Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 281
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ١۫ۗ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاتَّقُوْا : اور تم ڈرو يَوْمًا : وہ دن تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے فِيْهِ : اس میں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ثُمَّ : پھر تُوَفّٰى : پورا دیا جائیگا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور اس دن کی حاضری سے ڈرو جب تم سب اللہ کے حضور لوٹائے جاؤ گے اور پھر ایسا ہوگا کہ ہر جان کو جو کچھ اس نے کمایا ہوگا اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کی بھی حق تلفی نہیں ہو گی
احکام ” الربوا “ کی آیات کے ختم پر و بارہ بارگاہ ایزدی کا حکم : 492: احکام ” الربوا “ پر نازل کی گئی چھ آیات ختم ہوچکی ہیں اور اب اس ساتویں آیت میں اہل ایمان کو مخاطب فرما کر کہا جاتا ہے کہ اس دن سے ڈرتے رہو جس میں تم سب اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہاں تم سب کی اپنے اپنے اعمال کی پیشی ہوگی پھر ہر شخص کو اس کا معاوضہ یعنی کیے کا بدلہ پورا پورا ملے گا اور ان پر ظلم ذرا بھی نہ ہوگا کہ کسی کا عمل بلا معاوضہ رہ جائے یا کسی کے نامہ اعمال میں کوئی بدی خواہ مخواہ لکھ دی جائے۔ ” تُوَفّٰى کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ “ یعنی اعمال کا پورا پورا معاوضہ دیا جائے گا اور یہ بات اپنی جگہ پر حق ہے کہ کسی کو پورا پورا معاوضہ ادا کردینے کے بعد اس کو جتنا کچھ زیادہ عطا کیا جائے تو یہ عطا کرنے والے کی مزید عطا ہے اس کو معاوضہ میں کمی بیشی نہیں کہا جاسکتا یا یہ بات پورا پورا معاوضہ ادا کرنے کے کسی حال میں بھی منافی نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت نزول کے اعتبار سے سب سے آخری آیت ہے اس کے بعد کوئی آیت اس سلسلہ میں نازل نہیں ہوئی۔ اس کے اکتیس روز بعد نبی کریم ﷺ کا وصال ہوگیا اور بعض روایات میں صرف نو دن بعد وفات ہونا بھی مذکور ہے۔ ربوا کے متعلق سورة بقرہ کی آیات ختم ہوئیں جو اس آخری ہدایت کی آیت کو ملا کر سات آیات کریمات ہوتی ہیں اور سورة آل عمران میں ایک اس حکم ربا کے متعلق موجود ہے اور سورة نساء میں بھی دو آیتیں اس مضمون کی ہیں اور ایک آیت سورة روم میں بھی ہے جس کی تفسیر میں اگرچہ اختلاف ہے۔ بعض نے اس کو بھی اس ” الربوا “ یعنی بیاج کے مفہوم میں شمار کیا ہے اور بعض نے اس کی تفسیر میں خاندانی رسم و رواج کے لین دین کے متعلق بیان کیا ہے۔ اس طرح گویا قرآن کریم کی دس آیات کریمات میں ” الربوا “ و رباء کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں قرآن کریم کی دوسری آیات یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً 1۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ00130 (آل عمران 3 : 130) ” اے مسلمانو ! حرام کی کمائی [ 3 ] سے اپنا پیٹ مت بھرو جو دوگنی چوگنی ہوجایا کرتی ہے اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ کَثِیْرًاۙ00160 وَّ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُهُوْا عَنْهُ وَ اَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ 1ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا 00161 (النساء 4 : 160۔ 161) ” یہودیوں کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے اچھی چیزیں ان پر حرام کردیں ، جو حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے۔ اور وہ الر بوا کھانے لگے تھے حالانکہ اس سے روکے گئے تھے اور یہ بات کہ ناجائز طریقہ پر لوگوں کا مال کھانے لگے اور ان میں جو لوگ منکر ہوگئے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ اس آیت میں یہود کو ” الربوا “ سے روکنے کا ذکر آیا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تصدیق کے لیے یہود کی کتاب سے کوئی عبارت بتائی جائے جس میں یہ حکم موجود ہو تاکہ قرآن کریم کا کلام الٰہی ہونا واضح ہوجائے۔ تورات میں اگرچہ بیشمار تحریف ہوچکی اور قوم یہود کے علماء نے دل کھول کر اس کتاب الٰہی میں ردوبدل کیا تورات کی اصل ہدایات کو حذف کر کے اپنی طرف سے عبارات کی عبارات داخل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تاہم تورات کے اندر آج تک یہ احکامات موجود ہیں ، چناچہ لکھا ہے کہ : ” اگر تو میرے لوگوں میں سے جس کسی کو جو تیرے آگے محتاج ہے کچھ قرض دیدے تو اس سے بیاجیوں کی طرح سلوک مت کر اور ” الربوا “ مت لے۔ “ (خروج 22 : 25) ” تو اس سے ” الربوا “ اور نفع مت لے ، اپنے خدا سے ڈر تاکہ تیرا بھائی تیرے ساتھ زندگی بسر کرے تو اسے ” الربوا “ پر روپیہ قرض مت دے ، نہ اسے نفع کے لیے کھانا کھلا۔ “ (احبار 35 : 36۔ 37) واضح ہوگیا کہ یہود کو ” الربوا “ سے روکا گیا تھا لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ ” الربوا “ خور قوم خود یہی یہود ہیں اور ان کے ” الربوا “ دنیا کے ادبیات میں ضرب المثل بن گئے ہیں۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کریم کی آیات میں مسلمانوں کو اس لعنت سے بچنے کی صرف تلقین ہی نہیں بلکہ ان کو دنیوی اور اخروی دونوں عذابوں کے متعلق پوری وضاحت سے سمجھایا گیا۔ نتیجہ کیا ہوا ؟ یہی کہ آج اس قوم میں بھی ان لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو کھلے بندوں سودی کاروبار کرتے ہیں اور کوئی بستی یا شہر ایسا نہیں ملتا جہاں یہ مہاجن موجود نہ ہوں۔ یہ دوسری بات ہے کہ انہوں نے اپنا نام مہاجن کی بجائے شیخ یا سیٹھ رکھ لیا ہو ، اس کی وضاحت ہماری کتاب ” سوال اٹھتا ہے نمبر 2 “ میں دیکھیں۔ اور آج جو ” الربوا “ کی نئی نئی شکلیں اور نئے نئے نام رکھ لیے گئے ہیں ، ان کا ذکر بھی آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں اور وہ اس ” الربوا “ کو ” الربوا “ ماننے کے لیے تیار کب ہیں ؟ اور وہ آخر مانیں گے بھی کیوں ؟ اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں ماریں ؟ ان کو بغیر پیسہ لگائے مال ملتا ہے پھر ” الربوا “ خور بھی کوئی نہیں کہتا۔ عزت الگ ہوتی ہے لیکن خوب سن لو کہ اگر یہ مال کھانے کا طریقہ باطل نہیں تو دنیا میں کوئی طریقہ بھی باطل نہیں ہوگا اور یہ راز اس وقت کھلے گا جب ان سارے ” الربوا “ خوروں کے ہاتھ خالی ہوچکے ہوں گے خواہ وہ کسی قوم سے بھی تعلق رکھتے ہوں۔ سورئہ روم کی ” اختلافی آیات “ کہ اس کا حکم کس طرح کے ” الربوا “ سے ہے ؟ وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ 1ۚ وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ 0039 (الروم 30 : 39) ” اور جو تم زیادہ حاصل کرنے کے لیے دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال سے مل کر (تمہارا مال) بڑھتا رہے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو تم پاک دل سے واپس لینے کے لیے نہیں صرف اللہ کی رضامندی کے لیے دیتے ہو پس وہی لوگ ہیں جو اپنے مال کو دو چند کریں گے (اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا مال دوچند ہوگا) ۔ “ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو اقوال ہیں : ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد وہ معروف ربا یا ” الربوا “ ہے جسے شریعت نے بعد میں مکمل طور پر حرام ٹھہرایا ہے اور یہاں صرف ترغیب ہے کہ اس طریقہ سے مال نہیں بڑھتا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہاں ربا سے مراد وہ ” الربوا “ نہیں ہے جو شرعاً حرام کیا گیا ہے بلکہ وہ عطیہ یا ہدیہ و تحفہ ہے جو اس نیت سے دیا جائے کہ لینے والا بعد میں اس سے زیادہ واپس کرے گا جیسے شادی بیاہ یا دوسری لین دین کی رسومات میں لیا دیا جاتا ہے یا اس لیے کہ معطی کے لیے کوئی مفیدخدمت انجام دے گا ، جیسے حکومتی افسروں ، مولوی اور پیروں کو یا اس کا خوش ہوجانا معطی کی اپنی ذات کے لیے نافع ہوگا۔ ابن عباس ؓ ، مجاہد (رح) ، ضحاک (رح) ، قتادہ ؓ اور محمد بن کعب القرظی اور حضرت شعبی کا قول بھی یہی ہے اور یہ تفسیر دوسری تفسیر کی نسبت زیادہ مشہور بھی ہے اور صاف بھی۔ اس جگہ الربوا کی بات ختم کر کے آگے ایمان والوں کو مخاطب کر کے ادھار یعنی قرض جس کو عربی میں ” دین “ کہا جاتا ہے کہ بات شروع کی جا رہی ہے اور یہ معاملہ تجارت یا برابری کا ہے ، اس سے اس بات کو ایک انسان سمجھنا چاہے تو ” الربوا “ کی مکمل حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔ کیسے ؟ ایسے کہ نبی کریم ﷺ کے ارشادات کے مطابق ” الربوا “ کی تحریر کرنا ، کرانا ، اس پر گواہ بننا ، بنانا ” الربوا “ لینا یا دینا سب کی ممانعت ہے اور سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں ، کیوں ؟ محض اس لیے کہ ” الربوا “ صدقہ و خیرات کی ضد ہے اور صدقہ و خیرات چیز ہی ایسی ہے کہ جس کو صدقہ و خیرات دیا جائے گا اس سے واپس لیا ہی نہیں جاسکتا ، تو پھر اس کی تحریر کیسے ؟ یہ تو قرض حسنہ ہے اور قرض حسنہ کا قرآنی مفہوم یہ ہے کہ جس کو دیا جائے اس سے واپس نہ لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے واضح فرمایا کہ ” الربوا “ ہمیشہ ادھار ہی ہوتا ہے اور قرض حسنہ ادھار کو نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی وضاحت مطلوب ہو تو ہماری کتاب ” سود کیا ہے ؟ “ اور ” سوال اٹھتا ہے نمبر 2 “ کا مطالعہ کریں ، ان شاء اللہ عقل و فکر پر پڑے ہوئے تمام پردے اٹھ جائیں گے۔
Top