اور کیا درحقیقت سیدہ مریم ؓ کو بغیر کسی استثناء کے کائنات کی تمام عورتوں پر برتری اور فضیلت حاصل ہے اور پھر صرف یہی نہیں بلکہ اس آیت فضیلت نے مریم کی ذات سے متعلق علمائے سلف میں چند اہم مسائل کو زیر بحث بنا دیا ہے مثلا یہ کہ عورت نبی ہو سکتی ہے ؟ کیا سیدہ مریم ؓ نبی تھیں ؟ اگر نبی نہیں تھیں تو آیت کے جملہ بالا کا مطلب کیا ہے ؟ 1۔ کیا عورت نبی ہو سکتی ہے ؟ زیر بحث سوالوں میں پہلا سوال ہے اور اس کے متعلق عرض ہے کہ محمد بن اسحاق (رح) شیخ ابو الحسن اشعری (رح) قرطبی (رح) ‘ ابن حزم (رح) اس جانب مائل ہیں کہ عورت نبی ہوسکتی ہے بلکہ امام ابن حزم (رح) تو یہ دعوی کرتے ہیں کہ سیدہ حوا ‘ سیدہ سارہ ‘ سیدہ ہاجرہ ‘ سیدہ ام موسیٰ ‘ سیدہ آسیہ ‘ اور سیدہ مریم علیھن السلام سب نبی تھیں اور محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ اکثر فقہاء اس کے قائل ہیں کہ عورت نبی ہو سکتی ہے اور قرطبی فرماتے ہیں کہ سیدہ مریم ؓ نبی تھیں ، لیکن اس کے برعکس خواجہ حسن بصری ‘ امام الحرمین ‘ شیخ عبدالعزیز اور قاضی عیاض رحمہم اللہ کا رجحان اس جانب ہے کہ عورت نبی نہیں ہوسکتی اور اس لئے سیدہ مریم ؓ بھی نبی نہیں تھیں ، قاضی اور ابن کثیر یہ بھی کہتے ہیں جمہور کا مسلک یہی ہے اور امام الحرمین تو اجماع تک کا دعوی کرتے ہیں ، جو علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ عورت نبی نہیں ہو سکتی وہ اپنی دلیل میں اس آیت کو پیش کرتے ہیں (آیت) ” وما ارسلنک من قبلک الا رجالا نوحی الیھم “۔ (النحل 16 : 43) ” اور تم سے پہلے ہم نے نہیں بھیجے مگر مرد کہ وحی بھیجتے رہے ہم ان کی طرف “ اور پھر خصوصیت کے ساتھ سیدہ مریم ؓ کی نبوت کے انکار پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے ان کو ” صدیقہ “ کہا ہے جیسا کہ سورة المائدہ میں ہے ۔ (آیت) ” ما المسیح بن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل وامہ صدیقہ “۔ (المائدہ 5 : 75) ” ابن مریم کیا ہیں ؟ ایک رسول ہی تو ہیں جن سے پہلے اور بھی گزر چکے اور ان کی والدہ مریم صدیقہ تھیں “۔ اور سورة النساء کی آیت 69 میں قرآن کریم نے (انعم اللہ علیھم) کی جو فہرست دی ہے وہ اس کے لئے نص قطعی ہے کہ ” صدیقیت “ کا درجہ نبوت سے کم اور نازل ہے ۔ اور جو حضرات عورت کے نبی ہونے کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے سیدہ سارہ ‘ سیدہ ہاجرہ ‘ سیدہ ام موسیٰ اور سیدہ مریم علیھن السلام کے متعلق جن واقعات کا اظہار کیا ہے ان میں بصراحت موجود ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی فرشتے وحی لے کر نازل ہوئے اور ان کو منجانب اللہ بشارات سے سرفراز فرمایا اور ان تک اپنی معرفت عبادت کا حکم پہنچایا ، چناچہ سیدہ سارہ کے لئے سورة ہود اور سورة الزاریات اور ام موسیٰ کے لئے سورة قصص میں اور سیدہ مریم ؓ کے لئے ال عمران اور سورة مریم میں بواسطہ ملائکہ اور بلاواسطہ خطاب الہی موجود ہے اور ظاہر ہے کہ ان مقامات پر وحی کے لغوی معنی وجدانی ہدایت یا مخفی اشارہ کے بھی نہیں ہیں جیسا کہ آیت (آیت) ” واوحی ربک الی النحل “۔ میں شہد کی مکھی کے لئے وحی کا اطلاق کیا گیا ہے جس طریقہ پر دیگر انبیاء اور رسل کا تذکرہ کیا ہے مثلا (واذکر فی الکتب موسی) (واذکر فی الکتب ادریس) (واذکر فی الکتب اسمعیل) (واذکر فی الکتب ابراھیم) (واذکر فی الکتب مریم) یا مثلا یہ کہ (وارسلنا الیھا روحنا) ہم نے مریم کی جانب اپنے فرشتہ جبریل کو بھیجا اور اس طرح سورة آل عمران میں سیدہ مریم (علیہ السلام) کو ملائکہ اللہ نے جسطرح اللہ کی طرف سے پیغامبر بن کر خطاب کیا وہ بھی اس دعوی کی واضح دلیل ہے ، رہا مریم کا ” صدیقہ “ ہونے سے متعلق سوال تو اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآن کریم نے مریم کو صدیقہ کہا ہے تو یہ لقب ان کی شان نبوت کے اس طرح منافی نہیں ہے جس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کے مسلم نبی ہونے کے باوجود آیت (یوسف ایھا الصدیق ) میں ان کا صدیق ہونا ان کے نبی ہونے کے مانع نہیں ہے بلکہ یہ ذکر تو مقامی خصوصیت کی بنا پر مذکور ہے اور یہ بھی کہ ہر نبی صدیق ہوتا ہے اگر اس کا عکس ضروری نہیں یعنی ہر صدیق کا نبی ہونا ضروری نہیں ۔ ان علمائے اسلام کی ترجمانی جس تفصیل کے ساتھ کتاب الفصل میں مشہور محدث الامام ابن حزم (رح) نے کی ہے اس تفصیل وقوت کے ساتھ شاید کسی دوسری جگہ موجود نہ ہو اس لئے سطور ذلی میں ان مضمون کا ترجمہ دیا جاتا ہے تاکہ قارئین اس کا مطالبہ کرسکیں ۔ نبوۃ النساء : اور ابن حزم : یہ فصل ایسے مسئلہ کے متعلق ہے جس پر ہمارے زمانہ میں قرطبہ (اندلس) میں شدید اختلاف بپا ہوا ‘ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورت نبی نہیں ہوسکتی اور جو ایسا کہتا ہے کہ عورت نبی ہو سکتی ہے وہ ایک نئی بدعت ایجاد کرتا ہے اور دوسری جماعت قائل ہے کہ عورت نبی ہو سکتی ہے اور نبی ہوئی ہیں اور ان دونوں سے الگ تیسری جماعت کا مسلک توقف ہے اور وہ اثبات ونفی دونوں باتوں میں سکوت کو پسند کرتے ہیں مگر جو حضرات عورت سے متعلق منصب نبوت کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس اس انکار کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی البتہ بعض حضرات نے اپنے اختلاف کی بنیاد اس آیت کو بنایا ہے (آیت) ” وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم “۔ میں کہتا ہوں کہ اس بارہ میں کس کو اختلاف ہے اور کس نے یہ دعوی کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عورت کو ہدایت خلق کے لئے رسول بنا کر بھیجتا ہے یا اس نے کسی عورت کو ” رسول “ بنایا ہے ‘ بحث رسالت کے مسئلہ میں نہیں ہے بلکہ نبوت میں ہے ‘ پس طلب حق کے لئے ضروری ہے کہ اول یہ غور کیا جائے کہ لغت عرب میں لفظ ” نبوت “ کے کیا معنی ہیں ؟ تو ہم اس لفظ کو ” انباء “ سے ماخوذ پاتے ہیں جس کے معنی ” اطلاع دینا “ ہیں پس نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ کسی معاملہ کے ہونے سے قبل بذریعہ وحی اطلاع دے یا کسی بھی بات کے لئے اس کی جانب وحی نازل فرمائے وہ شخص مذہبی اصلاح میں بلاشبہ ” نبی “ ہے ۔ آپ اس مقام پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وحی کے معنی اس الہام کے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کی سرشت میں ودیعت کردیا ہے جیسا کہ شہید کی مکھی کے متعلق خدائے برحق کا ارشاد ہے ۔ (آیت) ” واوحی ربک الی النحل “۔ اور نہ وحی کے معنی ظن اور وہم کے لے سکتے ہیں اس لئے کہ ان دونوں کو ” علم یقین “ سمجھنا (جو وحی کا قدرتی نتیجہ ہے) مجنوں کے سوا اور کسی کا کام نہیں ہے اور نہ یہاں وہ معنی مراد ہو سکتے ہیں جو ” باب کہا نہ “ سے تعلق رکھتے ہیں (یعنی یہ کہ شیاطین ‘ آسمانی باتوں کو سننے اور چرانے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان پر شہاب ثاقب کے ذریعہ رجم کیا جاتا ہے ) اور جس کے متعلق قرآن یہ کہتا ہے (آیت) ” شیطین الجن والانس یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا) کیونکہ یہ ” باب کہا نہ “ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت کے وقت سے مسدود ہوگیا اور نہ اس جگہ وحی کے معنی نجوم کے تجربات علمیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو خود انسانوں کے باہم سیکھنے سکھانے سے حاصل ہوجایا کرتے ہیں اور نہ اس کے معنی اس کے رویا (خواب) کے ہو سکتے ہیں جن کے سچ یا جھوٹ ہونے کا کوئی علم نہیں ہے بلکہ ان تمام معانی سے جدا ” وحی بمعنی نبوۃ “ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے قصد و ارادہ سے ایک شخص کو ایسے امور کی اطلاع دے جن کو وہ پہلے سے نہیں جانتا اور مسطورہ بالا ذرائع علم سے الگ یہ امور حقیقت ثابتہ بن کر اس شخص پر اس طرح منکشف ہوجائیں گویا آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اس علم خاص کے ذریعہ اس شخص کو بغیر کسی محنت کسب کے ہدایتا ایسا صحیح یقین عطا کر دے کہ وہ ان امور کو اس طرح معلوم کرلے جس طرح وہ حواس اور بداہت عقل کے ذریعہ حاصل کرلیا کرتا ہے اور اس کو کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور خدا کی یہ وحی یا تو اس طرح ہوتی ہے کہ فرشتہ آ کر اس شخص کو خدا کا پیغام سناتا ہے اور یا اس طرح کہ اللہ تعالیٰ براہ راست اس سے خطاب کرتا ہے ۔ پس اگر ان حضرات کے نزدیک جو عورت کے نبی ہونے کا انکار کرتے ہیں نبوۃ کے معنی یہ نہیں ہیں تو وہ ہم کو سمجھائیں کہ آخر نبوت کے معنی ہیں کیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے ماسوا اور کوئی بیان نہیں کرسکتے ۔ اور جبکہ نبوت کے معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کئے تو اب قرآن کے ان مقامات کا بغور مطالعہ کیجئے جہاں یہ مذکور ہے کہ اللہ عزوجل نے عورتوں کے پاس فرشتوں کو بھیجا اور فرشتون نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان ’ عورتوں کو ” وحی حق “ سے مطلع کیا چناچہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ام اسحاق (سارہ علیہا السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی بشارت سنائی ‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : (آیت) ” وَامْرَأَتُہُ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاء إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ (71) قَالَتْ یَا وَیْْلَتَی أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَہَـذَا بَعْلِیْ شَیْْخاً إِنَّ ہَـذَا لَشَیْْء ٌ عَجِیْبٌ (72) قَالُواْ أَتَعْجَبِیْنَ مِنْ أَمْرِ اللّہِ رَحْمَتُ اللّہِ وَبَرَکَاتُہُ عَلَیْْکُمْ أَہْلَ الْبَیْْتِ (ہود 11 : 71 تا 73) ان آیات میں فرشتوں نے ام اسحاق کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسحاق اور ان کے بعد یعقوب (علیہما السلام) کی بشارت سنائی ہے اور سارہ (علیہا السلام) کے تعجب پر یہ کہہ کر دوبارہ خطاب کیا ہے (آیت) ” اتعجبین من امر اللہ “ ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ والدہ اسحاق (سارہ) علما اب السلام نبی تو نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ اس طرح ان سے خطاب کرے ۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جبریل فرشتہ کو مریم (ام عیسیٰ علیہا السلام) کے پاس بھیجتا ہے اور ان کو مخاطب کر کے یہ کہتا ہے (آیت) ” وقال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاماز کیا “۔ تو یہ ” وحی حقیقی “ کے ذریعہ نبوت نہیں تو وہ کیا ہے اور کیا اس آیت میں صاف طور پر یہ نہیں کہا ہے کہ مریم (علیہا السلام) کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغامبر بن کر آئے ؟ نیز زکریا (علیہ السلام) جب مریم (علیہ السلام) کے حجرہ میں آتے تو ان کے پاس اللہ کا غیب سے دیا ہوا رزق پاتے تھے اور انہوں نے اسی رزق کو دیکھ کر بارگاہ الہی میں صاحب فضیلت لڑکا پیدا ہونے کی دعا کی تھی ‘ اسی طرح ہم موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے معاملہ میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل فرمائی کہ تم اپنے اس بچہ کو دریا میں ڈال دو اور ساتھ ہی ان کو اطلاع دی کہ میں اس کو تمہارے جانب واپس کر دوں گا اور اس کو ” نبی مرسل “ بناؤں گا ‘ پس کون شک کرسکتا ہے کہ یہ ” نبوت “ کا معاملہ نہیں ہے ‘ معمولی عقل و شعور رکھنے والا آدمی بھی بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شرف نبوت سے وابستہ نہ ہوتا اور محض خواب کی بنا پر یا دل میں پیدا شدہ وسوسہ کی وجہ سے وہ ایسا کرتیں تو ان کا یہ عمل نہایت ہی مجنونانہ اور متہورانہ ہوتا اور اگر آج ہم میں سے کوئی ایسا کر بیٹھے تو ہمارا یہ عمل یا گناہ قرار پائے گا یا ہم کو مجنون اور پاگل کہا جائے گا اور علاج کیلیئے پاگل خانہ بھیج دیا جائے گا ‘ یہ ایک ایسی صاف اور واضح بات ہے جس میں شک وشبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ تب یہ کہنا قطعا درست ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا میں ڈال دینا اسی طرح وحی الہی کی بنا پر تھا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے رویا (خواب) میں اپنے بیٹے (اسمعیل علیہ السلام) کا ذبح کرنا بذریعہ وحی معلوم کرلیا تھا اس لئے کہ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نبی نہ ہوتے اور ان کے ساتھ وحی الہی کا سلسلہ وابستہ نہ ہوتا اور پھر وہ یہ عمل محض ایک خواب یا نفس میں پیدا شدہ ظن کی وجہ سے کر گزرتے تو ہر شخص ان کے اس عمل کو یا گناہ سمجھتا یا انتہائی جنون یقین کرتا تو اب بغیر کسی تردد کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ام موسیٰ (علیہا السلام) نبی تھیں ۔ علاوہ ازیں حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت پر ایک یہ دلیل بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورة (کھیعص) میں ان کا ذکر انبیاء کرام (علیہم السلام) کے زمرہ میں کیا ہے اور اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے (اولئک الذین انعم اللہ علیھم من النبین من ذریۃ ادم وممن حملنا مع نوح) ” یہی وہ انبیاء آدم کی نسل سے اور ان میں سے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام ہوا ۔ “ تو آیت کے اس عموم میں مریم (علیہا السلام) کی تخصیص کرکے ان کو انبیاء کی فہرست میں سے الگ کرلینا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا ۔ رہی یہ بات کہ قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مریم (علیہا السلام) کے لئے یہ کہا ہے (وامہ صدیقۃ) تو یہ لقب ان کی نبوت کے لئے اسی طرح مانع نہیں ہے جس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کے نبی اور رسول ہونے کے لئے یہ آیت مانع نہیں (یوسف ایھا الصدیق) اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔ (وباللہ التوفیق) اب حضرت سارہ ‘ حضرت مریم ‘ حضرت ام موسیٰ (علیھن السلام) کے مسئلہ نبوت کے ساتھ فرعون کی بیوی (آسیہ) کو بھی شامل کرلیجئے ‘ اسی لئے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء الا اس یہ امراءۃ فرعون ومریم بنت عمران وان فضل عائشہ علی النساء کفضل الثرید علی سائرالطعام “ ‘۔ یعنی مردوں میں سے تو بہت سے آدمی کامل ہوئے ہیں مگر عورتوں میں سے صرف یہی دو کامل ہوئیں ، آسیہ امراۃ فرعون اور مریم بنت عمران اور عائشہ کی فضیلت اسی طرح ہے جس طرح ثرید کو دوسرے کھانوں پر ۔ اور واضح رہے کہ مردوں میں یہ درجہ کمال بعض رسولوں (علیہم السلام) ہی کو حاصل ہوا ہے اور اگرچہ ان کے علاوہ انبیاء و رسل بھی درجہ نبوت و رسالت پر مامور ہیں لیکن ان مرسلین کاملین کے درجہ سے نازل ہیں ‘ اس لئے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن عورتوں کو منصب نبوت سے سرفراز فرمایا ہے ان میں صرف ان دوعورتوں کو ہی درجہ کمال تک پہنچنے کی فضیلت حاصل ہے کیونکہ حدیث میں درجہ کمال کا ذکر ہو رہا ہے جو ہستی بھی اس درجہ سے نازل ہے وہ کامل نہیں ہے ۔ بہرحال اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگرچہ بعض عورتیں بہ نص قرآن نبی ہیں لیکن ان میں سے ان دو عورتوں کو بھی کمال حاصل ہوا ہے ، درجات کے اس فرق کو خود قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے ۔ (آیت) ” تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض “۔ حقیقت یہ ہے کہ کامل اس کا کہا جاتا ہے جس کی نوع میں سے کوئی دوسرا اس کا ہمسر نہ ہو پس مردوں میں سے ایسے کامل خدا کے چند ہی رسول ہوئے ہیں جن کی ہمسری دوسرے انبیاء ورسل کو عطا نہیں ہوئی اور بلاشبہ ان ہی کاملین میں سے ہمارے پیغمبر محمد مصطفیٰ ﷺ اور ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) ہیں جن کے متعلق نصوص (قرآن وحدیث) نے ان فضائل کمال کا اظہار کیا ہے جو دوسرے انبیاء ورسل کو حاصل نہیں ہیں اسی طرح عورتوں میں سے وہی درجہ کمال کو پہنچی ہیں جن کا ذکر نبی اکرم ﷺ نے اس حدیث میں کیا ہے ۔ (الفصل فی الملل والا ھوا والنحل مطبوعہ مصر 1348 ھ ج 5 ‘ ص 12 تا 14 نیز فتح الباری ج 6 ص 347 ‘ 348 مطبوعہ مصر) ابن حزم ((رح)) کے اس طویل مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر وحی کے ان معانی کو نظر انداز کرکے ” جن کا اطلاق بلحاظ عموم لغت جبلت یا نفس میں ظن وہم کی دو صورتیں ہیں ایک وہ (وحی) جس کا منشاء مخلوق خدا کی رشد وہدایت اور تعلیم واوامرونواہی سے ہو اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص سے براہ راست یا فرشتہ کے واسطہ سے اس قسم کا خطاب کرے کہ جس سے بشارات دینا یا کسی ہونے والے واقعہ کی واقع ہونے سے قبل اطلاع دینا یا خاص اس کی ذات کے لئے کوئی امر ونہی فرمانا مقصود ہو اب اگر پہلی صورت ہے تو یہ ” نبوۃ مع الرسالہ “ ہے اور بالاتفاق سب کے نزدیک یہ درجہ صرف مردوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے جیسا کہ سورة النحل کی آیت سے واضح ہے اور اس مسئلہ میں قطعا دو رائے نہیں ہیں ۔ اور اگر وحی الہی کی دوسری شکل ہے تو ابن حزم اور ان کے موئدین علماء کی رائے میں یہ بھی نبوت ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ قرآن عزیز نے سورة شوری میں انبیاء کرام (علیہم السلام) پر نزول وحی کے جو طریقے بیان کئے ہیں اور اس وحی پر بھی صادق آتے ہیں سورة شوری میں ہے : (آیت) ” وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورآء حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشآء انہ علی حکیم “۔ (الشوری 42 : 51) اور کسی انسان کے لئے یہ صورت ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے (بالمشافہ) گفتگو کرے مگر یا وحی کے ذریعہ یا پس پردہ کلام کے ذریعہ اور یا اس صورت سے کہ اللہ کسی فرشتہ کو پیغامبر بنا کر بھیجے اور وہ اس کی اجازت سے جس کو کہ وہ چاہے اس بشر کو وحی لا کر سنا دے بلاشبہ وہ بلند وبالا اور حکمت والا ہے ۔ اور جبکہ قرآن نے وحی کی اس دوسری قسم کا اطلاق بہ نص صریح حضرت مریم (علیہا السلام) حضرت سارہ (علیہ السلام) حضرت ام موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت آسیہ (علیہ السلام) پر کیا ہے جیسا کہ سورة ہود ‘ قصص ‘ مریم سے ظاہر ہوتا ہے تو ان مقدس عورتوں پر ” نبی کا اطلاق “ قطعا صحیح ہے اور اس کو بدعت کہنا سر تا سر غلط ہے ۔ ابن حزم ((رح)) کے موئید علماء نے اس سلسلہ میں پیدا ہونے والے اس شبہ کا جواب بھی دیا ہے کہ ” قرآن نے جس طرح صاف الفاظ میں مرد انبیاء کو نبی اور رسول کہا ہے اسی طرح ان عورتوں میں سے کسی کو نہیں کہا ” جواب کا حاصل یہ ہے کہ جبکہ ” نبوۃ مع الرسالہ “ جو کہ مردوں کے لئے ہی مخصوص ہے کائنات انسانی کی رشد وہدایت اور تعلیم وتبلیغ نوع انسانی سے متعلق ہوتی ہے تو اس کا قدرتی تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو اس شرف سے ممتاز فرمایا ہے اس کے متعلق وہ صاف صاف اعلان کرے کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا نبی اور رسول ہے تاکہ امت پر اس کی دعوت وتبلیغ کا قبول کرنا لازم ہوجائے اور خدا کی حجت پوری ہو اور چونکہ نبوت کی وہ قسم جس کا اطلاق عورتوں پر بھی ہوتا ہے خاص اس ہستی سے وابستہ ہوتی ہے جس کو یہ شرف ملا ہے تو اس کے متعلق صرف یہی اظہار کردینا کافی ہے کہ جو ” وحی من اللہ “ انبیاء ورسول کے لئے ہی مخصوص ہے اس سے ان چند عورتوں کو بھی مشرف کیا گیا ہے ۔ عورتوں کی نبوت کے اثبات و انکار کے علاوہ تیسری رائے ان علماء کی ہے جو اس مسئلہ میں ” سکوت اور توقف “ کو ترجیح دیتے ہیں ان میں شیخ تقی الدین سبکی ((رح)) نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ‘ فتح الباری میں ان کا یہ قول مذکور ہے ۔ ” قال السبکی اختلف فی ھذہ المسئلہ ولم یصح عندی فی ذلک شیء “ الخ (فتح الباری ج 6 کتاب الانبیاء) سبکی فرماتے ہیں ” اس مسئلہ میں علماء کی آراء مختلف ہیں اور میرے نزدیک اس بارہ میں اثباتا یا نفیا کوئی بات ثابت نہیں ہے ۔ اس تفصیل سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی نبوت کے انکار پر امام الحرمین کا دعوی اجماع صحیح نہیں ہے ، نیز یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ فہرست انبیاء میں مسطورہ بالا دوسری مقدس عورتوں کے مقابلہ میں حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت کے متعلق قرآنی نصوص زیادہ واضح ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ امام شعرانی ‘ ابن شعرانی ‘ ابن حزم اور قرطبی (رحہم اللہ) کے درمیان حضرت مریم (علیہا السلام) کے علاوہ نبی ات کی فہرست کے بارہ میں خاصا اختلاف نظر آتا ہے اور حضرت مریم (علیہا السلام) کی نبوت کے متعلق تمام مثبتین نبوت کا اتفاق ہے ، ہم کو ابن کثیر (رح) کے اس دعوی سے اختلاف ہے کہ جمہور انکار کی جانب ہیں البتہ اکثریت غالبا سکوت اور توقف کو پسند کرتی ہے ۔ (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر ملاحظہ ہو اگلی آیت میں)
Top