Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے ہیں مَآ : جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا مِنَ : سے الْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیاں وَالْهُدٰى : اور ہدایت مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا بَيَّنّٰهُ : ہم نے واضح کردا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں واُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ يَلْعَنُهُمُ : لعنت کرتا ہے ان پر اللّٰهُ : اللہ وَيَلْعَنُهُمُ : اور لعنت کرتے ہیں ان پر اللّٰعِنُوْنَ : لعنت کرنے والے
جن لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ ان باتوں کو چھپاتے ہیں جو سچائی کی روشنیوں میں سے ہم نے نازل کی ہیں ، باوجودیکہ ہم نے انہیں کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا ہے تو یقین کرو ، ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنتیں بھی ان کے حصے میں آتی ہیں
احکام حق کو چھپانے والے اللہ کی لعنت کے سزاوار ہوتے ہیں : 283: کتاب اللہ کی تعلیم و تذکیر ایک مقدس جماعتی فریضہ ہے جو لوگ دنیا کے خوف یا طمع سے حق کو چھپاتے ہیں وہی دراصل بداخلاق ہیں ۔ اچھے اخلاق وہی ہیں جن کو ہر مذہب وملت میں اچھے ہی تسلیم کیا جاتا ہے کتاب الٰہی میں ان کے بیان کرنے سے مقصد یہی ہے کہ ان کی نشرواشاعت ہو اور لوگ ان سے فائدہ حاصل کریں مگر جو بدبخت ان کی تبلیغ و دعوت سے گریز کرتے ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو جنگل میں پانی کے ایک شیریں چشمہ پر قابض ہے مگر نہ تو انسانوں کی تشنہ لبی کو دور کرتا ہے اور نہ کسی جانور کو اپنی پیاس بجھانے دیتا ہے ایسے شخص پر زمین و آسمان کی ہرچیز لعنت کرے گی ۔ یہی حال ان ارباب ِعلم کا ہوگا جو اپنے علم کو چھپاتے ہیں حالانکہ ان سے وعدہ لیا گیا تھا کہ وہ اس کی نشرواشاعت میں مصروف ہوجائیں گے۔ علمائے یہود کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ انہوں کتاب اللہ کے علم کی اشاعت کرنے کی بجائے اس کو رہبوں اور مذہبی پیشہ وروں کے ایک محدود طبقہ میں مقید کر رکھا تھا اور عامہ خلائق تو دو کنار خود یہودی عوام تک کو اس کی ہوا تک نہ لگنے دیتے تھے۔ پھر جب عام جہالت کی وجہ سے ان کے اندر گمراہیاں پھیلیں تو علماء نے نہ صرف یہ کہ اصلاح کی کوئی کوشش کی بلکہ وہ عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے ہر اس ضلالت و بدعت کو جس کا رواج عام ہوگیا تھا اپنے قول و عمل سے یا اپنے سکوت سے الٹی سند ِجواز عطا کرنے لگے۔ اس سے بچنے کی تاکید مسلمانوں کو کی جارہی ہے لیکن افسوس کہ آج علمائے اسلام بھی اس گمراہی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ کیا ان کو معلوم نہیں رہا کہ جو سزا یہود کو دی گئی تھی اسی سزا میں آج وہ بھی مبتلا ہوچکے ہیں ؟ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے : وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَكْتُمُوْنَهٗ فَنَبَذُوْهُ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ وَ اشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا 1ؕ فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ 00187 (آل عمران 3 : 187) ” اور اہل کتاب کو وہ وعدہ بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا اور انہیں پوشیدہ نہیں رکھنا ہوگا۔ مگر انہوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اسے بیچ ڈالا کتنا برا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں۔ “ یہاں جس عہد کا ذکر کیا گیا ہے اس کا ذکر جگہ جگہ بائیل میں آتا ہے خصوصاً موسیٰ (علیہ السلام) کی آخری تقریر جو نقل کی گئی ہے اس میں تو وہ بار بار بنی اسرائیل سے عہد لیتے ہیں کہ ” جو احکام میں نے تم کو پہنچائے ہیں انہیں اپنے دل پر نقش کرنا ، اپنی آئندہ نسلوں کو سکھانا ، گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اٹھتے ہر وقت ان کا چرچا کرنا ، اپنے گھر کی چوکھٹوں پر اور اپنے پھاٹکوں پر ان کو لکھ لینا۔ “ (استثناء 6 : 4 ، 9) پھر انہوں نے اپنی آخری وصیت میں تاکید کی کہ ” فلسطین کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد پہلا کام یہ کرنا کہ کوہ عیسال پر بڑے بڑے پتھر نصب کر کے تورات کے احکام ان پر کنندہ کروادینا۔ “ (استثناء 27 ، 2 ، 4) بنی لاوی کو توراۃ کا ایک نسخہ دے کر ہدایت فرمائی کہ : ” ہر ساتویں برس عید خیام کے موقع پر قوم کے مردوں ، عورتوں اور بچوں سب کو جگہ جگہ جمع کر کے یہ پوری کتاب لفظ بہ لفظ ان کو سناتے رہنا۔ “
Top