Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
اے مسلمانو ! { رَاعِنَا } کا لفظ استعمال نہ کرو بلکہ { اُنْظُرْنَا } کا لفظ بولو ، جی لگا کر سنو منکرین حق کو دردناک عذاب ملنے والا ہے
مشتبہ الفاظ کے استعمال کی ممانعت : 199: جس وقت رسول اللہ ﷺ وعظ و تذکیر میں مصروف ہوتے اور مسلمانوں کو آپ کی کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو فطرت انسانی کے مطابق وہ عرض کرتے کہ اس بات کی ذرا مزید وضاحت فرما دیجئے اور ایسے مواقع پر راعنا کا لفظ استعمال کرتے۔ یہ مراعات سے ہے یعنی ہماری رعایت کیجئے۔ اور اس بات کو دوبارہ فرما دیجئے۔ مگر یہودیوں کے نزدیک یہ لفظ سبّ و شتم کے موقع پر بولا جاتا تھا اور اس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ : اسمع لا سمعت ، سن ! اللہ تجھے سننے کا موقع ہی نہ دے۔ بعض کے نزدیک ان کے خیال میں یہ لفظ رعونۃ سے مشتق ہے جس کے معنی احمق اور بیوقوف کے ہیں۔ جن مجالس میں یہود بھی ہوتے وہ اس لفظ کو شرارتاً ادا کرتے گویا ان کو نبی ﷺ کی تضحیک کا مشغلہ ہاتھ آجاتا اور اپنی مجلسوں میں کہتے کہ ہم تو رسول کے ساتھ استہزاء خفیہ خفیہ کیا کرتے تھے لیکن مسلمانوں نے تو علی الاعلان کہنا شروع کردیا ہے اور اس طرح ایک موضوع ان کے ہاتھ آجاتا جس سے خوب استہزاء اور مذاق اڑاتے۔ دوسری جگہ قرآن کریم نے ان کی اس شرارت کے متعلق اس طرح بیان دیا ہے کہ : وَّ رَاعِنَا لَیًّۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِ 1ؕ (النساء 4 : 48) کہ رَاعِنَا کے الفاظ کہتے وقت وہ اپنی زبانوں کو توڑ موڑ کر یعنی عین کو ذرا کھینچ کر اور لمبا کر کے پڑھتے اور یہ کام ازراہ طعن کرتے تھے جس کا ایک مطلب یہ بھی پیدا ہوتا کہ ” اے ہمارے چرواہے “ ، ” گڈریئے “ اس لئے قرآن کریم نے مسلمانوں کو ہدایت فرما دی کہ ایسا لفظ جو ذو معنی استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ کچھ لوگ استعمال کر رہے ہیں تو تم اس لفظ کو بالکل ترک کر دو اور یہود کو بتا دو کہ انہوں نے یہ لفظ استعمال کیا تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ انہوں نے ازراہ تضحیک یہ لفظ استعمال کیا ہے جس کا نتیجہ ان کو بھگتنا ہوگا۔ گویا یہود کے الفاظ و محاورات سے بھی اب نفرت کرنے کا حکم مل چکا ہے اور یہ ایسا وقت آچکا ہے کہ ان سے قولاً ، عملاً اور اعتقاداً اجتناب کیا جائے۔ پھر یہ کہ اگر تمہاری سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اور تم اسی مفہوم کو ادا کرنا چاہو تو تم انْظُرْنَاکے الفاظ استعمال کرلیا کرو اور مزید ہدایت فرما دی کہ جب پیغمبر بات کریں تو خوب دل لگا کر بات کو سنو اور سمجھنے کی پوری کوشش کرو اور اس کے باوجود دوبارا بات دہرانا چاہو تو انْظُرْنَاکہو تاکہ یہود کی دریدہ دہنی اور گستاخی کے الفاظ تمہاری زبان سے نہ نکلیں۔ جس سے مسلمانوں کے لئے ہدایت نکل آئی کہ مشتبہ اور ذو معنی بات مت کیا کرو بلکہ صاف ستھری اور حکمت کی بات زبان سے نکالو اس طرح کی ہدایات قرآن کریم نے وقتاً فوقتاً مسلمانوں کو دیں اور ہر مقام پر ان کی راہنمائی فرمائی چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَ لَا تَكُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ ہُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ 002 ” اے ایمان والو ! دیکھو ان لوگوں کے مانند نہ ہو جائو جنہوں نے زبان سے کہا تھا کہ ” ہم نے سنا “ اور واقعہ یہ تھا کہ وہ سنتے نہ تھے۔ “ جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ سنی ہوئی کو ان سنی کردیتے تھے ۔ یعنی سننے کے مطابق عمل نہیں کرتے تھے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا : یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ 1ۛۚ وَ مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا 1ۛۚ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ 1ۙ لَمْ یَاْتُوْكَ 1ؕ یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ (المائدہ 5 : 41) ” اے پیغمبر اسلام ! اس گروہ میں سے جس نے زبان سے کہا کہ ہم ایمان لائے مگر ان کے دل مؤمن نہیں ہوئے اور ان میں سے جو یہودی ہے جو لوگ کفر میں تیز گام ہوئے تو ان کی حالت تم کو غمگین نہ کرے یہ لوگ جھوٹ کے لئے کان لگانے والے ہیں اور اس لئے کان لگانے والے ہیں کہ ایک دوسرے گروہ تک جو تمہارے پاس نہیں آیا خبریں پہنچائیں یہ کلموں کو باوجود یکہ ان کا صحیح محل ثابت ہوچکا ہے ، صحیح محل سے پھیر دیتے ہیں۔ “ ” یہ لوگ جھوٹ کے لئے کان لگاتے ہیں۔ “ اس کے دو مطالب ہیں ، ایک یہ کہ یہ لوگ چونکہ خواہشات کے بندے ہیں اس لئے سچائی سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں جھوٹ ہی انہیں پسند آتا ہے اور اس کو یہ جی لگا کر سنتے ہیں کیونکہ ان کے نفس کی پیاس اس سے بجھتی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ اور مسلمانوں کی مجلسوں میں یہ جھوٹ کی غرض سے آکر بیٹھتے ہیں تاکہ یہاں جو کچھ دیکھیں اور جو باتیں سنیں ان کو الٹے معنی پہنا کر یا ان کے ساتھ اپنی طرف سے غلط باتوں کی آمیزش کر کے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے لوگوں میں پھیلائیں۔ ” بات کو صحیح محل سے پھیرتے ہیں “ اس کے بھی دو ہی مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ جاسوس بن کر آتے ہیں اور نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کی مجلسوں میں اس لئے گشت لگاتے پھرتے ہیں کہ کوئی راز کی بات کان میں پڑے تو اسے آپ کے دشمنوں تک پہنچائیں۔ دوسرے یہ کہ جھوٹے الزامات عائد کرنے اور افتراء پردازیاں کرنے کے لئے مواد فراہم کرتے پھرتے ہیں تاکہ ان لوگوں میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلائیں جن کو نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں سے براہ راست تعلقات پیدا کرنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ ایک جگہ ان کی حرکتوں طرح بیان فرمایا ہے : وَ اِذَا جَآءُوْكَ حَیَّوْكَ بِمَا لَمْ یُحَیِّكَ بِهِ اللّٰهُ 1ۙ وَ یَقُوْلُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ لَوْ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ 1ؕ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ 1ۚ یَصْلَوْنَهَا 1ۚ فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ 008 (المجادلہ 58 : 8) ” اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو ان الفاظ سے سلام کرتے ہیں جن الفاظ سے اللہ نے آپ پر سلام نہیں بھیجا اور اپنی مجلسوں میں کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں اس پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ؟ ان کے لئے جہنم کافی ہے اس میں یہ لوگ داخل ہوں گے سو وہ بہت بڑا ٹھکانا ہے۔ “ مطلب یہ کہ یہود و نصاریٰ اپنے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے رسول نہ ہونے کی دلیل سمجھتے تھے ان کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو جس وقت ہم انہیں اس طریقہ سے سلام کرتے اسی وقت ہم پر عذاب آجاتا ۔ اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا حالانکہ ہم شب و روز یہ حرکت کرتے رہتے ہیں لہٰذا یہ رسول نہیں ہیں۔
Top