Urwatul-Wusqaa - Maryam : 36
وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ
وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ رَبِّيْ : میرا رب وَرَبُّكُمْ : اور تمہارا رب فَاعْبُدُوْهُ : پس اس کی عبادت کرو ھٰذَا : یہ صِرَاطٌ : راستہ مُّسْتَقِيْمٌ : سیدھا
اور بلاشبہ اللہ ہی میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے پس اس کی بندگی کرو یہی سیدھا راستہ ہے
سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے کلام کا اختتام اس آیت پر ہے : 36۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے آپ کی قوم کو آخری پیغام اس طرح سنوایا جارہا ہے کہ قوم کے لوگوں سے وضاحت کر کے کہہ دو کہ بلاشبہ نہ میں اللہ ہوں ‘ نہ اللہ کا بیٹا اور تین میں کا ایک بلکہ اللہ ہی کی وہ ذات ہے جو میرا رب ہے اور تمہارا بھی ‘ میں بھی اسی کی عبادت کرتا ہوں اور تم کو بھی اسی کی عبادت کرنے کا حکم دیتا ہوں یہی راہ سیدھی اور صاف راہ ہے لوگ اس پر کتنے ہی حاشیے چڑھائیں کسی کے کہنے سے کبھی حقیقت تو نہیں بدلتی ، یہودیوں نے ولد الحرام کا الزام لگایا اور عیسائیوں نے اس کو اللہ ‘ اللہ کا بیٹا اور تین میں کا ایک قرار دے لیا اور مسلمان آئے تو انہوں نے اس کو بےپدر اور بغیر باپ کے ہونے پر زور دیا لیکن کیا کسی کے کہنے سے کوئی حقیقت پر بھی اثر پڑا ؟ کسی نے افراط سے کام لیا تو کسی نے تفریط سے لیکن افراط افراط ہے اور تفریط تفریط ، حقیقت صرف اتنی ہے کہ وہ اللہ کا بندہ اور اللہ کے رسولوں میں سے ایک رسول ہے جس طرح کے دوسرے اللہ کے بندے اور رسول تھے ہاں ! وہ اللہ تعالیٰ کے ان رسولوں میں سے ایک رسول ہے جس طرح کے دوسرے اللہ کے بندے اور رسول تھے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ان رسولوں میں سے تھا جن کی پیدائش کی خوشخبری ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی سنا دی گئی تھی اور جو پیش گوئی کے طور پر اس کی پیدائش سے پہلے کہا گیا تھا وہ من وعن پورا ہوا اس لئے کہ وہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا کہا ہوا تھا یہی بات سیدھی اور صاف ہے ۔ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے ہاں ! یہ توفیق اسی کو نصبر ہوتی ہے جو اس سے توفیق طلب کرتا ہے آئندہ آنے والی چار آیتوں کا مضمون تو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق نہیں لیکن ذرا گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو ایک مخفی اشارہ اس مضمون کی طرف جاتا ہے لہذا ان چاروں آیات کے بعد اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق مختصر مضمون تحریر کیا جائے گا اس کو بھی غور کے ساتھ مطالعہ کرلیں ۔
Top