Urwatul-Wusqaa - Maryam : 63
تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا
تِلْكَ : یہ الْجَنَّةُ : جنت الَّتِيْ : وہ جو کہ نُوْرِثُ : ہم وارث بنائینگے مِنْ : سے ۔ کو عِبَادِنَا : اپنے بندے مَنْ : جو كَانَ : ہوں گے تَقِيًّا : پرہیزگار
سو دیکھو یہ جنت ہے جس کا ہم اسے وارث کردیتے ہیں جو ہمارے بندوں میں سے متقی ہوتا ہے
جنت ایسا ٹھکانا ہے کہ ہم متقین کو اس کا وارث قرار دیتے ہیں ۔ 63۔ جنت میں سب سے پہلے کس کو رکھا گیا ؟ وہ آدم ہی تو تھے ، آدم اس جنت سے نکلے تو ان کو بھوک بھی لگی ‘ ننگے بھی ہوئے پیاس بھی محسوس کی اور دھوپ کی تپش سے تکلیف بھی پائی کیوں ؟ اس لئے کہ انہی چیزوں سے نجات کے لئے ان کو جنت میں رکھا گیا چناچہ ارشاد ہوا تھا کہ ” جنت میں تجھے یہ ملے گا کہ اس میں نہ تو بھوکا ہوگا اور نہ ننگا ‘ نہ پیاسا ہوگا اور نہ دھوپ کی تپش اٹھائے گا ۔ “ (طہ) جب وہ جنت سے نکلے تو چار چیزون کی مشقت میں وہ گرفتار ہوئے کھانا ‘ پینا ‘ پہننا اور رہنا یہی انسان کی چار مختصر ضروریات ہیں ان ہی کو اس نے اپنی ہوا ہوس سے پھیلا کر ضروریات کا ایک عالم پیدا کرلیا جس کے مہیا کرنے ‘ ضرورت سے زیادہ حاصل کرنے اور عمدہ بنانے میں اپنی موجودہ زندگی کی تمام تر توجہ کو مصروف کر کے اصل جنت کی طلب سے ہاتھ دھو بیٹھا ، یہیں سے شریعت کی تکلیف عائد ہوئی اور جائز اکل ‘ جائز شرب ‘ جائز لباس اور جائز مسکن کے حصول کے طریقوں کی تعلیم اور ناجائز طریقوں سے احتراز کا حکم ہوا۔ اس سے شریعت کے اصول ، معاملات اور اخلاق انسانی کی ذمہ داریاں پید اہوئیں اور پھر اسی لئے تاکہ حیات فانی میں پھنس کر حیات غیر فانی کی طلب کو وہ بھول نہ جائے ، عرفان الہی اور عبادت الہی اور اطاعت الہی کی تلقین ہوئی جو جنت کی اصل غذا اور روزی ہے اور ” یہی وہ میراث لینے والے ہیں جو سایہ دار باغات کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ۔ “ (المومنون 23 : 10 ، 11) لیکن وراثت انسان کو اپنے اعمال خیر ہی کے ذریعہ ملے گی چناچہ اہل جنت کو جنت میں داخلہ کے وقت یہ بشارت ملے گی ” اس جنت میں وہ کچھ ہے جس کو دل چاہے اور آنکھوں کو لطف ملے اور یہ کہ تم کو اس میں ہمیشہ رہنا ہے اور یہی وہ جنت ہے جس کے وارث اپنے کاموں کے بدلہ میں تم بنائے گئے ۔ “ (الزخرف 43 : 71 ، 72) اور یہی وہ لوگ ہیں جن کو منادی غیب یہ آواز دے گا ” کہ یہی وہ جنت ہے جس کے وارث تم اپنے کاموں کے بدلہ میں بنائے گئے ۔ “ (الاعراف 7 : 43) ان آیتوں سے اور ان جیسی اور بہت سی آیتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے انسان کا اصل مقام وہی قرار دیا ہے جہاں نہ بھوک ہے ‘ نہ پیاس ‘ نہ برہنگی اور نہ دھوپ کی تکلیف ‘ جہاں کی بادشاہی لازوال اور جہاں کی زندگی غیر فانی ہے لیکن اس کے حصول کا ذریعہ صرف انسان کا نیک عمل اور صحیح عرفان ہے جن کے مجموعہ کا نام ” تقوی “ ہے اور یہی زیر نظر آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ ” سودیکھو یہ جنت ہے جس کا ہم اسے وارث کردیتے ہیں جو ہمارے بندوں میں سے متقی ہوتا ہے ۔ “
Top