Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
فَرَقْنَا
: ہم نے پھاڑ دیا
بِكُمُ
: تمہارے لیے
الْبَحْرَ
: دریا
فَاَنْجَيْنَاكُمْ
: پھر تمہیں بچا لیا
وَاَغْرَقْنَا
: اور ہم نے ڈبو دیا
آلَ فِرْعَوْنَ
: آل فرعون
وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
: اور تم دیکھ رہے تھے
اور وہ ہم ہی تھے کہ سمندر کا پانی تمہارے لیے پایاب کردیا کہ تم بچ نکلے مگر فرعون کا گروہ غرق ہوگیا اور تم اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے !
بنی اسرائیل کی مصر سے ہجرت اور بحر احمر کو عبور کرنا : 107: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون وقت کو پیغام الٰہی پہچانے پر مامور ہوئے تھے اور اس کے پاس یہ مطالبہ بھی لے کر آئے تھے کہ جو مظالم قوم بنی اسرائیل پر کئے جا رہے ہیں ان کو ترک کردے۔ یہ دعوت ایک مدت تک جاری رہی فرعون نے نہ دعوت قبول کی اور نہ ہی بنی اسرائیل کے مظالم میں کوئی کمی کی۔ بلکہ الٹا الزام موسیٰ (علیہ السلام) پر رکھا۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : ” بلاشبہ ! ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں اور واضح دلائل دے کر بھیجا۔ فرعون ، ہامان ، اور قارون کی طرف مگر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر اور جھوٹا بتایا۔ غرض جب وہ ان کے پاس ہماری طرف سے حق لے کر پہنچا تو ان لوگوں نے کہا جو لوگ موسیٰ کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کر ڈالو اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دو ۔ مگر کافروں کی یہ تدبیر اکارت گئی اور فرعون نے بڑے رعب کے ساتھ کہا کہ مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کردوں ، اور وہ اپنے اللہ کو اپنی مدد کے لئے بلائے۔ میں ڈرتا ہوں کہ موسیٰ اگر زندہ رہا تو تمہارے دین بدل دے گا اور زمین میں فساد پھیلائے گا۔ “ (المؤمن 40 : 24 ، 26) مختصر یہ کہ فرعون اور مصری گورنمنٹ کے مظالم سالہا سال تک برداشت کرنے کے بعد بالآخر موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں ساری قوم اسرائیل نے مصر کی سکونت ترک کر کے اپنے آبائی و طن شام و فلسطین کو چلا جانا طے کرلیا۔ یہ سفر مصری حکومت سے چھپ چھپ کر رات کے وقت شروع کیا۔ زمانہ وہ تھا کہ آج کل کی باقاعدہ سڑکیں تو تھیں نہیں نہ راستہ میں کوئی روشنی کا انتظام تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم الٰہی کے مطابق ہجرت کی تھی لیکن یہ کوئی تین چار آدمیوں کا قافلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک بہت بڑی قوم کا خروج تھا جس میں کم و بیش ستّر ہزار آدمی موجود تھے۔ یہ لوگ ملک مصر کے شہر رامیس سے نکلے تھے جو اس وقت مصری حکومت کا صدر مقام تھا اس کے بائیں جانب تھوڑے ہی فاصلہ پر دریائے نیل تھا اور دائیں طرف یعنی جانب شرق تقریباً تین منزل کے فاصلہ پر بحراحمر بڑی شاخ تھی موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر بحر احمر کی طرف نکلے جب یہ لوگ بحراحمر کی بڑی شاخ کے بائیں کنارے سے گزرنے لگے تو فرعون بھی ان کے تعاقب میں نکل آیا۔ لیکن حکم الٰہی کے مطابق قوم کو چیخ و پکار کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم بنی اسرائیل سمیت بحراحمر کی بڑی شاخ کی نوک سے پار اترنے میں کامیاب ہوگئے۔ فرعون نے بھی تعاقب کرتے ہوئے اپنے لائو لشکر کو بنی اسرائیل کے پیچھے بحراحمر کی اسی شاخ میں اتار دیا۔ اتنے میں پانی کا اتنا تیز ریلا آیا کہ بنی اسرائیل کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ قوم فرعون کو خس و خشاک کی طرح بہا کرلے گیا۔ اللہ نے اسی اپنے خاص انعام کا یہاں ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی تھی تو گویا وہ بہت بڑا انعام تم پر کیا تھا لیکن تم بھی عجیب لوگ ہو کہ تم نے بھی اللہ کے کسی انعام کو احسان کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور ہمیشہ نا شکری ہی کی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزانہ طور پر دریا عبور کرنے کا ذکر قرآن کریم کی زبان میں : دریا سے پار اتر جانے کا واقعہ قرآن کریم میں چار مقامات پر ذکر کیا گیا ہے اول اس جگہ سورة البقرہ میں ، جہاں فرمایا گیا۔ ” وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ “ ، دوم سورة شعراء میں جہاں فرمایا ہے : فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ 1ؕ فَانْفَلَقَ فَكَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ0063 (الشعراء 26 : 63) تیسرا سورة طہٰ جہاں فرمایا ہے۔ وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى1ۙ۬ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا 1ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّ لَا تَخْشٰى00 فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِهٖ فَغَشِیَهُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَهُمْؕ0078 (طہٰ 20 : 77 ، 78) اور چوتھی جگہ سورة الدخان میں جہاں فرمایا : فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَۙ00 وَ اتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا 1ؕ اِنَّهُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ 0024 (الدخان 44 : 23 ، 24) جن کا ترتیب وار مفہوم و ترجمہ یہ ہے کہ ” جب ہم نے تمہارے سبب دریا کو پایاب کردیا تھا۔ “ 2۔ پس وحی کی ہم نے طرف موسیٰ کی کہ چل اپنی لاٹھی کے سہارے سے دریا میں کہ وہ پھٹا ہوا ہے اور پھر ہر ٹکڑا پہاڑ کی مانند ۔ “ 3۔ ” ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ رات کو لے چل میرے بندوں کو ، پس لے چل ان کو دریا کے سوکھے راستہ میں ، مت ڈر پکڑ لئے جانے سے ۔ پس فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھا کیا پس پانی کا ریلا جیسا کچھ ان پر چھانے والا تھا ، چھا گیا یعنی جو کچھ ہونا تھا فوراً ہوگیا۔ “ 4۔ ” لے چل میرے بندوں کو اے موسیٰ ! رات کے وقت تم دشمن سے تعاقب کئے جائو گے اور چھوڑ چل دریا کو کہ وہ اس وقت اترا ہوا ہے۔ “ اس سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے نکلنے کا واقعہ وحی الٰہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے طے کردیا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اس جگہ کی نشاندہی کردی گئی تھی کہ اس وقت تم دریا کے فلاں مقام سے پار کرو گے اور ہم اپنے قانون تکوینی کے تحت تمہارے دریا پار کر جانے اور فرعون کے غرق ہونے کا معاملہ طے کرچکے ہیں اور یاد رکھو کہ دریا عبور کرنے کے لئے لاٹھی کے سہارے اللہ کا نام لے کر جوں جوں دریا سے گزرتے جائو گے ۔ وہ تمہارے لیے پایاب ہوتا جائے گا۔ جگہ کا تعین ، وقت کا تعین ، تمہارے خیریت سے نکل جانے کی خبر اور فرعون کے غرق ہونے کی اطلاح اس واقعہ میں یہ چار معجزات ہیں جو آپ کو یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو قبل از وقت دیئے جا رہے ہیں اور اپنے لوگوں میں ان کا اعلان کر دو اور ایسا ہی ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اس خبر کی تشہیر بھی کرا دی تھی۔ تورات میں اس کا ذکر اس طرح ملتا ہے ۔ ” خداوند نے بسبب بڑی پوربی آندھی کے تمام رات دریا کو چلایا اور دریا کو سکھا دیا۔ “ (خروج : 21) ویسے بھی ایسے واقعات کو جو انبیاء (علیہ السلام) کی تائید ایزدی سے پیش آتے رہے کچھ لوگوں نے ان کو عجائبات بنا دیا اور ہر ممکن کوشش کی ، یہ واقعات خرق عادت یا مافوق الفطرت یا معجزات کے نام سے معروف کرائے گئے ، حالانکہ حقیقت میں نہ تو وہ خرق عادت ہی تھے اور نہ مافوق الفطرت اور ان کو معجزات کہنا بالکل صحیح اور فطرت کے عین مطا بق تھا لیکن تعجب یہ ہے کہ معجزات انبیاء کو یہ نام کس نے فراہم کئے ؟ اور کہاں سے آئے ؟ جو آج زبان زد خاص و عام ہیں۔ جس فرق البحر کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اس پر غور کرو کہ اس کا مافوق الفطرت یا خرق عادت کا نام دینا کہاں تک صحیح ہے ؟ جب کہ ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ دریائوں کا اتار چڑھائو اور پھر خصوصاً وہ بھی پہاڑی علاقوں میں کتنا آناً فاناً اور کس قدر تیزی کے ساتھ آج بھی ہوتا رہتا ہے اور سمندر کے کنارے بیٹھ کر مد و جزر کا مشاہدہ آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ مظاہر قدرت آج بھی زلزلوں کی صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے ایسے کئی واقعات پیش کرچکے ہیں۔ چنانچہ جنوری 1934 ء بمطابق رمضان المبارک 1352 ھ میں جو زلزلہ بہار اور اطراف بہار میں آیا اس موقع پر صوبہ کے صدر مقام شہر پٹنہؔ میں دن دھاڑے تقریباً ڈھائی بجے کے قریب ایک مجمع کثیر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ گنگا جیسے وسیع و عریض دریا کا پانی چشم زدن میں غائب ہوگیا اور اتنے چوڑے پاٹ میں بجائے دریا کے دھارے کے قریب قریب خشک زمین نکل آئی اور یہ حیرت ناک منظر چار پانچ منٹ تک قائم رہا۔ یہاں تک کہ یک بیک تیز رفتاری کے ساتھ پانی گویا زمین سے ابل کر پھر جاری ہوگیا۔ اس واقعہ کی مفصل روئیداد انگریزی اخبار روزنامہ پانیئر (Pioneer) کی 20 جنوری 1934 ء کی اشاعت میں درج ہے۔ لوگوں نے اس واقعہ کو کئی طریقوں سے بیان کیا ہے کسی نے بہت بڑھا چڑھا کر اور کسی نے اس کے اصل مقام سے بھی بہت نیچے گرا کر۔ لیکن قرآن کریم کا مضمون جو کچھ ہمیں بتا رہا ہے وہ ہمارے لئے بس ہے اور تفصیلات کی ہمیں ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل اس دریا یا سمندر سے صحیح سلامت گزر گئے اور فرعون کا لشکر ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کردیا گیا جس سے شان الٰہی کا اظہار بالکل واضح ہے کہ ایک کو مہلک جگہ یا ہلاکت کے سامانوں کے اندر محفوظ رکھے اور دوسرے کو اس کے حفاظت کے سامان رکھتے ہوئے یا ایک محفوظ جگہ میں ہلاک کر دے۔ جہاں قرآن کریم نے اس واقعہ کو موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے فرقان قرار دیا ہے بالکل اسی طرح بدر کے واقعہ کو ہمارے نبی کریم ﷺ کے لئے فرقان قرار دیا ہے۔ ذرا غور کرو کہ بدر کا میدان ہے جس میں کفار نے عمدہ سے عمدہ اور محفوظ سے محفوظ جگہ روک لی ہے پانی پر قبضہ کرلیا ہے۔ جمعیت ان کی مسلمانوں کے مقابلہ میں تگنی سے بھی زیادہ ہے۔ آدمی بھی جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے بہادر ہیں۔ ہر طرح کا سامان جنگ بھی بکثرت موجود ہے۔ مقابلہ میں مسلمانوں کو اچھی جگہ نہیں ملی۔ جگہ محفوظ بھی نہیں۔ جمعیت بھی ایک تہائی ﷺ ہے۔ سامان جنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو میدان جنگ میں کامیابی کی خوشخبری پہلے سنا دی ہے۔ بڑے بڑے بہادروں کے مرنے کی جگہ کی نشاندہی فرمادی ہے اور جب نتیجہ نکلتا ہے تو وہ بالکل وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے وحی الٰہی پاکر پہلے بتا دیا ہے ایک تھوڑی سی جماعت کے سامنے ان کے سارے حفاظت کے سامان ہوتے ہوئے ہلاک کر کے اپنی قدرت کا نظارہ دکھا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں فرعونیوں کے غرق کرنے سے بھی بڑھ کر اپنی قدرت اور طاقت کا اظہار فرمایا ہے سو ہمارے پاس اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ امر الٰہی ہمیشہ غالب رہا ہے ، غالب ہے اور غالب ہی رہے گا۔ لیکن جو کچھ تھا ، ہے اور ہوگا سب قانون الٰہی کے مطابق تھا ، ہے اور رہے گا۔ اس قِصّہ میں مسلمانوں کے لئے بیشمار اسباق تھے لیکن افسوس کے انہوں نے سب کے سب وراء ظہور پھینک دیئے اور ایسے واقعات کو قانون قدرت کے خلاف کرنے ، بنانے اور ہونے ہی میں سارا زور صرف کیا گیا اور کیا جارہا ہے۔ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ -. عبرت کا مقام ہے : 108: بنی اسرائیل بالکل قریب دوسرے کنارے پر کھڑے اس مسرت انگیز نظارہ کو دیکھ رہے تھے کہ وہ قوم جس نے آج تک ہم کو غلاموں کی طرح رکھا ، آج بےبسی اور بےکسی کی چیخیں مار رہی ہے مگر کوئی نہیں جو اس کی کچھ بھی مدد کرے ان کی حالت اس وقت ایسی ہے کہفَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ (رح) 0029 (الدخان 44 : 29) ” پھر نہ تو آسمان ان پر رویا اور نہ ہی زمین نے آنسو بہائے اور نہ ہی انہیں اپنی حالت کی اصلاح کی مہلت دی گئی کیونکہ قانون الٰہی کے مطابق فرعون کے لوگ اپنی حالت کو ایسا ہی بنا چکے تھے۔ “ اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تمام ان رکاوٹوں کو دور کردیا جو ان کی راہ ترقی میں مختلف اسباب کی بنا پر اس وقت پیدا ہوگئی تھیں جب کہ فرعون کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے خود آگے بڑھنا چاہتے تھے۔
Top