Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا : اور جب ہم نے وعدہ کیا مُوْسَىٰ : موسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً : چالیس رات ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنا لیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهِ : ان کے بعد وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ : اور تم ظالم ہوئے
جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا عہد لیا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) پہاڑ پر پہنچے ہی تھے کہ تم نے بچھڑے کی پرستش اختیار کرلی اور تم راہ حق [ سے ہٹ گئے
ہجرت کے بعد بنی اسرائیل کی پہلی گمراہی بچھڑے کی پرستش کرنا : 109: بنی اسرائیل فرعون سے نجات پا کر آگے بڑھے تو اب وہ ایک آزاد قوم تھے جن کے لئے قانون اور دستور العمل کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ کوہ طور پر آکر چالیس روز تک رہیں تاکہ ان کو قوم کے لئے وہ قانون اور دستور عمل دیا جائے اور دوسری طرف قوم کی آزمائش بھی ہوسکے۔ اس کی تفصیل کے لئے بائبل کی طرف مراجعت کرنا ہے تو کتاب خروج باب 24 : 31 کو ملاحظہ کریں۔ وعدنا ، وعدہ سے باب مفاعلہ ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے اس کا قبول کرنا ، یہاں چالیس راتوں کا ذکر ہے اور سورة الاعراف میں تیس راتوں کا اور پھر ساتھ ہی ارشاد ہے کہ اس کو ہم نے مزید دس راتوں کے ساتھ پورا کردیا۔ جس سے اس بات کی اللہ تعالیٰ نے خود ہی وضاحت فرمادی کہ وعدہ حقیقی طور پر چالیس ہی راتوں کا تھا جس کا تذکرہ عام انسانی بول چال کے مطابق تیس چالیس راتیں کہا گیا ہے۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنا جانشین بنایا ، یا جو از راہ انتظام ضروری تھا تو وہاں انہوں نے تیس چالیس دن ہی کا ذکر کیا اور یہ ذکر خلاف واقعہ نہیں ہے بلکہ عین محاورئہ زبان کے مطابق ہے۔ آج بھی ہم دوچار ، پانچ سات ، آٹھ دس ، دس پندرہ ، پندرہ بیس اور تیس چالیس کے الفاظ اپنی بول چال میں استعمال کرتے ہیں اور کلام الٰہی کا انسانوں کی زبان ، محاورہ ، استعارہ اور ضرب المثل اور تمثیل میں ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ مفسرین کے بیان کے مطابق پندرہ سو قبل مسیح سمجھا گیا ہے اور سال ولادت 1520 ق م بتایا ہے اور سال وفات 1400 ق م یعنی تقریباً 120 برس عمر تسلیم کی ہے اور مؤرخین کے مطابق فرعون مصر یعنی رعمیسس ثانی کا زمانہ جس کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کا معاملہ پیش آیا تھا ساڑھے تیرہ سو قبل مسیح تسلیم کیا ہے۔ اور تاریخی واقعات میں یہ اختلاف بالکل معمول اور عام سی بات ہے اور قرآن کریم کا انداز بیان ان تاریخی تعینات میں اپنا وقت بالکل ضائع نہیں کرتا کیونکہ وہ کوئی تاریخ کی کتاب ہی نہیں ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی عارضی غیر حاضری کے زمانہ میں جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) پہاڑ پر تشریف لے گئے ادھر ان کی قوم نے گردو پیش کی مشرک قوموں کی دیکھا دیکھی اور مصری زمانہ میں مصر کے لوگ جس طرح گائے کی پرستش کرتے تھے اسی کے اثر سے انہوں نے ایک بچھڑے کی مورتی بنائی اور پھر اس کی پرستش شروع کردی اور یہ کام موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے ایک بااثر آدمی سامری کی شعبدہ بازی سے رواج پایا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں قوموں کی تاریخ میں آج بھی اس کی شہادتیں موجود ہیں کہ مذہبی پیشوا مذہب ہی کے نام پر اپنے آباء و اجداد کے رواجات کو دوبارہ مشتہر کرتے رہتے ہیں اور قوم کے لوگ بھی اسی اثر کے تحت جو ان کو آباء سے ورثہ میں ملتا ہے اس کو قبول کرنے کے لئے فوراً تیار ہوجاتے ہیں۔ باہر مت جائو اپنے ہاں کا مطالعہ کرو بات بالکل صاف ہوجائے گی۔ ہندوپاک میں آریہ قوم کی بہت سی باتوں کا اثر مسلمانوں پر ہوا ہے۔ جس کی مثالیں آج بھی ہمارے زمانہ میں موجود ہیں۔ ہاں زیادہ سے زیادہ صرف نام کا فرق ، وہ بھی کہیں کہیں مل سکتا ہے یہ پیر پرستی ، قبر پرستی ، عرس اور میلے ، ناچ اور بھنگڑے ، حال ومستی ، منتیں اور چڑھاوے ، تیسرے ، چوتھے ، چالیسویں اور قل کی رسمیں کہاں سے آگئی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک کا تجزیہ کرتے جائو تو وہ سب ہندوؤں کی رسومات پر فٹ ہوتی جائیں گی جن کا اسلام کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں لیکن آج سمجھدار سے سمجھدار آدمی بھی ان کے بجالانے کے لئے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے اور علماء ِ سوء ہیں کہ ان سب کو ثواب اور نیکی کے کام ثابت کرنے میں مصروف ہیں اور عوام ہیں کہ ان ہی رسومات کو اسلام سمجھتے ہیں۔ ایک شخص دین اسلام کا ایک کام بھی نہ کرے لیکن ان رسومات کی پابندی کرے تو وہ پکا مسلمان ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا شخص دین اسلام کا ایک ایک کام اللہ کی رضا اور رسول اکرم ﷺ کی ہدایت کے مطابق کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے لیکن ان رسومات کو ادا نہ کرے تو وہ مردود قرار دیا جائے گا۔ پھر بوالعجبی یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم گائے کی پرستش کو برا سمجھنے والے اپنے ہاں کی اس پرستش کے لئے سند جواز پیش کریں گے۔ اسی پر یہ مثل بولی جاتی ہے کہ ” ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔ “ ذرا غور کرو کہ بنی اسرائیل آزاد ہوچکے ہیں اب ان پر کسی انسان کی حکومت نہیں۔ ایک اللہ کے غلام ہیں ، آزاد سرزمین ہے اور وہ ہیں کہ غلامی کے اثرات اب تک ان کے دل و دماغ پر حاوی ہیں اور ان کے رگ وپے میں جاری وساری۔ جس وقت انہوں نے اس بچھڑے کو دیکھا اور اس سے ایک بےنطق آواز سنی جو ایک بھا .... ں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ فوراً سجدہ ریز ہوگئے کہ اس کی بندگی ان کا سرمایہ حیات ہے چناچہ ان کی آئندہ قومی زندگی میں اس قسم کے بکثرت واقعات پیش آئے جن سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوگئی کہ ان کا مقصد حیات صرف جمع مال و دولت تھا اور صرف اور صرف وہم پرستی تھی۔ عقل و فکر اور قومی جذبہ کی بو بھی ان میں موجود نہ تھی۔ ان میں علماء تھے لیکن وہم پرست اور جاہ پرست۔ ان میں سیاسی لیڈر تھے لیکن وہ بھی وہم پرست اور جاہ پرست اور عوام تو پہلے ہی عوام ہوتے ہیں ان کی بات ہی کیا ہے ؟ وہم پرستی کیا ہے ؟ اعتدال اور عقل کا فقدان جس کا نتیجہ افراط ہے یا تفریط۔ ہر قوم کی ہلاکت کا باعث دراصل دو ہی چیزیں ہوتی ہیں افراط اور تفریط اور یہ مترادف ہے وہم پرستی کے۔ افراط کیا ہے ؟ روحانیت میں جائز حدود سے تجاوز کرجانا۔ جیسے نصاریٰ نے عبداللہ یعنی مسیح (علیہ السلام) کو اللہ بنا لیا ہے یہ افراط ہے۔ اور تفریط کیا ہے ؟ مادیت میں بہت دور نکلا جانا۔ یعنی روحانیت کو اس کے مقام سے بھی بہت نیچے گرا دینا۔ جیسے یہودیوں نے مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ کیا۔ کہ ان کو انسانیت کے مقام سے بھی نیچے گرا دیا العیاذ باللہ ! گویا یہ ان کی مسیح (علیہ السلام) کے متعلق تفریط تھی۔ بنی اسرائیل اس وقت دونوں غلطیوں کے مرتکب ہوگئے۔ انہوں نے بچھڑا پوجنا شروع کیا اور یہ سمجھے کہ وہ خداوند جو وراء الوریٰ ثم وراء الوریٰ ہے اس میں حلول کر گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک طرف انہوں نے افراط سے کام لیا یعنی بچھڑے کے حق میں اور اللہ رب العزت کے حق میں وہ تفریط کر گئے کہ اس کے مقام سے اس کو نیچے گرادیا۔ بھلا وہ کسی شکل و صورت میں کب سما سکتا ہے ؟ بنی اسرائیل کو بالکل یہی صورت اس وقت پیش آئی جب انہوں نے اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً کی صدا بلند کی۔ بت پرست یہی خیال کرتے ہیں اور چاہیے کہ پیر پرست اور قبر پرست اس سے عبرت پکڑیں۔
Top