Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو مگر خود اپنی خبر نہیں لیتے ؟ حالانکہ اللہ کی کتاب تمہارے پاس ہے جس کی ہمیشہ تلاوت بھی کرتے رہتے ہو ‘ کیا اتنی موٹی سی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آرہی ؟
یہود کی یہ گمراہی کہ دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت : 97: دین اسلام کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ جب دعوت دے گا تو عمل کی دعوت ہی دے گا۔ اس لئے کہ اس کے اوا مرو احکام ایک ایسی امت پیدا کرنا چاہتے ہیں جو یکسر عمل ہی عمل ہو۔ اس لئے ہر وہ شخص جو اپنی قوت عملیہ فنا کر دے ، اسلام کے نزدیک مردود ہے۔ پھر ان لوگوں کی کیا حالت ہوگی جو دوسروں کو تو کام کرنے کی دعوت دیتے ہیں مگر خود اس سے محروم محض رہتے ہیں ؟ قرآن کریم نے شاعر لوگوں کی ایک اصولی غلط کاری بیان کی ہے اور وہی دراصل ان کے تمام امراض و مفاسد کی علت العلل اور بمنزلہ بنیادی پتھر کے ہے فرمایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ : وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَۙ00226 (الشعرٰء 26 : 226) ” اور وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو بات کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ “ اور پھر مسلمانوں کو قرآن کریم میں مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 002 (الصف 61 : 2) ” اے مسلمانوں ! وہ بات کیوں کہتے ہو جو خود کرتے نہیں ہو ؟ “ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 003 (الصف 61 : 3) ” اللہ کو یہ بات نہایت ہی ناپسند ہے کہ جو تمہارا قول ہے وہ تمہارا فعل نہ ہو۔ “ قوم یہود ایک مذہبی قوم ہونے کے ناطے اس امر کی خواہشمند ہے کہ لوگ اس کی امامت و پیشوائی کو تسلیم کرلیں تو اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے آپ کو عمل صالحہ کا بہترین نمونہ ثابت کرتے حالانکہ ایسا نہیں بلکہ اس کے برعکس ہر وہ برائی جو قوم و ملت کے لئے ہمیشہ مہلک ہی ثابت ہوتی ہے وہ ان میں موجود ہے۔ پھر تعجب ہے کہ وہ دوسروں کو تو نصیحت کرتے ہیں لیکن آپنے آپ کو بالکل بھول چکے ہیں اور اس عمل کا نتیجہ بھی ان کی ہلاکت کے سوا کیا نکل سکتا ہے ؟ پھر ہمارے لیے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ گمراہی صرف قوم یہود کے لئے ہی تباہی و بربادی کا باعث نہیں بنی بلکہ ہر وہ قوم و فرد جس کی حالت یہ ہوگی اس کا نتیجہ تباہی و بربادی ہی ہوگا۔ یعنی اس آیت کا حکم عام ہے اور ہر اس شخص کی اس میں مذمت کی گئی ہے جو دوسروں کو تو نیکی اور بھلائی کی ترغیب دے مگر خود عمل نہ کرے دوسروں کو اللہ سے ڈرائے مگر خود نہ ڈرے ایسے شخص کے بارے میں احادیث میں بڑی ہولناک وعیدیں آئی ہیں چناچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شب معراج میں میرا گزر کچھ لوگوں پر ہوا جن کے ہونٹ اور زبانیں آگ کی قینچیوں سے کترے جا رہے تھے۔ میں نے جبریل (علیہ السلام) سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ آپ ﷺ کی امت کی دنیا دار واعظ ہیں۔ جو لوگوں کی تو نیکی کا حکم کرتے ہیں مگر اپنی خبر نہیں لیتے۔ (ابن کثیر) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ بعض جنتی ، بعض دوزخیوں کو آگ میں دیکھ کر پوچھیں گے تم آگ میں کیونکر پہنچ گئے ؟ حالانکہ ہم تو بخدا انہی نیک اعمال کی بدولت جنت میں داخل ہوئے ہیں جو ہم نے تم سے سیکھے تھے۔ اہل دوزخ کہیں گے ” ہم زبان سے کہتے ضرور تھے لیکن خود عمل نہیں کرتے تھے۔ “ (ابن کثیر) خلاصہ آیت یہ ہے کہ واعظ کو بےعمل نہیں ہونا چاہئے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بےعمل آدمی کو وعظ کہنا جائز نہیں ، اور دونوں میں فرق واضح ہے مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بےعمل ہونا تو نہ واعظ کے لئے جائز ہے نہ غیر واعظ کے لئے پھر واعظ کی تخصیص کیوں ؟ جواباً عرض ہے کہ ناجائز تو دونوں کے لئے ہے مگر واعظ کا جرم غیر واعظ کے جرم کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور زیادہ قابل مذمت ہے وہ بھی اس کے اپنے حق میں۔ کیونکہ واعظ جرم کو جرم سمجھتے ہوئے جان بوجھ کر کرتا ہے اس کے پاس یہ عذر نہیں ہوتا کہ مجھے اس کا جرم ہونا معلوم نہ تھا بر خلاف غیر واعظ اور اَن پڑھ جاہل کے ، کہ اس کو خواہ علم حاصل نہ کرنے کا گناہ ہو لیکن ارتکاب گناہ میں اس کے پاس کسی درجہ میں عذر موجود ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہ تھا اس کے علاوہ عالم اور واعظ اگر کوئی جرم کرتا ہے تو یہ دین کے ساتھ ایک قسم کا استہزاء ہے چناچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اللہ قیامت کے دن جتنا اَن پڑھ لوگوں کو معاف کرے گا اتنا علماء کو معاف نہیں کرے گا۔
Top