Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
پھر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی خوشنودی کی طلب میں اپنی جانیں تک بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ بھی اپنے ایسے بندوں کیلئے مہربانی رکھنے والا ہے
طالبان رضائے الٰہی کا حال کیسا ہے ؟ 357: کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے اپنی جان دے دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑی ہی شفقت رکھتا ہے حقیقت یہ ہے کہ صحیح معنوں میں قوم کے راہنما یہ لوگ ہیں جو اعمال کی صورت کے ساتھ مقاصد کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ خدا وندقدوس کی رضا طلبی ان کی غایت الغایات ہوتی ہے۔ اگر آج انہیں مدینہ میں جمع کیا گیا ہے توکل خلیفہ اسلام کے حکم پر فلسطین بھی جاسکتے ہیں اور وہاں سے ان کو اگر چین کا حکم ملتا ہے تو وہ اڑ کر پہنچنے میں کبھی دیر لگانے والے نہیں۔ قربانی کا جذبہ کامل طور سے ان میں پیدا ہوچکا ہے۔ اللہ اپنی رحمت سے ان کی کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے مزید ارشاد فرمایا : فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ 1ؕ وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا (النساء 4 : 74) جو لوگ آخرت کے بدلے میں دنیا کی زندگی فروخت کرچکے ہیں انہیں چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جنگ کریں (جو لوگ ان سے جنگ کرتے ہیں) اور جو کوئی اللہ کی راہ میں جنگ کرتا ہے تو خواہ قتل ہوجائے ، خواہ غالب آئے ، ہم اسے بڑا اجر عطا فرمائیں گے۔ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ 1ؕ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ 1۫ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ 1ؕ وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ 1ؕ وَ ذٰلِكَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ 0011 (التوبۃ 9 : 111) بلاشبہ اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لیں اور ان کا مال بھی اور اس قیمت پر خرید لیا کہ ان کے لیے بہشت ہے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں یہ وعدہ اللہ کے ذمہ ہوچکا توراۃ ، انجیل ، قرآن میں اس کا اعلان ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون ہے جو اپنا عہد پورا کرنے والا ہو ؟ پس اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے چکایا خوشیاں مناؤ اور یہی ہے جو بڑی سے بڑی فیروزمندی ہے۔ اس آیت کریمہ نے حب ّ ایمانی کی حقیقت کو کیسے لفظوں میں واضح کردیا۔ فرمایا جو لوگ اللہ پر ایمان لائے تو ایمان کا معاملہ یوں سمجھو کہ انہوں نے اپنا سب کچھ اللہ کے ہاتھ بیچ دیا ، جان بھی اور مال بھی۔ اب ان کی کوئی چیز ان کی نہیں رہی اللہ اور اس کی سچائی کی ہوگئی اور پھر اللہ کی طرف سے اس کے معاوضہ میں کیا ہوا ؟ یہ ہوا کہ نعیم ابدی کی کامرانیاں انہیں عطا فرمائیں۔ یہ گویا خریدو فروخت کا ایک معاملہ تھا جو اللہ میں اور عشاق حق میں طے پا گیا۔ اب نہ بیچنے والا اپنی متاع واپس لے سکتا ہے نہ خریدنے والا قیمت لوٹائے گا اور چونکہ مقصود اس تلمیح سے اللہ کا لطف و کرم اظہار تھا اس لئے معاملہ کو اپنی طرف سے شروع کیا نہ کہ بیچنے والے کی طرف سے یعنی یہ نہیں فرمایا کہ مؤمنوں نے بیچ ڈالی بلکہ کہا کہ اللہ نے مؤمنوں سے خرید لی ۔ گویا معاملہ کا طالب وہ تھا ۔ حالانکہ اللہ ہر طرح کی طلب و احتیاج سے منزہ ہے اور جو متاع اس نے قبول کی وہ بھی اسی کی تھی اور جو کچھ معاوضہ میں بخشا وہ بھی اس کے سوا اور کس کا ہو سکتا ہے۔ ؟
Top