Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 116
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا اللہُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحَانَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَ الْاَرْضِ : اور زمین كُلٌّ : سب لَهٗ : اسی کے قَانِتُوْنَ : زیر فرمان
ان کا قول ہے کہ اللہ نے بیٹا بنایا ہے حالانکہ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے اور زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ ہی کا تو ہے اور سب اسی کے فرمان کے سامنے جھکے ہوئے ہیں
اللہ کی اولاد بنانے والوں کا اصل موقف کیا ہے ؟ 217: کوئی قوم جب کوئی نظریہ قائم کر کے اپنے عقائد میں داخل کرلیتی ہے وہ اس کو چھوڑنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتی۔ اس نظریہ کی غلطی ثابت کرو تو وہ غلط ثابت کرنے والوں کو ہزار بار غلط کہیں گے۔ مرنے مارنے پر تل جائیں گے لیکن اپنے نظریہ پر نظر ثانی کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ دیکھو یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہا تو عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا تسلیم کرلیا۔ ان کی دیکھا دیکھی مشرکین مکہ نے ملائکہ کو اللہ کی لڑکیاں قرار دے دیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس ان تمام تعلقات اور قیود سے پاک ہے اور زمین و آسمان کی ہرچیز اس کی مملوک ہے ۔ بنی اسرائیل نے اپنے علماء و مشائخ کے لئے ابن اللہ کا لفظ استعمال کیا تھا لیکن ان کے ہاں جب یہ عقیدہ گھڑا گیا تو اس کے معنی ” محبوب الٰہی “ کے ہونے لگے مگر جب عیسائیوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم کے خلاف یونانیوں کو اپنے مذہب کی جانب بلانے کی کوشش کی تو ان کے عقول عشرہ کے مسئلہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور یونانیوں کو اپنے مذہب کی طرف مائل کرنے کیلئے عقل اول کی روح ان میں حلول کرگئی ہے ، کا عقیدہ بنا لیا۔ اس لئے اگر پہلے احبار یہود مجازی طور پر ابناء اللہ کہے جاتے تھے تو عیسیٰ (علیہ السلام) حقیقی معنی کے اعتبار سے ابن اللہ بنا دیئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان سب قوموں کو اللہ کی اولاد قرار دینے کی کیا ضرورت پڑی ؟ اس کی اصل وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر رسول و نبی کے ذریعہ قوموں کو ایمان باللہ اور عمل صالح کی طرف دعوت دی لیکن متضاد قوتوں کے اس مجموعے یعنی انسان نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ اللہ پر ایمان لانے کے لئے اللہ کو دیکھیں کہ وہ کیسا ہے ؟ ظاہر ہے کہ وہ دکھائی دینے والی کوئی چیز نہیں ہے تو پھر انہوں نے اللہ کو پانے کے لئے کوئی جسم تلاش کیا خواہ وہ انسان کا ہو یا کسی حیوان کا یا درخت کا ، مطلب یہ ہے کہ کوئی دیکھی جانے والی چیز ضرور ہو۔ اس نظریہ نے ترقی کی تو اس کی کئی شکلیں بنا لی گئیں جن کی تشریح اپنے مقام پر آئے گی۔ مختصر یہ کہ ان ہی نظریوں میں سے ایک نظریہ اولاد کا بھی ہے کیونکہ انسان نے جب دیکھا انسان خواہ کوئی ہو۔ وہ اپنی اولاد کی طرف ضرور جھک پڑتا ہے لہٰذا انہوں نے اپنی قومی و مذہبی شخصیتوں کو اللہ کی اولاد تصور کرلیا کیونکہ وہ اعمال صالح بجا لانے سے قاصر تھے اور جنت کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے تھے انہوں نے اپنے تصور میں کسی نہ کسی کو اللہ کا بیٹا تصور کر کے اپنا سفارشی ، نجات دہندہ بنا لیا اور آہستہ آہستہ ذہن میں یہ بات پختہ کرلی کہ جس طرح بیٹا ضد کر کے باپ سے منوا لیتا ہے ہمارے سفارشی بھی ، جن کو ہم نے اللہ کے بیٹے اور محبوب تصور کرلیا ہے اللہ سے ہماری سفارش کر کے ہمارے گناہوں کو بخشوا لیں گے اور ہمیں جنت مل جائے گی ۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب سب نے اس طرح کے عقیدے گھڑے تھے جن کی وضاحت قرآنی صفحات میں موجود ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ جن لوگوں پر قرآن کریم جیسی بین و روشن کتاب نازل کی گئی انہوں نے بھی ان اقوام کی پیروی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ آج مسلم قوم بھی انہیں آرزوئوں اور خواہشوں پر انحصار کرتے ہوئے بےراہ رو ہوچکی ہے اور دن بدن اسی اندھے کنوئیں میں گرتی جارہی ہے ہمارے ہاں ابن یا ولد و اولاد کے الفاظ اللہ کی نسبت نہیں بولے گئے ان کی جگہ نئے الفاظ نے لے لی۔ اہل اللہ ، اولیاء اللہ ، ولی اللہ ، حبیب اللہ ، مختار کل جیسے الفاظ کے ساتھ وہی نظریات و عقائد وابستہ کردیئے جو یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب نے ابن اللہ ، ولد اللہ ، اتخاذ ولد کے ساتھ وابستہ کئے ہوئے تھے۔ حالانکہ قرآن کریم پکار پکار کر کہتا ہے کہ : ” نیز ان لوگوں کو متنبہ کر دے جنہوں نے کہا اللہ بھی اولاد رکھتا ہے۔ اس بارے میں انہیں کوئی علم نہیں نہ ان کے باپ دادوں کے پاس کوئی علم تھا کیسی سخت بات ہے جو ان کی زبانوں سے نکلتی ہے (اللہ کی اولاد قرار دے کر) یہ کچھ نہیں کہتے مگر سرتاسر جھوٹ۔ “ (الکہف 18 : 4 ، 5) ” وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو ، جبکہ کوئی اس کی بیوی نہیں ، اس نے تمام چیزیں پیدا کیں اور وہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “ (الانعام 6 : 101) ” اور ان لوگوں نے اللہ کے ساتھ جنوں کو شریک ٹھہرا لیا ہے حالانکہ انہیں بھی اللہ ہی نے پیدا کیا ہے اور انہوں نے بغیر علم کی کسی روشنی کے اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں بھی تراش لی ہیں اللہ کی پاکیزگی ہو اس کی ذات تو ان تمام باتوں سے پاک اور بلند ہے جو یہ اس کی نسبت بیان کرتے ہیں۔ “ (الانعام 6 : 100) ذرا غور کرو کہ مشرکین عرب کے مشرکانہ عقائد کو کس طرح روکا ہے۔ یہ لوگ جنوں کی نسبت طرح طرح کے تو ہم پر ستانہ خیالات رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ جس انسان کو چاہیں مافوق الفطرت طریقہ پر نقصان پہنچا دیں ۔ جسے چاہیں عجیب عجیب طاقتیں دے دیں نیز ان کا خیال تھا کہ پاک روحیں یعنی فرشتے اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں اور وہ کارخانہ عالم میں طرح طرح کے تصرفات کرسکتے ہیں ۔ پھر غور کرو کہ کیا آج مسلمان بھی ان نظریات کے حامل نظر نہیں آتے جو مشرکین مکہ کے تھے ؟ ” تم کہہ دو اگر اللہ کے ساتھ بہت سے معبود ہوتے جیسا کہ وہ کہتے ہیں تو اس صورت میں ضروری تھا کہ فوراً صاحب تخت ہستی تک راہ نکال لیتے۔ ان ساری باتوں سے اس کی ذات پاک اور بلند ہے ، بیحد بلند۔ “ (بنی اسرائیل 17 : 42 ، 43) ” آسمانوں میں جو کوئی ہے اور زمین میں جو کوئی ہے سب اس کے لیے ہے ، جو اس کے حضور ہیں وہ کبھی گھمنڈ میں آ کر اس کی بندگی سے سرتابی نہیں کرتے ، نہ کبھی تھکتے ہیں۔ وہ رات دن اس کی پاکیزگی کے ترانوں کے تسبیح خواں ہیں ، وہ کبھی تھمتے نہیں۔ (ذرا غور کرو کہ) کیا ان لوگوں نے زمین سے ایسے معبود بنا لیے ہیں جو مردوں کو زندہ کردیتے ہیں ؟ اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہوتا تو یقینا وہ بگڑ کر برباد ہوجاتے پس اللہ کے لیے کہ وہ تخت کا مالک ہے پاکیزگی ہو ، ان ساری باتوں سے پاکیزگی جو یہ اس کی نسبت بیان کرتے ہیں۔ “ (الانبیاء 21 : 19 ، 23) ” نہ تو اللہ نے کسی ہستی کو اپنا بیٹا بنایا ہے ، نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہو سکتا ہے اگر ہوتا تو ہر معبود اپنی ہی مخلوق کی فکر میں رہتا اور ایک معبود دوسرے معبود پر چڑھ دوڑتا ، اللہ کی ذات ان باتوں سے پاک ہے جو یہ اس کی نسبت بیان کرتے ہیں۔ “ (المؤمنون 23 : 91) ” اگر اللہ کسی کو اولاد بنانا چاہتا تو جس کو چاہتا مخلوق میں سے چن لیتا وہ (ایسے تمام تصورات سے) پاک ہے ، وہ اللہ ایک ہے (وہ) غلبہ والا ہے۔ “ (الزمر 39 : 4) ” اور ان لوگوں نے کہا کہ خدائے رحمٰن نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔ بڑی ہی سخت بات ہے جو تم گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں ، زمین کا سینہ چاک ہوجائے ، پہاڑ جنبش کھا کر گر پڑیں۔ لوگ اللہ کے لیے بیٹا ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اللہ کی یہ شان کب ہو سکتی ہے کہ اپنے لیے ایک بیٹا بنائے۔ آسمان اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ اس لیے ہے کہ اس کے آگے بندگی کا سر جھکائے حاضر ہو۔ اس نے انہیں گھیر رکھا ہے اور ایک ایک کی ہستی گن رکھی ہے۔ قیامت کے دن سب اس کے حضور تن تنہا آ کھڑے ہوں گے۔ “ (مریم 19 : 88 تا 95) ” اور انہوں نے کہا خدائے رحمٰن نے اپنے لیے اولاد بنائی ہے پاکیزگی ہو اس کے لیے بلکہ وہ تو اس کے معزز بندے ہیں۔ وہ اس (یعنی اللہ تعالیٰ ) کے آگے بڑھ کر بات نہیں کرسکتے ، وہ اس کے حکم پر سر تاسر کاربند رہتے ہیں۔ “ (الانبیاء 21 : 26 تا 27) سورئہ بقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری کی ایک قدسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ : ” مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے اسے یہ لائق نہیں تھا۔ مجھے وہ گالیاں دیتا ہے اسے ایسا زیب نہیں دیتا تھا اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ خیال کر بیٹھتا ہے کہ میں اسے مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں ۔ اور اس کا گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ میری اولاد بناتا ہے۔ حالانکہ میں اولاد سے پاک ہوں اور بلند وبالا ہوں اس سے کہ میری اولاد اور بیوی ہو۔ “ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بری باتیں سن کر صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ کوئی نہیں ہے۔ لوگ اسکی اولاد بتائیں اور وہ انہیں رزق و عافیت دے۔ پھر فرمایا ہرچیز اسکی اطاعت گزار ہے اس کی غلامی کی اقراری ہے۔ اس کیلئے اخلاص کرنے والی ہے۔ اسکی سرکار میں قیامت کے روز دست بستہ کھڑی ہونے والی اور دنیا میں عبادت گزار ہے ۔ وہ جو چاہے سو کرتا ہے اور جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کا تو ہے : 218: فرمایا زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے اور سب اس کے فرمانبردار ہیں پھر آخر وہ کسی کو بیٹا کیوں بنائے گا ؟ یعنی یہ کہہ کر ابینت کی تردید فرما دی۔ کہ اللہ تو سب کا خالق ہے اور سب کا مالک ہے اور سب ہی اس کے فرمان میں بندھے ہوئے ہیں کیا کوئی اولاد کا خالق بھی ہوتا ہے ؟ صحیح بات یہی ہے کہ باپ بیٹے کا خالق نہیں ہوتا اور نہ ہی بیٹے کا مالک ہوتا ہے اور نہ ہی بیٹا باپ کا کامل فرمانبردار ہو سکتا ہے پھر جب اللہ اور اس کی مخلوق میں باپ اور بیٹے کے تعلق سے بڑھ کر ایک تعلق موجود ہے تو پھر وہ بیٹا کیسے بنائے گا ۔ ارشاد فرمایا : ” آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کیلئے ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو وہ تم سے ضرور حساب لے گا وہ جسے چاہے بخش دے ، جسے چاہے عذاب دے اس نے ہرچیز کے لئے ایک اندازہ مقرر کیا ہوا ہے۔ “ (البقرہ 2 : 284) ” آسمانوں کی اور زمین کی اور ان میں جو کچھ ہے سب کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے ، اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے “ (المائدہ 5 : 120) ” جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے ، بلاشبہ اللہ بےنیاز ، لائق حمد (وثنا) ہے “ (لقمان 31 : 26) ” اس کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں اور جو لوگ اللہ کی نشانیوں کے منکر ہوئے (اور اس کے احکام کو نہ مانا) وہی لوگ خسارے میں رہیں گے “ (الزمر 39 : 63 ) ” اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی برتر اور عظمت والا ہے “ (الشوریٰ 42 : 4) ” آسمانوں اور زمین کی حکومت اللہ ہی کے لیے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (سب کچھ اس کے قبضہ قدرت میں ہے) جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔ یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بےاولاد رکھتا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے ہر بات پر قادر ہے “ (الشوریٰ 42 : 49 ۔ 50)
Top