Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 227
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر عَزَمُوا : انہوں نے ارادہ کیا الطَّلَاقَ : طلاق فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : خوب سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
لیکن اگر وہ طلاق کی ٹھان لیں تو طلاق دیں اور یاد رکھیں کہ اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے
اگر طلاق کا پختہ ارادہ کرلیا ہے تو بات کو واضح کردینا چاہئے : 384: طلاق نام ہے میاں بیوی کے باہمی تعلقات کے باضابطہ اور کامل انقطاع کا ۔ اسلام سے قبل دنیا میں طلاق سے متعلق عجب افراط وتفریط قائم تھی۔ افراط یہود کے ہاں تھی اور تفریط مسیحیوں کے ہاں۔ یہود کے ہاں نہ کوئی قید طلاق پر عائد تھی نہ شوہر پر اس باب میں کوئی ذمہ داری تھی۔ اس کا جب جی چاہتا وجہ بلاوجہ بس ایک طلاق نامہ لکھ کر بیوی سے چھٹکارا حاصل کرلیتا اور بیوی بھی اسی وقت دوسرا خاوند کرسکتی تھی۔ توریت کے قانون کے الفاظ یہ ہیں : ” اگر کوئی مرد کوئی عورت لے کر اس سے بیاہ کرے اور بعد اس کے ایسا ہو کہ وہ اس کی نگاہ میں عزیز نہ ہو اس سبب سے کہ اس نے اس میں کوئی پلید بات پائی تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کے اس کے ہاتھ دے اور اسے اپنے گھر سے باہر کر دے اور جب وہ اس کے گھر سے نکل گئی تو جا کے دوسرے مرد کے ہو وے۔ “ (استثناء 24 : 1 تا 2) اس آزادی اور بےقیدی کے مقابلہ میں مسیحیوں نے یہ سختی اور تنگی اختیار کی کہ زن و شوہر میں کوئی گنجائش ہی علیحدگی کی نہ رکھی چناچہ انجیل کے الفاظ یہ ہیں : ” جسے خدا نے جوڑا ہے اسے آدمی جدا نہ کرے جو کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ دے اور دوسرے سے بیاہ کرے وہ پہلی کے خلاف زنا کرتا ہے اور اگر عورت اپنے شوہر کو چھوڑ دے اور دوسرے سے بیاہ کرے تو زنا کرتی ہے۔ “ (مرقس 10 : 7 تا 12) ” میں نہیں بلکہ خداوند حکم دیتا ہے کہ بیوی شوہر سے علیحدہ نہ ہو ۔ “ (گر نتھیوں 7 : 10) چناچہ مسیحی آبادی کے سواد اعظم یعنی فرقہ کیتھو لک کے ہاں تو طلاق مطلقاً ناجائز ہے اور بجز موت کی کوئی صورت میاں بیوی میں افتراق کی ممکن نہیں اور یہی فرقہ اسلام سے قبل موجود تھا۔ پروٹسٹنٹ فرقہ ظہور اسلام سے صدیوں بعد پیدا ہوا۔ ہاں ! اس کے ہاں البتہ اجازت دی گئی لیکن صرف اس صورت میں کہ پہلے عدالت میں کسی ایک فریق کا ارتکاب زنا و ظلم و جور ثابت ہو۔ اسلام نے فطرتِ انسانی کا بالکل صحیح اندازہ کر کے یہ حکم دیا کہ جب زوجین میں ناموافقت لاعلاج حد تک پہنچ جائے اس کی ابتداء خواہ کسی طرف سے ہوئی ہو اور تمام صورتیں موافقت پیدا کرنے کی ناکام ہوجائیں تو آخری علاج یہ ہے کہ فریقین ہنسی خوشی اور باضابطہ معاہدہ نکاح کو فسخ کر کے ایک دوسرے سے مستقل علیحدگی اختیار کرلیں اور اس کا اصطلاحی نام طلاق ہے اور اس انقطاعی عمل کو بھی مطلق نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس پر متعدد پابندیاں بھی عائد کردی ہیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
Top