Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
اور (پھر وہ وقت یاد کرو کہ) ہم نے تمہارے سروں پر آبر کا سایہ پھیلا دیا اور من وسلویٰ کی اچھی چیزیں مہیا کردیں کہ انہیں خوب کھاؤ لیکن تم بدعملی سے باز نہ آئے ، غور کرو کہ تم نے ناشکری کر کے ہمارا کیا بگاڑا ؟ خود اپنا ہی نقصان کر لیا
ریگستان میں بادلوں کے سایہ کا انعام یعنی تیسرا معجزہ : 115: بنی اسرائیل کو ایسے جنگل یا ریگستان میں رہنا پڑا ، جہاں نہ تو پانی تھا اور نہ ہی کوئی درخت۔ ظاہر ہے گرمی کا موسم ، گرمی کی شدت اور مکانات وہاں موجود نہ تھے ایک طرح کی بدویانہ زندگی اختیار کرنا پڑی۔ پس ان حالات کے اندر بادل کا آنا گویا عظیم الشان نعمائے الٰہی میں سے تھا۔ حالات کی ناسازگاری کے اوقات میں حالات کا سازگار ہوجانا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اور وقت کے نبی و رسول کی اطلاع کے بعد بروقت اس کام کا ہونا معجزہ کہلاتا ہے۔ بادلوں کا سایہ سائے کی ضرورت کے وقت احسان الٰہی ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی پیشگی اطلاع کے سبب اس کو معجزہ کہنا بالکل صحیح اور درست ہے۔ قرآن کریم کی زبان میں اس کو بادلوں کا سایہ کہا ہے اور یہود اسے تخت خداوندی سے یاد کرتے ہیں۔ من وسلویٰ کا نزول الٰہی : 116: ” من “ کا لفظ بھاری نعمت کے دینے پر بھی بولا جاتا ہے ” من “ اس رزق کو بھی کہتے ہیں جو بلا مشقت جسمانی میسر آجائے اور ” من “ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو شبنم کی طرح ایک درخت پر اترتی ہے اور اس میں ایک قسم کی مٹھاس ہوتی ہے۔ بخاری میں ہے کہ الکماۃ من المن یعنی کھمبی (Mushroom) بھی ” من “ میں سے ہے۔ سلویٰ وہ چیز جو انسان کو تسلی دے اس کے کھانے سے تسلی ہوجائے کہ غذا کھائی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ من وسلویٰ ایک ہی چیز کو کہا گیا ہے۔ بہرحال وہ جو کچھ بھی اور جیسا کچھ بھی تھا۔ بنی اسرائیل کو بغیر مشقت جسمانی میسر آیا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی اطلاع دینے کے بعد ملا تھا۔ اس لئے اس کو بھی معجزانہ طور پر دیا جانا کہا جاسکتا ہے لیکن اس کی جو صورت بھی تھی وہ ایک جیسی تھی ایسا نہیں جیسا لوگوں کے ذہن میں ہے کہ رات کو بنی اسرائیل سوتے تو صبح تک ہر قسم کے کھانے پکا کر ان کے لئے اتار دیئے جاتے تھے۔ یہ صحیح بات کو غلط یا بات کا بتنگڑ بنانے کے مترادف ہے۔ بھوک کے وقت دو کھجوریں اور سخت پیاس کے وقت دو گھونٹ باسی پانی دستیاب ہوجائے تو وہ بھی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ جنگل و ریگستان کی زندگی میں ان ہزاروں انسانوں کو زندگی کی رمق باقی رکھنے کے لئے جو کچھ بھی میسر آیا وہ احسان الٰہی سے کم نہ تھا۔ اور نزول کے لفظ سے جو خواہ مخواہ کو ” بابا ٹل پکی پکائی گھل “ کے مترادف سمجھا گیا ہے یہ کم علمی اور کوتاہ اندیشی کی بنا پر ہے ورنہ قرآن کریم کی زبان میں کسی چیز کو پیدا کرنے اور بنانے کو نازل کرنے سے ادا کیا جاتا ہے۔ جیسے وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ (الحدید : 25) اور وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىِٕنُهٗٞ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ 0021 یعنی ہرچیز کے خزانے تو ہمارے پاس ہیں اور ایک معین اندازہ کے مطابق وہ چیزیں ہمیں اس عالم میں پہنچاتے رہتے ہیں۔ جس طرح یہاں نازل کرنے سے کوئی مافوق الفطرت طریقہ مراد نہیں اسی طرح وہاں بھی کوئی خرق عادت یا مافوق الفطرت نازل کرنا مراد نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ اس کا نام من رکھا شاید اس لئے بھی کہ وہ بطور احسان ان کو دیا گیا تھا اور سلویٰ کہ اس کے کھانے سے بھوک اتر جاتی تھی اگرچہ ایک ہی طرح کے کھانے سے وہ دل تنگ ہوچکے تھے۔ ہاں ! اتنا ظاہر ہے کہ وہ دال روٹی نہیں تھی کیونکہ دال روٹی ہی ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے انسان کا دل تنگ نہیں پڑتا اور اگر وہ حلال و طیب طریقہ سے میسر آئے اور محنت سے کمائی جائے تو دنیا کی کوئی غذا بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ناشکری سے نقصان کس کا ہوا ؟ 117: قرآن کریم کی زبان میں جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ طیب کھائیں اس میں سے جو ان کو دیا جا رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جو دیا گیا وہ من وسلویٰ ہی تھا جو بغیر مشقت جسمانی ان کو مل رہا تھا۔ یاد رہے کہ ذخیرہ وہی چیزیں کی جاسکتی ہیں جو بعد میں پکا کر کھائی جاسکیں یا اتنی خشک ہوں کہ ان کو ذخیرہ کیا جاسکے ۔ جو رزق بنی اسرائیل کو مل رہا تھا وہ ذخیرہ کرنے کی چیزیں نہیں تھیں ۔ تورات کے بیان کے مطابق ان کو پہلے کہا بھی گیا تھا کہ ان چیزوں کو ذخیرہ (Store ۔ Accumulate) نہ کرنا لیکن عادت ثانیہ بھی نہ بدلنے و الی شے ہے وہ اس معمولی حکم پر بھی عمل نہ کرسکے اور اس تازہ ملنے والی غذا کو ذخیرہ کرنے لگے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گل سڑ کر خراب ہونے لگی۔ اس لحاظ سے وہ طیب بھی نہ رہی اور ایسی غذا سے کئی بیماریاں بھی پھیلنے لگیں اس طرح انہوں نے اس معمولی حکم کی بھی پروانہ کی تو اس کے نتیجہ میں نقصان بھی انہوں نے خود اپنا ہی کیا۔ بیماریوں میں مبتلا ہوئے تو وہ خود ہوئے۔ اور گلی بسی غذائیں کھانا پڑیں تو وہ انہی لوگوں کو۔ اس سے ایک عام اصول اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو سمجھا دیا کہ اللہ کے احکام کا خلاف کر کے انسان خود اپنا ہی نقصان کرتا ہے اس سے اللہ کا کوئی نقصان نہیں ہوتا اور اسی طرح جو انسان فرمانبرداری کرتا ہے اس کا فائدہ بھی اپنا ہی ہوتا ہے اللہ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نفع و نقصان سے پاک و مبرا ہے نہ اس کا کوئی نقصان کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے اگر صرف اتنی بات سمجھ میں آجائے تو انسان آخر احکام الٰہی کے خلاف کرے گا کیوں ؟ وہ جب کرے گا فرمانبرداری ہی کرے گا کل اگر بنی اسرائیل نے احکام الٰہی کی نافرمانی کی تو نقصان اپنا کیا اور آج اگر ہم احکام الٰہی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں تو نقصان بھی ہمارا ہی ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ تو ہر طرح کے نقصان سے پاک ہے اور رہے گا۔
Top