Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کی بزرگی کا اعتراف کرتے ہوئے سجدۃ شکر ادا کرو ، وہ سب حکم سنتے ہی سجدۃ شکر میں گر گئے مگر ابلیس کو یہ سجدہ ناگوار گزرا ، لگا گھمنڈ کرنے اور وہ تھا ہی منکروں سے
سجدہ کا حکم پا کر فرشتوں کا سجدئہ شکر ادا کرنا : 80: سجدہ کے اصل معنی فرمانبرداری اختیار کرنا ہیں یا جھک جانا۔ جس کو عام زبان میں کہتے ہیں بار تسلیم کرلینا اور اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اختیار کرنا اور اس کی عبادت کرنا ، کے معنوں میں بھی عام استعمال ہوتا ہے اور پھر وہ بھی دو طرح پر ہے ایک سجدہ اختیار سے جو انسان ہی بجالا سکتا ہے اور دوسرا تسخیر سے جو انسان ، حیوان اور نباتات بلکہ ہر مخلوق اپنے خالق حقیقی کو کرتی ہے۔ ِاسْجُدُوْا لِاٰدَمَ کے معنی بھی دو طرح سے کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ آدم (علیہ السلام) کو بمنزلہ قبلہ رکھ کر اللہ کو سجدہ کرنا ، دوسرا یہ کہ ان کو آدم کی فرمانبرداری کا حکم دیا گیا اور اس بات کا حکم کہ وہ آدم (علیہ السلام) اور اس کی ذریت کے مصالح کو قائم کریں۔ اصطلاح شریعت میں سجدہ عبادت کے اس خاص رکن کا نام ہے جب پیشانی زمین پر رکھ دی جاتی ہے اور یہ سجدہ اللہ کے سوا دوسروں کے لئے صرف ناجائز ہی نہیں بلکہ حرام اور شرک ہے۔ چناچہ سجدئہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق کہا گیا ہے۔ اللام فئ لام للتعلیل ھو اللہ سبحانہ وخلافۃ ادم علۃ و سجود اخوۃ یوسف لہ مثل ذلک والسجود لغیر اللہ شرک بہ لم یرخص بہ فی شریعۃ . ” لام جو لام تعلیل کا ہے مسجود اللہ تعالیٰ ہے اور سجدہ کی علت آدم (علیہ السلام) کی خلافت ہے اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا سجدہ بھی اسی طرح کا سجدہ تھا کیونکہ غیر اللہ کو سجدہ حرام اور شرک ہے جو کسی شریعت میں بھی غیر اللہ کے لئے جائز نہیں ہوا اور نہ اب ہے ۔ “ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے : وَ مِنْ اٰیٰتِهِ الَّیْلُ وَ النَّهَارُ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ 1ؕ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَهُنَّ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ 0037 (حم السجدہ 41 : 37) ” رات ‘ دن ‘ سورج اور چاند اس کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تم نہ سورج کو سجدہ کرو ، نہ چاند کو بلکہ اسی اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا۔ اگر تم فی الواقعہ اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ “ دوسری جگہ ارشاد ہوا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ 0077 (الحج 22 : 77) ” اے مسلمانو ! رکوع میں جھکو ، سجدے میں گرو ، اپنے رب کی عبادت کرو اور جو کچھ نیکی کی بات کرو عجب نہیں کہ اس طرح با مراد ہو۔ “ زیر نظر آیت میں بھی یہی حکم دیا گیا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کی بزرگی کا اعتراف کرتے ہوئے سجدۃ شکر ادا کرو۔ گویا ” لِاٰدَمَ “ میں لام علت کا ہے جیسے : ” اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ “ یعنی نماز ادا کرو اس لئے کہ سورج ڈھل گیا۔ نماز ادا کرو ، کیوں ؟ اس لئے کہ سورج ڈھل چکا ہے۔ اسجدوا لادم سجدہ کرو۔ کیوں ؟ اس لئے کہ آدم (علیہ السلام) کو خلافت مل گئی۔ وہ خلافت کا مستحق ٹھہرا۔ وہ تم پر فوقیت لے گیا۔ آدم (علیہ السلام) کی فوقیت کے اعتراف میں سجدہ بجالائو۔ اس حکم کے سنتے ہی ان کی گردنیں اپنے اللہ کے حضور جھک گئیں۔ وہ سجدہ شکر بجالائے اور اس طرح آدم (علیہ السلام) کی علمی فوقیت کو تسلیم کرلیا اور اعتراف کیا کہ اے اللہ ! اصل حقیقت حال سے تو ہی واقف ہے اور گویا زبان حال سے اس امر کا عہد و میثاق کیا۔ کہ وہ کبھی اس کی یعنی آدم (علیہ السلام) اور اس کی ذریت سے منحرف نہ ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اس کے تابع فرمان رہیں گے۔ اور وہ کبھی آدم (علیہ السلام) اور اس کی ذریت سے منحرف نہ ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اس کے تابع فرمان رہیں گے۔ اور وہ قلوب بنی آدم میں نیکی اور طہارت کی تحریک کریں گے۔ وحی الٰہی کو لبیک کہنے اور انبیاء و رسل کی تعلیم کے سامنے سرنیاز خم کرنے کے لئے ان کو تیار کریں گے۔ اس طرح آدم (علیہ السلام) کی راہ میں جو مشکلات و موانع ہوں گے ان کے دور کرنے میں اس کے معین و مددگار بنیں گے۔ انکارِ ابلیس کیا ہے ؟ چور بھی اور چتر بھی : 81: ابلیس نے سجدۃ شکر بجالانے سے صاف انکار کر یا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ آدم (علیہ السلام) اور اس کی ذریت کی فوقیت کی تسلیم نہیں کرتا تھا اور اس طرح اس نے آدم اور اس کی ذریت کی اطاعت وانقیاد سے صاف انکار کردیا اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ فرشتہ ہی تھا اور بعض کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ تو نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لا کر اور فرمانبرداری اختیار کر کے فرشتوں میں شامل ہوچکا تھا۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں ہی صحیح نہیں ہیں کیونکہ نہ تو وہ فرشتہ تھا اور نہ ہی فرشتوں میں وہ شامل ہوا۔ قرآن کریم صاف اعلان کرتا ہے کہ اس کو فرشتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بلکہکَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ 1ؕ (الکہف 18 : 50) ” وہ جنات کے گروہ سے تھا اور اپنے رب کے حکم سے باہر ہوگیا یعنی اپنے رب کا حکم ماننے کے لئے تیار ہی نہ ہوا۔ “ فرشتوں کی تو خصوصیت ہی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ طہارت و پاکیزگی اور نیکی و معصومیت کے پیکر ہوتے ہیں اور اللہ کے حکم سے کبھی انحراف نہیں کرتے اور نہ کرسکتے ہیں۔ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ 006 (التحریم 66 : 6) لیکن ابلیس کا جہاں ذکر آیا غرور و سرکشی اور طغیان و ضلالت کے ساتھ آیا۔ پس یہ بات صاف ہوگئی کہ ابلیس ایک جداگانہ مخلوق ہے یعنی وہ جنوں میں سے تھا یعنی اقسام جن میں سے ایک قسم تھا جو فرشتوں کے بخط مستقیم مخالف ہے جس کی رگ و پے میں عصیان وعدوان اور اور نافرمانی سرایت کئے ہوئے ہے۔ اس سے اطاعت و فرمانبرداری کی توقع رکھنا ہی عبث و بیکار اور فضول ہے۔ اس لئے جس وقت اس نے سجدہ آدم یعنی آدم (علیہ السلام) کی فوقیت و برتری کی بات سنی تو فوراً بول اٹھا : ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ0061 کیا میں اس شخص کی بزرگی مان لینے کے لئے سجدہ کروں جس کو تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے دوسری جگہ اس کی تفصیل کی ہے کہ جب اس نے سجدہ سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ 1ؕ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ 1ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ 0012 (الاعراف 7 : 11) ” سجدہ کا حکم تو میں نے دیا ہے تو تجھ کو کونسی چیز مانع ہوئی ؟ کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں تو اس کی بزرگی کو کیونکر تسلیم کرلوں جب کہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے بنایا ہے۔ “ گویا انکار کی اصل وجہ اس کا غرور اور تکبر تھا وہ اپنے آپ کو آدم اور اس کی ذریت سے بہتر خیال کرتا تھا مگر اللہ تعالیٰ کو یہ استکبار کبھی پسند نہیں آسکتا تھا۔ چناچہ اس کے کبر و نخوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ لعنت کا طوق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے گلے میں پڑگیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مجسمہ برائی تھا۔ یہ عبارت ایک طریقہ بیان ہے۔ پس ! تاکہ ذریت آدم کو اپنے ابدی دشمن کا پتہ و کھوج بتادیا جائے کہ وہ اس سے ہوشیار رہیں اور اس کے داؤ و فریب میں نہ آئیں کیونکہ وہ ایسا شیطان ہے کہ گویا چور بھی ہے اور چتر بھی ، یعنی شیطان بھی ہے اور شیطنت کو مانتا بھی نہیں۔
Top