Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 120
وَ لَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْیَهُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰى١ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ١ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍؔ
وَلَنْ تَرْضٰى : اور ہرگز راضی نہ ہوں گے عَنْکَ : آپ سے الْيَهُوْدُ : یہودی وَلَا : اور نہ النَّصَارٰى : نصاری حَتّٰى : جب تک تَتَّبِعَ : آپ پیروی نہ کریں مِلَّتَهُمْ : ان کا دین قُلْ : کہ دیں اِنَّ : بیشک هُدَى اللہِ : اللہ کی ہدایت هُوَ الْهُدٰى : وہی ہدایت وَلَئِنِ : اور اگر اتَّبَعْتَ : آپ نے پیروی کی اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات بَعْدَ ۔ الَّذِي : بعد۔ وہ جو کے (جبکہ) جَآءَکَ : آگیا آپ کے پاس مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم مَا لَکَ : نہیں آپ کیلئے مِنَ : سے اللہِ : اللہ مِنْ وَلِيٍّ : کوئی حمایت کرنے والا وَلَا نَصِيرٍ : اور نہ مددگار
(اے پیغمبر اسلام : ﷺ یہود و نصاریٰ آپ سے خوش ہونے والے نہیں ، وہ تو صرف اسی حالت میں خوش ہو سکتے ہیں کہ تم ان کی جماعتوں کے پیروکار ہوجاؤ ، کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت ہی سیدھی راہ ہے اور اگر تم نے ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی جبکہ تمہارے پاس علم و یقین کی روشنی بھی آ چکی ہے تو اللہ کی دوستی اور مددگاری سے تم یکسر محروم ہوجاؤ گے
یہود نصاریٰ آپ سے کبھی خوش نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ آپ ان کی مان لیں : 226: یہاں بالکل صاف صاف فرما دیا کہ اے پیغمبر اسلام اور پیغمبر کے ساتھیو ! یہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کبھی آپ سے خوش نہیں ہو سکتے یعنی ایک لمحے کے لئے بھی ان کی ناراضگی دور نہیں ہو سکتی کیونکہ اسلام کی عداوت و دشمنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ انہوں نے ایک رب کو رب مان لیا ہے اور ظاہر ہے کہ نا مسلمان رب کو رب ماننے سے باز آسکتے ہیں اور نہ ہی وہ مخالفت چھوڑ سکتے ہیں ۔ اسی معصیت کی طرف درج ذیل آیت میں اشارہ ہے : وَ مَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ008 (البروج 85 : 8) اور ان کی دشمنی مسلمانوں سے محض اس بنا پر تھی کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور ستودہ صفات ہے۔ اور اس کو کہا جاتا ہے۔ ^ حیاتک زنب لا یق اس بہ زنب البتہ مسلمان اگر اپنے قرآن کریم کو ترک کردیں اور ان کی طاعت قبول کرلیں تو پھر وہ ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن ان کو یقین ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ قرآن کریم اہل کتاب کی اطاعت کو کفر سے تعبیر کرتا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ کٰفِرِیْنَ 00100 وَ کَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ 1ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (رح) 00101 (آل عمران 3 : 100 تا 101) ” اے مسلمانو ! اگر تم اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی باتوں پر کاربند ہوگئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تمہیں راہ حق سے پھرا دیں گے اور تم ایمان کے بعد کفر میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم کفر کی راہ اختیار کرو جب کہ اللہ کی آیتیں تمہیں سنائی جا رہی ہیں اور اس کا رسول تم میں موجود ہے اور یاد رکھو جو شخص مضبوطی کے ساتھ اللہ کا ہو رہا تو بلاشبہ اس پر سیدھی راہ کھل گئی۔ “ دوسری قوم کی اطاعت کی ضرورت تو اس وقت محسوس ہوا کرتی ہے جب کسی قوم کے پاس قانون نہ ہو لیکن مسلمانوں کے پاس قانون بھی ہے اور شرح قانون بھی۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات مقدس قرآن کریم کی عملی تفسیر ہے اس کے باوجود پھر یہود و نصاریٰ کی فرمانبرداری کریں تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کی رحمت سے دور جا پڑے ہیں۔ چناچہ فرمان الٰہی ہے : وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْـًٔا قَلِیْلًاۗۙ0074 اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا 0075 (بنی اسرائیل 17 : 74 تا 75) ” اور اگر (راہِ حق میں) ہم نے تجھے جما نہ دیا ہوتا تو تُو ضرور ان کی طرف کچھ نہ کچھ میلان کر ہی بیٹھتا۔ اور اس صورت میں ضرور ایسا ہوتا کہ ہم تجھے زندگی کا بھی دوہرا عذاب چکھاتے اور موت کا بھی اور پھر تجھے ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ ملتا۔ “ فرمایا اے پیغمبر اسلام ! اگر وحی الٰہی کی روشنی تیری راہنمائی کے لئے موجود نہ ہوتی تو وقت کی تاریکی اتنی شدید تھی کی ممکن نہ تھا کہ تو اس بےلاگ ثبات اور اتنی پختگی کے ساتھ اپنی راہ پر چلتا رہتا۔ کام کی دشواریاں ضرور تجھے مغلوب کرلیتیں اور لوگوں کی بار بار اپیلیں ضرور تجھے تھکا دیتیں۔ طاقتور افراد کی منتیں اور التجائیں ضرور تجھے متوجہ کرلیتیں طرح طرح کی مصلحتیں ضرور دامنگیر ہوجاتیں۔ لغزشیں ، ٹھو کریں ، قدم قدم پر نمودار ہوتیں۔ لیکن اب کوئی چیز بھی تیری راہ نہیں روک سکتی۔ کوئی فتنہ بھی تجھے قابو میں نہیں لاسکتا۔ یہ وحی الٰہی کی راہنمائی ہے اور وحی الٰہی کی راہنمائی پر کوئی انسانی طاقت غالب نہیں آسکتی۔ داعئی حق کے لئے بڑا ہی نازک مقام ہے وہ جب کسی کا دل مائل ہوتا دیکھتا ہے تو اس کے گوشہ دل میں بھی نرمی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ اس کا جی تو چاہتا ہے کہ جس طرح ممکن ہو حق کو قبول کرلیا جائے لیکن شرارتی ذہن اس نازک وقت سے فائدہ اٹھانے کے لئے کوئی ایسی بات لگاوٹ کی کہہ دیتے ہیں کہ داعی کا بھی دل مائل ہوجاتا ہے لیکن ذرا ڈھیل ہوئی تو قدم پھسل گیا۔ پھر جس کی دعوت ، دعوت الٰہی ہو وہ خود اس کا محافظ و نگہبان ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ایسے ذہنوں کی نبوت کے مقابلہ میں نہ چل سکی۔ یہاں بھی اس کا ذکر ہے اگرچہ مخاطب نبی کریم ﷺ ہیں لیکن آپ ﷺ کے توسط سے امت کے ہر داعئی حق کو سمجھانا مقصود ہے۔ خطاب نبی معصوم سے ہو رہا ہے کہ اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا ، لیکن ثابت قدم کیسے نہ رکھا ہوتا۔ یہ ثابت قدمی تو فرع ہے ، معصومیت کی اور معصومیت لازمہ نبوت ہے۔ نبی ، اور کفر کی طرف جھکائو ممکن ہی نہیں ! تصور ہی نہیں یا جاسکتا۔ ہاں ! بطور تلقین بات کی جا رہی ہے اور اس کا انداز بھی بڑا پیارا ہے۔ فرمایا اگر یہ جھکائو ہوتا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جھکائو نہیں ہوا۔ وہ کیسے ہوتا کہ ہماری ثابت قدمی کی زنجیر عصمت نے اتنا بھی ہلنے کا موقع کب دیا ؟ یہاں تفہیم کرائی گئی کہ توفیق خیر حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور اسی کی طرف منسوب کرنا چاہئے کیونکہ یہ کمال انسانی اللہ کی عطا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی تمام تر زندگی اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہمیشہ نصرت و یاوری کی اور کبھی ان کو بےیارومددگار نہیں چھوڑا آپ ﷺ نے یہود و نصاریٰ کی اتباع کا خیال بھی نہیں فرمایا ، آیت کے معنی دو طریقہ سے ہو سکتے ہیں : (ا) رسول اللہ ﷺ کی معرفت تمام امت مسلمہ سے خطاب کیا جا رہا ہے کہ اگر تم نے اہل کتاب کا اتباع کیا۔ تو نتیجہ تمہارے حق میں صحیح نہیں نکلے گا گویا ایک قسم کی تلقین کی جارہی ہے وہ بھی افراد ملت کو۔ (ب) غیر ممکن اور محال کو فرض کیا گیا ہے اور اس طرح فرض کرنے میں ایک قسم کی مزید پختگی کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ اور یہ انداز بہت پیارا اور محبت سے لبریز ہوتا ہے۔ جیسے ارشاد فرمایا : لَوْ کَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا (الانبیاء 21 : 22) ” اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہوتا تو وہ یقیناً بگڑ کر برباد ہوجاتے۔ “ لہٰذا آیت سے یہ استدلال کرنا کہ رسول اللہ ﷺ معاذ اللہ اہل کتاب کا اتباع کرسکتے تھے سخت غلطی کا مرتکب ہونا ہے ایسی آیات کا مطلب بیان کرتے وقت احتیاط لازم ہے۔
Top