Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١٘ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ
وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلْتُ : میں نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِمَا : اس کی جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ اَوَّلَ کَافِرٍ : پہلے کافر بِهٖ : اس کے وَلَا تَشْتَرُوْا : اور عوض نہ لو بِآيَاتِیْ : میری آیات کے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَاتَّقُوْنِ : ڈرو
اور ایمان لاؤ جو میں نے نازل کیا ہے جو اس کلام کی تصدیق کرتا ہوا نازل ہوا جو تمہارے پاس میری طرف سے پہلے موجود ہے اور ایسا نہ ہو کہ اس کے انکار میں بدبختی کا پہلا قدم جو اٹھے وہ تمہارا ہی ہو ، اور ایسا نہ کرو کہ میری آیتوں کو دنیوی مال کے بدلے بیچنا شروع کر دو ، اور میری نافرمانی سے بچتے رہو
محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی پیشینگوئی : 92: پیشین گوئیوں کی ضرورت تصدیق کے لئے محسوس ہوا کرتی ہے آپ کو معلوم ہے کہ باوجود تحریفات لفظی ومعنوی کے پھر بھی کتب سابقہ میں رسول اللہ ﷺ کی آمد کے متعلق پیشینگوئیاں اب تک موجود ہیں چناچہ گزشتہ آیت میں اس کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے موسیٰ جیسا ایک پیغمبر بھیجا جائے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) تک جتنے انبیاء و رسل مبعوث ہوئے کسی کا بھی مثیل موسیٰ ہونے کا دعویٰ نہ تھا۔ اس لئے کہ وہ سب کے سب ملت اسرائیلی کی تجدید و احیاء کے لئے بھیجے گئے تھے بلکہ خود مسیح (علیہ السلام) بھی اسی انتظار میں چلے گئے۔ جب یوحنا بپتسمہ دینے والے کے پاس یروشلم سے کاہن اور لیوی آئے اور انہوں نے آکر پوچھا کہ ” پھر تو کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں ، کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ “ (یوحنا 1 : 12) جس وقت رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی آپ ﷺ نے اوّل ہی روز یعنی شروع ایام ہی میں مثیل موسیٰ ہونے کا اعلان کردیا۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ رَسُوْلًا 1ۙ۬ شَاہِدًا عَلَیْكُمْ کَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاؕ0015 (مزمل 73 : 15) ” ہم نے تمہاری طرف محمد رسول اللہ ﷺ کو گواہی دینے والا بنا کر مبعوث کیا ہے جیسا اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول بنا کر فرعون کی طرف مبعوث کیا تھا۔ “ اس لئے بنی اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس قرآن کریم پر ایمان لے آئیں کیونکہ اس کو مان لینے سے ان کی کتابوں کی صداقت پر مہر لگ جائے گی۔ اور تمام دنیا کو یقین ہوجائے گا کہ صحائف آسمانی کی پیشینگوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ بنی اسرائیل کو تنبیہ کہ اپنی بدبختی میں پہل نہ کرو : 93: بنی اسرائیل کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کا بیج بونے والے تم نہ بن جائو کیونکہ تم تو مکالمہ و مخاطبہ الٰہی کے قائل انبیاء و رسل کے سلسلہ سے واقف اور کتب سابقہ کا علم رکھنے والے ہو۔ تعلیم یافتہ ہو کر تمہیں انکار کی گنجائش نہیں ورنہ دوسرے لوگ بھی تمہارا اتباع کریں گے اور تمہارے نامہ اعمال میں ان کی غلط کاری یعنی انکار نبوت ختم المرسلین کی جزاء لکھی جائے گی۔ لیکن لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
Top