Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے السُّفَهَآءُ : بیوقوف مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَا : کس وَلَّاهُمْ : انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا عَنْ : سے قِبْلَتِهِمُ : ان کا قبلہ الَّتِيْ : وہ جس کَانُوْا : وہ تھے عَلَيْهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں لِلّٰہِ : اللہ کے لئے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب يَهْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہتا ہے إِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيمٍ : سیدھا
جو لوگ عقل و بصیرت سے محروم ہیں وہ کہیں گے مسلمان جس قبلہ کی طرف [ رُخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے کیا بات ہوئی کہ ان کا رخ اس طرف سے پھر گیا ؟ تم کہو مشرق ہو یا مغرب سب اللہ ہی کے لیے ہے وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے
جو شخص سوچ سمجھ کر بات نہ کرے وہی بیوقوف ہوتا ہے : 259: سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو اقوام کی امامت ملی تھی انہوں نے مکہ میں عبادت گاہ تعمیر کی اور امت مسلمہ کے ظہور کی الہامی دعا مانگی اور مشیت الٰہی میں اسی کے ظہور کے لئے ایک خاص وقت مقرر تھا جب وہ وقت آیا تو پیغمبر اسلام سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا ظہور ہوا اور ان کی تعلیم و تزکیہ سے موعودہ امت پیدا ہوگئی۔ اس امت کو ” نیک ترین امت “ ہونے کا نصب العین عطا کیا گیا اور اقوام عالم کی تعلیم اس کے سپرد کی گئی ضروری تھا کہ اس کی روحانی ہدایت کا ایک مرکز بھی ہوتا۔ یہ مرکز قدرتی طور پر عبادت گاہ کعبہ ہی ہو سکتا تھا چناچہ تحویل قبلہ نے اس کی مرکزیت کا اعلان کردیا۔ یہی حقیقت قبلہ کے تقرر میں پوشیدہ تھی اور اب سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ سے یہی بیان شروع ہوتا ہے۔ پیردانی دعوت قرآنی مخاطب ہیں اور انہیں بتلایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عمل حق نے جو بیج بویا تھا وہ بار آور ہوگیا تھا اور وہ جو ” نیک ترین امت “ کی پیشینگوئی تھی وہ تم ہی ہو۔ تورات کی شہادت پیش کی گئی ۔ کتاب پیدائش کے واقعات بیان کئے گئے اور سب کو معلوم ہوگیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کو یہودیت و نصرانیت سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے بیت اللہ کی تعمیر کی کہ قبلہ عام بن جائے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ملت ابراہیمی کا پابند ہوگا اس کا قبلہ بیت اللہ ہی ہونا چاہئے لیکن باوجود ان حقائق ثانیہ کے احمق یہی کہتے ہیں کہ یہ لوگ بیت المقدس کو چھوڑ کر بیت اللہ کی جانب کیوں پھرگئے یہ اعتراض ان کی سقاہت اور بےعقلی کا نتیجہ ہے۔ بنی اسرائیل کا قبلہ بیت المقدس تھا رسول اللہ ﷺ نے بھی قیام مکہ کے زمانہ میں اسی رخ پر نماز جاری رکھی بلکہ جب مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی جب بھی اس قبلہ کو برقرار رکھا۔ بیت المقدس مدینہ سے سمت شمال میں واقعہ ہے۔ آپ کا دل بار بار چاہتا تھا کہ اپنے جد بزرگوار سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے خانہ کعبہ کو قبلہ بنا لیں ۔ لیکن حکم الٰہی اس سلسلہ میں خاموش تھا۔ آخر ورود مدینہ کے سولہویں مہینے کے بعد تحویل قبلہ کا حکم ملا۔ اب نماز بجائے بیت المقدس کے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھی جائے اور اس حکم کی معاً تعمیل ہوئی۔ خانہ کعبہ مدینہ سے ٹھیک جنوب میں واقع ہے اور اس طرح مدینہ کے نمازیوں کے رخ دفعتاً شمال سے جنوب کی جانب پھرگئے۔ بیت المقدس یہود کا قبلہ تھا اور اس کی منسوخی کا اعلان رسول کریم ﷺ کی زبان سے یہود کو بہت ناگوار گزرا۔ وہ یوں بھی رسول اللہ ﷺ کو اپنا دشمن اور اپنے دین کا بیخ کن سمجھنے لگے تھے تحویل قبلہ کے اس تازہ اعلان کو وہ اس سلسلہ کی ایک کڑی سمجھے اور اس پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کرنے لگے۔ ان کے ہمنوا کچھ اور لوگ بھی منافقوں اور بد دینوں میں سے ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کسی مقام یا جہت میں پابند نہیں ہے : 260: اللہ تعالیٰ کی توجہ تو مغرب و مشرق اور شمال وجنوب کی طرف یکساں ہے وہ کسی جہت میں پابند نہیں ہے ۔ ہاں جس قدر مرکز اعلیٰ ترین ہوگا اس کے نتائج بھی نہایت ہی شاندار ہوں گے اس لئے امت مسلمہ کو بہترین مرکز نوازش کیا گیا کہ وہی اس عزت و کرامت کی مستحق تھی اور ایک عالمگیر مذہب کے لئے یہی موزوں و مناسب تھا کہ توحید الٰہی کا پہلا گھر آخری نبی کا قبلہ ہو۔ قبلہ کے لفظی معنی ہیں سمت ، توجہ یعنی جس طرف رخ کیا جائے۔ یہ ظاہر ہے کہ مؤمن کا رخ عبادت میں صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی طرف ہوتا ہے اور اسی کی ذات پاک مشرق و مغرب شمال و جنوب کی قیدوں اور سمتوں سے بالاتر ہے وہ کسی خاص سمت میں نہیں۔ اس کا اثر طبعی خاص طور پر یہ ہوتا تھا کہ کوئی عبادت کرنے والا کسی خاص رخ کا پابند نہ ہوتا جس کا جس طرف جی چاہتا نماز میں اپنا رخ اس طرف کرلیتا اور ایک ہی آدمی کسی وقت ایک طرف اور کسی وقت کسی طرف رخ کرتا تو وہ بھی بےجانہ ہوتا۔ اب ایک دوسری حکمت الٰہیہ اس کی مقتضی ہوئی کہ تمام عبادت گزاروں کا رخ ایک ہی طرف ہونا چاہتے اور وہ یہ ہے کہ عبادت کی مختلف قسمیں ہیں بعض انفرادی ہیں اور بعض اجتماعی ذکر اللہ اور روزہ وغیرہ انفرادی عبادات ہیں جن کو خلوت میں اور اخفاہ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے اور نماز اور حج اجتماعی عبادات ہیں جن کو جماعت اور اجتماع اور اعلان کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے ۔ ان میں عبادت کے ساتھ مسلمانوں کو اجتماعی زندگی کے آداب کا بتلانا اور سکھانا بھی پیش نظر ہے اور یہ بھی بالکل ظاہر ہے کہ اجتماعی نظام کا سب سے بڑا بنیادی اصول افراد کثیرہ کی وحدت اور یک جہتی ہے۔ یہ وحدت حقیقی جتنی زیادہ قوی ہوگی اتنا ہی اجتماعی نظام مستحکم اور مضبوط ہوگا۔ انفرادیت اور تشتت اجتماعی نظام کے لئے سم قاتل ہے بعض نقطہ وحدت متعین کرنے میں ہر قرن ہر زمانہ کے لوگوں کی مختلف راہیں رہی ہیں ۔ کسی قوم نے نسل درنسل کو نقطہ وحدت قرار دیا ہے کسی نے وطن اور جغرافیائی خصوصیات کو کسی نے رنگ کو اور کسی نے زبان کو اور کسی نے ہم خیال ہونے کو۔ آپ جتنا غوروفکر کرتے جائیں گے آپ پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ ان سب وحدتوں سے نہایت ہی اہم چیز سمیت قبلہ کی وحدت ہے ۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہر سمت و جہت سے بالاتر ہے اس کے لئے تو شش جہت یکساں ہیں لیکن نماز میں اجتماعی صورت اور وحدت پیدا کرنے کے لئے تمام دنیا کے انسانوں کا رخ کسی ایک ہی جہت و سمت کی طرف ہونا ایک بہترین اور آسان اور بےقیمت وحدت کا ذریعہ ہے جس پر سارے مشرق و مغرب اور شمال وجنوب کے انسان آسانی سے جمع ہو سکتے ہیں ۔ اب وہ ایک سمت و جہت کونسی ہو جس کی طرف ساری دنیا کا رخ پھیرا جائے ۔ اس کا فیصلہ اگر انسانوں پر چھوڑا جائے تو بھی ایک سب سے بڑی بناء اختلاف و نزاع بن جاتی ہے اس لئے ضروری تھا کہ اس کا تعین خود حضرت حق سبحانہ کی طرف سے ہوتا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو دنیا میں اتارا تو ملائکہ کے ذریعے بیت اللہ کعبہ کی بنیاد پہلے ہی رکھ دی گئی تھی۔ حضرت آدم اور اولاد آدم کا سب سے پہلا قبلہ یہی بیت اللہ اور خانہ کعبہ بنایا گیا ۔ مرور زمانہ اس کی حالت پر اثر انداز ہوا اور یہ منہدم ہوا لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے جد انبیاء سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کی بنیاد دوبارہ رکھوا دی اور پھر سنت اللہ کے مطابق اس پر زمانہ کے اثرات غالب آئے تو اس جہت کو چھوڑ کر نئی نئی جہتیں مقرر ہوتی رہیں ان ادوار میں سے ایک دور بیت المقدس کے قبلہ بنانے پر بھی گزر چکا لیکن مشیت ایزدی نے اپنے فیصلہ کے مطابق جو خاص وقت مقرر کر رکھا تھا اسی وقت قبلہ کو دوبارہ قبلہ بنایا جائے گا وہ وقت آگیا اور جس شخصیت پر نبوت کو ختم کرنا لازم رکھا گیا تھا یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اس پر قبلہ اول کی سمت کو دوبارہ مقرر کرادیا لیکن اس دفعہ اس کی صورت وہ مقرر کردی گئی کہ اب یہ تاحین حیات سمت بدلی نہ جاسکے گی۔ چناچہ قرآن کریم نے اس حقیقت کو اسی طرح بیان فرمایا کہ : اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ ہُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ0096 سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے وہ گھر ہے جو مکہ میں ہے جو برکت اور ہدایت والا ہے تمام جہان والوں کے لئے۔
Top