Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَلَا تَلْبِسُوْا : اور نہ ملاؤ الْحَقَّ : حق بِالْبَاطِلِ : باطل سے وَتَكْتُمُوْا : اور ( نہ) چھپاؤ الْحَقَّ : حق وَ اَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
(خوب سن لو ! کہ) حق کو باطل کے ساتھ ملا کر مشتبہ مت بناؤ اور نہ حق کو چھپاؤ جب کہ تم جانتے ہو
علمائے بنی اسرائیل کی یہ گمراہی کہ وہ حق کو باطل کے ساتھ ملانے کے عادی تھے : 94: علمائے یہود کی اس شقاوت کا ذکر کہ انہوں نے کبھی حق کی آواز کو لبیک نہیں کہا بلکہ اپنے دنیاوی فائدوں کی خاطر برابر سچائی کو قربان کرتے رہے حالانکہ انہیں خوب یقین تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ ہی وہ نبی ہیں جن کی پہچان ان کی کتاب تورات میں کرائی گئی ہے اور وہ ایک ایک صفت اور نشان آپ ﷺ میں دیکھ چکے ہیں چناچہ قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے کہ : یَعْرِفُوْنَهٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ 1ؕ (البقرہ 2 : 146) وہ پیغمبر اسلام کو ویسے ہی پہچان گئے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو جانتے پہچانتے ہیں۔ قرآن کریم نے بار بار ان کی اسی غلط کاری کو بیان کیا ہے کہ ایک عالم کے لئے اس سے زیادہ بد اخلاقی اور شیطنت اور کیا ہوگی کہ وہ حق کو پہچان کر پھر اس کی مخالفت کرے ؟ لیکن افسوس ! کہ وہ اپنے علم کی اپچ میں ایسے بدمست تھے کہ انہوں نے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا کہ کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے ؟ تلبیس کے اصلی معنی ہیں کسی چیز کو ڈھانپ لینا یا خلط ملط کرنے اور ادھوری بات کہنا جس سے مطلب کچھ کا کچھ ہوجائے یا جھوٹ کو لفظی اور ظاہری سچائی کا رنگ دے دینا جو بعض اوقات بالکل گھڑے ہوئے جھوٹ سے بھی بڑھ کر دھوکے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس سے ملتی جلتی چیز کا نام آج کل کی اصطلاح میں پروپیگنڈا ہے۔ یہود ان ساری باتوں میں زمانہ کے استاد تھے۔ علمائے یہود کی یہ گمراہی کی وہ بدعات کو جاری کرتے تھے : 95: احکام الٰہی کو بدل دینے کی دوسری صورت اخفاء اور کسمان ہے۔ علمائے یہود کا ایک یہ بھی قصور تھا کہ انہوں نے کتاب اللہ کے علم کی اشاعت کرنے کی بجائے اس کو ربیوں اور مذہبی پیشہ وروں کے ایک محدود طبقے میں مقید کر رکھا تھا اور غیرتو غیر وہ یہودی عوام تک کو اس کی ہوا تک نہ لگنے دیتے تھے۔ پھر جب عام جہالت کی وجہ سے ان میں گمراہیاں پھیلیں تو علمائے یہود نے اصلاح کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ وہ عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے ہر اس ضلالت و بدعت کو جس کا رواج عام ہوجاتا اپنے قول و عمل سے الٹی سند جواز عطا کرنے لگے۔ بدقسمتی سے آج کل یہی کچھ علمائے اسلام کی اکثریت کرنے لگی ہے۔ حالانکہ برائی ، برائی ، ہے خواہ کوئی کرے۔ ہر وہ چیز جو عین ضرورت کے وقت ملے وہ حق ہے اور ہر غیر ضروری چیز باطل۔ پس یہ ارباب علم و فضل کی شان سے کس درجہ گری ہوئی بات ہے کہ قوم و ملت کو جن احکام کی ضرورت ہے ان کی طرف تو کوئی بھی توجہ نہ کرے اگرچہ ان پر حیات قومی کا دارومدار ہو اور ان امور پر زور دیا جائے جو فروعیات کا حکم رکھتے ہوں پھر اس پر بھی قناعت نہ ہو بلکہ حق بات جاننے کے باوجود اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ سچائی کو چھپانے کی کوشش ہمیشہ اس وقت کی جاتی ہے جب خود اس پر عمل نہ ہو ۔ اس لئے لوگوں کو بھی اس سے بیخبر رکھنے کی سعی کی جاتی ہے کیونکہ اگر انہیں اس صداقت کا علم ہوگیا اور انہوں نے اگر اس پر عمل کرنا شروع کردیا ، تو یہ علماء مورد طعن وتشنیع بنیں گے کہ باوجود جاننے کہ اس پر عمل نہیں کرتے۔
Top