Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 101
وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ١ۙۗ كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ٘
وَلَمَّا : اور جب جَآءَهُمْ : آیا، اُن رَسُوْلٌ : ایک رسول مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کی طرف مُصَدِّقٌ : تصدیق کرنے والا لِمَا : اسکی جو مَعَهُمْ : ان کے پاس نَبَذَ : پھینک دیا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنَ : سے الَّذِیْنَ : جنہیں أُوْتُوا الْكِتَابَ : کتاب دی گئی كِتَابَ اللہِ : اللہ کی کتاب وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ : اپنی پیٹھ پیچھے کَاَنَّهُمْ : گویا کہ وہ لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہی نہیں
اس وقت کو یاد کرو جب اللہ کا ایک رسول اس کتاب کی تصدیق کرتا ہوا آیا جو پہلے سے ان کے پاس موجود تھی تو ان لوگوں میں سے ایک گروہ نے جو کتاب الٰہی رکھتا تھا کتاب الٰہی کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا گویا وہ اسے جانتے ہی نہیں
جب ان کے پاس رسول آیا ” رسول “ سے مراد کونسا رسول ہے ؟ 191: یہود سے کہا جاتا ہے کہ کتاب پر عمل کرنا تمہارا مقصد نہیں ، تمہاری قومی خصوصیت ہے عہد کرنا اور توڑ دینا۔ تمہارے پاس مختلف اوقات میں تورات کی تصدیق کرنے والے رسول آتے رہے مگر تم نے ان کی کوئی پروا نہ کی۔ اب تم مسلمانوں پر الزام رکھنے کے لئے یہ دریافت کیا کہ وحی لانے والا کون ہے ؟ تمہارا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ صداقت ظاہر ہونے کے بعد اس کو مان لیں گے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب ایک قوم اپنی تمام دنیاوی عزتوں کو اپنی نالائقی سے کھو بیٹھتی ہے تو اس وقت یہ کہنا شروع کردیتی ہے کہ مذہب کو دنیا سے کوئی تعلق نہیں وہ صرف روحانیت کی تعلیم دیتا ہے اور آخرت کی کامیابی کا ذمہ لیتا ہے۔ مذہبی لوگ دنیا کی حکومت و سرفرازی اور عزت و رفعت سے محروم رہتے ہیں اس لئے تزکیہ نفس کی ضرورت ہے کہ یہی جہاد اکبر ہے اور اسی پر نجات کا دارومدار ہے۔ یاد رکھو ، کسی نبی کی تعلیم صرف روحانیت تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ دین اور دنیا ، مذہب اور سیاست ، روحانیت و مادیت دونوں کی جامع ہوتی تھی۔ اب یہود کو بتایا جارہا ہے کہ نئے نبی جو آئے ہیں یہ تمہاری کتاب اور اس کے دین کو مٹانے کے لئے نہیں۔ یہ تو عین اسے تازگی بخشنے ، اسے حیات تازہ دینے کے لئے آئے ہیں۔ ہاں ! زندوں کو زندہ کرنا ہی انبیاء کرام کا کام ہے جو زندہ ہونے کے باوجود مرچکے ہوتے ہیں اس لئے کہ انکی زندگی جسمانی ہوتی ہے اور موت روحانی۔ یہ رسول کون ہے ؟ یہ کس پیغمبر کے آنے کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تو انبیاء کا سلسلہ جاری ساری رہا اس لئے یہاں کوئی نبی بھی مراد لئے جاسکتے ہیں اور لئے گئے ہیں تاہم مخصوص طور پر کچھ لوگوں نے یہاں مسیح (علیہ السلام) کی آمد کا تذکرہ بھی کیا ہے لیکن ہماری رائے میں ترجیح اس پہلو کو ہے کہ اس رسول سے وہ رسول مراد لیا جائے جو موعودد ہے اور ظاہر ہے وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ 1ۚ وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ 1ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ 1ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ 1ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا ان لوگوں نے ان اعمال و احکام کی پیروی کی جنہیں شیاطین (193) ، سلیمان (g) کی طرف منسوب کر کے پڑھا کرتے تھے حالانکہ سلیمان (g) کبھی کفر کا مرتکب نہیں ہوا تھا بلکہ یہ انہی شیطانوں کا کفر تھا کہ لوگوں کو جادوگری سکھلاتے تھے اور یہ بھی صحیح نہیں کہ بابل میں دو فرشتوں ہاروت (194) ماروت پر اس طرح کی کوئی بات نازل ہوئی تھی ” وہ جو کچھ بھی کسی کو سکھلاتے تھے تو یہ کہہ دیتے تھے کہ دیکھو ہمارا وجود تو ایک فتنہ ہے پھر تم کیوں کفر میں مبتلا ہوتے ہو ؟ لیکن اس کے باوجود لوگ ان سے سیکھتے کہ وہ خاتم النّبیین محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں جس کی آمد کی اطلاع سب نبی دیتے آئے حتیٰ کہ یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ان کے آنے کی خبر دلائی گئی اور یہ سب کو معلوم ہے کہ صیغہ نکرہ جس طرح تعمیم کے لئے آتا ہے عظمت و تکریم کے لے بھی آتا ہے اور وہی یہاں مقصود ہے اور اگر آپ نے یہ بات یاد رکھی تو اور بھی بہت جگہوں پر آپ کی رہنمائی کرے گی۔ پیٹھ پیچھے پھینکنے کا مطلب بچے بھی سمجھتے ہیں لیکن یہاں علماء نہ سمجھیں تو ہم کیا کریں ؟ 192: کتاب کو وراء ظہور پھینکنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کتاب کی طرف پیٹھ کرنا شروع کردی بلکہ یہ ایک محاورہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے بےالتفاتی برتنی شروع کردی اور اس کی عملی مخالفت کرنے لگے۔ یہود کی بےالتفاتی اور بےتعلقی قرآن کریم سے تو ظاہر ہی ہے کہ جس سے مخالفت ہو اس کے ساتھ بےالتفاتی اور بےرغبتی ہوتی ہی ہے جب وہ پیغمبر اسلام کو اللہ کا رسول ہی تسلیم نہیں کرتے تو وہ قرآن کریم سے بےرغبتی کیوں نہیں کریں گے اس جگہ کتاب سے مراد قرآن کریم نہیں ہے بلکہ توراۃ ہے بیان کیا جارہا ہے کہ یہود کا غضب یہ تھا کہ وہ قرآن کریم اور صاحب قرآن سے مخالف کی دھن میں خود اپنی کتاب آسمانی کی طرف سے بھی بےپروا اور بےتعلق ہوگئے تھے کہ آخر تورات میں بھی تو نبی آخر الزمان کی بابت پیش گوئیاں ، ان کی علامتیں اور ان پر ایمان لانے کی تاکید درج تھی۔ لیکن انہوں نے اس کی کیا عزت کی بلکہ انہوں نے ان ساری باتوں کو وراء ظہور کردیا اور ان کی کوئی پروا نہ کی اور آج اگر قوم مسلم کے کردار و اخلاق پر نظر کی جائے تو ان پر بھی یہ بات صادق آتی ہے کہ وہ اپنی کتاب قرآن کریم کی طرف پیٹھ کرنے کو تو برا جانتے ہیں اور جاہل سے جاہل بھی اس کی طرف ظاہری پیٹھ کرنے سے پرہیز کرتا ہے لیکن حقیقت میں انہوں نے کتاب اللہ یعنی قرآن کریم کی طرف پیٹھ کردی ہوئی ہے اور وہ اس کی طرف منہ کرتے نظر بھی نہیں آئے۔ جب قانون ملک سے لے کر چھوٹے چھوٹے رسم و رواج تک ہر ایک چیز میں قرآن کریم کی مخالفت جاری ہے تو پیٹھ کرنے سے اور کیا مراد ہوسکتی ہے ؟ فرمایا جارہا ہے کہ انہوں نے اس انداز سے کتاب اللہ کی طرف پیٹھ کی ہے کہ معلوم ہوتا ہے وہ کتاب اللہ کو کتاب اللہ سمجھتے ہی نہیں۔ کَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَٞ 00
Top