Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور یہ کہ اس دن کی پکڑ سے ڈر جاؤ ، جس روز کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے کام نہیں آئے گا ، نہ کسی کی سفارش سنی جائے گی اور نہ کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا اور نہ ہی کسی طرح کی مدد مل سکے گی
تذکیر بما بعد الموت : 102: بنی اسرائیل کا وہ دور بدل چکا وہ انعامات الٰہی کا شکر ادا کرنے کی بجائے سرکش ہوگئے انہوں نے انعامات الٰہی کو انعام سمجھنے سے انکار کردیا اور اس کو اپنا حق تصور کیا۔ اب وقت آگیا کہ ان کی ایک ایک خرابی کو کھول کھول کر بیان کیا جائے تاکہ آنے والے بھی خوب قانون الٰہی کو سمجھ لیں یعنی مسلمان قوم بھی بنی اسرائیل کی طرح ان کی خرابیوں میں مبتلا نہ ہوجائے۔ قوم بنی اسرائیل سے دریافت کیا جائے گا کہ جس قوم کی تمام تر تاریخ ان سیاہ کاریوں اور بدعملیوں سے بھری ہوئی ہو اس کے لئے اس کے سوا اور کیا فیصلہ ہو سکتا ہے کہ اسے ہمیشہ کے لئے یعنی ان کی حالت کے بدلنے تک تخت سلطنت سے محروم کردیا جائے اور وہ غلاموں کی زندگی بسر کرے۔ زیر نظر آیت میں انہیں بتا دیا کہ حادثہ قیامت کو پیش نظر رکھیں اور انصاف و دیانت سے جواب دیں۔ اگر ایک شخص کسی جرم کا مرتکب ہوا اور اسے عدالت میں پیش کردیا گیا ہو تو سزا سے بچنے کے لئے صرف یہی صورت ہوسکتی ہے کہ : ! دوسرا شخص اپنے آپ کو پیش کردے کہ مجرم کو چھوڑ کر مجھ سے مواخذہ کرو۔ " سفارش ہوجائے اور یوں اس کی جان خلاصی پائے۔ # جرمانہ اور معاوضہ ادا کر دے کہ یہ بھی نجات کی ایک شکل ہے۔ $ بےیارومددگار اگر اپنی طاقت و قوت سے کام لیں اور ملزم کو چھڑا لیں۔ لیکن جن لوگوں نے حق پرستوں کی مخالفت کی ، سچائی کے فنا کرنے کی فکر میں رہے اور انکار و سرکشی میں زندگی بسر کی ان کے لئے نجات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ انہیں اپنے اعمال کا آپ جواب دینا ہوگا اور وہ دن یعنی قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ کون کسی کے کام آئے گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ0034 وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ0035 وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ0036 لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهؕ30037 (عبس 80 : 34 ، 37) ” اور اس روز آدمی اپنے حقیقی بھائی سے راہ فرار ڈھونڈے گا اور ذرّہ برابر اس کے کام نہ آئے گا۔ اسی طرح اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی رفیقہ حیات (بیوی) سے اور اپنی اولاد سے بھی بھاگے گا۔ اس دن ان میں سے ہر ایک پر ایسا وقت آن پڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی دوسرے کا مطلق ہوش اور خیال نہ رہے گا ہر ایک کو اپنی فکر لاحق ہوگی۔ “ بھلا ایسے روز سوائے اعمال کے اور کون کام آسکتا ہے اور دوسری جگہ ارشاد الٰہی ہے : لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ 1ۛۚ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ 1ۛۚ یَفْصِلُ بَیْنَكُمْ 1ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ 003 (الممتحنہ 60 : 3) ” ‘ اگر تمہیں کوئی توقع ہو کہ تمہاری اولاد اور رشتہ داریاں قیامت کے روز تمہارے کچھ کام آسکیں گی تو یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جدائی ڈال دے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال پر اچھی طرح نظر رکھے ہوئے ہے پس جب حقیقت یہ ہے تو کسی کی خاطر جھوٹ کیوں بولا جائے ؟ ‘ شفاعت کیا ہے اور کیسے ہے ؟ 103: اس آیت میں شفاعت کا تذکرہ آیا ہے اگر اس کے مراتب پیش نظر ہوں تو اس کی حقیقت خود بخود واضح ہوجائے گی اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ذرا وضاحت سے بیان کردیا جائے تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے کہ شفاعت کیا اور کیسے ہے ؟ اس طرح سمجھیں کہ شفاعت تین طرح سے کی جاتی ہے۔ ! وجاہت : حکومت ملزم پکڑ لیتی ہے۔ قانوناً وہ مجرم قرار پاتا ہے تو اسے سزا ملنا ضروری ہے مگر ایک رکن سلطنت میں اس کی سفارش کرتا ہے حکومت کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر میں نے اس کی بات نہ مانی تو یہ شخص سلطنت میں بہت خرابیوں کا موجب ہوگا اس لئے رعب میں آکر وہ مجرم کو چھوڑ دیتی ہے اس سفارش کو سفارش وجاہت کہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اللہ کی جناب میں اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہے تو اس کے کفر و شرک میں کس کو کلام ہوسکتا ہے ؟ تَعٰلٰى اللّٰهُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ قیامت کے روز تو یہ کیفیت ہوگی کہ : وَ خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا ہَمْسًا 00108 (طہ 20 : 108) ” وہ دن ایسا ہوگا کہ اللہ رحمٰن کے سامنے سب کی آوازیں خاموش ہوجائیں گی اس سناٹے میں کوئی آواز سنائی نہیں دے گی مگر صرف قدموں کی آہٹ ! “ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ 1ؕ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 0016 (المؤمن 40 : 16) ” آج کے دن کس کی بادشاہی ہے ؟ کسی کی نہیں صرف اللہ واحد وقہار کی۔ “ ذرا خیال کریں کہ کون ہے جس کی وجاہت وہاں کام آئے گی ؟ کس کی نہیں ، ہرگز نہیں اور حاشا و کلا نہیں۔ " محبت حکمران کا کوئی دوست و محبوب سفارش کرتا ہے اور وہ اس کے عشق و محبت کی بنا پر مجرم کو رہائی بخشتا ہے ، کیونکہ تعمیل ارشاد نہ کرنے کی صورت میں اسے اس کے رنجیدہ خاطر ہونے کے اندیشہ ہے اور ایسا خیال بھی جناب باری کی شان میں کفر و سرکشی ہے۔ وَ ہُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ 0028 (الانبیاء 21 : 28) ” اور اس کے جلال سے وہ ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں۔ “ #اجازت شامت اعمال سے ایک شخص نے جرم کیا ، مگر وہ اس پر نادم ہے۔ حکومت سے طالب مغفرت ہے۔ رحم کی اپیل ہے۔ کسی امیر کی پناہ میں نہیں آتا۔ صرف اور صرف اسی کی رحمت پر نظر ہے۔ حکمران بھی اسے معاف کرنا چاہتا ہے لیکن اس کو چھوٹ دی جائے تو پھر دوبارہ ایسی حرکت کا خیال ہوتا ہے کسی امیر کو سفارش و ضمانت کی اجازت دی جاتی ہے وہ سفارش کردیتا ہے اس کو اپیل کی منظوری کہا جاسکتا ہے۔ کتاب و سنت کی تصریحات میں اس کی تائید نظر آتی ہے اور اس سے کسی کو انکار کی آخر ضرورت بھی کیا ہے ؟ اس حقیقت کو قرآن و حدیث کی زبان میں سفارش کہا گیا ہے چناچہ ارشاد الٰہی ہے : مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ 1ؕ اور دوسری جگہ فرمایا : لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا 0038 ” کون ہے جو اس کے پاس کسی کی سفارش کرے مگر ہاں ! اس کی اجازت کے بعد۔ وہ ہرگز بول نہیں سکیں گے مگر ہاں جس کے لئے رحمٰن نے اجازت دے دی۔ اور وہ جو بات کہے گا وہ بھی صاف صاف کہے گا۔ “
Top