Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 105
مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
مَا يَوَدُّ : نہیں چاہتے الَّذِیْنَ کَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ : اہل کتاب میں سے وَلَا : اور نہ الْمُشْرِكِیْنَ : مشرکین اَنْ : کہ يُنَزَّلَ : نازل کی جائے عَلَيْكُمْ : تم پر مِنْ خَيْرٍ : کوئی بھلائی مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب وَاللّٰہُ : اور اللہ يَخْتَصُّ : خاص کرلیتا ہے بِرَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت سے مَنْ يَشَاءُ : جسے چاہتا ہے وَاللّٰہُ : اور اللہ ذُوْ الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِیْمِ : بڑا
اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے اور مشرک دونوں فریق نہیں چاہتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر خیر و برکت نازل ہو لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کیلئے چن لیتا ہے اور وہ بہت بڑا فضل رکھنے والا ہے
اسلام دشمنی میں یہود و نصاریٰ اور مشرک سب ہم خیال ہیں : 200: یہود و نصاریٰ اور مشرکین کبھی اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے مکالمہ و مخاطبت کے لئے چن لے اور اس طرح وہ ترقی کے اعلیٰ مراتب پر پہنچ جائیں بلکہ ان کی انتہائی خواہش یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو مسلمان کہلانے والوں کو دنیوی ترقی سے روک دیں۔ انہیں سراٹھانے کا موقع ہی نہ ملے اور دائمی طور پر یہ لوگ ہمارے غلام رہیں۔ حالانکہ شریعت کے نازل کرنے میں کبھی اس امر کا خیلا نہیں کیا جاتا کہ ایک قوم جو حد درجہ کی نالائق ہو اور کتاب الٰہی سے دوری اختیار کرچکی ہو فسق و فجور میں ڈوبی ہوئی ہو۔ اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ کو ترک کرچکی پھر بھی اس کو اپنی رحمت کے لئے مخصوص کرے ؟ اس کے فضل عظیم کی ایک ہی قوم اجارہ دار نہیں بن سکتی بلکہ وہ جس کو چاہتا ہے اپنے قانون کے مطابق اپنے کام کے لئے منتخب کرلیتا ہے۔ اس آیت میں مشرکین کا نام لیا گیا ہے اس لئے کہ یہ بھی اپنے آپ کو ملت ابراہیم کا متبع سمجھتے تھے۔ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج اور ختنہ۔ اللہ کے نام پر جانوروں کو ذبح کرنا ۔ اشہر عام میں لڑائی نہ کرنا تمام کام بطور رسم ان میں موجود تھے جس طرح آج مسلمان کہلانے والوں میں بھی بطور رسم ہی رہ گئے ہیں ان کو قرآن کریم کا نزول اس لئے ناگوار تھا کہ اب عرب کی سیادت اور حکومت ان کے ہاتھوں سے نکل کر مسلمانوں یعنی ان کمزور لوگوں میں آجائے گی جن کو وہ رذیل و ارذل سجھتے تھے اور وہ تمام دنیا کی حکومت حاصل کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جس قوم کی حکومت چھن جائے ضرور وہ دوسروں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرے گی۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کی کوئی قوم ان کی دوست نہیں بن سکتی بلکہ ان کے مقابلہ میں تمام کفار و مشرکین اور اہل کتاب ایک ہوجایا کریں گے۔ اس لئے کفر دراصل ملت واحدہ ہوگیا۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو بار بار یہ بتایا ہے کہ تم سب کو ایک جسم و جان کی طرح مل کر رہنا چاہئے ۔ اتحاد و تنظیم کو ایمان کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سب معبود انِ باطل کی عبادت ترک کر کے صرف ایک اللہ کی عبادت پر جمع ہوجائیں۔ مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ تمام انبیاء کرام کے بعد آنے والے نبی پر اس طرح ایمان لائیں کہ وہ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جو بھی اور جہاں بھی دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا ہوگا اور اس کو جھوٹا کہنا پڑے گا ۔ وہ کتنے سچ بولے کبھی سچا نہیں ہو سکتا کیونکہ اس نے ایک ایسا جھوٹ بول دیا جو اس کے سارے سچوں کو کھا گیا۔ مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ہم قبلہ ہوں اور بیت اللہ کے سوا ان کا کوئی قبلہ نہ ہو ، وہی ان کا مرکز ہو اور اس کے سوا کوئی ان کا مرکز نہ ہو۔ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ زندہ مسلمانوں میں سے ایک کو اپنا پیشوا سمجھیں اس کو امیر المؤمنین ، خلیفہ وقت یا جس نام سے بھی اس کو بلا لیں اجازت ہے لیکن اس ایک کی موجودگی میں جب بھی کوئی دوسرا بغاوت کر کے اس عہدہ پر فائز ہونے کی کوشش کرے اس کو قتل کردیں خواہ وہ کوئی ہو اور کسی جگہ ہو۔ مسلمانوں کے لئے لازم و ضروری ہے کہ وہ ایک جماعت ایسے لوگوں کی چن لیں جو جماعت اس خلیفہ وقت ، امیر المؤمنین یا جس نام سے بھی اس کو بلایا جاتا ہو اس کا اسلام کے مطابق محاسبہ کرتے رہیں اگر کوئی کمزوری دیکھیں تو وہ اس کو آگاہ کریں۔ اگر اسلام کے اصولوں میں سے وہ کسی اصول کی خلاف ورزی کرے تو اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اگر وہ اس کوشش میں ناکام ہوں تو اس کو معزول کر کے نئے آدمی کا انتخاب کریں اور ہر حال میں وہ صرف اور صرف ایک ہی جماعت سے وابستہ رہیں مختلف جماعتیں نہ بنائیں۔ جو شخص بھی کوئی دوسری جماعت بنائے وہ اسلام کے قانون کے مطابق مشرک ہے اور صرف مشرک ہی نہیں ہے فساد فی الارض کی اس نے گویا بنیاد رکھی ہے لہٰذا اس کو فوراً قید کرلیا جائے ۔ اگر توبہ کرے تو بہتر ورنہ اس کو سر عام قتل کردیا جائے۔ کاش کوئی مسلمان ایسا پیدا ہو جو مسلمانوں کو مسلمان بنا دے۔ کاش کہ پیشوایانِ زمانہ سب مل کر کسی ایک کو اپنا پیشوا بنا لیں اور باقی سب اس کے ماتحت ہوجائیں ۔ اسی چیز کا نام اجتماع اسلام ہے جو تلاش کرنے سے بھی کہیں دستیاب نہیں ۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے ساتھ ہی یہ دنیا سے ناپید ہوگیا۔ اور اب جو کچھ ہے وہ صرف نام ہی نام ہے مرے ہوئوں کا نام لینے سے وہ زندہ نہیں ہوجائے گا ۔ یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑنے اسلام کا گلا گونٹ دیا اور قوم مسلم میں کفر کی روح پھونک دی۔ اسلام کا دیّا گل کردیا اور کفر کا دیّا جلا کر ان پر روشنی کردی اور ہماری آنکھوں پر ایسا جادو کیا کہ کوئی آنکھ دیکھ ہی نہ سکی کہ یہ روشنی اسلام کے دیے کی ہے یا کفر کے دیے کی۔ قرآن کریم ہمیں کہتا رہا اور اب بھی کہہ رہا ہے سب کے سب کفار ، مشرکین اور اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ تمہارے مقابلہ میں ایک ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ وہ تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کے دوست ہیں ان سب کی خواہش اور سب کی چاہت ایک ہے ان سب کا نظریہ ایک ہے وہ ہر ممکن چاہتے ہیں کہ تم نہ ہو یہی ان کی دوستی کی بنیاد ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے : وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ 1ؕ اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌؕ0073 (الانفال 8 : 73) اور دیکھو جن جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ راہ کفر میں ایک دوسرے کے مددگارو دوست ہیں اگر تم ایسا نہیں کرو گے یعنی تم سب بھی مل کر ایک نہیں ہو جائو گے جس کا تمہیں بار بار حکم دیا جا رہا ہے تو یادر کھو کہ ملک میں فتنہ پیدا ہوجائے گے اور بڑی ہی خرابی پھیلے گی۔ اللہ کے لئے غور کرو اور دیکھو سب کفار اسلام کے مقابل میں مل کر ایک ہوئے کہ نہیں ؟ مسلمانوں کو ایک ہونے کی ہدایت دی گئی تھی کیا وہ ایک رہے ؟ بالکل نہیں۔ اچھا ! اس وقت فتنہ بپا ہوا ہے یا نہیں ؟ ہوا ہے۔ کیا پوری دنیا شر اور فساد کے لپیٹ میں نہیں ؟ پوری دنیا شر و فساد کی لپیٹ میں ہے۔ پھر غور کرو کہ اس سارے بگاڑ کا سبب کون ہے ؟ آئو قران کریم کو دیکھو : ” یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے اور اگر اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا یعنی قرآن کریم۔ تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی۔ تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لئے نہیں ہوگا۔ “ (البقرہ 2 : 120) کیا ہم نے یہود ونصاریٰ کو کہا کہ ہمیں تمہاری جمہوریت کی ضرورت نہیں ہمارے پاس اسلام کی دی ہوئی راہ موجود ہے ؟ کیا ہم نے قرآن کریم کی ہدایت کو وراء ظہور پھینک کر ان کی خواہشات کو نہیں اپنایا کیا اس وقت ہم اللہ کے قانون کی پکڑ میں پکڑے ہوئے نہیں ہیں ؟ غور کرو گے تم دیکھو گے کہ تینوں ہی سوالوں کا جواب ایک ہے ۔ قرآن کریم پڑھو۔ ” وہ تم سے ہمیشہ لڑے ہی جائیں گے جب تک ان کے دم میں دم ہے اور یہ لڑائی ان کی اس وقت تک جاری رہے گی جب تمہیں اس دین سے پھیرلے جائیں جس کو اسلام کہتے ہیں اور تم بھی اچھی طرح کان کھول کر سن لو جو شخص بھی تم میں سے پھرے گا اور حالت کفر ہی میں مرے گا ۔ ہمارے ہاں اس کے اچھے اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے اور ایسے سب لوگوں کو انجام کار ہم اپنے قانون کے مطابق جہنم رسید کردیں گے۔ “ (البقرہ 2 : 217) ” مؤمنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہاں ! اگر کوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ تم ان کے شر سے بچنے کے لئے اپنا بچائو کرنا چاہو تو کرلو ، لیکن اس وقت بھی یہ بات نہ بھولو کہ اللہ بھی تمہیں اپنے قانون کے مطابق مواخذہ سے ڈراتا ہے اور ایسا نہ ہو کہ ان سے بچنے کے لئے اللہ کے قانون کی زد میں آجائو ۔ اس لئے کہ انجام کار تم کو لوٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔ “ (آل عمران 3 : 28) اے لوگوں ! جو ایمان لائے ہو ان لوگوں کو دوست مت بنائو جن پر اللہ تعالیٰ نے غضب فرمایا ہے ، جو آخرت سے اس طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر مایوس ہیں۔ (الممتحنہ 60 : 13) ” اے ایمان والو ! ایسا نہ کرو کہ اپنے لوگوں کے سوا کسی دوسرے کو اپنا ہم راز اور معتمد بنائو۔ ان لوگوں کا یعنی یہود و نصاریٰ کا حال یہ ہے کہ وہ تمہاے خلاف فتنہ انگیزی میں کمی کرنے والے نہیں جس بات سے تمہیں نقصان پہنچے وہی انہیں اچھی لگتی ہے ۔ ان کی دشمنی تو ان کی باتوں ہی سے ظاہر ہے لیکن جو کچھ دلوں میں چھپا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے اگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہو ہم نے فہم و بصیرت کی نشانیاں تم پر واضح کردی ہیں۔ دیکھو ! تمہارا حال تو یہ ہے کہ تم ان سے دوستی رکھتے ہو لیکن ان کا حال یہ ہے کہ وہ تمہیں ایک لمحہ کے لئے بھی دوست نہیں رکھتے۔ تم اللہ کی کتاب پر ایمان رکھنے والے ہو جتنی کتابیں بھی نازل ہوئی ہیں ان کی عزت کرتے ہو لیکن ان کی حالت بالکل مختلف ہے کہ وہ جب کبھی تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لانے والے ہیں لیکن جب الگ ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف جوش غضب میں اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں۔ “ (آل عمران 3 : 119) ہائے اللہ ! مسلمانوں نے ان آیات کریمات بلکہ آیات بینات کی بےحرمتی کی۔ ان کا احترام ان کے دلوں سے جاتا رہا۔ علمائے وقت نے ان کی تاویلات شروع کردیں جس کا نتیجہ یہ ہوا تمام بلاد و امصار اسلامی یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں بلکہ انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھین لئے۔ پھر انہوں نے بڑی چالاکیوں ، فریب کاریوں اور مکاریوں سے مسلمانوں کو اپنا بنایا اور پھر انہیں کے بلاد و امصار کو اپنا سمجھ کر انہیں مشروط طور پر واپس کرنا شروع کردیا۔ اب بظاہر صورت یہ ہوگئی کہ مسلمانوں کو واپس کردیئے گئے۔ حاشا اللہ بالکل نہیں۔ بلکہ مسلمانوں کی حالت یہ ہوگئی کہ ^ تاکس نہ گوید من و یگرم تو دیگری اے ارض مقدس ! تیرے رب کی قسم یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے گناہوں کی پاداش میں پکڑے گئے لیکن تیرا درد آج بھی ہمارے سینوں میں موجود ہے وہ وقت دور نہیں جب ان سب چیرہ دستیوں کے باوجود تیرے جانثار تیرے پر قربان ہو کر زمانے کو دکھا دیں گے کہ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
Top