Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 55
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسَىٰ : اے موسٰی لَنْ : ہرگز نُؤْمِنَ : ہم نہ مانیں گے لَکَ : تجھے حَتَّىٰ : جب تک نَرَى اللہ : اللہ کو ہم دیکھ لیں جَهْرَةً : کھلم کھلا فَاَخَذَتْكُمُ : پھر تمہیں آلیا الصَّاعِقَةُ : بجلی کی کڑک وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے تھے
اور تم نے کہا تھا ! اے موسیٰ ! (علیہ السلام) ہم کبھی تم پر یقین کرنے والے نہیں جب تک کہ کھلے طور پر اللہ کو نہ دیکھ لیں پھر بجلی کے کڑکے نے تم کو آگھیرا اور تم دیکھ رہے تھے
قوم بنی اسرائیل کی دوسری گمراہی : 114: اب قوم بنی اسرائیل کی دوسری کھلی گمراہی کا ذکر کیا جاتا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تورات کی تختیاں لے کر قوم کے پاس آئے اور قوم کی گمراہی دیکھ کر جزبز ہوئے لیکن یہ وقت گزر گیا۔ قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی مل گئی تو انہوں نے ایک نئی گمراہی کا اظہار کردیا وہ یہ کہ کہنے لگے موسیٰ ! ہم تیری لائی ہوئی تعلیمات پر اس وقت ہی عمل کرسکتے ہیں جب کہ ہم ان آنکھوں سے تیرے رب کو دیکھ لیں۔ ہم تیرے ہی کہنے پر یہ کیونکر مان لیں کہ رب تیرے ساتھ ہمکلام ہوتا ہے جب کہ وہ ہمارے ساتھ ہمکلام نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ستّر آدمیوں کو چن لیا تاکہ ان کو جمال الٰہی کی جھلک دکھائی جاسکے۔ یہ ستّر آدمی موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کوہ طور پر گئے یقیناً دل میں خیال ہوگا کہ جب میں (موسیٰ ) اللہ کا جمال نہیں دیکھ سکا اور اس کا کمال دیکھ کر مان گیا ، یقیناً یہ لوگ بھی جمال تو نہیں دیکھ سکیں گے لیکن کمال کی جھلک ہی ان کے ایمان کی پختگی کے لئے کافی ہوگی۔ کوہ طور پر جا کر موسیٰ (علیہ السلام) نے خود عرض پیش کی اور کہا اے اللہ ! ایک تجلی ذرا ان پر بھی ہوجائے۔ قانون الٰہی حرکت میں آیا اور سرکشوں کی سرکوبی کے لیے جو کچھ ہوتا ہے وہ ہوگیا۔ وہ ایک چیخ تھی کوئی جھٹکا تھا یا زلزلہ ، کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا سوائے ایک ہولناک آواز کے ، وہ زلزلہ کی آواز تھی یا ان زلزلہ دیئے گئیوں کی چیخ و پکار جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب کے سب بیہوش ہو کر گر پڑے جس سے ان کی قوت حس زائل ہوگئی۔ بےہوش ایسے کہ گویا مرگئے۔ یہ ماجرا اتنا تیزی سے ہوا کہ گویا وہ دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اس تجلی رب کا ایک نظارہ پہلے کرچکے تھے وہ جلد ہی ہوش میں آگئے جب دیکھا کہ وہ سب کے سب بےحس و حرکت پڑے ہیں تو خیال ہوا کہ شاید وہ مرگئے۔ بارگاہ الٰہی میں دست بدعا ہوگئے۔ الٰہی یہ کیا اجرا ہوا کہ یہ سب کے سب مرگئے تو میری اکھڑ قوم کے لوگ کب ماننے والے ہیں وہ تو مجھ ہی پر ان سب کے مار دینے کا الزم رکھیں گے اور اگر تو ان کو مارنا ہی چاہتا تھا تو وہیں ان کے گھروں میں مار دیتا تاکہ مجھ پر یہ الزام تو نہ آتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ پھر ہم نے تم کو اس غشی کی حالت سے نکال کھڑا کیا اور تمہارے ہوش و حواس درست ہوئے اور چاہئے تھا کہ کم از کم تم کو پہلا احسان یاد نہ رہا تھا تو اس دوسرے احسان ہی کو یاد رکھتے۔ موت وحیات کا ذکر قبل ازیں بھی کیا گیا تھا اس جگہ پھر دوبارہ سمجھ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے : 1: موت کے معنی قوت نامیہ کا نہ ہونا جیسے ارشاد الٰہی ہے : یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا 1ؕ (الحدید 57 : 17) زمین کے مردہ ہونے کے بعد اس کو دوبارہ زندہ کردیا یعنی جب وہ قابل پیداوار نہ رہی تو بارش برسا کر اس کو قابل کاشت بنادیا۔ 2: قوت حسی کا زائل ہونا یعنی نیم بےہوش ہوجانا ، تکلیف و دکھ میں مبتلا ہونا جیسے : یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا (مریم 19 : 23) یعنی ہائے افسوس کہ ایسا موت وحیات کا وقت اور اتنی غیر محفوظ جگہ ، کاش ! کہ میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی۔ 3: قوت عقلی کا زائل ہونا یعنی جاہل ہونا جیسے ارشاد الٰہی ہے : اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ (الانعام 6 : 122) ” کیا وہ آدمی کہ وہ مردہ تھا اور ہم نے اسے زندہ کردیا “ لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ اور اس کے لئے ایک نور ٹھہرا دیا کہ اس کے اجالے میں لوگوں کے درمیان چلے پھرے : کَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا 1ؕ اس آدمی جیسا ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ اندھیروں میں گھرا ہوا ہے اور ان سے باہر نکلنے والا نہیں ؟ اور کفر و جمود کی ایک مثال یہ بھی ہے جیسے : اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ 0080 (النمل 27 : 80) بات بالکل صاف ہے کہ ایمان زندگی ہے اور کفر موت اور اوہام و ظہوں و شکوک تاریکی ، پھر کیا وہ آدمی جس کے سامنے روشنی ہو ، اس جیسا ہوسکتا ہے جس کے چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہو۔ 4: وہ غم واندوہ جو زندگی کو مکدر کردیتا ہے جیسے : وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا ہُوَ بِمَیِّتٍ 1ؕ (ابراہیم 14 : 17) ” ہر طرف سے اس پر موت آئے گی مگر مرے گا نہیں۔ “ 5: موت کو نیند یعنی نوم ثقیل بھاری نیند اور نیند کو موت خفیف کہا جاتا ہے : الحمدللہ الذی احیانا بعدما اماتنا ، ” یعنی سب اچھی تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس نے ہم کو زندہ کیا اس کے بعد کہ ہم کو مار دیا تھا یعنی ہم کو جگایا اس کے بعد ہم کو گہری نیند سلا دیا تھا۔ “ 6: اور روح کی جسم سے مفارقت پر بولا جانا تو عام ہے جس کو سب جانتے اور سب مانتے ہیں ، جیسے : اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَٞ 0030 (صٓ 39 : 30) زیر نظر آیت میں تیسرے معنی مراد ہیں جس سے عقل ان کی زائل ہوگئی اور بےہوشی اور غشی طاری ہوگئی جس کا اصل سبب ان کی جہالت اور کم عقلی تھی۔ صاحب عقل اللہ کو دیکھ کر ہی ماننے کی ضد کب کرتا ہے ؟ وہ تو پہلے ہی مان چکا ہوتا ہے یعنی قدرت الٰہی کو دیکھ کر الٰہ حقیقی کی پہچان کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرک صرف مشرک ہی نہیں ہوتا بلکہ بیوقوف بھی ہوتا ہے۔ بعثت ، موت اور حیات کے الفاظ بار بار قرآن کریم میں آئے ہیں اس لئے جہاں یہ الفاظ آئیں گے سیاق کلام خود ان کا مفہوم متعین کرے گا۔ قارئین ” عروۃ “ کو ان معنوں کی وسعت ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے۔
Top