Urwatul-Wusqaa - Maryam : 88
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ
وَقَالُوا : اور وہ کہتے ہیں اتَّخَذَ : بنالیا ہے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَلَدًا : بیٹا
اور ان لوگوں نے کہا کہ خدائے رحمن نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے
انکی کیا ہی بات ہے کہ انہوں نے تو خدائے رحمن کے لئے ایک بیٹا بھی بنا رکھا ہے : 88۔ زیر نظر آیت سے مضمون کا رخ صاف اسی طرف پھر چکا ہے جس طرح سورة کے شروع میں بات چلی تھی اور وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی بات تھی اس موضوع کو دوبارہ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ماننے کے معاملہ میں مشرکین عرب اور یہود ونصاری سب یکساں ہیں ۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے ‘ یہود عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کو ‘ جیسے کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے ” ولد “ کے معنی اولاد کے ہیں وہ لڑکی ہو ایا لڑکا اور یہ لفظ واحد جمع مذکر اور مونث سب کے لئے آتا ہے ۔ اوپر کی آیات سے شفاعت باطل کی تردید ہوتی چلی آرہی ہے اور ان آیات میں شرک کی اس قسم کی تردید مقصود ہے ، ان سب لوگوں نے اللہ کے لئے اولاد کیوں قرار دی ان سب کے ہاں قدر مشترک یہی ہے کہ یہ لوگ ہماری سفارش کریں گے عربوں کے ہاں ساری جاہلی قوموں کی طرح یہ تصور پایا جاتا تھا کہ سب سے بڑی سفارش بیٹی کی ہوتی ہے لہذا انہوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں تسلیم کیا اور یہود ونصاری عربوں کے مقابلہ میں پڑھے لکھے متصور ہوتے تھے اس لئے انہوں نے بیٹیوں پر بیٹوں کو ترجیح دی کہ بیٹے ہی باپ کے قائم مقام اور باپ کے کاموں کے مختار تصور کئے جاتے ہیں اور آج ہم مسلمانوں میں اللہ کے بیٹے اور بیٹیوں کا تصور تو نہیں پایا جاتا کیونکہ قرآن کریم نے اس کی واضح الفاظ میں تردید کی ہے اس لئے ہم نے اللہ کے دوست اور پیارے تصور کرکے ان کو حاجت روا اور مشکل کشا بنا رکھا ہے جو یہاں بھی ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری بگڑی بناتے ہیں اور آخرت میں بھی وہ ہمارے سفارشی ہوں گے اور انہی کے ذریعہ ہم نجات حاصل کرسکیں گے گویا شکلیں سب کے ہاں اگرچہ الگ الگ ہیں لیکن نظریہ سب کے ہاں ایک ہی جیسا ہے ۔
Top