Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ : اور سکھائے آدَمَ : آدم الْاَسْمَآءَ : نام كُلَّهَا : سب چیزیں ثُمَّ : پھر عَرَضَهُمْ : انہیں سامنے کیا عَلَى : پر الْمَلَائِکَةِ : فرشتے فَقَالَ : پھر کہا اَنْبِئُوْنِیْ : مجھ کو بتلاؤ بِاَسْمَآءِ : نام هٰٓؤُلَآءِ : ان اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور آدم نے فطری تعلیم الٰہی سے تمام چیزوں کے نام معلوم کرلیے تو اللہ تعالیٰ نے وہ تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم حقیقت حال سے واقف ہو تو ان کے نام بتاؤ
فرشتوں میں خلافت ارضی کی استعداد نہیں : 75: فرشتوں کی زبان حال سے جو نسل انسانی کے فساد و خون ریزی کا بیان ہوا تھا جس سے استحقاق نیابت آدم پر شبہ کا اظہار ہوتا تھا اس کا جواب اجمالاً یہ دیا گیا کہ ” میری نظر جس حقیقت پر ہے تمہیں اس کی خبر نہیں “ جس میں یہ اشارہ صاف نظر آ رہا ہے کہ جس چیز کو تم نیابت و خلافت کے منافی سمجھ رہے ہو ، دراصل وہی اس کی اہلیت کا بڑا سبب ہے کیونکہ نیابت زمین کی ضرورت ہی رفع فساد کے لئے ہے اور جہاں فساد نہ ہو وہاں خلیفہ اور نائب کے بھیجنے کی ضرورت ہی کیا ؟ دوسری بات یہ کہ جو شخص حقیقت فساد سمجھ ہی نہ سکے وہ کیسے معلوم کرسکے گا کہ یہ فساد ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ فسادی نے کبھی فساد کا اعتراض نہیں کیا بلکہ وہ تو ہمیشہ فساد کو اصلاح کا نام دیتا ہے اور ہمیشہ فساد کو اصلاح کے نام سے کرتا ہے اور اصلاح کو فساد کے نام سے مٹا دینے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے جس کا پورا پورا نقشہ آج بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس ملک کی ہر حکومت یہی کچھ کر رہی ہے۔ غرض یہ بھی بتلا دیا کہ منشا الٰہی یہ ہے کہ جس طرح اس نے ایک ایسی مقدس و معصوم مخلوق فرشتہ پیدا کردی۔ جس سے کسی گناہ و خطا کا صدور ہو ہی نہیں سکتا اور جس نے ایسے شیطان پیدا کردیئے ہیں جن میں نیکی اور بھلائی کی صلاحیت ہی نہیں اسی طرح ایک ایسی مخلوق بھی پیدا کرنا منشائے ایزدی ہے جس میں خیر وشر اور نیکی و بدی کا مخلوط مجموعہ ہو جس میں خیر و شر کے دونوں جذبات ہوں اور پھر وہ جذبات شرکو مغلوب کر کے خیر کے میدان میں آگے بڑھے اور رضائے الٰہی کی خلعت حاصل کرے۔ آدم سے مراد بنی نوع انسان ہیں : 76: علم کے لفظ سے بعض علمائے اسلام نے جو علمائے محققین کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں پڑھانا یا سکھانا یعنی تعلیم کرنا مراد نہیں لیا ہے اور یہی صحیح ہے ۔ بلکہ انسان میں ان قویٰ کا مخلوق کرنا مراد لیا ہے جن سے انسان تمام چیزوں کو جانتا اور سمجھتا اور خیال کرتا اور سوچتا اور نئے نئے نام رکھتا اور نئی نئی باتیں ظاہر کرتا ہے ۔ چناچہ علامہ بیضاوی نے لکھا ہے کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مختلف اجزاء اور متبائن قوتوں سے پیدا کیا تھا جو طرح طرح معقولات اور محسوسات اور متخیلات و متوہمات کے جاننے کے لائق تھیں اور حقائق اشیاء اور ان کے اسماء اور علوم اور صنائع کے قواعد اور ان کی آلات کی کیفیات اس کے دل میں ڈالی تھیں۔ پس جو چیزیں کہ فطرت انسانی میں ہیں انہی کو اللہ تعالیٰ نے تعلیم کرنے کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک انسان ان سے کام لے کر نئی نئی ایجادات اور نئے نئے اسماء رکھتا آیا ہے اور ابھی نہ معلوم کیا گیا ایجادات کا اس سے اظہار ہوگا ۔ اور آدم (علیہ السلام) کے لفظ سے بھی یقیناً نوع انسانی مراد ہے اگرچہ عوام الناس اس کو باوا آدم کے نام سے ایک خاص انسان کا نام جانتے ہیں اور صحیح یہی ہے کہ آدم سے مراد نسل انسانی ہے چناچہ کشف الاسرار میں بھی تحریر کیا گیا ہے کہ : وما المقصود بادم ادم وحدہ : اور اللہ تعالیٰ نے بھی ایک دوسری جگہ اس کو اس طرح ارشاد فرمایا ہے : وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ 1ۖۗ(الاعراف 7 : 11) ” اور دیکھو ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری شکل و صورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا آدم کے خلیفہ بنائے جانے کی وجہ سے سجدئہ شکر بجالائو۔ “ پس ” کُمْ “ کا خطاب انسانوں کی طرف ہے جو اس وقت وجود میں آئے اور آدم سے بنی نوع انسان ہی مراد ہیں۔ آدم (علیہ السلام) اور علم اسماء : 77: اسماء کے لفظ سے اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں جس کو ہم نام کہتے ہیں جیسے گھوڑا ، گدھا ، گائے ، اونٹ ، کتا اور بلی وغیرہ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ علمائے اسلام میں سے بھی بہت علماء نے صرف یہی معنی مراد نہیں لئے۔ بیضادی۔ یہی وجہ ہے کہ ترجمہ میں ان کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ آدم نے فطری تعلیم الٰہی سے تمام چیزوں کے نام معلوم کر لئے۔ چناچہ اس سے مراد یہی ہے جو قویٰ اس میں پیدا کیے گئے ہیں اور جن کے سبب سے اس کا ذہن ایک نشان یا دلیل سے دوسری طرف منتقل ہوتا ہے اور نتیجہ پیدا کرتا ہے اسی کو اسماء کے لفظ سے بیان فرمایا ہے۔ اور جو کہ یہ قویٰ ایسے تھے جن سے انسان تمام چیزوں کو محسوسات و معقولات سے جان سکتا ہے اس لئے کُلَّهَا کے لفظ سے اس کی تاکید کی ہے جس سے اس بات کا اشارہ ہے کہ تمام چیزوں کے جاننے کا مادہ انسان میں ودیعت کیا گیا ہے اور قویٰ کو جو اسماء کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے اس میں ایک بڑا مضمون پوشیدہ ہے جس کا اختصار یہ ہے کہ انسان کسی چیز کی حقیقت و ماہیت کو نہیں جانتا جو کچھ وہ جانتا ہے وہ صرف اسماء ہی اسماء ہیں پس : وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا کہنا بالکل انسان کی فطرت کے مطابق اور اس کے بیان کے نہایت ہی مناسب ہے ۔ پس آیت کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں ایسے قویٰ پیدا کئے ہیں جن سے ہر ایک چیز کو وہ سمجھ سکتا ہے اور دلیل سے نتیجہ کو حاصل کرسکتے ہے۔ : عَرَضَهُمْ : میں جو ضمیر جمع مذکر کی ہے اس کے مرجع اوپر مذکور نہیں ہے۔ اس لئے محققین نے اسماء کے لفظ سے جو ضمناً اس کے مصمیات سمجھ میں آتے ہیں اس پر ”“ کی اس ضمیر کو راجع کیا ہے پھر ان کو یہ مشکل پیش آئی ہے کہ اس کے لئے ضمیر مونث کی ہونی چاہئے تھی نہ ضمیر جمع مذکر کی۔ اس کا حل انہوں نے یوں نکالا کہ مسمیات میں ذوی العقول وغیرذی العقول سب شامل تھے۔ اس لئے تغلیباً ضمیر جمع مذکر کی جو ذوی العقول کے لئے مخصوص ہے لائی گئی ہے۔ علاوہ ازین بھی اس کے مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ فرشتوں پر ان اسماء کا پیش کرنا : 78: جس طرح پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ انسان اور فرشتہ دونوں جبلۃً اور فطرۃً الگ الگ ہیں اور اس پورے واقعہ سے یہی سمجھنا مقصود و مطلوب ہے کہ جو علم آدم (علیہ السلام) اور ان کی ذریت کی فطرت میں آفرنیش سے ودیعت کردیا گیا تھا جیسے بچہ ابتداء ولادت میں ماں کا دودھ پینا جانتا ہے۔ بطخ کا بچہ تیرنا جانتا ہے۔ اس میں کسی ظاہری تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح فطرۃً اور جبلۃً فرشتوں میں وہ علم ودیعت نہیں کیا گیا اور یہ کہ اکثر فرشتوں میں بھی اسی طرح فطرۃً ان اسماء کا علم ودیعت کیا جاتا تو وہ کیوں انسان ہی نہ ہوتے ؟ اور ان کو فرشتے کیوں کہا جاتا ؟ رہا یہ سوال کہ جب اللہ کی قدرت میں سب کچھ ہے تو وہ فرشتوں کے مزاج اور طبیعت بدل کر ان کو بھی یہ چیزیں سکھا سکتا تھا پھر ان کو کیوں نہ سکھا یا گیا ؟ لیکن اس کا ماحاصل بھی وہی ہوا کہ فرشتوں کو ہی انسان کیوں نہ بنا دیا کیونکہ اگر فرشتوں کی جبلت و فطرت کو بدلا جاتا تو پھر فرشتے کیسے ہوتے ؟ اور پھر انسان کیوں نہ ہوتے ؟ مختصر یہ کہ فرشتوں پر ان اسماء کو پیش کرنے کا یہ مطلب ہے کہ علم الٰہی میں وہ علم ان کی جبلت کے خلاف تھا اور جبلت کے خلاف ممکن نہیں تھا ؟ اور اس ناممکن ہونے کو اس پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے تاکہ عوام الناس کی تفہیم انہی کی فطرت کے بیان سے ہوجائے۔ پھر اس واقع سے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں بلکہ پوری مخلوق کو یہ بتلا دیا کہ زمین کی نیابت کے لئے معصوم ہونے کو ہی نہیں دیکھا جاتابل کہ دیکھا اس اصول کو جاتا ہے کہ وہ زمین کی چیزوں سے پورا واقف ہو ، ان کے استعمال کے طریقوں اور ان کے ثمرات کو جانتا ہو ۔ اگر تمہارا یہ خیال زیادہ صحیح ہے کہ فرشتے اس خدمت کے لئے زیادہ موزوں ہیں تو ان چیزوں کے نام اور خواص بتلاؤ ۔
Top