Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 124
وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ١ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا١ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذِ
: اور جب
ابْتَلٰى
: آزمایا
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
رَبُّهٗ
: ان کا رب
بِکَلِمَاتٍ
: چند باتوں سے
فَاَتَمَّهُنَّ
: وہ پوری کردیں
قَالَ
: اس نے فرمایا
اِنِّيْ
: بیشک میں
جَاعِلُکَ
: تمہیں بنانے والا ہوں
لِلنَّاسِ
: لوگوں کا
اِمَامًا
: امام
قَالَ
: اس نے کہا
وَ
: اور
مِنْ ذُرِّيَّتِي
: میری اولاد سے
قَالَ
: اس نے فرمایا
لَا
: نہیں
يَنَالُ
: پہنچتا
عَهْدِي
: میرا عہد
الظَّالِمِينَ
: ظالم (جمع)
اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان میں پورا اترا ، فرمایا : میں تجھے انسانوں کے لیے امام بناتا ہوں ، پھر ابراہیم نے عرض کیا (اے اللہ ! ) کیا میری اولاد سے بھی ؟ اس کو جواب دیا گیا کہ جو ظلم و معصیت کی راہ اختیار کریں گے ان کیلئے میرے اس عہد میں کوئی حصہ نہیں ہے
ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش کا ذکر : 229: اس آیت میں اللہ نے اپنے پیغمبر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے مختلف امتحانات اور ان میں ان کی کامیابی پھر اس کے انعام و صلہ کا ذکر فرمایا ہے۔ پھر جب انعام کی خوشخبری سن کر حضرت خلیل اللہ نے ازراہ پیار و محبت اپنی اولاد کے لئے اس انعام کی درخواست کی تو انعام پانے کا ایک خاص ضابطہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا خلیل اللہ کی درخواست کی منظوری مشروط طور میں دی گئی کہ یہ انعام خاص آپ کی ذریت کو بھی ملے گا لیکن جو لوگ آپ کی ذریت میں سے نافرمان اور ظالم ہوں گے وہ یہ انعام نہ پاسکیں گے ۔ اس جگہ چند باتیں غور طلب ہیں : ! امتحان کسی شخص کی قابلیت معلوم کرنے کے لئے لیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے۔ اس سے کسی شخص کا حال مخفی نہیں پھر اس امتحان کا کیا مقصد تھا ؟ " امتحان کس کس بات میں لیا گیا ؟ # کامیابی کس صورت اور کس نوعیت کی رہی ؟ $ انعام کیا دیا گیا اور اس انعام کی کیا حیثیت تھی ؟ % انعام کے لئے جو ضابطہ مقرر کیا گیا اس کی تفصیل کیا ہے ؟ پہلی بات کہ امتحان کا مقصد کیا تھا ؟ اس آیت کے اندر ایک لفظ ” رَبُّهٗ “ نے اس کا جواب فراہم کردیا اور اتنا صاف اور ستھرا جواب دیا کہ اس سے بہتر جواب ہو ہی نہیں سکتا اور قرآن کریم کا کمال اور اعجاز ہے کہ وہ ایسے الفاظ بیان فرما دیتا ہے کہ دریا کو زے میں بند ہوجاتا ہے۔ اس لفظ میں بتا دیا کہ اس امتحان کا ممتحن خود اللہ تعالیٰ کی ذات تھی اور رب کا لفظ لا کر اشارہ فرما دیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ امتحان کسی نہ معلوم قابلیت کا علم حاصل کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ اس کا منشاء خود ابراہیم (علیہ السلام) کی تربیت ہے کہ ان آزمائشوں کے ذریعے اپنے خلیل کی تربیت کر کے اس کے درجات و مقامات کو بلند سے بلند ترین کیا جائے۔ جس سے ابراہیم (علیہ السلام) کی شان جلالت کو اور نمایاں کردیا جائے۔ دوسری بات کے متعلق قرآن کریم میں ” كَلِمٰتٍ “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے متعلق عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کلمات سے مراد تیس خصلتیں ہیں کہ وہ سب اسلام کے شرائع ہیں اور سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو پورا فرمایا۔ چناچہ دوسری جگہ قرآن کریم نے ان آزمائشوں میں پورے اترنے کو ” وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ0037 “ (النجم) کے الفاظ سے خود ہی اس کی وضاحت فرما دی ہے اب ان تیس خصلتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کو قرآن کریم کے مختلف مقامات میں بیان فرمایا گیا ہے جس میں سے دس سورة التوبہ میں اور دس سورة المؤمنین میں اور دس سورة الاحزاب میں بیان کی گئ ہیں۔ چنانچہ سورة التوبہ میں ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ 1ؕ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ 1۫ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ 1ؕ وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ 1ؕ وَ ذٰلِكَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ 00111 اَلتَّآىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ 1ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ 00112 (التوبہ 9 : 111 تا 112) ” بلاشبہ اللہ نے مؤمنون سے ان کی جانیں بھی خرید لیں اور مال بھی اور اس قیمت پر خرید لیں کہ ان کے لئے بہشت کی جاودانی زندگی ہوگی وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں یہ وعدہ اللہ کے ذمہ ہوچکا تورات انجیل اور قرآن تینوں کتابوں میں اس کا اعلان ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون ہے جو اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہو ؟ مسلمانو اپنے اس سودے پر جو اللہ سے تم نے چکایا ہے خوش ہو جائو اور یہی ہے جو بڑی سے بڑی فیروز مندی ہے کہ وہ اپنی لغزشوں سے توبہ کرنے والے ، عبادت میں سر گرم رہنے والے ، اللہ کی ہمدو ثنا بیا کرنے والے ، سیر و سیاحت کرنے والے ، سجدہ کرنے والے ، نیکی کا حکم دینے والے ، برائی سے روکنے والے ، اللہ کی ٹھہرائی ہویئ حد بندیوں کی حفاظت کرنے والے۔ اے پیغمبر اسلام ! ایسے مؤمنوں کو خوشخبری دے دو ۔ “ اس میں مؤمنوں کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں وہ وہی ہیں جو اس سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی زندگی میں پورے کر دکھائے اور وہ ان سب کے سب میں پاس نکلے اب یہی اوفاف سچے مؤمنوں کے لئے ٹھہرائے گئے کہ ملت ابراہیمی کے ساتھ وابستگی کے لئے ضروری ہے کہ ان اوصاف میں انسان پورا اترے اور زیادہ نہیں تو ان اوصاف کے چھینٹے تو اپنے اوپر پڑنے دے یہ وہ دس اوصاف ہیں جو سورة التوبہ میں بیان ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ ذرا ان کی تفصیل بیان ہوجائے تاکہ قارئین زیادہ سے زیادہ اس سے مستفید ہو سکیں۔ ایمان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے تو گویا ان کے ایمان کا معاملہ یوں سمجھو ، کہ انہوں نے اپنا سب کچھ اللہ کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ جان بھی اور مال بھی۔ اب ان کی کوئی چیز ان کی نہیں رہی بلکہ وہ اللہ اور اس کی سچائی کی ہوگئ۔ ؎ بندگان تو کہ در عشق خداوندانند ۔ دو جہاں رابہ تمنائے تو بفر و ختہ اند یعنی ان کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ جہاد کے لئے کمر بستہ رہتے ہیں اس طرح وہ مرنے اور مارنے کے خوف سے کبھی ہراساں نہیں ہوتے پھر اللہ کی طرف سے اس کے معاوضہ میں کیا ہوا ؟ فرمایا یہ ہوا کہ نعیم ابدی کی کامرانیاں انہیں عطا فرمائیں۔ یہ گویا خریدو فروخت کا ایک معاملہ تھا جو اللہ اور عشاق حق میں طے پا گیا۔ اب نہ بیچنے والا اپنی متاع واپس لے سکتے ہے نہ خریدنے والا قیمت لوٹا سکتا ہے۔ ؎ جان دی پر دی ہوئی اس کی تھی ۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ” اَلتَّآىِٕبُوْنَ “ یعنی وہ جو اپنی توبہ میں سچے اور پکے ہوتے ہیں اور ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنی غفلتوں اور لغزشوں پر نادم ہوتے ہیں۔ ” الْعٰبِدُوْنَ “ وہ جو اپنے اللہ کی عبادت میں سرگرم رہتے ہیں اور ان کی ساری بندگیاں اور نیاز مندیاں صرف اور صرف اسی کے لئے ہوتی ہیں اور پھر اس جگہ عبادت سے مقصود عبادت خاص بھی ہے اور عام بھی۔ خاص یہ ہے کہ وقتوں اور خاص شکلوں کی عبادت جو دین حق نے قرار دے دی ہے اسے پورے اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرے۔ عام یہ ہے کہ انسان کی فکری حالت عبادت گزارنہ ہوجائے اور پھر وہ جو کچھ بھی سنے ، جو کچھ بھی کہے جو کچھ بھی کرے سب میں ایک عابدانہ روح کام کر رہی ہو۔ ” الْحٰمِدُوْنَ “ وہ جو اپنے فکر سے اور اپنے قول سے اللہ کی حمد و ستائش کرنے والے ہیں فکر سے حمد و ستائش یہ ہوئی کہ بحکم یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ 1ۚ (آل عمران 3 : 191) آسمان و زمین کی خلقت میں غور کرنا اور ان تمام کارفرمائیوں کی معرفت حاصل کرنا جو اس کی محمودیت و جمال پر دلالت کرتی ہیں ۔ قول سے حمد و ستائش اس فکری حالت کا قدرتی نتیجہ ہے کیونکہ جس ہستی کی محودیت دل و دماغ میں بس جائے گی ضروری ہے کہ زبان سے بھی بےاختیار اسی کی حمدوثنا کے ترانے نکلنے لگیں۔ ” السَّآىِٕحُوْنَ “ وہ جو راہ حق میں سیر و سیاحت کرتے ہیں یعنی بحکم الٰہی : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ 1ۙ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ (آل عمران 3 : 137) زمین میں عبرت و نظر کے لئے گردش کرتے ہیں ۔ علم کی ڈھونڈ میں نکلتے ہیں ۔ راہ حق میں جدوجہد کرتے ہیں ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کا رخ کرتے ہیں ۔ حج کی خاطر خشکی اور تری کی مسافتیں طے کرتے ہیں۔ ” الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ “ وہ جو اللہ کے سامنے جھک جاتے ہیں اور رکوع و سجود سے کبھی نہیں تھکتے۔ یہ رکوع و سجود کی حالت جسم پر بھی طاری ہوتی ہے اور قلب پر بھی اور زبان پر بھی طاری ہوتی ہے اور والہانہ انداز میں دیر دیر تک رکوع میں جھکے اور سجدے میں گرے رہتے ہیں گویا یہ دنیا ومافیہا سے غافل ہوچکے ہیں اور ان کی دنیوی احتیاجات ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ ” الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ “ وہ جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں یعنی صرف اپنی ہی نفس کی اصلاح پر قانع نہیں ہوجاتے بلکہ دوسروں کی بھی اصلاح کرتے ہیں اور دنیا میں حق وعدالت کے نشروقیام کی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ” الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ 1ؕ “ یہ آخری وصف اور مقام ہوا جو اس جگہ بیان کئے گئے ہیں یعنی وہ جو حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں جو اللہ نے انسان کیلئے ٹھہرا دی ہیں قرآن کریم کی اصطلاح یہ ہے کہ وہ تمام حقوق و واجبات خواہ افراد کی زندگی سے متعلق ہوں یا جماعت سے ، وہ حدود اللہ سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی یہ حدیں جو مقرر کردی گئی ہیں ان کے ٹوٹنے میں انسانی امن وسعادت کی بنیادوں کو ٹوٹ جانا ہے۔ یہ اوصاف جس ترتیب سے بیان کئے گئے ہیں وہ بھی قابل غور ہیں گویا یہ نفس انسانی کے تزکیہ و ترقی کے الگ الگ درجات ہیں یا طبقات جو یکے بعد دیگرے ٹھیک اسی ترتیب سے سلوک ایمان میں پیش آتے ہیں۔ جب کوئی انسان راستی و ہدایت کی راہ میں قدم اٹھائے گا تو قدرتی طور پر پہلا مقام زندگی ہی کا اس کے پیش نظر رہے گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ زندگی کا تعلق صرف اسی دنیا سے نہیں بلکہ یہاں سے منتقل ہو کر زندگی کے مقام پر پہنچنا ہے۔ پھر جو اس راہ میں اس سے لغزشیں ہو گیں اس کے لئے اس کے پاس توبہ وانابت ہی کی راہ پہلی اور آخری ہے یعنی پچھلی غفلتوں اور گمراہیوں سے خواہ وہ کفر کی ہوں خواہ نفاق کی خواہ معاصی و ضلالت کی ، باز آئے گا اور آئندہ کے لئے ان سے بچنے کا عہد کرے گا اور اپنے سارے دل اور ساری روح سے اللہ کی طرف رجوع ہوجائے گا اور یہی توبہ کی حقیقت ہے پھر اگر توبہ سچی ہوگی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ کی بندگی و نیاز مندی کی سرگرمی پیدا ہوجائے پس یہ تیسری منزل ہوئی یا تیسرا طبقہ سلوک ایمان کا چونکہ عبادت گزاری کی زندگی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ فکر و ذکر کا مقام حاصل ہوجائے اور ملکوت السمٰوات والارض کے مشاہدہ و معرفت کا دروازہ کھل جائے اس لئے چوتھی منزل تحمید و تسبیح کی منزل ہوئی یعنی اللہ کی حمدوثنا کے جوش سے معمور ہوجانے کی منزل کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا 1ۚ (آل عمران 3 : 191) پھر پچھلی منزلیں اگر مکمل درجہ میں طے ہوئی ہیں تو ممکن نہیں کہ مؤمن صادق کو گھر میں چین سے بیٹھنے دیں ضروری ہے کہ وطن و مکان کی الفت کی زنجیریں ٹوٹیں اور سیر و سیاحت میں قدم سرگرم ہوجائیں۔ ان منازل سے جو کارواں عمل گزر گیا اس نے گویا اصلاح نفس کی مسافت طے کرلی اب اس سے اگلی منزل الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ کی ہوئی یعنی بندگی و نیاز مندی میں پورے ہوگئے اور اللہ کے سامنے سر نیاز ہمیشہ کے لئے جھک گیا اب ” الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ “ کا مقام انہیں حاصل ہوجائے گا ، یعنی اپنی تعلیم و تربیت کا معاملہ پورا کر کے دوسروں کے لیے معلم و مربی ہوجائیں گے اور پھر آخری منزل کے ساتھ ڈانڈے مل جائیں گے وہ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ 1ؕ کا مقام ہے یہاں پہنچ کر ان کے تمام اعمال حدود الٰہی کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں وہ خود اپنے اعمال میں بھی حدود اللہ کی کامل نگہداشت رکھتے ہیں اور اپنے وجود سے باہر بھی ان کے نفاذ و قیام کی نگہبانی کرتے ہیں۔ اب ان دس امتحانی سوالوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کا ذکر سورة المؤمنون میں ہے چناچہ ارشاد باری ہے : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ001 الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ002 وَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ003 وَ الَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ004 وَ الَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ005 اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ006 فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَۚ007 وَ الَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ008 وَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ009 اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ0010 الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ 1ؕ ہُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ 0011 (المؤمنون 23 : 1 تا 11) ” بلاشبہ ایمان لانے والے کامیاب ہوئے۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ یہ وہی ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع رکھتے ہیں۔ نکمّی باتوں سے رخ پھیرے ہوئے ہیں۔ وہ زکوٰۃ ادا کرنے میں سرگرم ہیں جو اپنے ستر کی نگہداشت سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ ہاں اپنی بیویوں سے زنا شوئی کا علاقہ رکھتے ہیں یاں ان سے جو ان کی ملکیت میں آگئیں اور انہوں نے ان سے نکاح کرلیا اور اب ان سے علاقہ رکھتے ہیں ان پر کوئی ملامت نہیں اور جو کوئی علاوہ ازیں دوسری صورت نکالے تو ایسی صورتیں نکالنے والے وہی ہیں جو حد سے باہر ہوجانے والے ہیں اور جن کا حال یہ ہے کہ اپنی امنتوں اور عہدوں کا پاس رکھتے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے تو یقیناً ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنا ورثہ پانے والے ہیں یہ فردوس کی زندگی میراث میں پائیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس میں بسنے والے ہیں۔ “ یہ دس اوصاف بھی انہیں اوصاف میں سے ہیں جن کے متعلق سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش ہوئی اور آپ اس آزمائش میں سے بھی مکمل طور پر پاس ہوئے اور یہی وہ اوصاف ہیں جن کو پیغمبر اسلام ﷺ نے اس چھوٹی سی جماعت پر نافذ فرمایا جو مکہ مکرمہ میں تشکیل پا چکی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ایک چھوٹی سی جماعت مکہ میں پیدا ہوگئی تھی اور دعوت حق کے فیضان نے اس کے خصائص اسلامی اشکار کردیئے تھے یہ گویا ان مریضوں کی پہلی جماعت تھی اس شفا خانہ سے تندرست ہو کر نکلی تھی اب طبیب ان کی طرف اشارہ کر کے گویا کہہ سکتا تھا کہ جسے میری طبابت میں شک ہو وہ انہیں دیکھ لے جس طبیب کے نسخہ شفا سے ایسے تندرست اور صحت مند لوگ موجود ہوں وہ طبیب ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کیسا ؟ یعنی یہ جماعت اپنے خصائص ایمانی و عملی میں دعوت حق کی صداقت کی ایک مشہور دلیل بن گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کی سورتوں میں جابجا اس کے اعمال و خصائص کی طرف اشارات کئے گئے ہیں۔ اس سورت کی ابتداء اس مرقع سے ہوتی ہے۔ غور کرو کے اس مرقع کے اصلی نقش و نگار کیا گیا ہیں ؟ خصوصیت کے ساتھ یہاں جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں گویا قرآن کریم کے نزدیک ایمانو عمل کے مرقع میں سب سے زیادہ نمایاں یہی ہیں۔ جس زندگی میں یہ خصائص نہ ہوں وہ زندگی ایک مؤمن کی زندگی نہیں سمجھی جاسکتی۔ صحیح اور سچا ایمان لانے کے بعد نماز کی محافظت اور اس کی خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا ” خشوع و خضوع “ کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ میں ادا نہیں کیا جاسکتا ۔ تم کسی باہیبت و جلال مقام میں کھڑے ہو جائو تو تمہارے ذہن و جسم پر کیسی حالت طاری ہوجائے گی۔ پس ایسی ہی حالت کو عربی زبان میں ” خشوع “ کی حالت کہتے ہیں۔ ہر اس بات سے دور رہنا جو نکمّی ہو صرف انہی باتوں کا اشغال رکھنا جو دین و دنیا میں نافع ہوں۔ اپنی کمائی اپنے محتاج بھائیوں کے لئے خرچ کرنا ، اور زنا سے کبھی آلودہ نہ ہونا ، امانتدار ہونا ، اپنے عہدوں کو پورا کرنا یہ سب اوصاف ایسے ہیں جن سے انسان کی انسانیت کامل ہوتی ہے۔ اتحاد تناسل کا جائز طریقہ ایک اور صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے ازدواج کا طریقہ وہ لوگ صرف یہی راہ اختیار کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی دوسری راہ وہ نہیں اختیار کرتے خواہ وہ کسی نوعیت یا کسی شکل کی ہو۔ یعنی وہ زنا شوئی کا علاقہ بجز منکوحہ عورتوں کے اور کسی سے نہیں رکھتے۔ ان کی بیویاں ایسی ہوں جو آزاد سوسائٹی کے افراد سے ہوں یا لونڈیاں ہوں اور ان سے انہوں نے نکاح کرلیا ہو۔ یہ وضاحت اس لئے کرنا پڑی کہ بد قسمتی سے ہمارے علماء نے صرف ملک یمین میں ہونے کو نکاح کے قائم مقام سمجھ لیا۔ العیاذ باللہ۔ کہاں نکاح اور کہاں ملک یمین ۔ چونکہ وقت کی سوسائٹی میں آزاد اور غلام افراد کی دو قسمیں پیدا ہوگئیں تھیں اس لئے اس طرح ذکر کرنا ناگزیر تھا۔ رہی یہ بات کہ خود قرآن کریم نے رسم غلامی کے بارے میں کیا حکم دیا ؟ اور کس طرح اسے مٹانا چاہا ؟ تو اس کا جواب آپ کو سورة محمد میں ملے گا ۔ ان شاء اللہ۔ اب سورة الاحزاب میں بیان کئے گئے دس اوصاف کا ذکر کیا جاتا ہے جس سے ان تیس اوصاف کی تعداد پوری ہوجائے گی جو احادیث کی روح سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) میں موجود تھے جن میں آپ کو آزمایا گیا تھا اور آپ اس آزمائش میں پورے اترے تھے چناچہ ارشاد باری ہے : اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ۠ وَ الصَّآىِٕمِیْنَ۠ وَ الصّٰٓىِٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ 1ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا 0035 (الاحزاب 33 : 35) ” بلاشبہ جو مرد اور عورتیں مسلم ہیں۔ جو مرد اور روتیں مؤمن ہیں۔ جو مرد اور عورتیں مطیع فرمان ہیں۔ جو مراد اور عورتیں راست باز ہیں۔ جو مرد اور عورتیں صابر ہیں۔ جو مرد اور عورتیں اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں۔ جو مرد اور عورتیں صدقہ دینے والے ہیں۔ جو مرد اور عورتیں روزہ رکھنے والے ہیں۔ جو مرد اور عورتیں اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور جو مرد اور عورتیں اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ “ سورئہ الاحزاب کے پچھلے رکوع میں نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کو ہدایات دی گئی تھیں اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ وہ سب ہدایا مسلم سوسائٹی کے لئے ضروری ہیں لہٰذا ایک مسلم معاشرہ کو اپنے کردار کی اصلاح انہی ہدایات کے مطابق کرنی چاہئے۔ ! جن لوگوں نے اسلام کو اپنے لئے ضابطہ حیات کی حیثیت سے قبول کیا ہے اور یہ طے کرلیا ہے کہ اب وہ اس کی پیروی میں زندگی بسر کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں جن کے اندر اسلام کے دیئے ہوئے طریق فکر اور طرز زندگی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت باقی نہیں رہی ہے بلکہ وہ اس کی اطاعت اور اتباع کی راہ اختیار کرچکے ہیں۔ " جن کی یہ اطاعت محض ظاہری نہیں ہے اور نہ ہی بادل نخواستہ ہے بلکہ سارے دل سے وہ اسلام کی راہنمائی کو حق مانتے ہیں ان کا ایمان یہی ہے کہ فکر و عمل کا جو راستہ قرآن کریم اور محمد رسول اللہ ﷺ نے دکھایا ہے وہ سیدھا اور صحیح راستہ ہے اور اس کی پیروی میں ہماری فلاح ہے جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے غلط کہہ دیا ہے ان کی اپنی رائے بھی یہی ہے کہ وہ یقیناً غلط ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے حق کہا ہے ان کا اپنا دل و دماغ بھی اسے بر حق بھی یقین کرتا ہے ان کے نفس اور ذہن کی حالت یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سنت سے جو حکم ثابت ہو اسے وہ نامناسب سمجھتے ہوں اور اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہیں کہ کس طرح اسے بدل کر اپنی رائے کے مطابق یا دنیا کے چلتے ہوئے طریقوں کے مطابق ڈھال بھی دیا جائے اور یہ الزام بھی اپنے سر نہ لیا جائے کہ ہم نے یہ حکم خداوندی یا حکم رسول اللہ ﷺ میں ترمیم کر ڈالی ہے۔ حدیث میں رسول اللہ ﷺ ایمان کی صحیح کیفیت کو اس طرح بیان فرماتے ہیں : ذاق طعم ال ایمان من رضی باللہ ربا وبالا سلام دنیا و بحمد رسولا (صحیح مسلم) کہ وہ شخص ایمان کا لذت شناس ہوگیا جو اس بات پر راضی ہوگیا کہ اللہ ہی اس کا رب ہے اور اسلام ہی اس کا دین ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ اس کے رسول ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ کا فرمان اس طرح ہے : لایؤمن احدکم حتی یکون ھوا تبعا لما جئت بہ (شرح السنہ) تم میں کوئی شخص مؤمن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس چیز کے تابع نہ ہوجائے جسے میں لایا ہوں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ محض مان کر رہ جانے والے بھی نہیں ہیں بلکہ عملاً اطاعت کرنے والے ہیں ان کی یہ حالت نہیں کہ ایمانداری کے ساتھ حق تو اسی چیز کو مانیں جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے مگر عملاً اس کی خلاف ورزی کریں اور اپنی مخلصانہ رائے میں تو ان سب کاموں کو برا ہی سمجھتے رہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مگر اپنی عملی زندگی میں ارتکاب انہی کا کرتے چلیں جائیں۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ اپنی گفتار میں سچے ہیں اور اپنے معاملات میں بھی کھر ّے ہیں۔ جھوٹ ، فریب ، بدنیتی ، دغا بازی اور کمینہ پن ان کی زندگی میں نہیں پائی جاتی۔ ان کی زبان وہی بولتی ہے جسے ان کا ضمیر صحیح جانتا ہے ۔ وہ کام وہی کرتے ہیں جو ایمانداری کے ساتھ ان کے نزدیک راستی و صداقت کے مطابق ہوتا ہے اور جس سے بھی وہ کوئی معاملہ کرتے ہیں دیانت کے ساتھ کرتے ہیں۔ پانچویں صفت یہ ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلتے اور اللہ کے دین کو قائم کرنے میں جو مشکلات بھی پیش آئیں۔ جو خطرات بھی درپیش ہوں جو تکالیف بھی اٹھانی پڑیں اور جن نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑے ان کا پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں ۔ کوئی خوف ، کوئی لالچ اور خواہشات نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹا دینے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ تکبر اور استکبار اور غرور نفس سے خالی ہیں وہ اس حقیقت کا پورا شعور و احساس رکھتے ہیں کہ ہم بندے ہیں اور بندگی سے بالاتر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے اسلئے انکے دل اور جسم دونوں ہی اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ ان پر اللہ کا ڈر غالب رہتا ہے ان سے کبھی وہ رویہ ظاہر نہیں ہوتا جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا اور اللہ سے بےخوف لوگوں سے ظاہر ہوا کرتا ہے۔ ترتیب کلام کو ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس عام خدا ترسانہ رویہ کے ساتھ خاص طور پر ” خشوع “ سے مراد نماز ہے کیونکہ اسکے بعد ہی صدقے اور روزے کا ذکر ہے۔ ساتویں صفت ان کی یہ ہے کہ وہ صرف فرضی زکوٰۃ ادا کرنے پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ عام خیرات بھی اکثر اوقات میں کرتے رہتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کھلے دل سے اپنا مال صرف کرتے ہیں اللہ کے بندوں کی مدد کرنے میں اپنی حد استطاعت تک وہ کوئی دریغ نہیں کرتے کوئی یتیم ، کوئی بیمار ، کوئی مصیبت زدہ ، کوئی ضعیف و معزور ، کوئی غریب و محتاج آدمی ان کی بستیوں میں دستگیری سے محروم نہیں رہتا اور اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لئے ضرورت پیش آجائے تو اس پر اپنے مال لوٹا دینے میں وہ کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ آٹھویں صفت ان کی یہ ہے کہ فرض روزوں کے ساتھ نوافل روزوں کی بھی خواہش رکھتے ہیں ایک مہینے میں تین روزے یعنی ایام بیض کے دنوں میں روزے رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں تاکہ فرض کے ساتھ سنت کی مٹھاس سے بھی وہ محروم نہ رہیں۔ نیز روزہ رکھوانے اور کھلوانے میں بھی اہتمام کرتے ہیں لیکن ان کا یہ سارا معاملہ اللہ کی رضا کے لئے ہوتا ہے جس میں دکھاوے کا نام بھی نہیں ہوتا۔ نویں صفت انکی یہ ہے کہ زنا تو زنا وہ عوارض زنا کے قریب نہیں جاتے اس طرح وہ ہر طرح کی عریانی ، زبانی ہو یا جسمانی ، اس سے پرہیز کرتے ہیں وہ ان رواجات کے قریب بھی نہیں جاتے جو ان کو عریانی کی طرف لے جائیں ، وہ ہر اس کام سے پرہیز کرتے ہیں جس میں برہنگی اور عربانی کی بُو آئے وہ سمجھتے ہیں کہ عریانی صرف اس چیز کا نام نہیں کہ آدمی لباس کے بغیر ننگا ہوجائے بلکہ ایسا لباس پہننا بھی برہنگی ہی ہے جو اتنا رقیق ہو کہ جسم اس میں سے جھلکتا ہو یا اتنا چست ہو کہ جسم کی ساخت اور اسکے نشیب و فزار سب اس میں سے نمایاں نظر آتے ہوں۔ دسواں وصف ان کا یہ ہے کہ وہ کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملہ میں کسی نا کسی طرح اللہ کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دل میں اللہ کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لاشعور میں جب یہ خیال گہرا اتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں اللہ کا نام ضرور آئے گا اور یہ معاملہ تصنع یا بناوٹ سے نہیں ہوتا بلکہ ان کے دلوں میں وہ راسخ ہوجاتا ہے ایسا آدمی جب کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا اور کھانے سے فارغ ہو کر الحدا للہ کہے گا۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کرے گا اٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے ۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ ، الحمد اللہ ، ان شاء اللہ ، ماشاء اللہ اور اسی طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے لیکن یہ سب کلمات کہتے وقت وہ جانتا ہوگا کہ ان کلمات کو زبان سے ادا کرنا اور اللہ تعالیٰ کو اپنے ہر کام میں فوقیت دینا چاہتا ہے جو کسی دوسرے کو نہیں دی جاسکتی۔ وہ اپنے ہر معاملہ میں اللہ سے مدد مانگے گا اور غیر اللہ سے اجتناب کرے گا ۔ ہر نعمت ملنے پر وہ اللہ کا شکر ادا کرے گا اور یقین جانے گا کہ اس نعمت کا عطا کرنے والا ایک اور صرف ایک ہی ہے اور وہی میرا رب ہے وہ ہر وقت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہوگا۔ ہر مشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر برائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا اور کوئی قصور بھی سر زد ہوجانے پر اس سے معانی طلب کرے گا۔ ہر حاجت پیش کرنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کاج کرتے ہوئے اس کا وظیفہ اللہ ہی کا ذکر ہوگا یہ چیز دراصل اسلامی زندگی کی جان ہے۔ بشر طی کہ زبان اور عمل سے ایک ہو ، ایسا نہ ہو کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لئے کوئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہوجاتا ہے لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دل محض ان خاص عمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت اللہ کی طرف راغب اور اس کی زبان ہر وقت اس کے ذکر سے تر رہے۔ یہ حالت انسان کی ہو تو اس کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اسی طرح پروان چڑھتے اور نشو ونما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطاق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زندگی اس دائمی ذکر اللہ سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبرگیری کی وجہ سے پل رہا ہو۔ یہاں تک تیس کلمات یا خصائل بیان کی گئیں لیکن بغور مطالعہ کرنے والے سمجھیں گے کہ اس میں بہت سی باتیں تو وہ ہیں جو دو بار یا تین بار اس میں آگئیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بلحاظ الفاظ ایسا ہوا بھی ہے تو مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق موجود ہے جس سے یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ کوئی بات دوبارہ یا سہ بارہ آگئی تاہم صحیح احادیث میں اور بھی بہت سی خصائل ایسی ہیں جن کی نسبت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ہی سے کی جاتی ہے اور انہی کے توسط سے اب ملت ابراہیمی کے ہر فرد کے لئے وہ لازمی قرار دی جاتی ہے بعض ان میں فرق ، سنت اور مستحب کا درجہ رکھتی ہیں ۔ تاہم ایک حدیث مزید یہاں درج کیا جاتی ہے تاکہ ان خصائل کو بھی ساتھ شامل کرلیا جائے تاکہ دوبارہ یا سہ بارہ آنے والی باتوں یا کلمات کی جگہ ان کو رکھا جاسکے۔ طائوس نے کہا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے مزید دس چیزوں سے آزمایا تھا کہ وہ بھی فطرت انسانی کے مقتضی ہیں جن میں سے پانچ کا تعلق سر میں ہے اور پانچ باقی بدن سے متعلق ہیں جو چیزیں سر سے متعلق ہیں وہ پانچ چیزیں درج ذیل ہیں : مونچھیں کتروانا ، کلی کرنا ، ناک میں پانی ڈالنا ، مسواک کرنا اور سر میں مانگ نکالنا اور جو پانچ بدن کے متعلق ہیں وہ یہ ہیں : ناخن تراشنا ، بغل کے بال اکھاڑنا ، زیر ناف بالوں کا مونڈنا ، ختنہ کرنا اور پانی سے استنجا کرنا۔ علاوہ ازیں بھی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے لیکن احادیث کی روشنی میں ان کو ان خصائل میں شمار نہیں کیا گیا۔ اگرچہ ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کے واقعات بہت دلچسپ اور نہایت ہی نصائح سے لبریز ہیں لیکن ان شاء اللہ ان کو ان کے مقامات پر بیان کیا جائے گا۔ البتہ اس آیت کی تفسیر کے بعد سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کا ایک خاکہ یہاں بھی دیا جا رہا ہے تاکہ قارئین اسکی روشنی میں ان مقامات کا مطالعہ کریں اور پھر دیکھیں کہ اس ابوالانبیاء کی تاریخ میں اسلامی زندگی کے لئے کون سی وہ بات ہے جو بیان نہیں کردی گئی ۔ اگر اس میں سب کچھ بیان کردیا گیا ہے تو پھر مسلمانوں ہی کا حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو ملت ابراہیم قرار دیں اور جھوم جھوم کر پڑھیں : اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّهُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ. تیسرا سوال یہ تھا کہ اس امتحان میں کامیابی کس صورت اور نوعیت کی رہی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں ان کو مسند کامیابی عطا فرمائی اور اعلان فرما دیا کہ ” وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ0037 “ کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو پورا کر دکھایا۔ چوتھا سوال یہ تھا ابراہیم (علیہ السلام) کو انعام کیا دیا گیا ؟ اس کا جواب اس آیت کے اندر آچکا ہے جب فرمایا کہ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا 1ؕ (البقرہ 2 : 124) اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں آپ لوگوں کا امام اور پیشوا بناتا ہوں۔ تورات میں بھی یہ وعدئہ امامت ان الفاظ میں ملتا ہے : ” اور میں تجھ کو ایک بڑی قوم بنائوں گا اور تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کروں گا اور تو ایک برکت ہوگا ادیان کو جو تجھے برکت دیتے ہیں برکت دوں گا اور ان کو جو تجھ پر لعنت کرتے ہیں لعنتی کر دوں گا اور دنیا کے سارے گھرانے تجھ سے برکت پائیں گے۔ “ (پیدائش 20 : 1 تا 2) یہ دینی سرداری اور امامت پورے ایک عالم کی آج تک آپ کے حصے میں چلی آرہی ہے اور اسلام کے علاوہ بھی جو مذاہب توحید سے جو بھی لگائو رکھتے ہیں یعنی یہودیت و نصرانیت وہ آپ کی امامت پر متفق و متحد ہیں ایک نامور فرنگی فاضل بیسویں صدی کے ثلث اول کے ختم پر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا تعارف ان الفاظ میں کراتا ہے۔ ” ابراہیم کی ہستی کسی بدوی سردار کی نہ تھی کہ وہ لوٹ مار کرتے ، اور ملک گیری کرتے رہتے ۔ ان کی اصلی اہمیت مذہب کے دائرہ میں ہے وہ حقیقتاً مورث اعلیٰ کسی نسل کے نہیں۔ بانی و امام و مذہبی تحریک کے تھے محمد ﷺ کی طرح جو ان کے دو ہزار سال بعد پیدا ہوئے وہ ساری قوموں اور قبیلوں کے رہنما کی حیثیت رکھتے تھے ، اور تورات کے حسب روایت وہ اسرائیلی مذہب کے بانی تھے۔ “ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا جلد اول ص 60 طبع چہارم) ذرا غور کرو کہ اوپر کی عبارت میں جو یہ الفاظ بیان کئے گئے ہیں ” محمد ﷺ کی طرح “ انہیں ایک بار پھر پڑھو کہ اہل یورپ کی زبان سے اللہ کے حبیب ﷺ اور اللہ کے خلیل (علیہ السلام) کے درمیان مماثلت کا یہ اعتراف بس اللہ ہی کی شان ہے۔ آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امامت کے جو معنی بیان ہوئے ہیں اس کے لحاظ سے امامت کے اعلیٰ مرتبہ پر انبیاء کرام ہی فایز ہوتے ہیں اور ان کے بعد خلفائے راشدین ہیں اور خلفائے اسلام جو خصوصاً محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد ہوتے رہے اور آج بھی مسلمانوں کے لئے ایک خلیفہ وقت ضرور ہونا چاہئے خواہ اس کا کوئی نام رکھا جائے یعنی اسلامی نام و منصب خلافت یا کوئی نیا نام تاہم ہر زمانہ میں ایک ایسی شخصیت کا ہونا ضروریات دینی بلکہ دین کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ضرورت ہے اسی سے عالم اسلامی کی مرکزیت قائم رہ سکتی ہے۔ جب سے مسلمانوں نے اس عہدہ اسلامی کو ختم کیا ہے دنیا میں ذلیل و خوار ہی ہوئے اور آج کی خواری کا بھی اصل سبب یہی ہے لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی سوچ کو کیا ہوگیا ، انہوں نے اپنے دل بہلانے کی خاطر یہ تاویل کی کہ ہمارا امام قرآن کریم ہے صرف ایک یعنی محمد رسول اللہ ﷺ ہے۔ ہمارا امام بیت اللہ ہے وغیرہ لیکن یہ سب تاویلیں دل کا بہلاوا ہیں اور اسی طرح کے دعوے فریب خوردہ قومیں کرتی رہتی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ اصل بات یہی ہے کہ ہر زمانہ میں پورے عالم اسلامی کیلئے ایک امام کا ہونا نہایت ضروری ہے اس کا نام حالات زمانہ کے مطابق آپ کچھ بھی رکھیں اور اگر وہ امام ، امیر المؤمنین ، خلیفہ وقت خطہ عرب ہی کا حکمران تسلیم کرلیا جائے تو دنیا دیکھے کہ اسلام کی ترقی کے لئے یہ منصب کتنا ضروری ہے۔ اس آیت سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کو اس کامیابی کے صلہ میں امامت خلق اور پیشوائی کا انعام دیا گیا۔ دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوا کہ خلق خدا کے امام و مقتداء اور پیشوا بننے کے لئے جو امتحان درکار ہے وہ ایسا امتحان نہیں جس میں چند مسائل کی فنی تحقیق اور علمی موشگافیوں کو کامیابی کا اعلیٰ درجہ سمجھا جاتا ہے۔ اس عہدے کے حاصل کرنے کے لئے ان تیس اخلاقی اور عملی صفات میں کامل اور مکمل ہونا شرط ہے جن کا ذکر ابھی بحوالہ آیات کریمات آچکا ہے اور حدیث کی زبان مبارک سے بھی دس خصائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ انسان کی فطرۃ اولیٰ تو محض نیکی میں ہے اس میں بدی کے متعلق آمیزش نہیں مگر اس کی ثانوی تخلیق میں خیر و شر دونوں کو ودیعت کیا گیا ہے اگر ایک شخص کا قلب سلیم ہے اور خارجی اثرات ضلالت سے اس کے آئینہ کو گردآلودہ نہیں کیا گیا تو وہ ضرور اپنے خالق کے آگے جھکے گا اور جو چیزیں اس کے تزکیہ نفس اور طہارت و پاکیزگی میں خلل انداز ہوں گی ان کو دور کرنے کی کوشش کرے گا ۔ اس طہارت کے پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ان خصائل فطرت کا اپنے آپ کو عادی بنا لیا جائے ۔ اگر ایک شخص چالیس روز تک ان خصائل فطرت کو جو حدیث کی زبان میں پیش کی گئی ہیں ترک کر دے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس کے ارادہ میں ضعف ، اس کے عزم میں کمزوری اور اس کی طبیعت میں کدورت پیدا ہوگئی ہے خیالات میں پراگندگی اور افکار میں تشتت معلوم ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس رواج کے بانی ہیں۔ قوم میں ایک خاص کریکٹر پیدا کرنا ان کا مقصود ہے اور وہ یہ ہے کہ جو چیزیں ہمارے بدن میں کدورت پیدا کرنے والی ہیں ان کو فوراً کاٹ دیا جائے تاکہ آہستہ آہستہ طبیعت اس درجہ پر آجائے کہ صحیح فرض معلوم ہونے پر انسان اپنی زندگی بھی قربان کرسکے۔ طہارت کے یہ اصول اساس اس قدر آسان ہیں کہ عام انسانوں میں ان کی اشاعت نہایت سہولت کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو عام کردیا اور ہر شخص ان کا عادی بن گیا تاکہ مجددین ملت اور دعاۃ اسلام کی تعلیم کو لوگ قبول کرنے کو تیار ہوں اور ان کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں وہ ایک حد تک دور ہوجائیں۔ پانچواں سوال یہ تھا کہ اس انعام کے لئے جو ضابطہ الٰہی مقرر کیا گیا اس کی تفصیل کیا ہے ؟ اس کی تفصیل یہ ہے امامت و پیشوائی ایک حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی خلافت ارضی ہے یعنی جس مقصد کے لئے دراصل انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کی وضاحت اس طرح فرما دی کہ یہ خلافت ایسے شخص کو نہیں دی جاسکتی جو اللہ تعالیٰ کا باغی اور نافرمان ہو۔ اس لئے مسلمانوں پر لازم اور ضروری ہے کہ اپنے اختیار سے اپنے نمائندہ یا امیر کسی ایسے شخص کو مقرر نہ کریں جو اللہ تعالیٰ کا باغی یا نافرمان ہو اور اس عہدہ پر جب ایک شخص فائز ہوجائے اور دوسرا کوئی شخص اس عہدہ کی خواہش پر اٹھ کھڑا ہو تو اس پر قدرت پانے کے بعد فوراً اور بلاحیل و حجت اس کو قتل کردیں خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو۔ اس وقت عالم اسلام اور خصوصاً پاک و ہند میں جو امامت کی شکل و صورت بنا دی گئی ہے یہ سراسر غیر اسلامی ہے جس کی دین اسلامی میں کوئی گنجائش نہیں تھی کہ ایک آدمی اٹھتا ہے وہ ایک مسئلہ کو یا چند مسائل کو خوب ہوا دیتا ہے یہاں تک کہ دین کا سارا دارومدار اسی مسئلہ یا ان مسائل پر قائم کرتا ہے جو لوگ اس کی آواز پر لبیک کہتے ہیں ان کو اپنی چرب زبانی اور سبقت لسانی سے بلیک میل کر کے ایک نئی جماعت کی داغ بیل ڈال کر حکومت سے رجسٹریشن کروا لیتا ہے اور خود کو اس جماعت کا امیر قرار دے کر رسول اللہ ﷺ کے ان جماعتی ارشادات کو اپنی جماعت اور اپنی ذات پر فٹ کر کے باقی سب خارج از اسلام قرار دے لیتا ہے اور اس پر اتنا تشدد کرتا ہے کہ وہ دوسرے سب لوگوں سے مقاطع کرنے کی ہدایت دیتا ہے کہتا ہے کہ ہماری دوسروں کے ساتھ مل کر نماز نہیں ہوتی ، دوسروں کے ساتھ نکاح نہیں ہوتا ، دوسروں کے ساتھ میل جول حرام ہے ان لوگوں نے عالم اسلام کی وحدت کو جس طرح ختم کیا ہے اور دین اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا کوئی یہودی اور عیسائی بھی نہیں پہنچا سکا اسلامی حکومت کا اولین فرض ہے کہ ان سب لوگوں کو توبہ کی تلقین کا پروانہ جاری کرے اور ایک قلیل مدت کے اندر ان کو راہ راست پر آنے کی تلقین کرے اور اس مدت کے اندر جو لوگ توبہ نہ کریں اور ان عہدوں سے دستبردار نہ ہوں تو ان سب کو قتل کرا دیا جائے ۔ اس لئے کہ دعوت اسلامی اتنی اہم چیز ہے کہ اس کے مقابلہ میں افراد کی کوئی حیثیت نہیں ۔ وہ افراد سینکڑوں میں ہوں یا ہزاروں میں۔ یہ سب لوگ اسلام کے باغی ہیں جو تشتت اسلام کے مرتکب ہوئے ہیں۔ خلافت ارضی کا عہد بھی نافرمانوں کے لئے نہیں ہے : 230: مطلب یہ ہے کہ برکت و فضل کا سلسلہ تمہاری نسل میں بھی ضرور رہے گا لیکن اس کا استحقاق محض ارث ، نسب اور نسل کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل صالح بھی حاصل کرنا ہوگا۔ گویا دعائے ابراہیمی اولاد صالح کے حق میں قبول ہوئی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خبر دی گئی کہ آپ کی نسل میں دونوں طرح کے لوگ ہوں گے کچھ صالح و مطیع اور کچھ ظالم و نافرمان۔ صالحین کو امامت کی بشارت مل گئی اور ظالم اس سے محروم کر دئے گئے دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کی مزید وضاحت فرما دی ہے کہ ایک ہے امامت و امارت کی صلاحیت اور ایک ہے اللہ کی رضا۔ اور اللہ کا قانون امارت۔ ایک صالح انسان میں جب امامت و امارت کی صلاحیت ہوگی پھر وہ اس عہدہ پر فائز ہوگا گویا اس کے اللہ کے عہد کے مطابق اور اس کی رضا مندی کے ساتھ یہ عہدہ اس کو مل گیا۔ لیکن اگر ظالم اور فاسق انسان میں جب امامت و امارت کی صلاحیت ہوگی اور وہ اس عہدہ پر فائز ہوجائے گا تو یہ اللہ کی رضا اور مرضی سے اس عہدہ پر فائز نہیں ہوا بلکہ اللہ کے اس قانون امارت کے مطابق اس عہدہ پر براجمان ہوا ہے جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ دنیا کی پیشوائی کے لئے اگر اللہ کی رضا اور مرضی بھی شامل ہوئی تو گویا یہ شخص کامیاب و کامران ہوا اس کی دنیا بھی صحیح ہوگئی اور ما شاء اللہ آخرت بھی ، اگر فقط اس میں صلاحیتیں تھیں اور ان صلاحیتوں کے بل پر وہ پیشوا ہوگیا قانون امامت کے مطابق اس کو اس وقت امامت ضرور مل گئی لیکن رضا الٰہی اس کے شامل حال نہ ہوئی۔ لہٰذا دنیا میں جو اس کو ملا وہ فقط دنیا ہی تک محدود ہے آخرت میں کوئی صلہ نہیں ہوگا ۔ جس کی کامیابی کا تعلق صرف اس دنیا تک محدود ہے جو آج نہیں تو کل ختم ہوجائے گی۔
Top