Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى : پھر حاصل کرلیے اٰدَمُ : آدم مِنْ رَّبِهٖ : اپنے رب سے کَلِمَاتٍ : کچھ کلمے فَتَابَ : پھر اس نے توبہ قبول کی عَلَيْهِ : اس کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِیْمُ : رحم کرنے والا
پھر آدم نے اپنے رب کی فطری تعلیم سے چند کلمات معلوم کرلیے جن سے اس کے حضور قبولیت تھی ، پس اس طرح اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی ، بلاشبہ وہی ہے جو توبہ قبول کرنے والا ہے ، اس کی درگزر کی کوئی انتہا نہیں ہے
بھول کا اعتراف اور وحی الٰہی کی راہنمائی : 85: ا جس وقت آدم (علیہ السلام) وہاں سے نکال دیئے گئے تو انہیں ایک دائمی قانون کی طرف متوجہ کردیا گیا اور وہ دستور العمل یہ تھا کہ دنیا دارالعمل ہے کوئی شخص یہاں تعطل و بیکاری کی زندگی بسر کرنے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا بلکہ ہر ایک کو محنت و مشقت کرنی پڑے گی۔ اسی سے وہ کمالات و فضائل حاصل کرے گا اسی پر اس کی فلاح و کامرانی کا دارومدار ہوگا۔ جہاں اس نے عیش و آرام کا خیال کیا تباہ و برباد ہوگیا اور جب تک اپنی حالت کے بدلنے کی خود کوشش نہ کرے گا اس کی حالت کبھی نہیں بدلے گی ، کامیابی انہیں کو نصیب ہوگی جو اس کو حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کریں گے اور پھر ان کی کوشش بھی قانون الٰہی کے خلاف نہیں ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے کامیابی حاصل کرنے والوں کے لئے مقرر فرما دی ہے۔ آدم (علیہ السلام) جنت سے نکل کر کتنی مدت پریشان خاطر رہے ؟ قرآن کریم نے ذکر نہیں کیا اور اس کی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ فطرت انسانی میں سعی و کوشش کا طریقہ رکھ دیا گیا کہ جتنا اضطراب بڑھے گا اور پریشانی زیادہ ہوگی اتنی ہی سعی و کوشش تیز سے تیز تر ہوگی۔ قانون الٰہی اپنا کام کرنے کے لئے اتنا ہی تیار ہوگا ۔ یہاں بھی یہی ہوا آدم (علیہ السلام) کا اضطراب اتنا بڑھا کہ قانون الٰہی کی زبان خود گویا ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اتنی ہی جوش میں آئی اور آدم (علیہ السلام) کو چند کلمات الہام کئے گئے بس ! وہ کلمات ہی ان کے اطمینان و سرور کا باعث ہوگئے ، ان کلمات کا اگرچہ یہاں ذکر نہیں تاہم دوسری جگہ ان کلمات کو بھی ذکر کردیا گیا تاکہ ذر ّیت آدم بھی اپنی زلت کے موقعہ پر ان سے فائدہ اٹھاتی رہے۔ الفاظ یہ تھے : رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ 0023 (الاعراف 7 : 23) ” دونوں پکارنے لگے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقیناً ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوجائیں گے “ ــــــــــــسبحان اللہ ! کہ ابو بشر (علیہ السلام) اور امّ بشر کی اس مناجات میں ادب اور استغفار کی تعلیم سارے آدم زادوں کے لئے قیامت تک باقی ہے۔ والحمد للہ علی ذلک۔
Top