Urwatul-Wusqaa - Maryam : 30
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ
قَالَ : بچہ نے اِنِّىْ : بیشک میں عَبْدُ اللّٰهِ : اللہ کا بندہ اٰتٰىنِيَ : اس نے مجھے دی ہے الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے نَبِيًّا : نبی
(لوگوں کی یہ بات سن کر) وہ بول اٹھا ، میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) 2 کیا سیدہ مریم نبی تھیں ؟ گزشتہ تفصیل سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی نبوت کے انکار پر ” امام الحرمین “ کا دعوی اجماع صحیح نہیں ہے نیز یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ فہرست انبیاء میں مسطورہ بالا دوسری مقدس عورتوں کے مقابلہ میں سیدہ مریم (علیہ السلام) کی نبوت کے متعلق قرآن کریم کی نصوص زیادہ واضح ہیں یہی وجہ ہے کہ امام شعرانی ‘ ابن حزم اور قرطبی رحمہم اللہ کے درمیان سیدہ مریم (علیہ السلام) کے علاوہ نبی ات کی فہرست کے بارے میں خاصا اختلاف نظر آتا ہے ۔ (فتح الباری ج 6 کتاب الانبیاء) اور سیدہ مریم (علیہ السلام) کی نبوت متعلق تمام مثبتین نبوت کا اتفاق ہے ہم کو ابن کثیر (رح) کے اس دعوی سے بھی اختلاف ہے کہ جمہور انکار کی جانب ہیں ہاں ! یہ بات صحیح ہے کہ اکثریت سکوت اور توقف کو پسند کرتی ہے اور یہ ایک ہی بات نہیں بلکہ اس طرح کی بیسیون باتیں جن میں کچھ بولنے سے نہ بولنا زیادہ مناسب ہے خصوصا ان باتوں کے متعلق جن کا ہماری زندگی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ہمارے لئے اس میں کچھ راہنمائی پائی جاتی ہے الا یہ کہ جو باتیں عقائد سے متعلق نہیں ان کو خواہ مخواہ قرار دینا جائز نہیں ہے بلکہ یہ کہہ دینا کہ یہ مسئلہ عقیدہ کا نہیں کہ اس کی تشریح ضروری ہو صحیح اور سیدھی راہ ہے ۔ 3۔ آیت (واصطفک علی نسآء العلمین) کا مطلب کیا ہے ؟ جو بزرگ عورتوں میں نبوت کے قائل ہیں اور سیدہ مریم (علیہ السلام) کو نبی تسلیم کرتے ہیں ان کے مسلک کے مطابق آیت زیر عنوان کا مطلب صاف اور واضح ہے وہ یہ کہ سیدہ مریم (علیہ السلام) کو کائنات کی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے جو عورتیں نبی نہیں ہیں ان پر اس لئے کہ مریم نہیں ہیں اور جو عورتیں نبی ہیں ان پر اس لئے کہ وہ ان قرآنی نصوص کے پیش نظر جوان کے فضائل و کمالات سے تعلق رکھتی ہیں باقی نبی ات پر برتری رکھتی ہیں ۔ لیکن جو بزرگ عورتوں کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اور مریم (علیہ السلام) کو نبیہ نہیں مانتے وہ اس آیت کی تفہیم میں دو جدا جدا خیال رکھتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ آیت کا جملہ (نسآء العلمین) عام ہے اور ماضی ‘ حال اور مستقبل کی تمام عورتوں کو شامل ہے اس لئے بلاشبہ سیدہ مریم (علیہ السلام) کو بغیر کسی استثناء کے کائنات انسانی کی تمام عورتوں پر فضیلت و برتری حاصل ہے اور اکثر کا یہ خیال ہے کہ آیت کے لفظ (العلمین) سے کائنات کی وہ تمام عورتیں مراد ہیں جو سیدہ مریم (علیہ السلام) کی معاصر تھیں یعنی قرآن کریم سیدہ مریم (علیہ السلام) کے زمانہ کا واقعہ نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بشارت دی کہ وہ اپنے زمانہ کی تمام عورتوں میں برگزیدہ اور صاحب کمال ہیں اور ہم نے ان سب میں انکی چن لیا ہے اور (العلمین) کا یہ اطلاق وہی حیثیت رکھتا ہے جو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی امت بنی اسرائیل کے لئے اس آیت میں اختیار کیا گیا ہے ۔ (آیت) ” ولقد اخترنھم علی علم علی العلمین “۔ (الدخان 44 : 32) ” اور بلاشبہ ہم نے اپنے علم سے ان (بنی اسرائیل) کو جہاں والوں کے مقابلہ میں پسند کرلیا ۔ “ (یبنی اسرآئیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم وانی فضلتکم علی العلمین “۔ (البقرہ 25 : 47) ” اے بنی اسرائیل ! , میری نعمتیں یاد کرو جن سے میں نے تمہیں سرفراز کیا تھا اور خصوصا یہ نعمت کہ میں نے تم کو دنیا کی قوموں پر فضیلت دی تھی “ جبکہ باتفاق یہ کہا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کی یہ فضیلت ان کی معاصر امم واقوام پر ہے نہ کہ ساری امتوں تک جو ان سے پہلے یا بعد میں ہوئیں تو سیدہ مریم (علیہ السلام) کی فضیلت کے باب میں بھی یہی معنی مراد لینے چاہئیں ۔ سیدہ مریم (علیہ السلام) کا تقدس اور تقوی و طہارت اور ان رسومات کو توڑنا جو قوم میں مبارک خیال کی جاتی تھیں حالانکہ دین آسمانی کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے باعث میں نے تجھ کو چن لیا اور میرے ہاں تو بہت پسندیدہ انسانوں میں سے ہے پھر بنی اسرائیل کے سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے نبی کی والدہ ماجدہ ہونا امور ہیں جن کے باعث ان کو ان کی معاصر عورتوں پر فضیلت و برتری حاصل تھی ۔ سیدہ مریم (علیہ السلام) کی یہ فضیلت و برتری پوری قوم بنی اسرائیل اور خصوصا خاندان عمران وماثان میں مسلم تھی لیکن جونہی زکریا (علیہ السلام) نے سیدہ مریم (علیہ السلام) کی نسبت اس کے چچا زاد یوسف بن ماثان سے جوڑی تو پوری قوم کی قوم اس خاندان سے بگڑ گئی کیوں ؟ اس لئے کہ بنی اسرائیل کو قومی رواج یہی تھی کہ ہیکل کی مجاوری کرنے والے شادی نہیں کرتے تھے بلکہ قوم منذور لوگوں کی شادی کے خلاف تھی چونکہ یہ رسم مذہبی نہ تھی اور نہ ہی کسی شریعت کا یہ مسئلہ تھا اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم (علیہ السلام) ہی کے ذریعہ اس بدرسم کو مٹانا تھا اور یہ سعادت اس اللہ کی بندی ہی کے حصہ میں رکھی گئی تھی لہذا سیدہ مریم (علیہ السلام) نے بھی باوجود منذورہ ہونے کے اور قومی نظریہ سمجھنے کے بخوشی اس سعادت کی ادائیگی کو قبول کیا اور قوم کی مخالفت کی ذرا بھی پروانہ کی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے قوم کیا شے ہے ؟ ظاہر ہے کہ فقط نکاح ہوجانے سے اولاد ممکن نہیں بلکہ نکاح کے بعد مساس لازم ہے اور مساس ہونے کے بعد نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے چاہے اولاد ہو اور چاہے اولاد نہ ہو ، لیکن یہاں صورت حال کچھ اس طرح واقع ہوئی کہ نکاح ہوا لیکن مساس نہ ہوا کیوں ؟ اس لئے یوسف متوجہ نہ ہوا ‘ سیدہ مریم (علیہ السلام) کی جلالت شان آڑے آئی یا کوئی دوسری وجہ ہوئی چناچہ انجیل میں ہے کہ ” مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کے اکٹھا ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی ، پس اس کے شوہر یوسف نے جو راست باز تھا اور اسے بدنام کرنا نہیں چاہتا تھا اسے چپکے سے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا ۔ وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اسے خواب میں دکھائی دے کر کہا اسے یوسف بن داؤد (یہ نسبت سیدنا داؤد (علیہ السلام) کی نسل میں ہونے کے باعث ان کی طرف کی گئی ہے) اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اس پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے ، اس کے بیٹا ہوگا اور تو اس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا ۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہو۔ “ (متی 1 : 19 تا 22) اناجیل میں سیدہ مریم (علیہ السلام) اور یوسف کی منگنی کا ذکر ہے لیکن رخصتی کا نہیں پھر سیدہ مریم (علیہ السلام) کے حاملہ ہونے کا ذکر ہے لیکن اپنے شوہر سے نہیں بلکہ روح القدس کی قدرت سے لیکن اس کے باوجود اناجیل میں یوسف اس کو اپنا بیٹا کہتا ہے اور مسیح یوسف کو باپ اور مریم کو ماں تسلیم کرتا ہے ، سیدہ مریم (علیہ السلام) مسیح کو مخاطب کرکے یہ کہتی ہیں کہ میں اور تیرب باپ دونوں تجھ کو تلاش کرتے رہے ۔ سیدہ مریم (علیہ السلام) کو یوسف اپنی بیوی بنا کر اپنے آبائی وطن بیت لحم کی طرف لے گیا اور وہیں راستہ میں عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور بادشاہ وقت ہیردوس کی مخالفت کے باعث یہاں سے ہجرت کر کے بارہ سال مصر میں بسر کئے اور بارہ سال کے بعد تیرھویں سال مسیح (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر بیت المقدس میں آئے لیکن یہ سب کچھ ہونے کے بعد مسیح (علیہ السلام) بےپدر ہی قرار دیئے گئے ، پیچھے آپ نے پڑھا کہ جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا وہ پورا ہوا ‘ نبی نے کیا کہا ؟ یہ کہا کہ : ” دیکھو ! ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عمانوایل رکھیں گے جس کا ترجمہ ہے خدا ہمارے ساتھ ہے ۔ پس یوسف نے نیند سے جاگ کر ویسا ہی کیا جیسا خداوند کے فرشتہ نے اسے حکم دیا تھا اور وہ اپنی بیوی کو اپنے ہاں لے آیا ۔ اور اس کو نہ جانا جب تک اس کے بیٹا نہ ہوا اور اس کا نام یسوع رکھا “۔ (متی 1 تا 25) اناجیل کے ان فقرات اور ان فقرات جیسی دوسری عبارات کے باعث ہمارے ہاں یہ تخیل آیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بےپدر پیدا ہوئے ، چناچہ تحریر ہے کہ : جب مریم آٹھ برس کی ہوئی تو حنہ کا انتقال ہوگیا اور جب مریم بارہ برس کی ہوئیں تو کاہنوں اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کے مشورہ سے آپ کی منگنی یوسف نجار کے ساتھ ہوئی اور وہ ان کو لے کر ناصرہ چلا گیا کیونکہ یوسف ناصرہ کا رہنے والا تھا ۔ “ (قرآن مجید مترجم مقدمہ احتشام الحق تھانوی (رح)) لیکن قرآن کریم میں ایسا کوئی تخیل بیان نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی ایسا اشارہ پایا گیا ہے کہ خاوند کے مس کے بغیر عیسیٰ (علیہ السلام) تولد ہوئے ۔ ہاں قرآن کریم میں سیدہ مریم (علیہ السلام) کا اپنی رہائش سے مشرق کی طرف جانے کا ذکر ضرور ہے خواہ وہ ناصرہ کی بستی ہو یا کوئی دوسرا مقام اور یہی سے بات کی ابتداء کی گئی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ : (آیت) ” وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا مَکَاناً شَرْقِیّاً (16) فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِہِمْ حِجَاباً فَأَرْسَلْنَا إِلَیْْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَراً سَوِیّاً (17) قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنکَ إِن کُنتَ تَقِیّاً (18) قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّکِ لِأَہَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِیّاً (19) قَالَتْ أَنَّی یَکُونُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَلَمْ أَکُ بَغِیّاً (20) (مریم 19 : 16 تا 20) ” اے پیغمبر اسلام کتاب میں مریم کا معاملہ بیان کرو اس وقت کا معاملہ جب وہ ایک مکان میں کہ پورب کی طرف تھا اپنے گھر کے لوگوں سے الگ ہوگئی پھر اس نے ان لوگوں کی طرف سے پردہ کرلیا ہم نے اس کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا اور وہ ایک بھلے چنگے آدمی کے روپ میں نمایاں ہوگیا ۔ مریم اسے دیکھ کر گھبرا گئی ‘ بولی اگر تو نیک آدمی ہے تو میں خدائے رحمن کے نام پر تجھ سے پناہ مانگتی ہوں ، فرشتہ نے کہا میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں اور اس لئے نمودار ہوا ہوں کہ تجھے ایک پاک فرزند کی خوشخبری سنا دوں ۔ مریم بولی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے لڑکا ہو حالانکہ مرد (خاوند) نے مجھے چھوا تک نہیں اور بدچلن میں نہیں ہوں ؟ “ غور کرو کہ یہاں سیدہ مریم (علیہ السلام) نے عدم مساس کا ذکر بھی کیا ہے اور اسی طرح اپنے بدچلن ہونے کی نفی بھی کی ہے بات واضح ہے کہ مساس اپنے خاوند ہی سے ہوتا ہے اور بدچلنی کسی بھی مرد سے ممکن ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدہ مریم (علیہ السلام) کو یہ پیغام پہنچایا گیا ہے کہ (آیت) ” قال کذلک قال ربک ھو علی ھین “۔ (مریم 19 : 21) ” فرشتہ نے کہ ایسا ہی ہوگا “ تیرے پروردگار نے فرما دیا ہے کہ یہ میرے لئے کچھ مشکل نہیں ۔ “ کہ تیری شکایت کو دور نہ کرسکوں ‘ بس سمجھ لے کہ تیری شکایت دور ہوگئی اور اب مساس نہ کرنے والا اللہ کے حکم سے مساس کرے گا اور اس مساس سے تجھے لڑکا عنایت کیا جائے گا جو دنیا جہان کے لئے ایک نشان قرار پائے گا اور بڑے بڑے لوگ اس کی باتوں کے سامنے لاجواب کر دئیے جائیں گے اور بحمد للہ فی الواقعہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا ۔ بات کتنی صاف اور کس قدر واضح تھی لیکن ہمارے فارسی اور اردو مترجمین نے (لم یمسسنی بشر) کا ترجمہ ” مجھے کسی بشر نے نہیں چھوا “ کردیا اور پھر وہ ایسا پختہ ہوگیا کہ (ولم اک بغیا) جو حرام کی نفی تھی اس کی طرف کسی کا دھیان ہی نہ گیا کہ مریم نے ایک بات کی نہیں بلکہ دو کی نفی کی ہے اور دونوں میں سے ایک امر جائز ہے اور دوسرا ناجائز و حرام اور حرام مریم جیسی پاکباز عورت سے ممکن ہی نہیں اور جائز کی رکاوٹ کو دور کردینے کا وعدہ الہی کیا گیا جو اپنے وقت پر یقینا پورا ہوا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم (علیہ السلام) کو وہ موعود بیٹا عطا کیا جس کا اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا ۔ زیر نظر آیت میں کہی گئی بات بالکل صاف اور عام فہم تھی کہ کسی عورت کے ساتھ تعلق خاص کے لئے خاوند ہاتھ بڑھائے تو وہ (مساس) کہلاتا ہے اور اگر خاوند کی بجائے کوئی غیر مرد تعلق خاص کے لئے ہاتھ بڑھائے تو وہ (بغی) کہلاتا ہے جس کو عرف عام میں زنا یا بدکاری کہا جاتا ہے ، گویا جس عورت کا جائز خاوند نہ ہو اس کے ساتھ (مساس) کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، اس لئے اگر سیدہ مریم (علیہ السلام) کا خاوند موجود نہ ہوتا تو وہ ” عدم مساس “ کا ذکر ہی نہ کرتیں اور ” عدم مساس “ کا ذکر ہی دراصل ان کے خاوند کا ثبوت ہے اور خاوند اور خاوند نکاح کے بغیر ممکن نہیں کسی عورت کا نکاح ہوگا تو جس کے ساتھ اس کا نکاح ہوا وہی اس کا خاوند یا شوہر قرار دیا جائے گا اور اس کے ازدواجی تعلق کے قائم کرنے کو (مساس) کے لفظ سے ادا کیا جاتا ہے ، اتنی صاف بات کو ہمارے علمائے کرام نہ جانتے ہوں یہ بھی ممکن نہیں ، بات وہی ہے کہ جو چیز قوی نظریہ قرار پاگئی اس کے خلاف لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے اور علمائے کرام حلوا چھوڑ کر لوہے کے چنے چبائیں ‘ آخر کیوں ؟ آپ صاحب عقل وفکر ہیں تو خود غور کریں کہ (لم یمسسنی بشر) کا ترجمہ اردو زبان میں ہر جگہ یہی کیا گیا ہے کہ ” کسی مرد نے مجھے چھوا نہیں “ (مولانا آزاد (رح)) ” نہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ لگایا ہے ۔ “ (ماجدی) ” مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ۔ “ (تفہیم القرآن) ” مجھے تو کسی بشر نے نہیں چھوا “۔ (مظہری اردو) ” نہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ لگایا ہے ۔ “ (تدبرالقرآن) ” نہیں مجھے ہاتھ لگایا کسی مرد نے ۔ “ (حسینی) ” مجھے کسی انسان نے چھوا نہیں ۔ (بیان القرآن محمد علی) ۔ ” اور نہیں ہاتھ لگایا مجھ کو کسی آدمی نے ۔ “ (شاہ رفیع الدین) ” کسی بشر کے ابھی تک مجھے ہاتھ نہیں لگایا “۔ (شاہ عبدالقادر) ” اور چھوا نہیں مجھ کو آدمی نے “ (محمودالحسن) ” نہیں چھوا مجھے کسی بشر نے ۔ “ (ضیاء القرآن) ” مجھے کسی مرد نے نہیں چھوا۔ “ (بشیر الدین) ” کسی آدمی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ “ (فیوض القرآن) ” مجھ کو کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا ۔ “ (بیان القرآن تھانوی) ” مجھے تو کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا “ (رفاعی) یہ اردو تراجم ہیں ۔ لیکن ذرا عربی تراجم کی بھی ایک دو عبارتیں ملاحظہ فرمالیں تاکہ مزید وضاحت ہوجائے ۔ (لم یمسسنی بشر) ” لم یقربنی زوج “ (معالم التنزیل) (لم یمسسنی بشر) ” لم یقربنی “ بشر (زوج بنکاح) (فتح البیان) (لم یمسسنی بشر) ” لم یباشرنی “ بشر ” من الحلال “ (جامع البیان) (لم یمسسنی بشر) ” یتجزوج “ (جلالین) فیصلہ آپ خود کرلیں کہ ” کسی مرد “ ” کسی بشر “ ” کسی انسان “ کسی آدمی “ کی بجائے اگر ” زوج ‘ یا ” خاوند “ کے الفاظ سے ترجمہ کیا جاتا ہے جو صحیح اور واضح ترجمہ ہوتا تھا تو کس قدر بات صاف ہو سکتی تھی یعنی (لم یمسسنی بشر) ” مجھے زوج نے نہیں چھوا “ ۔ ” مجھے خاوند نے مس نہیں کیا “ عربی مترجمین سے استفادہ کرتے ہوئے اردو میں ترجمہ کیا جاتا تو بات خود بخود صاف ہوجاتی ، لیکن اگر بات صاف ہوجائے تو علمائے کرام کی ضرورت کیا رہے ؟ اور قومی نظریہ کا کیا بنے ؟ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور : علمائے کرام پر اللہ رحم فرمائے اور سیدھی بات کرنے کی توفیق عنایت فرمائے انہوں نے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے بڑی ہوشیاری سے یہ بات فرمائی کہ ” دراصل سیدہ مریم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی قدرت اور نفخ جبریل سے حاملہ ہوگئیں ۔ “ اور عوام نے سادگی سے اس کو قبول کرلیا کہ اللہ کی قدرت سے کون انکار کرسکتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی ان علمائے کرام سے اتنا پوچھ لے کہ کیا ہم اور تم اور دنیا کے سارے انسان بلکہ کائنات کی ہرچیز اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں ؟ تو انکا جواب کیا ہوگا ؟ کیا ماں باپ سے پیدا ہونے والے اللہ کی قدرت کے سوا ہی پیدا ہوجاتے ہیں ؟ حالانکہ یہ بات تو طے ہے اور سب کو معلوم ہے کہ جو کچھ کائنات میں ہے سب اللہ ہی کی قدرت سے ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی علامہ نے عیسائی نظریہ کی ترجمانی میں یہ بات کہہ دی اور پھر کیا تھا کہ جو آیا وہ یہی کہتا گیا ‘ اس لئے کہ اس نے نہیں کہا بلکہ اس سے پہلے نے یہ فرمایا اور اس طرح کرتے کرتے ایک وقت آیا کہ بات پکی ہوگئی پھر اس طرح کا ایک ہی نظریہ نہیں بلکہ بیسیوں نظریات معرض وجود میں آئے ہیں اور سارے مذاہب میں موجود ہیں اس لئے وہ ہضم ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ قادر تھا ‘ ہے اور رہے گا لیکن اگر کسی علامہ صاحب کے گھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا یہ مظاہرہ فرما دے تو کیا ہو ؟ کیا اللہ کی یہ قدرت مشرق وسطی اور اس سے پرے یورپ والوں ہی کے لئے ہے ؟ اگر بات یہیں ختم کردی گئی ہوتی کہ ” اللہ کی قدرت سے ایسا ہوا “ تو شاید ہم بھی دوسروں کی طرح آنکھ بند کر کے آگے نکل جاتے یا ہمارا ذہن بھی اس طرف نہ جاتا ہماری حیرانی اور تعجب کی کوئی حد نہ رہی جب ہم نے اس ” اللہ کی قدرت “ کی وضاحت ان کی زبان قلم سے سنی اور ہم کان پکڑ کر رہ گئے کہ یہ تو ہاتھی کے دانتوں والی بات ہے کہ کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور تو ہم نے یہ واویلا شروع کردیا کیونکہ سیدہ مریم (علیہ السلام) کا تقدس ہمارے ایمان کا جزء ہے اس کو مجروح ہوتے دیکھ کر ہم سے رہا نہ گیا ۔ آپ بھی ذرا ٹھنڈے دل سے ” اللہ کی قدرت “ کی تشریح کو اپنی آنکھوں سے پڑھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر عقل وفکر سے سوچ کر بتائیں کہ آپ کا کیا حال ہے ؟ ایک اہل حدیث بزرگ بلکہ ” حضرت العلام “ اس ” اللہ کی قدرت “ کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ : ” عربی زبان میں لفظ ولد کا حقیقی اطلاق جہاں کہیں بھی ہوتا ہے اس کے لئے اصلین کا ہونا ضروری ہے اور ولد کے لئے اگ راس کی ماں کی طرف نسبت ہو تو دوسرا اس کا باپ ہونا چاہئے پس ولد کی ماں ولد کے باپ کے لئے صاحبہ (بیوی) ہوگی نیز ولد کے لئے ضروری ہے کہ اصلین کے مادہ سے منفک ہو کر تیار ہو یعنی ولد کے لئے اصلین کی ضرورت ہے اور مادہ منفک بھی لازم ہے ۔۔۔۔۔۔ پس لفظ ولد کے معنی ہیں جزء خاص یعنی جس کی جزئیت میں دو شخصوں کو دخل ہو اسی طرح لفظ ابن بھی عربی زبان میں حقیقی طور پر ولد کا مترادف ہے اس کے اطلاق کے لئے بھی یہی شرائط ہیں چونکہ مسیح (علیہ السلام) کو ” ابن مریم “ سے قرآن مجید میں تعبیر کیا گیا ہے اس کے لئے دو اصلین کا ہونا ضروری ہے ایک ان کی ماں مریم ‘ دوم جبرئیل (علیہ السلام) جن کو دوسرے لفظوں میں روح القدس سے تعبیر کرتے ہیں جو حمل مسیح (علیہ السلام) کا باعث ہوئے ۔ “ (اثبات توحید ص 9) ” سنئے ولد بلا والدہ نہیں ہو سکتا اور ولد بلا اصلین متصورہ نہیں اور ولد کے لئے اصلین کے ساتھ انفکاک مادہ کی بھی ضرورت ہے گویا ولد کا لفظ بلحاظ استعمال یہ معنی دیتا ہے کہ دواصلین کے توسط سے بانفکاک مادہ پیدا ہونے والا ، جہاں کہیں لفظ ولد کلام عرب میں استعمال کیا گیا ہے وہاں اصلین اور انفکاک مادہ ضروری ہے ایک اصل اگر والد ہے تو دوسری اصل جو ولد ہونے کے لئے ضروری ہے وہ عرف میں اس کی والدہ ہوگی جو اس کے باپ کی جورو ہوگی ۔۔۔۔۔ پس مسیح (علیہ السلام) پر چونکہ ولد مریم کا اطلاق کرتے ہیں اس لئے ضروری تو ہے کہ اس کی والدہ ہو اور وہ مریم ہے اور دوسرا اصل جس کے اتصال کے علاوہ مسیح نہ پیدا ہوا ہم اہل اسلام کے نزدیک جبریل ہے جسے دوسری جگہ قرآن مجید میں روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ بمنزلہ والد کے ہے کیونکہ نفخ جبرئیل کے قبل اور روح القدس کی قوت کے ظہور سے پہلے مریم سے مسیح (علیہ السلام) ظاہر اور متولد نہ ہوئے ۔ “ (اثبات توحید ص 45) ” عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت جبرئیل اور مریم کے درمیان واقعہ ہوئی اس لئے وہ آسمان پر اب تک کچھ کھائے پئے اور پیشاب وپاخانہ اور نیز دیگر بشری ضرورتوں کو پورا کئے بغیر جبرئیل و دیگر فرشتوں کی طرح زندہ ہے ۔ “ (اثبات توحید ص 40) عبارت مذکور کے مشکل الفاظ کے معنی : ” اصلین “ دو اصل ۔ اصل “ عربی لفظ ہے جس کے معنی ، بنیاد ، جڑ ، بیخ ، منبع ، سرچشمہ ، تخم ، بیج ، ست ، عطر ، خلاصہ وغیرہ کے ہیں ۔ ” منفک “ جدا کیا گیا ۔ الگ ” انکا ک “ الگ ہونا ‘ جدا ہونا ۔ ” متصورہ “ تصور میں لایا ہوا ‘ خیال کیا گیا ‘ سوچا ہوا ” جورو “ بیوی ‘ گھروالی ‘ عورت ‘ رفیقہ حیات ‘ زوجہ ‘ استری وغیرہ ۔ ” اتصال “۔ ملاپ ‘ میل ‘ قرب ‘ نزدیکی ۔ مذکورہ عبارات اثبات توحید سے لی گئی ہیں اور اثبات توحید حضرت العلام شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی (رح) (سابق امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث) کی ہے جو ہمارے اہل اسلام کی ترجمانی کر رہی ہے ، غور کریں کہ کیا جبرئیل (علیہ السلام) کوئی مادی چیز ہیں ؟ کیا انسان اور فرشتہ دو متقارب الجنس مخلوق ہیں ؟ کیا انسان اور فرشتہ کا جوڑ بھی جوڑا جاسکتا ہے اگرچہ معجزانہ رنگ میں ہی ہو ؟ انجیل کی عبارت یہ ہے کہ وہ ” روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی “ اور حافط صاحب (رح) فرماتے ہیں ” روح القدس حمل مسیح کا باعث ہوئے “ دونوں جملوں میں فرق کیا ہے ؟ کیا دوسرا جملہ پہلے جملہ کی صحیح صحیح ترجمانی نہیں کرتا ؟ دیوبندی مسلک کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک رسالہ نے 1957 ء میں ایک مضمون شائع کیا جس کا اقتباس پیش خدمت ہے یہ بھی ” اللہ قدرت “ ہی کی وضاحت ہے ایک بار پھر دل پر ہاتھ رکھیں اور آنکھوں سے دیکھتے ہوئے عقل وفکر کو حاضر کرکے پڑھتے جائیں اور اپنی کیفیت سے ہمیں بھی آگاہ کریں ، تحریر اس طرح ہے کہ : ” پھر سیدہ مریم (علیہ السلام) کو اس جگہ روحانی قوتوں کے ساری وجاری ہونے کے زمانہ میں ماہواری کے دن آئے ، جب ان سے پاک ہوئیں تو لوگوں سے ایک الگ مکان میں غسل کرنے کے لئے گئیں اور پردہ ڈال کر کپڑے اتاردیئے ، اللہ نے انکی طرف ایک کامل خلقت جوان کی صورت میں جبرئیل کو بھیجا جو جوانی اور خوبصورتی سے بھرا ہوا تھا اور حضرت مریم (علیہ السلام) نے ان کو دیکھا اور خود بھی جوان اور قوی مزاج والی تھیں ان کو اپنے نفس پر فساد کا ڈر لاحق ہوا اور دل سے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ ان کی عصمت پر کوئی حرف نہ آئے پھر اس کو ایک عجیب حالت پیش آئی طبیعت میں قوائے نسلیہ کا ہیجان ہوا اور اس سے وہ لذت کی کیفیت پیدا ہوئی جو جماع کے وقت ہوتی ہے جیسے کبھی کسی کو نظر کرنے سے انزال ہو ‘ جاتا ہے اور نفس کو اللہ تعالیٰ سے التجا تھی اور اس کے ساتھ تمسک تھا یہاں تک کہ وہ غائب سے فائض ہونے والی پاک دامنی کی حالت میں مالا مال ہوگئیں ، صورت انسانیہ کی یہ حالت تھی کہ جبرئیل کے اختلاط سے عنقریب ظاہر ہونے والی گھی جب جبرئیل (علیہ السلام) نے ان سے یہ کہا کہ میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تو ان کے ستر میں پھونک لگا دی ۔ مریم خوش وخرم اور مانوس ہوگئیں اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے جب ان کے حال کو دیکھا تو ان کے ستر میں پھونک لگا دی۔ اس پھونک سے اس میں یہ تاثر ہوا اور وہ منزل ہوگئیں ۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کے نطفہ میں مرد کے نطفے جیسی قوت تھی اس لئے وہ حاملہ ہوگئیں اور جو بات حضرت مریم (علیہ السلام) میں تھی وہ سب اس بچہ میں آگئی مثلا اللہ سے تمسک کرنا ‘ اس کی طرف التجا کرنا اور ملکی ہئیت سے خوش وخرم ہونا ، کیونکہ حضرت مریم کی حالت اس کے نفس کی ہر قوت مصورہ اور مولودہ تک اس میں سرایت کرگئی تھی اور یہ وہ بات ہے جو اطباء کہتے ہیں کہ جو شخص چاہے کہ اس کے لڑکا پیدا ہو تو وہ جماع کے وقت لڑکے کا تصور پیدا کرے ۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی پھونک سے اس لڑکے میں عالم مثال کا حکم اور روح کے خواص آگئے تھے کیونکہ صورت بننے کا سبب وہی تھا اس سے حضرت مسیح کی جبلت میں جبرئیل (علیہ السلام) کے مشابہ ایک راسخ ملکہ پیدا ہوا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی روح القدس کے ساتھ تائید کا یہی مقصد ہے ۔ “ (ماہنامہ الرحیم ماہ دسمبر 1957 ء ادرایہ) ماہ نامہ الرحیم کی مذکورہ اشاعت میں جو کچھ کہا گیا تقریبا یہ سب کا سب مع شے زائد تاویل ال احادیث ص 73 ‘ 74 میں بزبان عربی بیان کیا جا چکا ہے ہم نے ماہنامہ الرحیم سے ترجمہ اس لئے دیا ہے تاکہ اردو خوان حضرات اس کو پڑھ سکیں اور ہم اپنی طرف سے ترجمہ نہ کریں بلکہ اس فکر کا ترجمہ پیش کردیں ، اس زمانہ کی تحریرات کو اس لئے دیا جا رہا ہے تاکہ صورت حال سے آپ آگاہ ہوں ورنہ عباسیہ دور کی تفاسیر سے لے کر یہی کچھ تحریر ہوتا چلا آرہا ہے اگرچہ وہ زیادہ تر عربی زبان میں ہے اور کتب تفاسیر میں سند کے ساتھ نقل کیا جارہا ہے جو سب کا سب اسرائیلیات سے ماخوذ ہے ۔ اب سواد اعظم بریلوی مکتب فکر کی تعبیرات سے استفادہ کے لئے تیار ہوں اور وہاں کی تازہ صورت حال سے بھی آپ کو آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ سارے فکروں کے علمائے اسلام کی ایک جھلک آپ دیکھ سکیں اور دیکھنے کے بعد کان پکڑ کر توبہ کریں ، چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ : ” پھر مریم میں شہوت سرایت کی اور مریم کے اصلی پانی اور جبریل کے وہمی پانی سے جو اس نفخ کی رطوبت میں آیا تھا عیسیٰ (علیہ السلام) کا جسم بنا کیونکہ جسم حیوانی کے نفخ میں رطوبت ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ارکان اربعہ سے پانی کا رکن ہوتا ہے کہ اس سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا جسم جبریل کے وہمی پانی سے اور حضرت مریم (علیہ السلام) کے اصل پانی سے بنا اور عسی (علیہ السلام) دو جہت سے بشر کی صورت میں ہوئے ایک جہت ان کی ماں کی طرف سے تھی اور دوسری جہت جبریل سے تیے کیونکہ وہ بشر کی صورت پر ظاہر ہوئے تھے اور یہ دو جہتیں اس واسطے ہوئیں کہ اس نوع انسانی میں تکوین خلاف عادت نہ واقع ہو۔ (شیخ اکبر فصوص الحکم) ” دنیا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آدھے بشر اور آدھے روح تھے کیونکہ حضرت مریم (علیہ السلام) تو بشر تھیں اور حضرت جبرئیل (علیہ السلام) روح (فارسلنا الیھا روحنا) ہم نے حضرت مریم (علیہ السلام) کے پاس اپنی روح یعنی جبرئیل کو بھیجا اور آپ کی پیدائش حضرت جبریل (علیہ السلام) کی پھونک سے ہوئی اس لئے دونوں امور آپ میں موجود ہیں ۔ “ (جاء الحق ص 90) جس طرح نر اپنی مادہ سے جفتی ہو کر اسے حمل ٹھہراتا ہے اسی طرح جبریل (علیہ السلام) نے مباشرت فرما کر مریم ؓ کو حمل ٹھہرایا تھا لہذا جبریل ‘ عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے بمنزلہ باپ ٹھہرئے ۔ “ (تحفہ الودود اور کتاب الروح) شیعہ حضرات بھی اہل اسلام ہی کا ایک اہم اور بہت پرانافرقہ تصرف کئے جاتے ہیں اور وہ خود اپنے ہی لوگوں کو مومنین خیال کرتے ہیں اور اسلام کو اپنی میراث قرار دیتے ہیں قرآن کریم کی تفسیر میں بھی ان کا رنگ ایک انوکھا ہی رہا اور امامت کے ماننے میں بھی وہ ساری اسلامی فرقوں میں اولیت رکھتے ہیں اور اپنے عقائد کو وہ سیدنا حضرت علی ؓ اور حسین ؓ سے جوڑنے میں بہت ماہر ہیں ۔ سیدہ فاطمہ ؓ اور ان کی ذریت کو اہل بیت قرار دیتے ہیں ان کے ہاں سیدہ مریم (علیہا السلام) کی اس صورت حال کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ : ” شبہ نیست درایں کہ از قدیم عادت اللہ جاری برایں منوال است کہ اولاد از نطفقین منعقدمی شود متولد فی گیرد بدوں آب منی تولد ولد حسب عادت جاریہ ممکن نیست ماقبل آیت زیر بحث (آیت) ” فتمثل لھا بشرا سویا “۔ نیز موید ہمیں مراہم است کہ تا متمثل بشر نزد مریم نباید حاملہ نشد۔ “ ” برفرض تسلیم تاہم تواند گفت کہ عیسیٰ ولد جبریل ہست واوقدس می باشد پس بالقین عیسیٰ غیر جنس است زیراکر اززوجہ ولادت جز جبریل ست و اعتبار ابوت داردنہ اموت و اگر نہ ذواعتبارین بشری من بہتہ الام وذواعتبار قدس بجہت فرشتہ بودن اب اومی باشد باز ہم بنص قرآن زعم مسلماناں ثابت گردید کہ عیسیٰ فی الواقع بشر نیست ۔ “ (تفسیر القرآن سید علی حائر شیعہ بحوالہ تہمتہ السلیقہ) یہ جو کچھ اوپر درج کیا گیا ہے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں پھر جو کچھ لکھا ہے نہایت محتاط انداز سے لکھا ہے ورنہ جو کچھ تحریر ہوچکا ہے اس کو پڑھنا اور تحریر کرنا اتنا آسان نہیں ‘ دل دہل جاتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ ان تحریرات کو راکھ کا ڈھیر کردیا جائے لیکن اگر ایسا کیا جائے تو باقی کیا رہ جائے گا ؟ فقط قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ جب تک مس بشر نہیں تھا حضرت مریم (علیہ السلام) نے فرشتہ سے صاف کہہ دیا لیکن فرشتہ نے بھی حضرت مریم (علیہ السلام) سے بشارت دیتے وقت صاف الفاظ میں عرض کیا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہے اور وہی ہے جو ہر ایک کی بگڑی بنانے والا ہے جب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ تیرے ہاں بچہ پیدا ہوگا تو اس کے علم میں ہے کہ تیرا حال کیا ہے لہذا اس کو یہ حال بدلتے کوئی زیادہ دیر نہیں لگے گی بلکہ اس نے جس کام کو کرنا ہوتا ہے فقط حکم دیتا ہے کہ ہو ‘ تو وہ ہوجاتا ہے ، اس نے مریم سے پہلے سارہ اور ہاجرہ کی سنی اور ان کو اولاد ہی نہیں بلکہ اولاد در اولاد ہونے کی بشارت دی اور وہی ہوا جو اس نے کہا اور اے مریم تیری موجودگی میں اس نے زکریا وحنہ کی سنی اور ان کو یحییٰ جیسے بیٹا کی خوشخبری سنائی اور پھر زکریا کو بوڑھی حنہ سے ہی اولاد عطا کردی جس اللہ نے زکریا (علیہ السلام) کے لئے حنہ کی اصلاح فرما دی وہ اللہ مریم کی خاطر اس کے خاوند یوسف کو آمادہ کیوں نہیں کرسکتا ؟ ادھر اللہ نے مریم کو بشارت سنائی اور ادھر یوسف کو جو مریم کا شوہر تھا مریم کی خدمت کے لئے کمربستہ کردیا اور اس کی ایسی کمر ہمت بندھائی کہ اس نے اپنی جان کی بازی لگا کر مریم اور اس کے موعود بیٹے کی پرورش و حفاظت اور نگرانی کا حق ادا کردیا ۔ قوم نے حضرت مریم (علیہ السلام) اور اس کے بیٹے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو ختم کردینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح اپنی امان میں رکھا کہ کوئی ان کا بال بھی بیکا نہ کرسکا ۔ یوسف سیدہ مریم (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر ہیکل سے ناصرہ آیا اور ناصرہ سے اپنے آبائی وطن جاتے وقت سیدہ مریم (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ لے گیا وہاں پہنچ کر یا راستے ہی میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) تولد ہوئے جب تک اللہ نے چاہا وہ بیت لحم میں اپنے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم (علیہ السلام) کی کفالت کرتا رہا جب اس جگہ رہنے میں خطرہ محسوس ہوا تو وہاں سے ہجرت کر کے مصر چلا گیا اور اپنے بیٹے اور بیوی کو اپنے ساتھ رکھا اور اس نے بارہ سال تک ان کی خدمت کی جب وہ بادشاہ مر گیا جس سے خطرہ محسوس کر کے وہ مصر چلے گئے تھے تو وہاں سے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر وہ ناصرہ چلا آیا یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پہلی ملاقات اپنی قوم کے لوگوں سے تھی اور اس وقت عیسیٰ (علیہ السلام) بڑے بڑے مجمع عام میں بیت چیت کرسکتے تھے اور آپ کو کسی سے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی تھی ، یہاں اپنی قوم کے لوگوں سے قومی رسم و رواج کے متعلق ان کی اکثر گفتگو جاری رہتی یہاں تک کہ لوگوں کے سوالوں کا انہیں مسکت جواب دیا اور آپ کے سوالوں کا سارے لوگوں میں سے ایک بھی جواب نہ دے سکا ، وقت گزرتا رہا اور قوم کے لوگوں نے کتنی بار مریم سے شکایت کی کہ تیرا بیٹا بہت ہی عجیب ہے کہ کسی کا لحاظ نہیں کرتا اور ” خطائے بزرگان گرفتن خطا است “ کے محاورہ کے مطابق یہ کتنی ہی خطاؤں کا مرتکب ہوچکا ہے ۔ لیکن سیدہ مریم (علیہ السلام) ان کو ہمیشہ یہی اشارہ کرتیں کہ ایسی باتوں کے متعلق اس سے بات کرو وہ تم کو صحیح جواب دے گا ۔ حتی کہ وہ وقت آیا کہ جب سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے نبوت و رسالت کا دعوی کیا اور اس وقت بھی آپ کی عمر سوائے یحییٰ (علیہ السلام) کے دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) سے کم تھی کہ نبوت پر فائز کردیئے گئے ۔ 4۔ سیدہ مریم (علیہ السلام) کے مناقب میں نبی اعظم وآخر ﷺ کے ارشادات : صحیح بخاری میں روایت ہے کہ بنی کریم ﷺ نے سیدہ مریم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا کہ ” کمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء الا مریم بنت عمران واسیۃ امراۃ فرعون “۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الخلق الجزء 13) ” مردوں میں سے تو بہت سے لوگ کامل گزرے ہیں لیکن عورتوں میں سوائے مریم بن عمران اور آسیہ امراۃ فرعون کے سوا کوئی کامل نہی ہوئی ۔ “۔ ” ان ابا ہریرہ ؓ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول نساء قریش خیر نساء رکبن الابل احناۃ علی طفل وارعاۃ علی زوج فی ذات یدہ یقول ابوہریرہ ؓ علی اثر ذلک ولم ترکب مریم بن عمران بعیراقط “۔ (صحیح البخاری الجزاء 13 کتاب بدء الخلق) ” ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے قریش کی عورتیں سب عورتوں میں بہتر ہیں کہ وہ اونٹ پر سوار ہوتی ہیں اور اپنی اولاد پر بہت مہربان ہیں اور خاوندوں کے مال کا بہت خیال رکھنے والی ہیں ۔ ابوہریرہ ؓ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد کہا کہ مریم عمران کی کبھی اونٹ پر نہیں بیٹھیں ، مطلب یہ ہے کہ باقی صفات تو ان میں بدستور قریش کی عورتیں کی سی تھیں لیکن انہوں نے اونٹ پر سواری نہیں کی تھی۔ ” عن ہشام قال اخبرنی ابی قال سمعت عبداللہ بن جعفر قال سمعت علیا یقول سمعت النبی ﷺ یقول خیر نسائھا مریم بنت عمران وخیر نساء ھاخدیجہ “ (صحیح بخاری الجزء 13 کتاب بدء الخلق) ” ہشام نے کہا کہ مجھ کو میرے باپ عروہ بن زبیر نے خبر دی اس نے کہا میں نے عبداللہ بن جعفر سے سنا انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی ؓ سے سنا ‘ وہ کہتے تھے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ دنیا کی بہتر عورت مریم عمران کی بیٹی تھیں اور ان کے بعد بہتر عورت خدیجہ تھیں ۔ “ مطلب یہ ہے کہ بہتر عورت ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ نکاح نہ کرے بلکہ بہتر عورت ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خاوند کی فرمانبردار ہو اور اپنا مال خاوند کے قدموں میں رکھ دے اور دکھ سکھ میں اس کا ساتھ دے اور ہر حال میں اس کے ساتھ دست تعاون بڑھائے ۔ سیدہ مریم (علیہ السلام) بنت عمران کے متعلق نبی اعظم وآخر ﷺ کے ارشادات صحیح بخاری جلد اول ص 272 ‘ صحیح مسلم ص 308 جلد دوم ‘ فتح الباری الجزء 13 ص 272 ‘ ہدایہ جلد 2 ص 60 ‘ مجمع الزوائد ص 271 ج 4 ‘ کنزالعمال ج 6 ص 227 ملاحظہ فرمائیں ۔ اور اسی طرح (احصنت فرجھا) تفسیر میں نبی کریم ﷺ نے سیدہ فاطمہ ؓ کو مریم کی مثل قرار دیا اور نہایت وضاحت سے ارشاد فرمایا کہ ان فاطمۃ احصنت فرجھا واللہ عزوجل ادخلھا باحصان فرجھا وذریتھا الجنۃ (مجمع الزاوائدج 6 ص 202 ‘ کنزالعمال ج 6 ص 219) طبرانی ‘ بزار ‘ عن عبداللہ بن مسعود ؓ ” بلاشبہ فاطمہ ؓ نے پاکیزگی و طہارت کے لئے شادی کی تو اللہ تعالیٰ نے شادی کرنے کے باعث اس کو اور اس کی اولاد کو جنت کا مستحق کردیا ۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا ان فاطمۃ احصنت فرجھا فحرمھا اللہ وذریتھا علی النار “ (مستدرک حاکم ج 2 ص 152 ‘ خصائص کبری ج 4 ص 202 اور رحمہ المہداۃ ص 321 بحوالہ حلیہ ابو نعیم عن عبداللہ بن مسعود ؓ ’ ” بلاشبہ فاطمہ ؓ نے پاکیزگی و طہارت کے لئے شادی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر اور اس کی اولاد پر آگ حرام کردی ۔ “ اور اسی طرح آپ ﷺ نے سیدہ مریم ؓ کے متعلق ارشاد فرمایا ” وکلمتہ القاھا الی مریم البتول الطیبۃ الحصینۃ فحملت بعیسی فخلقہ اللہ من روحہ “ اور آپ نے مریم اور فاطمہ دونوں کو ” البتول “ ” العذراء “ ” العفیفۃ “ ” الحصینۃ “ جیسے خطابات سے نوازا ہے کہ فاطمہ اور مریم دونوں میں ساری قدریں مشترک تھیں ، احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے لیکن تعجب ہے کہ انہی الفاظ سے استدلال کرکے علماء کرام نے سید مریم (علیہ السلام) کو نکاح جیسی نعمت خداوندی سے باز رکھنے کی کوشش کی ہے اور نبی اعظم وآخر ﷺ نے ہر وہ لفظ جو مریم صدیقہ کے لئے استعمال کیا وہی فاطمۃ الزہرا (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے لئے استعمال فرمایا تاکہ دونوں کا تقابل پاکیزگی و طہارت میں قائم رہے اور کوئی شخص کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو ۔ سید مریم (علیہ السلام) کب تک زندہ رہیں ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کے بعد کہاں رہیں ؟ کیسے رہیں اور کہاں وفات پائی ؟ کہاں مدفون ہوئیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد وفات پائی یا پہلے وفات پا گئیں ؟ ایسے سوالات کے جواب نہیں دیئے جاسکتے کیونکہ اس سلسلہ میں کہیں تاریخی شہادتیں سامنے نہیں آئیں ۔ اناجیل میں کچھ اشارات ایسے پائے جاتے ہیں جن سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد زندہ تھیں لیکن قرآن کریم کی روشنی میں واقعات کو دیکھا جائے تو یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی اور شرح صدر کے ساتھ کچھ نہیں بیان کیا جاسکتا ۔ دوسری سرگزشتوں کی طرح یہ مضمون بھی نہایت مختصر بیان کیا گیا ہے اس لئے کہ اس کی تفصیلات سورة آل عمران ‘ النساء ‘ المائدہ اور خصوصا اس سورة مریم میں تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے ، یہ اشارات فقط مسلسل انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور یہ کہ اشاروں ہی اشاروں میں بہت سا مضمون بیان کیا جاسکتا ہے اور سمجھا جاسکتا ہے خصوصا جب سورة مریم کی آیات کی تفسیر بھی پیش نظر ہو اور اس کے ساتھ ملا کر اس کو دیکھا جائے تو ہماری زندگی کے لئے کتنے ہی راہنما اصول اس سے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں اور ان سے کوئی مستفید ہونا چاہئے تو یقینا ہو سکتا ہے ۔ خصوصا وہ باتیں جو وہم پرستوں نے اپنے وہم کی بنا پر قرآن کریم کی آیات کے ساتھ چسپاں کردی ہیں کہ قرآں کریم سے بالکل الگ تھلک کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی شخص گہرا مطالعہ کرکے اتنا کام کرلے تو وہ یقینا شاباش کا مستحق ہے لیکن ہمارے عوام تو عوام خواص کی حالت عوام سے بھی گئی گزری ہے اور وہ اپنے جماعتی ‘ شخصی اور تقلیدی مفروضوں سے باہر نکل کر جھانک بھی نہیں سکتے کہ کہیں کسی کی بددعا نہ لگ جائے ۔ ہم نے آیات کریمات کی تفسیر میں بھی اور اس مختصر مضمون میں بھی یوسف کو سید مریم (علیہ السلام) کا شوہر بیان کیا ہے اور ہمارے اس بیان کا ماخذ اناجیل اور تاریخ کے صفحات ہیں اور مفسرین نے بھی کہیں کہیں دبی زبان میں بول کر خفیف قلم کے ساتھ اس نام کو تحریر کیا ہے لیکن اس نام کی وضاحت کتاب وسنت میں یقینا نہیں آئی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آخر سارے نبیوں کے نام بھی کتاب وسنت میں نہیں ملتے بلکہ 24 ، 25 نبیوں کے ناموں پر اکتفا کیا جاتا ہے پھر جن کے نام لئے گئے ہیں ان سب کے باپوں ‘ بیویوں ‘ اولادوں ‘ ان کے نکاحون اور نکاح خوانوں کے نام کب ملتے ہیں ؟ یقینا نہیں ۔ ان میں سے صرف ایک آدم ہی ہیں جن کے ماں باپ کا نام بھی نہیں اور وہ کسی کے ولد بھی نہیں بلکہ وہ فقط اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اگر ولد ہوتے تو قرآن کریم ان کو ولد قرار دیتا تو حدیث شریف میں کہیں ان کو کسی کا ولد کہا گیا ہو تو یقینا ان کا باپ ہوتا اور اگر باپ ہوتا تو لاریب ان کی ماں بھی ہوتی ، غور کرو کہ جن لوگوں نے اللہ کو کسی کا باپ مانا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے مطالبہ کیا کہ مجھے باپ ماننے والو میری بیوی بتاؤ اور اگر تم بیوی نہ بتا سکو تو کسی کو میری اولاد قراردینے میں تم سراسر جھوٹے ہو ، میں نے وضاحت اس لئے کی ہے کہ یوسف کے نام سے کسی کو یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ شاید یہ نام کہیں قرآن وسنت سے لیا گیا ہے اور وہ اس چیز کا مطالبہ کرے کہ یوسف کا نام قرآن کریم یا صحیح حدیث میں مطلق کہیں نہیں بیان ہوا بلکہ یہ اناجیل اور تاریخ سے لیا گیا ہے اور اب اسی بات پر سیدہ مریم (علیہ السلام) کا تذکرہ ختم کیا جا رہا ہے ۔ تفسیر : عیسی (علیہ السلام) کا دعوی نبوت جو قوم کے سامنے واضح الفاظ میں بیان کیا : 30۔ آیت 30 سے 33 تک چار آیتوں میں آپ کی وہ تقریر ہے جو آپ نے قوم کے سامنے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی بعثت کے بعد پیش کی اور تقریر کا ایک ایک لفظ یہ بتا رہا ہے کہ یہ آپ کا پیغام رسالت ہے جو قوم کے سامنے پیش کیا لیکن ہمارے علمائے کرام و مفسرین عظام نے اس کو دودھ پیتے بچے کا کلام قرار دیا چناچہ تحریر ہے کہ ” آپ دودھ پی رہے تھے تو یہ باتیں سن کر آپ نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور ان لوگوں کی طرف رخ کر کے یہ کلام معجزنما ارشاد فرمایا ۔ سب سے پہلے یہ اعلان کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں ‘ نہ میں خدا ہوں اور نہ خدا کا بیٹا جس طرح ان کے پرستار ان کے متعلق اعتقاد رکھنے والے تھے ، آنے والی غلطیوں کا پہلے ہی دم میں ازلہ فرما دیا نیز مقام عبدیت تمام مقامات قرب سے اعلی ترین مقام ہے ۔ “ پھر اندر کے چور کا مفسرین نے یہ علاج تجویز فرمایا کہ زیر نظر آیت میں ” ایک چیز غور طلب ہے کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے کتاب گا اور مجھے مقررہ وقت پر نبی بنا کر مبعوث فرمائے گا اور مجھے بابرکت کرے گا بلکہ تمام صیغے ماضی کے استعمال ہوئے ہیں جن کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب مرحمت فرما دی ہے مجھے نبی بنا دیا ہے اور مجھے بابرکت کردیا ہے “ اس کی کوئی وجوہ بیان کی گئی ہیں ۔ 1۔ اللہ تعالیٰ نے بچپن میں ہی ان نعمتوں سے سرفراز فرما دیا تھ۔ 2۔ جو چیز علم الہی میں مقدر ہوچکی ہو وہ اگرچہ وقوع پذیر نہ ہو پھر بھی اس کو زمانہ ماضی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ اس کے واقعہ ہونے میں کسی قسم کا شائبہ نہیں ۔ (ضیاء القرآن) اس لئے لوگوں میں مشہور ہے کہ ” ملاں آں باشد کہ چپ نہ شود۔ “ مفسرین نے ایک الٹی بات کہہ کر اس کا سیدھا مطلب نکالنے کے لئے اپنی وکالت سے ایک نکتہ بھی بیان فرمایا ۔ پھر جب نکتہ سنجیاں شروع کیں تو عیسائیوں کی ترجمانی میں جو کچھ ہوسکا وہ دل کھول کر کر دکھایا ۔
Top