Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا : اور جب ہم نے کہا ادْخُلُوْا : تم داخل ہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : بستی فَكُلُوْا : پھر کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ شِئْتُمْ : جہاں سے تم چاہو رَغَدًا : با فراغت وَادْخُلُوْا : اور تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : بخش دے نَغْفِرْ : ہم بخش دیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطَايَاكُمْ : تمہاری خطائیں وَسَنَزِيْدُ : اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِیْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور پھر ہم نے حکم دیا تھا کہ اس آبادی میں داخل ہوجاؤ اور کھاؤ پیو اور آرام چین کی زندگی بسر کرو ، لیکن جب شہر کے دروازے میں قدم رکھو تو تمہارے سر اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہوں اور تمہاری زبانوں پر توبہ کا کلمہ جاری ہو اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ تمہاری خطائیں معاف کر دے گا اور نیک کردار انسانوں کے اعمال میں برکت دے گا
شہر میں داخلے کا حکم : 118: اب تک یہ لوگ جنگلوں کی زندگی بسر کرتے تھے ، جہاں ایک طرف تو ضروریات حیات نہایت ہی قلیل اور مختصر تھیں۔ دوسری طرف فواحش و منہیات اور حرام کاری کے سامان بھی نایاب تھے۔ ایک مدت تک جنگل میں رہنے کے بعد ان کے دلوں میں خود بخود شہری زندگی کی آرزو پیدا ہوئی انہیں ایک شہر میں داخلہ کی اجازت تو دی گئی مگر خاص پابندی کے ساتھ ، وہ پابندی یہ تھی کہ ان سے کہہ دیا گیا کہ وہاں نفسی خواہش اور بدکاری کے مواقع تم کو کثرت سے ملیں گے اس لئے ایسی برائیوں اور بدکاریوں سے بچتے رہنا اور قانون کی خلاف ورزی نہ کرنا ، عبادت میں مصروف رہ کر گناہوں سے بچنے کے لئے اللہ سے دعا کرنا کہ وہی ہر قسم کی آلائشوں اور ناپاکیوں سے پناہ میں رکھنے والا ہے۔ اس کی رسّی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے ۔ شہر میں داخل ہو کر کمال اطاعت و فرمانبرداری کا خیال دل میں اچھی طرح جما لو مگر یہ اتنی جھوٹ قوم تھی کہ شہر میں داخل ہوتے ہی ان سے ضبط نہ ہوسکا ، اور بدکاری و بدکرداری شروع کردی ، شراب نوشی اور زناکاری کے مرتکب ہوگئے حالت ایسی بگڑی کہ انجام کار ان پر عذاب الٰہی نازل ہوا اور ہزاروں تباہ و برباد ہوئے۔ یہ شہر کونسا شہر تھا ؟ جس میں ان کو داخلہ کا حکم دیا گیا ہے کہ اس کا نام شہر سطیم یا شطیم تھا۔ چناچہ تورات میں ہے کہ ” سو بنی اسرائیل سطیم میں مقیم ہوئے اور ان لوگوں نے مو آبیوں کی بیٹیوں سے حرامکاری شروع کی۔ انہوں نے اپنے معبودوں کی قربانیوں پر لوگوں کی دعوت کی۔ سو لوگوں نے کھایا اور ان کے معبودوں کو سجدہ کیا اور اسرائیلی بعل عفور یا فغور سے ملے تب خداوند کا کہر بنی اسرائیل پر بھڑکا۔ “ (گنتی 25 : 1 ، 2 ، 3) یہ قہر الٰہی بصورت وبا تھا جیسا کہ آگے چل کر تورات میں اس کی وضاحت کی گئ۔ ” تب بنی اسرائیل سے وباء جاتی رہی وہ جو اس وباء میں مرے وہ چو بیس ہزار تھا۔ “ شہر میں فاتحانہ اور فرمانبردارانہ داخل ہونے کی تاکید : 119: معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ شہر خوب وسیع ، آباد اور پر رونق تھا۔ ایک حکم یہ ملا تھا شہر کی فصیل کے دروازے کے راستے سے داخل ہونا ہے اور فاتحانہ انداز میں داخل ہونا ہے اور عاجزی و فروتنی کے ساتھ داخل ہونا ہے۔ اتراتے ہوئے اور طمطراق سے داخل نہیں ہونا۔ یہاں سجدہ سے یہی مراد ہے نہ کہ عرفی سجدہ ۔ ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ حکم یہ ملا ہو کر شہر میں داخل ہوتے ہی سجدہ شکر بجا لائو کیونکہ یہ بھی ایک الٰہی فرمانبرداری کا صحیح اور جائز طریقہ ہے چناچہ ہمارے رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ جب آپ ﷺ سفر سے واپس تشریف لاتے تو شہر میں داخل ہونے سے قبل یا گھر میں داخل ہونے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لیا کرتے اگر اس روایت کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ معنی اقراب الی الفہم معلوم ہوتے ہیں لیکن جو معنی اوپر بیان کئے گئے ہیں وہ بھی بالکل صاف ہیں کہ وہ جنگل سے نکل کر شہر میں آرہے ہیں جہاں خواہش نفسانی کے ازالہ کے اسباب کثرت سے ملتے ہیں۔ جنگل میں انہیں خواہشات نفسانی کے پورا کرنے کا کوئی موقع نہ تھا لہٰذا انہیں حکم دیا گیا کہ شہر سے باہر داخل ہونے سے پہلے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرلینا اور شہر میں داخل ہوتے وقت بھی تمہارے دل حکم الٰہی کی طرف جھکے رہیں اور خلاف ورزی کا خیال بھی نہ آنے پائے ورنہ برباد ہو جائو گے۔ دوسرا حکم انہیں استغفار کرنے کا تھا کہ زبان سے حطۃ کہتے ہوئے داخل ہونا ، یہ ایک دعائیہ لفظ ہے۔ کہ اے اللہ ! ہم سے کوئی لغزش نہ ہو اور اگر ہو تو معاف فرما دے گویا یہ ایک طرح سے انسانی کمزوری کا اعتراف ہے کہ انسان اگر گناہ سے بالکل بچ جائے تو بھی یہ نہ سمجھے کہ اس میں میرا کوئی کمال ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تسلیم کرے ، جس طرح ہم مسلمانوں کو نماز جیسی اہم عبادت سے فارغ ہو کر بلند آواز سے تکبیر کہنے اور اس کے بعد کم از کم تین بار استغفر اللہ کا کلمہ ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اے اللہ ! تو بہت بڑا ہے اور میں بالکل چھوٹا ۔ میں اعتراض کرتا ہوں کہ جس طرح نماز ادا کرنا چاہئے تھی نہیں کرسکا۔ جو مجھ سے ہوسکا منظور فرما اور جو کوتاہی ہوئی معاف فرما دے۔
Top