Urwatul-Wusqaa - Maryam : 96
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک سَيَجْعَلُ : پیدا کردے گا لَهُمُ : ان کے لیے الرَّحْمٰنُ : رحمن وُدًّا : محبت
بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک عملوں میں لگ گئے ہیں ، یہ یقین ہے کہ خدائے رحمن ان کے لیے محبت پیدا کر دے
ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے رحمن کی دوستی میں ہوں گے : 96۔ فرمایا بلاشبہ جن لوگوں نے اپنی زندگیاں محفوظ طریقہ سے گزاری ہوں گی ان کے لئے اللہ رب العزت صاحب ذوالجلال والاکرام نے مہر و محبت کی فضا پیدا کردی ہوگی کہ ان کا استقبال اللہ تعالیٰ کی فرشتے بھی کریں گے اور خود رب کریم کی طرف سے بھی سلام وتحیت ان کو پہنچایا جائے گا اور خود اہل ایمان بھی جب آپس میں ملیں گے تو ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دیتے ہوں گے اور فضا اہلا سہلا مرحبا کے کلمات سے گونج رہی ہوگی گویا یہ وہ لوگ آرہے ہیں جو فتح مند ہو کر آئے ہیں ۔ شاید آپ نے غور کیا ہوگا یا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں سے اسم ” رحمن “ بار بار اس سورة میں آیا ہے جو کہ آیت 18 ‘ 26 ‘ 44 ‘ 45 ‘ 58 ‘ 61 ‘ 69 ‘ 75 ‘ 78 ‘ 88 ‘ 91 ‘ 92 ‘ 93 اور 96 مرتبہ استعمال ہوا ہے سورة ‘ سورة مریم میں دہرایا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مفسرین نے اس سورة کو سورة رحمانی کہا ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی ضرور حکمت ہوگی ۔ کہا گیا ہے کہ ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے جو صفت رحمن کا سہارا لے کر بداعمالیاں کی گئی ہیں وہ کسی اور صفت پر انحصار کرتے ہوئے نہیں کی گئیں اس لئے اس سورت میں دوسرے مطالب کے ساتھ ساتھ رحمانیت کے غلط تصور کی اصلاح کرکے اس کا صحیح تصور میں دیا گیا ہے اس لئے اسم ” رحمن “ کا حوالہ اس میں بار بار آیا ہے ، مثلا اس سورت میں سب سے پہلے قوم نصاری کا ذکر ہے اس لئے سب سے پہلے انہیں کی گمراہی کو لیجئے ان کے وہم میں انسان چونکہ ازلی وابدی گنہگار ہے اور اس کی نجات کی کوئی شکل ہی نہیں تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمان کے باعث اپنے بیٹے کو بھیجا جو صلیب پر چڑھ کر اپنے تمام ماننے والوں کے گناہوں کا کفارہ بن گیا ، یہود کا ذکر بھی آپ پیچھے پڑھتے آ رہے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے اللہ رب العزت کی صفت رحمانیت ہی کی آڑ لی ہے ان کا تصور یہ ہے کہ ہم نبیوں اور ولیوں کی اولاد ہیں اس لئے ہم اول تو دوزخ میں ڈالے ہی نہیں جاسکتے اور اگر ڈالے بھی گئے تو صرف چند دنوں کے لئے گناہوں کے کفارہ میں ڈالے جائیں گے اور ” رحمن “ ہمیں بخش دے گا اور مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بنا کر ان کی پوجا کرتے تھے ان کا خیال یہ تھا کہ پہلے تو حشر ونشر کی بات ہی کوئی پختہ نہیں ہے اگر ہوگی بھی تو خدائے رحمن کی یہ بیٹیاں سفارش کر کے ہمیں بخشوا لیں گی ، یہ اور اسی طرح کے دوسرے تمام گمراہ نظریوں سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت کا صحیح تصور دنیا والوں کے سامنے پیش کردیا اور قرآن کریم کی ابدی تعلیم میں اس کی پوری پوری وضاحت فرما دی آپ اس سورت کا مطالعہ کرتے وقت اس کی تفسیر دیکھتے وقت یہ بات اپنی ذہن میں رکھ کر مطالعہ کیجئے انشاء اللہ العزیز آپ پر بہت بند دروازے خود بخود کھلتے جائیں گے اور یاد رکھئے کہ قرآن کریم کسی کی میراث نہیں کہ وہ جو چاہیں اس کے متعلق بیان کریں اور ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے ، ہرگز نہیں قرآن کریم پوری نوع انسانیت کے لئے ہے اور سب کو حق ہے کہ اس کی تعلیمات پر براہ راست تصریف آیات اور صحیح احادیث کی روشنی میں غور وفکر کریں اور اپنے رب کریم کے کلام کو خود سمجھیں کیونکہ یہ ہم انسانوں ہی کی زبان میں نازل کیا گیا ہے ۔
Top