Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
اور اپنی نمازوں کی حفاظت میں کوشاں رہو خصوصا ایسی نماز کی جو وسطیٰ ہے اور اللہ کے حضور اس طرح کھڑے ہو کہ ادب و نیاز میں ڈوبے ہوئے ہو
مسائل طلاق جاری تھے کہ اچانک نماز کا ذکر چھیڑدیا کیوں ؟ 403: گذشتہ آیات میں نکاح و طلاق کے مسائل بیان کئے گئے ممکن تھا کہ بعض لوگ دنیاوی مسائل خیال کر کے ان کی پابندی نہ کرتے اس غلط فہمی کا دور کرنے کے لئے فوراً نماز کی محافظت کا حکم دیا اور بتا دیا کہ نکاح و طلاق اور نماز کے احکام میں فرق کرنا ٹھیک نہیں بلکہ جس طرح نماز کی محافظت اور اس کے اوقات وارکان کا خیال رکھنا ضروری ہے ایسے ہی ان مسائل کا بھی لحاظ کرنا لازم و ضروری ہے جس طرح وہ دین اسلام کا ایک رکن ہے بالکل اسی طرح یہ احکام بھی دین اسلام کا حصہ ہیں۔ جس طرح ان کی ادائیگی فرائض واجبات اور سنن کی صورت میں ہے اسی طرح ان مسائل میں بھی فرائض وواجبات اور سنن کا درجہ موجود ہے ۔ یاد رہے کہ اس روح اور حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ نمازِ وسطیٰ کونسی نماز ہے اور اس کی خصوصاً تاکید کیوں ؟ 404: اصل میں لفظ ” صلوٰۃ الوسطی “ استعمال ہوا ہے اور ” وسطی “ کے معنی بیچ والی چیز کے بھی ہیں اور ایسی چیز کے بھی جو اعلیٰ اور اشرف ہو۔ اس لئے صلوٰۃ وسطی سے مراد بیچ کی نماز بھی ہوسکتی ہے اور ایسی نماز بھی جو صحیح وقت پر پورے خشوع و خضوع اور توجہ الیٰ اللہ کے ساتھ پڑھی جائے اور جس میں نماز کی تمام خوبیاں موجود ہوں پھر بعد کا فقرہ خود اس کی تشریح کر رہا ہے کہ ” اللہ کے حضور اس طرح کھڑے ہو کہ ادب و نیاز میں ڈوبے ہوئے ہو۔ “ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ 00238 اس نماز سے مراد بعض مفسرین نے صبح کی نماز لی ہے بعض نے ظہر کی ، بعض نے مغرب اور بعض نے عشاء کی اور سب سے زیادہ اقوال نماز عصر کے حق میں ہیں ۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس نماز یعنی نماز عصر کو صلوٰۃ وسطیٰ قرار دیا ہے لیکن جس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ صرف ایک استدلال کی حد تک ہی کہا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کے ارشاد سے یہ استدلال کیا گیا ہے۔ صراحت اس میں موجود نہیں۔ نماز عصر مراد لینے والوں نے ایک یہ استدلال بھی قائم کیا ہے کہ ” بیچ والی نماز “ مراد ہے اور وہ عصرہی ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے ایک طرف دو نمازیں دن کی ہیں یعنی فجر اور ظہر اور دوسری طرف دو نمازیں رات کی ہیں یعنی مغرب اور عشاء۔ پھر یہ بھی استدلال کیا ہے کہ اس کی تاکید دوبارہ اس لئے کی گئی ہے کہ اکثر لوگوں کے لئے یہ وقت کام کاج کی مصروفیت کا ہوتا ہے کیونکہ آگے دن غروب ہورہا ہے اور ہر ایک کو اپنے کام کی تکمیل کے لئے بھاگ دوڑ اور جلدی ہے پھر مشاہدہ بھی ہے کہ یہی نماز ہے جو اکثر لوگ زیادہ ہی لیٹ کر کے پڑھتے ہیں حالانکہ نماز اول وقت پڑھنے کی تاکید احادیث میں روز روشن کی طرح واضح ہے۔
Top