Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
اور جب ہم نے تمہیں خاندان فرعون سے جنہوں نے تم کو نہایت ہی سخت عذاب میں ڈال رکھا تھا نجات دی تھی وہ تمہارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کی حیا پر ڈاکہ زنی کرتے تھے اور اس صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر بڑی ہی بھاری آزمائش تھی
انعامات الٰہی کا تذکرہ بنی اسرائیل کے لئے ایک نصیحت : 104: فرعون نام نہیں بلکہ لقب ہے جس طرح ایران کے بادشاہ کو کسریٰ اور روما کے بادشاہ کو قصیر کہا جاتا تھا ، اس طرح مصر کے حکمران کا لقب فرعون ہوتا تھا۔ آل فرعون سے مراد فرعون کے لوگ یعنی فرعون کی پارٹی۔ آل کے معنی وہی ہیں جو اہل کے ہیں فرق یہ ہے کہ آل کا لفظ ہمیشہ عظیم الشان انسانوں کی طرف مضاف کیا جاتا ہے جیسے عظیم الشان انبیائے کرام اور عظیم الشان بادشاہوں کی طرف اور اس کی وسعت میں سارے کے سارے متبعین داخل ہوجاتے ہیں۔ ہمارے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر ایک متقی و پرہیز گار برائیوں سے بچنے والا اور میری سنت کے مطابق عمل کرنے والامیری آل میں داخل ہے مطلب یہ ہے کہ یہاں صرف نسل اور خاندان کے لوگ مراد نہیں ہوتے۔ بنی اسرائیل کا قِصّہ قرآن کریم میں جگہ جگہ مذکور ہے مگر اکثر لوگوں کو اس میں یہ دھوکہ ہوتا ہے کہ وہ تمام واقعات کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت میں ہونا سمجھتے ہیں حالانکہ ان میں سے ایسے واقعات بھی ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اور ان کے بہت بعد کے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے جو واقعات متعلق ہیں وہ سورة البقرہ ، النساء ، المائدہ ، الانعام ، الاعراف ، یونس ، ہود ، بنی اسرائیل ، الکہف ، مریم ، طہٰ ، المؤمنون ، الشعراء ، القصص ، الصافات ، المؤمن ، الزخرف ، ، الدخان اور النازعات یعنی بیس سورتوں میں آئے ہیں۔ ان میں مکرر مضامین بھی بیان ہوئے ہیں اور کسی مقام پر کوئی واقعہ بیان ہوا ہے کسی جگہ پر کوئی واقعہ۔ ہم ان تمام آیات اور الفاظ کو بترتیب تحریر کریں گے اور ساتھ ہی ان کا ترجمہ و مفہوم بھی تاکہ تمام قِصّہ جو قرآن کریم میں بیان ہوا۔ بلفظہ بہ ترتیب معلوم ہوجائے لیکن ابھی مناسبت آیات سے صرف ان واقعات کا ذکر کرتے ہیں جو آیات کے متعلق ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا واسطہ مصر کے دو بادشاہوں کے ساتھ پڑا۔ لیکن قرآن کریم میں چونکہ بادشاہ کا نام نہیں بلکہ لقب کا ذکر ہوا اس لئے وہ فرعون ہی کے نام سے مذکور ہے۔ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو مارڈالنے کا واقعہ : 105: بنی اسرائیل تقریباً چار سو سال تک مصر میں رہے۔ خود اسرائیل یعنی یعقوب (علیہ السلام) مع اپنے بیٹوں کے یوسف (علیہ السلام) کے سبب وہاں آباد ہوتے تھے۔ چونکہ دوسرے ملک کے رہنے والے تھے۔ آہستہ آہستہ مصر کے بادشاہوں نے ان کی اولاد کو مہاجرین خیال کرتے ہوتے خدمتگاری کے کاموں اور ذلیل طرح کے پیشوں پر لگانے کی کوشش کی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ لوگ دبتے دبتے بالکل ہی دب گئے اور کمزور سے کمزور تر اور کمزور ترین ہوگئے۔ قرآن کریم نے ان کے دکھوں کی داستان کی تفصیل نہیں کی لیکن دو اشارے ایسے کردیئے جس سے ان کی بدحالی کی ساری تصویر سامنے آگئی لیکن تورات میں ان کے دکھوں کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ مختصر یہ کہ نہایت ذلیل قسم کے مشقت کے کام ان سے لئے جانے لگے چناچہ تورات میں ہے کہ : ” اور مصریوں نے خدمت کروانے میں بنی اسرائیل پر سختی کی اور انہوں نے سخت محنت سے گارا اور اینٹ کا کام اور سب قسم کی کھیت کی خدمت ان سے کروا کر ان کی زندگی نہایت تلخ کردی ان کی ساری خدمتیں جو وہ ان سے کرواتے تھے مشقت کی تھیں۔ “ (خروج 1 : 13 ، 14) یہاں تک کہ ان کے لڑکوں کو مار ڈالتے اور لڑکیوں کو اپنی عیش و عشرت اور گھریلو کام کاج کے لیئے زندہ رکھتے اس کی کیا صورت انہوں نے اختیار کی ؟ قرآن کریم نے اس کی تفصیل بیان نہیں کی لیکن تورات نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ : ” تب مصر کے بادشاہ نے عبرانی دائی جنائیوں کو یوں کہا کہ جب عبرانی عورتوں کے لئے تم دائی جنائی کا کام کرتی ہو تو ، اگر بیٹاہو تو اس کو ہلاک کر دو اور اگر بیٹی ہو تو جینے دو ۔ “ (خروج 1 : 15 ، 16) علاوہ ازیں بھی مفسرین نے طریقے بیان کئے ہیں کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے مردوں کی افرادی قوت ختم کرنے کے لئے یہ طریقے اختیار کئے لیکن جس جگہ قرآن کریم نے تفصیل نہیں کی ضروری بھی نہیں کہ اس کے کھوج میں وقت ضائع کیا جائے مقصد کی بات صرف اتنی ہی ہے کہ فرعون نے ظلم کی انتہا کردی جس کی ایک مثال یہ ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کے لڑکوں تک کو مروا دیا اور بنی اسرائیل اتنی بےحس قوم ہوگئی کہ وہ اس زیادتی کا بھی کوئی دفاع نہ کرسکی۔ آپ اندازہ کریں کہ وہی بنی اسرائیل قوم عیسائیت کو ساتھ ملا کر بلکہ ان کا سہارا لے کر مسلمانوں کو اس طرح دبائے جا رہی ہے کہ وہ اپنے گھروں اور ملکوں میں بھی آزادانہ زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ ان سے برملا کہا جاتا ہے کہ ہم تمہارے گھروں کی تلاشی لینا چاہتے ہیں کہ تمہارے گھر میں کیا کیا سامان رکھا ہے ؟ اور مسلم قوم کے رہنما خوشی کے ساتھ باہر نکل کھڑے ہوتے ہیں وہ ہر قسم کی تلاشی لے کر ان کے گھر کے سامان کو تباہ و برباد کر کے جب باہر نکلتے ہیں تو دانت پیستے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ خبردار تمہارے گھر میں آئندہ یہ یہ سامان دیکھا گیا تو تمہیں تہ تیغ کردیا جائے گا۔ ہمارے قومی رہنما ان کو سلوٹ مارتے ہوئے بزبان قال ہی نہیں بلکہ بزبان تحریر لکھ کر دے دیتے ہیں کہ صاحب ! آپ ہمارے گھر میں یہ سامان آئندہ نہیں دیکھیں گے اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے گھروں میں مکمل صفائی کا کام سر انجام دینے کے بعد عیش و طرب کی محفل کے پروگرام تشکیل دیتے ہوئے قوم کو مطمئن کرتے ہیں کہ ہم نے صاحب کو بلا کر تمہاری دال روٹی کا بندوبست کرلیا ہے اگر یہ بات صحیح ہے تو فرعون کے مظالم کو اسی سے سمجھ لو کہ وہ کیا تھے ؟ آج ہم برداشت کر رہے ہیں تو گزشتہ کل وہ خودبرداشت کرچکے ہیں۔ جب آج بات ان کو سمجھ میں آئی تو ہماری مت ماری گئی۔ کاش کہ قوم مسلم کو زندہ کرنے والا بھی کوئی موسیٰ پیدا ہوجائے۔ بنی اسرائیل کی لڑکیوں کو زندہ رکھنے کی وجہ : 106: لڑکیوں کو قتل نہ کرنا بلکہ انہیں زندہ رکھنے کا حکم صادر کیا۔ کیوں ؟ ظاہر ہے اس کا سبب یہی نظر آتا ہے کہ انہیں آئندہ فرعونی امراء اپنی نفسانی خواہشات کا شکار بنا سکیں اور اپنے گھروں میں رکھ کر ماما (Servant` maid) کا کام بھی ان سے لیں گویا یہ احسان بھی اپنے مطلب ہی کے لئے تھے اور درحقیقت احسان نہیں بلکہ یہ بھی اصل میں قوم بنی اسرائیل کو مزید کمزور کرنے کا ایک نہایت ہی سلجھا ہوا گُر تھا۔
Top