Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب فَرَقْنَا : ہم نے پھاڑ دیا بِكُمُ : تمہارے لیے الْبَحْرَ : دریا فَاَنْجَيْنَاكُمْ : پھر تمہیں بچا لیا وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے ڈبو دیا آلَ فِرْعَوْنَ : آل فرعون وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : اور تم دیکھ رہے تھے
اور وہ ہم ہی تھے کہ سمندر کا پانی تمہارے لیے پایاب کردیا کہ تم بچ نکلے مگر فرعون کا گروہ غرق ہوگیا اور تم اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے !
بنی اسرائیل کی مصر سے ہجرت اور بحر احمر کو عبور کرنا : 107: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون وقت کو پیغام الٰہی پہچانے پر مامور ہوئے تھے اور اس کے پاس یہ مطالبہ بھی لے کر آئے تھے کہ جو مظالم قوم بنی اسرائیل پر کئے جا رہے ہیں ان کو ترک کردے۔ یہ دعوت ایک مدت تک جاری رہی فرعون نے نہ دعوت قبول کی اور نہ ہی بنی اسرائیل کے مظالم میں کوئی کمی کی۔ بلکہ الٹا الزام موسیٰ (علیہ السلام) پر رکھا۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : ” بلاشبہ ! ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں اور واضح دلائل دے کر بھیجا۔ فرعون ، ہامان ، اور قارون کی طرف مگر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر اور جھوٹا بتایا۔ غرض جب وہ ان کے پاس ہماری طرف سے حق لے کر پہنچا تو ان لوگوں نے کہا جو لوگ موسیٰ کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کر ڈالو اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دو ۔ مگر کافروں کی یہ تدبیر اکارت گئی اور فرعون نے بڑے رعب کے ساتھ کہا کہ مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کردوں ، اور وہ اپنے اللہ کو اپنی مدد کے لئے بلائے۔ میں ڈرتا ہوں کہ موسیٰ اگر زندہ رہا تو تمہارے دین بدل دے گا اور زمین میں فساد پھیلائے گا۔ “ (المؤمن 40 : 24 ، 26) مختصر یہ کہ فرعون اور مصری گورنمنٹ کے مظالم سالہا سال تک برداشت کرنے کے بعد بالآخر موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں ساری قوم اسرائیل نے مصر کی سکونت ترک کر کے اپنے آبائی و طن شام و فلسطین کو چلا جانا طے کرلیا۔ یہ سفر مصری حکومت سے چھپ چھپ کر رات کے وقت شروع کیا۔ زمانہ وہ تھا کہ آج کل کی باقاعدہ سڑکیں تو تھیں نہیں نہ راستہ میں کوئی روشنی کا انتظام تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم الٰہی کے مطابق ہجرت کی تھی لیکن یہ کوئی تین چار آدمیوں کا قافلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک بہت بڑی قوم کا خروج تھا جس میں کم و بیش ستّر ہزار آدمی موجود تھے۔ یہ لوگ ملک مصر کے شہر رامیس سے نکلے تھے جو اس وقت مصری حکومت کا صدر مقام تھا اس کے بائیں جانب تھوڑے ہی فاصلہ پر دریائے نیل تھا اور دائیں طرف یعنی جانب شرق تقریباً تین منزل کے فاصلہ پر بحراحمر بڑی شاخ تھی موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر بحر احمر کی طرف نکلے جب یہ لوگ بحراحمر کی بڑی شاخ کے بائیں کنارے سے گزرنے لگے تو فرعون بھی ان کے تعاقب میں نکل آیا۔ لیکن حکم الٰہی کے مطابق قوم کو چیخ و پکار کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم بنی اسرائیل سمیت بحراحمر کی بڑی شاخ کی نوک سے پار اترنے میں کامیاب ہوگئے۔ فرعون نے بھی تعاقب کرتے ہوئے اپنے لائو لشکر کو بنی اسرائیل کے پیچھے بحراحمر کی اسی شاخ میں اتار دیا۔ اتنے میں پانی کا اتنا تیز ریلا آیا کہ بنی اسرائیل کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ قوم فرعون کو خس و خشاک کی طرح بہا کرلے گیا۔ اللہ نے اسی اپنے خاص انعام کا یہاں ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی تھی تو گویا وہ بہت بڑا انعام تم پر کیا تھا لیکن تم بھی عجیب لوگ ہو کہ تم نے بھی اللہ کے کسی انعام کو احسان کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور ہمیشہ نا شکری ہی کی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزانہ طور پر دریا عبور کرنے کا ذکر قرآن کریم کی زبان میں : دریا سے پار اتر جانے کا واقعہ قرآن کریم میں چار مقامات پر ذکر کیا گیا ہے اول اس جگہ سورة البقرہ میں ، جہاں فرمایا گیا۔ ” وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ “ ، دوم سورة شعراء میں جہاں فرمایا ہے : فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ 1ؕ فَانْفَلَقَ فَكَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ0063 (الشعراء 26 : 63) تیسرا سورة طہٰ جہاں فرمایا ہے۔ وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى1ۙ۬ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا 1ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّ لَا تَخْشٰى00 فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ فَغَشِیَهُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَهُمْؕ0078 (طہٰ 20 : 77 ، 78) اور چوتھی جگہ سورة الدخان میں جہاں فرمایا : فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَۙ00 وَ اتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا 1ؕ اِنَّهُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ 0024 (الدخان 44 : 23 ، 24) جن کا ترتیب وار مفہوم و ترجمہ یہ ہے کہ ” جب ہم نے تمہارے سبب دریا کو پایاب کردیا تھا۔ “ 2۔ پس وحی کی ہم نے طرف موسیٰ کی کہ چل اپنی لاٹھی کے سہارے سے دریا میں کہ وہ پھٹا ہوا ہے اور پھر ہر ٹکڑا پہاڑ کی مانند ۔ “ 3۔ ” ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ رات کو لے چل میرے بندوں کو ، پس لے چل ان کو دریا کے سوکھے راستہ میں ، مت ڈر پکڑ لئے جانے سے ۔ پس فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھا کیا پس پانی کا ریلا جیسا کچھ ان پر چھانے والا تھا ، چھا گیا یعنی جو کچھ ہونا تھا فوراً ہوگیا۔ “ 4۔ ” لے چل میرے بندوں کو اے موسیٰ ! رات کے وقت تم دشمن سے تعاقب کئے جائو گے اور چھوڑ چل دریا کو کہ وہ اس وقت اترا ہوا ہے۔ “ اس سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے نکلنے کا واقعہ وحی الٰہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے طے کردیا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اس جگہ کی نشاندہی کردی گئی تھی کہ اس وقت تم دریا کے فلاں مقام سے پار کرو گے اور ہم اپنے قانون تکوینی کے تحت تمہارے دریا پار کر جانے اور فرعون کے غرق ہونے کا معاملہ طے کرچکے ہیں اور یاد رکھو کہ دریا عبور کرنے کے لئے لاٹھی کے سہارے اللہ کا نام لے کر جوں جوں دریا سے گزرتے جائو گے ۔ وہ تمہارے لیے پایاب ہوتا جائے گا۔ جگہ کا تعین ، وقت کا تعین ، تمہارے خیریت سے نکل جانے کی خبر اور فرعون کے غرق ہونے کی اطلاح اس واقعہ میں یہ چار معجزات ہیں جو آپ کو یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو قبل از وقت دیئے جا رہے ہیں اور اپنے لوگوں میں ان کا اعلان کر دو اور ایسا ہی ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اس خبر کی تشہیر بھی کرا دی تھی۔ تورات میں اس کا ذکر اس طرح ملتا ہے ۔ ” خداوند نے بسبب بڑی پوربی آندھی کے تمام رات دریا کو چلایا اور دریا کو سکھا دیا۔ “ (خروج : 21) ویسے بھی ایسے واقعات کو جو انبیاء (علیہ السلام) کی تائید ایزدی سے پیش آتے رہے کچھ لوگوں نے ان کو عجائبات بنا دیا اور ہر ممکن کوشش کی ، یہ واقعات خرق عادت یا مافوق الفطرت یا معجزات کے نام سے معروف کرائے گئے ، حالانکہ حقیقت میں نہ تو وہ خرق عادت ہی تھے اور نہ مافوق الفطرت اور ان کو معجزات کہنا بالکل صحیح اور فطرت کے عین مطا بق تھا لیکن تعجب یہ ہے کہ معجزات انبیاء کو یہ نام کس نے فراہم کئے ؟ اور کہاں سے آئے ؟ جو آج زبان زد خاص و عام ہیں۔ جس فرق البحر کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اس پر غور کرو کہ اس کا مافوق الفطرت یا خرق عادت کا نام دینا کہاں تک صحیح ہے ؟ جب کہ ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ دریائوں کا اتار چڑھائو اور پھر خصوصاً وہ بھی پہاڑی علاقوں میں کتنا آناً فاناً اور کس قدر تیزی کے ساتھ آج بھی ہوتا رہتا ہے اور سمندر کے کنارے بیٹھ کر مد و جزر کا مشاہدہ آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ مظاہر قدرت آج بھی زلزلوں کی صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے ایسے کئی واقعات پیش کرچکے ہیں۔ چنانچہ جنوری 1934 ء بمطابق رمضان المبارک 1352 ھ میں جو زلزلہ بہار اور اطراف بہار میں آیا اس موقع پر صوبہ کے صدر مقام شہر پٹنہؔ میں دن دھاڑے تقریباً ڈھائی بجے کے قریب ایک مجمع کثیر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ گنگا جیسے وسیع و عریض دریا کا پانی چشم زدن میں غائب ہوگیا اور اتنے چوڑے پاٹ میں بجائے دریا کے دھارے کے قریب قریب خشک زمین نکل آئی اور یہ حیرت ناک منظر چار پانچ منٹ تک قائم رہا۔ یہاں تک کہ یک بیک تیز رفتاری کے ساتھ پانی گویا زمین سے ابل کر پھر جاری ہوگیا۔ اس واقعہ کی مفصل روئیداد انگریزی اخبار روزنامہ پانیئر (Pioneer) کی 20 جنوری 1934 ء کی اشاعت میں درج ہے۔ لوگوں نے اس واقعہ کو کئی طریقوں سے بیان کیا ہے کسی نے بہت بڑھا چڑھا کر اور کسی نے اس کے اصل مقام سے بھی بہت نیچے گرا کر۔ لیکن قرآن کریم کا مضمون جو کچھ ہمیں بتا رہا ہے وہ ہمارے لئے بس ہے اور تفصیلات کی ہمیں ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل اس دریا یا سمندر سے صحیح سلامت گزر گئے اور فرعون کا لشکر ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کردیا گیا جس سے شان الٰہی کا اظہار بالکل واضح ہے کہ ایک کو مہلک جگہ یا ہلاکت کے سامانوں کے اندر محفوظ رکھے اور دوسرے کو اس کے حفاظت کے سامان رکھتے ہوئے یا ایک محفوظ جگہ میں ہلاک کر دے۔ جہاں قرآن کریم نے اس واقعہ کو موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے فرقان قرار دیا ہے بالکل اسی طرح بدر کے واقعہ کو ہمارے نبی کریم ﷺ کے لئے فرقان قرار دیا ہے۔ ذرا غور کرو کہ بدر کا میدان ہے جس میں کفار نے عمدہ سے عمدہ اور محفوظ سے محفوظ جگہ روک لی ہے پانی پر قبضہ کرلیا ہے۔ جمعیت ان کی مسلمانوں کے مقابلہ میں تگنی سے بھی زیادہ ہے۔ آدمی بھی جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے بہادر ہیں۔ ہر طرح کا سامان جنگ بھی بکثرت موجود ہے۔ مقابلہ میں مسلمانوں کو اچھی جگہ نہیں ملی۔ جگہ محفوظ بھی نہیں۔ جمعیت بھی ایک تہائی ﷺ ہے۔ سامان جنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو میدان جنگ میں کامیابی کی خوشخبری پہلے سنا دی ہے۔ بڑے بڑے بہادروں کے مرنے کی جگہ کی نشاندہی فرمادی ہے اور جب نتیجہ نکلتا ہے تو وہ بالکل وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے وحی الٰہی پاکر پہلے بتا دیا ہے ایک تھوڑی سی جماعت کے سامنے ان کے سارے حفاظت کے سامان ہوتے ہوئے ہلاک کر کے اپنی قدرت کا نظارہ دکھا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں فرعونیوں کے غرق کرنے سے بھی بڑھ کر اپنی قدرت اور طاقت کا اظہار فرمایا ہے سو ہمارے پاس اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ امر الٰہی ہمیشہ غالب رہا ہے ، غالب ہے اور غالب ہی رہے گا۔ لیکن جو کچھ تھا ، ہے اور ہوگا سب قانون الٰہی کے مطابق تھا ، ہے اور رہے گا۔ اس قِصّہ میں مسلمانوں کے لئے بیشمار اسباق تھے لیکن افسوس کے انہوں نے سب کے سب وراء ظہور پھینک دیئے اور ایسے واقعات کو قانون قدرت کے خلاف کرنے ، بنانے اور ہونے ہی میں سارا زور صرف کیا گیا اور کیا جارہا ہے۔ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ -. عبرت کا مقام ہے : 108: بنی اسرائیل بالکل قریب دوسرے کنارے پر کھڑے اس مسرت انگیز نظارہ کو دیکھ رہے تھے کہ وہ قوم جس نے آج تک ہم کو غلاموں کی طرح رکھا ، آج بےبسی اور بےکسی کی چیخیں مار رہی ہے مگر کوئی نہیں جو اس کی کچھ بھی مدد کرے ان کی حالت اس وقت ایسی ہے کہفَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ (رح) 0029 (الدخان 44 : 29) ” پھر نہ تو آسمان ان پر رویا اور نہ ہی زمین نے آنسو بہائے اور نہ ہی انہیں اپنی حالت کی اصلاح کی مہلت دی گئی کیونکہ قانون الٰہی کے مطابق فرعون کے لوگ اپنی حالت کو ایسا ہی بنا چکے تھے۔ “ اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تمام ان رکاوٹوں کو دور کردیا جو ان کی راہ ترقی میں مختلف اسباب کی بنا پر اس وقت پیدا ہوگئی تھیں جب کہ فرعون کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے خود آگے بڑھنا چاہتے تھے۔
Top