Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 239
فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا١ۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تمہیں ڈر ہو فَرِجَالًا : تو پیادہ پا اَوْ : یا رُكْبَانًا : سوار فَاِذَآ : پھر جب اَمِنْتُمْ : تم امن پاؤ فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَمَا : جیسا کہ عَلَّمَكُمْ : اس نے تمہیں سکھایا مَّا : جو لَمْ تَكُوْنُوْا : تم نہ تھے تَعْلَمُوْنَ : جانتے
پھر اگر ایسا ہو کہ تمہیں دشمن کا خوف ہو اور مقررہ صورت میں نماز نہ ادا کرسکو تو پیدل ہو یا سوار جس حالت میں ہو نماز پڑھ لو ، پھر جب تم مطمئن ہوجاؤ تو چاہیے کہ اسی طریقے سے اللہ کا ذکر کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا ہے جو تمہیں پہلے معلوم نہ تھا
دشمن کا خوف دامنگیر ہو تو بھی نماز ادا کرنا ہوگی ہاں ! اس کی صورت کچھ بدل جائے گی : 405: عام طریقہ نما زجو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کے مطابق نماز باجماعت دشمن کے خوف کی وجہ سے ادا نہ کی جاسکے تو اس کی صورت بدل سکتی ہے جیسا کہ نماز خوف کے بیان میں وضاحت موجود ہے گویا اسلام کی یہ روزانہ پنج وقتہ پریڈ یا دربار الٰہی میں حاضری اس درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ وہ بالکل معاف تو عین حالت جنگ میں بھی نہیں ہوتی۔ نماز کی محافظت کا حکم بہر حال قطعی اور دائمی ہے۔ ترک ِنماز کی اجازت اس خطرہ کے حال میں بھی نہیں البتہ رعایت ماحول کی پوری گنجائش دوسرے موقعوں کی طرح اس محل میں بھی رکھ دی گئی ہے۔ ہاں ! نماز خوف کے لئے جو رعایت رکھی گئی ہے اس سے فائدہ حالت خوف ہی میں اٹھانا چاہئے۔ جب خوف جاتا رہے اور امن ہوجائے تو اب نمازوں کو قاعدوں کے موافق ادا کرنا ہی ضروری ہے۔ وہ طریقہ نماز جو تم کو سکھایا ، بتایا اور سمجھایا گیا ہے تم کو خود بخود معلوم نہیں تھا ۔ مطلب یہ ہے کہ نماز کو بڑے ادب و احترام اور سکون و اطمینان سے ادا کرو کہ اب تم امن و سکون میں ہوچکے ہو۔
Top