Urwatul-Wusqaa - Maryam : 33
وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا
وَالسَّلٰمُ : اور سلامتی عَلَيَّ : مجھ پر يَوْمَ : جس دن وُلِدْتُّ : میں پیدا ہوا وَيَوْمَ : اور جس دن اَمُوْتُ : میں مروں گا وَيَوْمَ : اور جس دن اُبْعَثُ : اٹھایا جاؤں گا حَيًّا : زندہ ہوکر
مجھ پر سلامتی کا پیغام ہے جس دن میں پیدا ہوا ، جس دن میں مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھایا جاؤں گا !
عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا لوگو ! میں تو سلامتی ہی سلامتی ہوں اگر تم سمجھو : 33۔ فرمایا اے میرے رسول عیسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں سے فرما دیجئے کہ لوگو ! تم مجھے فتنہ جو اور گستاخ قرار دے رہے ہو حالانکہ اللہ نے تو مجھے سلامتی ہی سلامتی بنایا ہے ، میری والدہ ماجدہ نے اسلام کے قاعدہ و قانون کے مطابق نکاح کیا اور اسی طرح اپنی عفت وپاکبازی اور پاکدامنی و طہارت اور حفاظت الہی میں مجھے جنم دیا اور قوم کے سامنے میں قبل از وقت اعلان کرتا ہوں کہ قوم چاہے جو کرلے اور مخالفین مجھے مارنے کی چاہے جتنی بھی سازشیں کریں ‘ کرتے رہیں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گی اور مجھے جب تک اللہ نے باقی رکھنا ہے میرا بال بھی کوئی بیکا نہیں کرسکے گا کیونکہ میں دنیاداروں کی حفاظت میں نہیں براہ راست اللہ رب العزت کی حفاظت میں ہوں اس لئے میرے لئے پوری زندگی سلامتی ہی کی زندگی ہوگی ۔ پھر جس روز مجھے اپنی طبعی موت مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ مجھے سلامتی میں رکھے گا اور مجھ پر کوئی گرفت نہیں ہوگی اور یہ کہ ساری گرفت میری مخالفین کیلئے ہوگی اس طرح تین اوقات یعنی پیدائش وفات اور حشر کے دن انسان کے لئے جس خصوصی اہمیت کے حامل ہیں وہ محتاج بیان نہیں ، ان میں سے ہر ایک وقت یا دن زندگی کے نئے اور نامعلوم دور کا یوم آغاز ہے اور ان ایام میں انسان کی بےبسی اور بےکسی انتہا کو پہنچی ہوئی ہوتی ہے یہ تینوں دن بہت اندیشہ ناک ہیں کیونکہ ان میں آدمی وہ دیکھتا ہے جو اس سے پہلے اس نے نہیں دیکھا ہوتا اس لئے ان تینوں موقعوں پر بہت وحشت ہوتی ہے لیکن ان تینوں دنوں میں مجھے امن وسلامتی عطا فرمائی گئی ، اسی کو لوگ کہتے ہیں ” جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ۔ “ ان پانچ آیتوں کا ترجمہ ایک بار پھر دیکھ لیں اور فیصلہ کرلیں کہ حقیقت کیا ہے ۔ ؟ : اس پر مریم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے بات کرو ‘ قوم کے لوگوں نے کہا ‘ بھلا اس سے ہم کیا بات کریں ‘ جو ابھی گود میں بیٹھنے کا بچہ ہے ۔ 29۔ وہ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) بول اٹھے ‘ میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے ۔ 30۔ اور مجھے اس نے بابرکت بنا لیا ہے خواہ میں کسی جگہ بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز پڑھنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس وقت جب تک میں زندہ رہوں۔ 31 ۔ اس نے مجھے اپنی ماں کا خدمت گزار بنایا اور ایسا نہیں کیا میں خود سر اور نافرمان ہوتا۔ 32۔ مجھ پر اس کی طرف سے سلامتی کا پیغام ہے جس دن میں پیدا ہوا ‘ جس دن میں مروں گا اور جس دن میں دوبارہ زندہ اٹھایا جاؤں گا ۔ 33۔ “ یہ بات آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ سیدہ مریم (علیہ السلام) حاملہ تھیں کہ ناصرہ سے اپنے اہل کے ساتھ بیت لحم کو گئیں اور وہیں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور بیت لحم سے واپس ناصرہ یا یروشلم کی طرف نہیں آئے بلکہ اپنے لوگوں کے ساتھ حکومت وقت سے خطرہ محسوس کرکے مصر کو بھاگ گئے وہاں اس بادشاہ ہیرودیس کے مرنے تک رہے ۔ سیدہ مریم (علیہ السلام) مع اپنے اہل کے یروشلم عید نسح کے موقع پر آتی رہیں لیکن بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ساتھ نہیں لائین ، عیسیٰ (علیہ السلام) بارہ تیرہ برس کے ہوگئے اور بادشاہ ہیرودیس نے وفات پائی تو پہلی بار قوم کے لوگوں کے پاس سیدہ مریم (علیہ السلام) اپنے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو لے کر آئیں جیسا کہ پیچھے گزر چکا ‘ اس بان کو ہمارے مفسرین نے تسلیم کیا ہے لیکن جب قوم کے لوگوں نے سیدہ مریم (علیہ السلام) سے اس کے بیٹے کی باتوں کے خلاف شکایت اٹھائی جو وہ قوم کے رسم و رواج کے خلاف کرتے تھے تو سیدہ مریم (علیہ السلام) نے انکو اشارہ دیا کہ اس لڑکے ہی سے بات کرو اور انہوں نے چونکہ پہلے ہی باتیں کرکے دیکھ لیا ہو تھا لہذا ان سے بات کرنا پسند نہیں کیا یہاں تک مضمون بیان کرنے کے بعد درمیان میں ان کی زندگی کے بقیہ حالات کو چھوڑ دیا گیا پھر جب ان کی بعثت کا وقت آیا تو پہلے وہ صرف وعظ ونصیحت اور تلقین کی صورت میں باتیں کرتے تھے اب انہوں نے باقاعدہ پیغام الہی پا کر بات کرنا شروع کی دوبارہ اس قصہ کو ان کے بیان سے شروع کیا عیسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں کو یوں خطاب کیا کہ اپنی پوزیشن بھی ان پر واضح کردی اور آئندہ پروگرام سے بھی ان کو مطلع کردیا اور جن خطوط پر آپ کے مواعظ کا سلسلہ چلنے والا تھا ان کی نشاندہی بھی فرما دی اور اپنے موعود ہونے کی بھی انکو اطلاع کردی کہ میں کون ہوں ؟ وہی جس کی خبر اس سے پہلے میری والدہ ماجدہ کے ذریعہ سے میرے پیدا ہونے سے بھی پہلے تم کو دے دی گئی تھی اور والدہ محترمہ کو اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کے ذریعہ سے پہنچائی تھی ۔ لیکن علمائے اسلام ! مفتیان شرع دین متین اور مفسرین عظام نے ایک مخصوص نظریہ کے تحت اس کو کیا بنا دیا ۔ اور پھر اس طرح ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی آج تک کہتے آئے ہیں اور کہتے رہیں گے کیونکہ اب قوم مسلم کا بھی قومی نظریہ قرار پا گیا ہے اور کسی قوم کے نظریہ کے خلاف بیان کرنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا اور ہے اور رہے گا ، سیدہ مریم (علیہ السلام) نے قوم کے نظریہ کے خلاف کیا تو اس کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا پھر عیسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے نظریہ کے خلاف کہا تو قوم کے لوگوں کی اکثریت نے ان کی کیا گت بنائی اور اب جو شخص اپنی قوم کے اس نظریہ کے خلاف کہہ رہا ہے اس کا حشر جو ہو رہا ہے اس پر بھی الامان الحفیظ ہی کہا جاسکتا ہے ، کسی کو ذرا کہہ کر تو دیکھو کہ تیرا کوئی باپ نہیں یا تو بغیر باپ کے پیدا ہوا ہے پھر دیکھو کہ کیا ہوتا ہے ؟ اب کسی مولانا ‘ علامہ حضرات کی بچی کے ساتھ ایسا عمل ہوجائے تو کیا ہو ؟ کیا اس وقت اللہ قادر تھا اور اب نہیں رہا ؟ بغیر ماں باپ کے مخلوق تھی ہے اور ہوتی رہے گی لیکن کیا کوئی بغیر والد کے ولد بھی ہو سکتا ہے ؟ یا بغیر والدہ کے ولد ممکن ہے ؟ کیا ولد ‘ والدہ اور والد میں سے کسی کا ذکر کیا جائے تو دوسرے دو لازم نہیں آتے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا کہ تم اللہ کے لئے اولاد جو قرار دیتے ہو تو اس کی بیوی کیوں نہیں بناتے ؟ اور یہ کہ اگر تم اس کی بیوی (صاحبہ) نہیں بنا سکتے تو اس کیا اولاد قرار دینے میں جھوٹے ہو ؟ کیا اس اصول کے مطابق جو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ تسلیم نہ کریں اور اس کے باوجود انکو ولد بھی کہیں وہ جھوٹے نہیں قرار پائیں گے ؟ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) ولد نہیں تھے ؟ مسیح (علیہ السلام) بلاشبہ مثیل آدم ہیں لیکن کس صفت میں ؟ مخلوق ہونے کی صفت میں ‘ انسان ہوں کی صفت میں ‘ ولد ہونے کی صفت میں ‘ بغیر باپ ہونے کی صفت میں یا بغیر ماں باپ ہونے کی صفت میں ؟ ظاہر ہے کہ مخلوق کے لحاظ سے دنیا کی ہرچیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے لہذا مخلوق ہونے کی صفت میں عیسیٰ (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کے مثیل ہیں کیونکہ ساری کائنات کی ہر شے مخلوق خدا ہی ہے ۔ انسان ہونے کے ناطے بھی مثال آدم ہیں کیونکہ سارے انسان اللہ تعالیٰ ہی کی مخلوق ہیں اور کوئی انسان بھی اس کے والد اور والدہ کا کیا سوال ہو سکتا ہے ؟ لہذا مثیل آدم ہونے کا مطلب بالکل واضح اور صاف ہے کہ جس طرح آدم اللہ نہیں ‘ اللہ کا بیٹا نہیں اور اللہ کا جزء نہیں اسی طرح آدم کا مثیل عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ نہیں ‘ اللہ کا بیٹا نہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کا جزء ہے بلکہ وہ مخلوق ہیں اور انسان ہیں جس طرح ہر انسان اللہ کی مخلوق ہے اور بےپدر ہونے میں عیسیٰ (علیہ السلام) مثیل آدم نہیں کہلا سکتے اس لئے کہ مسیح ولد ہیں اور آدم کسی کے ولد نہیں ؟ اور ولد کے لئے اس کے ماں باپ کا ہونا ضروری ہے اور جو ولد نہیں اس کے لئے ماں باپ کا نہ ہونا لازم آتا ہے آدم چونکہ ولد نہیں اس لئے ان کے کوئی ماں باپ نہیں لہذا نتیجہ یہ رہا کہ ہر مولود کے لئے مخلوق خدا ہونا لازم آتا ہے لیکن ہر مخلوق خدا کے لئے مولود ہونا لازم نہیں ۔ فافھم فتدبر۔
Top