Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے بنی اسرائیل ! میری دوسری نعمتوں کے ساتھ اس نعمت کو بھی یاد رکھو جس سے میں نے تم کو سرفراز کیا تھا کہ اقوام عالم پر تم کو فضیلت دی
اجمال کی تفصیل شروع ہورہی ہے : 101: جب بنی اسرائیل میں انبیاء و رسل کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ مخاطبہ و مکالمہ الٰہی کے لئے یہی لوگ مخصوص تھے۔ حکومت بھی ان کے پاس تھی اس لئے اپنے زمانہ میں یہی سب سے زیادہ بزرگ و برتر تھے۔ بزرگ آبائے کرام کی اولاد میں ہونا خود ایک شرف و مجد ہے اور یہ بہت کم خوش نصیبوں کو حاصل ہوتا ہے مگر جس وقت انہوں نے اپنے فرائض تبلیغ و دعوت سے انحراف و تجاوز کیا تو ان سے یہ بزرگی جاتی رہی اور ان پر ذلت و مسکنت طاری ہوگئی۔ وہ اللہ کی رحمت بیکراں سے دور ہوگئے اور ان کی تمام فضیلت و بزرگی چھن گئی اور اب اللہ کے اس قانون مکافات کی گرفت میں آگئے کہ : وَ لَىِٕنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ 00 بنی اسرائیل کی اس فضیلت و بزرگی کا ذکر قرآن کریم میں بار بار کیا گیا ہے اور ان کی تفہیم کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی ہے لیکن جب کوئی قوم عذاب الٰہی کی مستحق ہوجائے وہ وقت وہی ہوتا ہے جب کوئی مؤثر سے مؤثر انداز بھی ان پر اثر نہیں کرتا۔ قرآن کریم کی حامل امت مسلمہ کو بھی اپنی حالت زار پر غور و فکر کرنا لازم ہے کہ کل تک قوم بنی اسرائیل پر انعامات کی بارش تھی اور آج وہ اللہ کی پکڑ میں ہیں۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ سنت اللہ یہی ہے جب قوم بدل جائے تو اس کی حالت بھی قانون الٰہی کے مطابق خود بخود بدل جاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے انعامات کا ذکر اس طرح ہوتا ہے : 1: بلاشبہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب ، حکمت اور نبوت عطا فرمائی اور ان کو عمدہ عمدہ چیزیں عطا کیں اور ہم نے ان کو اقوام عالم پر فضیلت دی تھی اور ہم نے انہیں دین کے واضح دلائل بھی دیئے لیکن انہوں نے صحیح علم آجانے کے بعد ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لئے باہم اختلاف کیا اور اسی اختلاف کی بھینٹ چڑھ گئے۔ (الجاثیہ 45 : 16 ، 18) 2: اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی آپ اس کتاب کے ملنے میں شک نہ کریں اور ہم نے اس کتاب تورات کو بنی اسرائیل کے لئے یقیناً راہنما بنایا تھا اور ہم نے انہیں بنی اسرائیل میں سے جب وہ صبر کرنے والے تھے اور ہماری آیتوں پر یقین لانے والے تھے پیشوا و راہنما بنائے تھے جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے اور اب یہ لوگ ان ہی باتوں میں اختلاف کرنے لگے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ان کے اس اختلاف کا فیصلہ سنا دیا جائے گا اور یہ دن وہی ہوگا جو قیامت کا دن ہے۔ (الم سجدہ 32 : 23 ، 25) 3: اور وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا تھا اے لوگو ! اللہ کا اپنے اوپر احسان یاد کرو ، اس نے تم میں نبی پیدا کئے۔ تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ بات عطا فرمائی جو دنیا میں کسی کو بھی اب تک نہیں دی گئی یعنی نبوت اور بادشاہی دنوں کو جمع کردیا۔ (المائدہ 5 : 20) 4: بلاشبہ ہم نے بنی اسرائیل کو سخت ذلت کے عذاب فرعون سے نجادی دی۔ حالانکہ وہ حد سے بڑھ جانے والوں میں سے بہت اونچے درجے کا سرکش تھا اور بلاشبہ ہم نے بنی اسرائیل کو ان کی حالت کے جانتے ہوئے دوسری قوموں پر ترجیح دی۔ (الدخان 44 : 32 ، 34)
Top