Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 157
اُولٰٓئِكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ١۫ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلَيْهِمْ : ان پر صَلَوٰتٌ : عنایتیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : ان کا رب وَرَحْمَةٌ : اور رحمت وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
سو یقینا ایسے ہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کے الطاف و کرم ہیں اور یہی ہیں جو اپنے مقصد میں کامیاب ہیں
رضائے الٰہی پر راضی رہنے والے اللہ کی رحمت کے مستحق ہوگئے : 280: جب کوئی فردو جماعت جان لے کہ سب کچھ اللہ کی ملک ہے ہم خود بھی اور ہماری ہرچیز بھی اور اپنی کوئی شے ہی نہیں نہ بیوی نہ بچے نہ مال نہ جائیداد اور نہ وطن نہ خاندان اور نہ جسم نہ جان ! جو کچھ ہے سب خدا کا ، وہم گماں ہمارا انسان کے سارے رنج وغم اور درد و حسرت کی بنیاد صرف اس قدر ہوتی ہے کہ وہ اپنی محبوب چیزوں کو اپنی سمجھتا ہے لیکن جب ذہن اس عام مغالطہ سے خالی ہوگیا اور کوئی بھی شے ہو وہ سرے سے اپنی ہی نہ رہی تو اب گلہ و شکوہ رنج وملال کا موقع ہی کیا ؟ دوسری بات یہ ہے کہ بڑے بڑے رنج اور صدمے اور دل کے داغ بھی عارضی اور فانی ہیں رہ جانے والے کوئی بھی نہیں عنقریب انہیں چھوڑ چھاڑ کر مالک کی خدمت میں حاضری دینا ہے ۔ تیسرے یہ کہ وہاں پہنچتے ہی سارے قرضے بیباک ہوجائیں گے ہر کھوئی ہوئی چیز حاصل ہو کر رہے گی یہ تینوں نظریئے جس کے جتنے زیادہ مضبوط ہوں گے اسی قدر اس کے دل کو دنیا میں امن و سکون حاصل رہے گا۔ اوپر کی آیت میں صابرین کے حق میں جس خوشخبری کا ذکر تھا یہ سب اس کا بیان آرہا ہے : عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ، یعنی یہ لوگ عنایت خاصہ کے مستحق ہوں گے ۔ ہر شخص اپنے اپنے درجہ کے متناسب ” وَ رَحْمَةٌ 1۫“ اور یہی لوگ رحمت عام کے بھی مستحق قرار پائیں گے ، ” ہُمُ الْمُهْتَدُوْنَ “ دنیا میں ان کی رسائی اس حقیقت تک ہوچکی تھی کہ کوئی چیز بھی اپنی نہیں یہاں تک کہ خود ان کے جسم وجان نفس وروح کا مالک بھی حق تعالیٰ ہی ہے چناچہ یہ جب اس کے پاس پہنچیں گے تو سب ہی کچھ پالیں گے ۔ جس نے اللہ کی رحمت خاصہ کو پا لیا اس سے دنیا اور آخرت کی کونسی نعمت بچی ہے جو اس کو حاصل نہ ہوئی ؟
Top