Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 60
وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ١ؕ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا١ؕ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ١ؕ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَاِذِ اسْتَسْقٰى : اور جب پانی مانگا مُوْسٰى : موسیٰ لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم کے لئے فَقُلْنَا : پھر ہم نے کہا اضْرِبْ : مارو بِّعَصَاکَ : اپناعصا الْحَجَر : پتھر فَانْفَجَرَتْ : تو پھوٹ پڑے مِنْهُ : اس سے اثْنَتَا عَشْرَةَ : بارہ عَيْنًا : چشمے قَدْ عَلِمَ : جان لیا كُلُّاُنَاسٍ : ہر قوم مَّشْرَبَهُمْ : اپناگھاٹ كُلُوْا : تم کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیؤ مِنْ : سے رِّزْقِ : رزق اللہِ : اللہ وَلَا : اور نہ تَعْثَوْا : پھرو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مُفْسِدِينَ : فساد مچاتے
اور پھر جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تھا اور ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی لاٹھی سے اس اس چٹان پر ضرب لگاؤ تو یقینا پانی موجود پاؤ گے ، چناچہ اس طرح بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور تمام قبیلوں کے لوگوں نے اپنے اپنے پانی لینے کی جگہ معلوم کرلی اور تم سے کہا گیا کہ کھاؤ پیو ، اللہ کی بخشائش سے فائدہ اٹھاؤ اور اس سر زمین میں جھگڑا فساد مت کرو
پانی کا فقدان اور موسیٰ (علیہ السلام) کی پانی کے لئے التجا : 121: شہر میں وباء پڑی اور ہزاروں مر گئے تو تنگ آ کر پھر انہوں نے جنگل کی راہ لی۔ فلسطین سے دور اور مصر سے الگ دونوں کے درمیان معلق جزیرہ نمائے سینا کے لق و دق بیابان و ریگستان میں اپنے خیمہ اور خر گاہ کے ساتھ کوچ در کوچ ایک مقام سے دوسرے مقام ، اور ایک منزل سے دوسری منزل کو منتقل ہو رہے ہیں۔ قدیم گلہ بان قوموں میں یہ دستور عام تھا اور آج بھی بہت سی خانہ بدوش قوموں میں عام ہے۔ ہمارے ہاں کی اوڈ قوم آج بھی انہی کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ خشک ملک اور پھر مقامی جغرافیہ سے ناواقفیت ، چلتے چلتے یہ لوگ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پانی نایاب تھا اور ساتھ کا ذخیرہ ختم ہوچکا تھا۔ صورتحال کا ذرا تصور کیجئے پیاس سے بےحال اور بےدم تو ہو ہی رہے تھے مرنے مارنے پر آمادہ ہوگئے اور لگے اپنی جھنجھلا ہٹ اور غصہ اپنے رہبر اور سردار سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر اتارنے ، چناچہ تورات میں ہے کہ ” تب سارے بنی اسرائیل کی جماعت نے اپنے سفروں .. میں .... خدا وند کے فرمان کے مطابق سین کے بیابان سے کوچ کیا اور قیدیم میں ڈیرا کیا۔ وہاں لوگوں کے پینے کا پانی نہ تھا سو لوگ موسیٰ (علیہ السلام) سے جھگڑنے لگے اور کہا کہ ہم کو پانی دے کہ پیویں ...... موسیٰ نے خداوند سے فریاد کی اور کہا کہ میں ان لوگوں کا کیا کروں ؟ وہ تو مجھے ابھی سنگسار کرنے کو تیار ہیں۔ “ (خروج 17 : 1 ، 4) اور قدیم ترین یہودی مؤرخ جو زیفس کی تاریخ آثار یہود میں ہے : ” وہ مقام رقیدیم میں پہنچے جہاں پیاس کی شدت سے بےتاب ہو رہے تھے ...... یہاں کی سر زمین میں ایک قطرہ تک پانی کا نہ پایا اس پر لوگ غصہ میں آئے اور موسیٰ پر ٹوٹ پڑے ...... لیکن وہ خدا کے آگے دعا میں زاری کے ساتھ مشغول ہوگئے ۔ “ (باب 3۔ فصل 2) پیغمبر کوئی غیب دان تو نہیں ہوتے ۔ جب تلاشی کے بعد مایوسی ہوچکی تو بجز دعا اور مناجات کے اور کیا کرتے ؟ تورات میں ہے کہ ” اس کے بعد بنی اسرائیل کی ساری جماعت پہلے دشت سین کو آئی اور قادس میں رہنے لگی “ یعنی اس بیان میں رقیدیم کی بجائے قادس کا ذکر ہے بہر حال وہ مقام قادس ہو یا رقیدیم ، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا فی نفسہٖ یہ واقعہ بنی اسرائیل کی مسلمات میں سے ہے۔ اسْتَسْقٰى کے معنی ہیں کہ پانی طلب کیا۔ پانی کی تلاش کی اور یہاں مراد ہے کہ پانی کی دعا کی۔ قانونِ الٰہی ہے کہ جو یندہ یا بندہ : 122: موسیٰ (علیہ السلام) دست بدعا ہوئے تو ارشاد الٰہی ہوا کہ اپنے سارے لشکر کو ساتھ لے کر اس پہاڑ کے اوپرچلو وہاں تمہارے لئے ایک نہیں برابر برابر بارہ چشمے جاری کئے گئے ہیں وہاں اپنے لوگوں کو ٹھرائو اور بارہ قبیلوں کے لئے الگ الگ گھاٹ مقرر کر دو ۔ اور وہاں آرام کی زندگی گزارو اس جگہ کا نام جہاں یہ چشمے پائے گئے ایلیم بتایا جاتا ہے۔ وہ آج تک عیون موسیٰ کے نام سے مشہور و معروف ہے اگرچہ اس وقت وہاں چشمے موجود نہیں ہیں۔ چناچہ قرآن کریم نے جو الفاظ بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ : اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ : اپنی لاٹھی کے ساتھ اس پتھر پر چل۔ یا اپنی لاٹھی سے فلاں فلاں پتھر پر مار اپنی جماعت کو ساتھ لے کر فلاں پتھر کی طرف یا فلاں پتھر پر چلیں تینوں معنی صحیح ہیں اور تینوں ہی سے ایک مفہوم بیان ہوتا ہے جو بیان کرنا مطلوب ہے۔ ضرب یعنی مارنا۔ چلنا۔ بیان کرنا۔ قرآن کریم میں آیا ہے : ضرب الارض کے معنی ہیں اس نے زمین میں سفر کیا۔ چناچہ قرآن کریم میں ہے : وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ (المزمل 73 : 20) وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ (النسا 4 : 101) عصا کے معنی لاٹھی تو بیان ہوتے ہیں لیکن اصلی معنی اس کے اجتماع یعنی اکٹھا ہونا ہیں بلکہ عصا کو اسی لئے عصا کہتے ہیں کہ اس کو پکڑنے کے لئے ہاتھ کی انگلیوں کو اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ (اصمعی) اس لئے عصا کے معنی جماعت کے عام ہیں۔ خوارج کے متعلق کہا گیا ہے : شقوا عصا المسلمین ، یعنی انہوں نے مسلمانوں کی جماعت میں اختلاف ڈال دیا۔ اسی طرح آیا ہے کہ : ایاک و قتیل العصا ، یعنی جماعت اسلام میں نفرقہ ڈالنے والوں سے بچو۔ اگر یہ معنی ہوں ” اپنی لاٹھی سے پتھر پر مار “ تو مفہوم ہوگا کہ ان لوگوں کو اپنی لاٹھی سے نشان لگا دے یہاں سے ذرا یہ پتھروں کو ادھر ادھر کریں گے تو چشمہ جاری ہوجائے گا اور وحی الٰہی کی روشنی میں انہوں نے نشان زدہ جگہوں کو کچھ ہی کھودا تھا کہ پانی کے چشمے جاری ہوگئے۔ اگر یہ معنی ہوں کہ ” اپنی جماعت یعنی بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر فلاں پتھر تک چل وہاں چشمے جاری ہیں “ جب وہاں گئے تو چشموں کو جاری پایا۔ بہرحال جو کچھ ہوا وہ وحی الٰہی کی اطلاع کے مطابق ہوا اور یہ بات نہ تو مافوق الفطرت تھی اور نہ ہی کوئی خرق عادت تھا۔ مختصر یہ کہ مفسرین کا یہ بیان کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک پتھر ساتھ لئے پھرتے تھے جو تین گز مربع کا تھا جہاں اسے جنگل میں رکھتے اور اس پر سوٹا مارتے وہیں اس سے بارہ چشمے بہہ نکلتے جن سے چھ لاکھ آدمی اور ان کے مال مویشی سیراب ہوجاتے اس قِصّہ کا کوئی نشان قرآن کریم میں نہیں ہے اور نہ ہی سمجھنا چاہیے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا ہو کہ تم اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر فلاں چٹان پر چلے جائو وہاں بارہ چشمے موجود ہیں یعنی نکل آئے ہیں۔ اس طرح بیان کرنے سے کوئی معجزہ کا انکار ہے۔ ہرگز نہیں کیونکہ ایسے جنگل میں جہاں پانی نہ ملتا ہو اور لوگ پیاسے مر رہے ہوں موسیٰ (علیہ السلام) کو چشموں کی اطلاع دے دینا بذات خود اتنا بڑا عظیم الشان معجزہ ہے اور آئندہ آنے والی آیت سے اس کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ بنی اسرائیل کھانے کے لئے مختلف اشیاء طلب کرتے ہیں اور حکم ہوتا ہے کہ جاؤ فلاں جگہ چلے جاؤ جو تم نے مانگا ہے وہاں مل جائے گا۔ بلاشبہ ایک واقعہ کو بیان کرنا اور اس کے معجزانہ رنگ کو معجزانہ رنگ ہی میں بیان کرنا صحیح ہے لیکن معجزہ بنا کر پیش کرنا اور پھر جو کچھ بنایا ہے اس کو دوسروں سے تسلیم کرانا اور اگر کوئی اس بنائے ہوئے معجزہ کو اس طرح نہ مانے تو اس پر الزام لگانا کہ یہ معجزہ کا منکر ہے۔ کسی شعبدہ باز ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ کلام الٰہی اس کا متحمل نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ اپنے بیان کئے ہوئے قانون کو بدلتا ہے اور نہ ہی کسی کو بدلنے دیتا ہے اور یہی اس کی قدرت کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ ہر قبیلے کا الگ الگ گھاٹ مقرر کرنا : 123: یعنی اس ذخیرہ یا خزانہ پانی سے الگ الگ بارہ سوتے فاصلہ فاصلہ پر پھوٹ نکلے تھے یعنی بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کی تعداد کے عین مطابق۔ اشارہ اس طرف ہے کہ ان کے جھگڑنے کی صورت کے امکان کو جہاں تک ممکن تھا ختم کیا گیا لیکن یہ ایسے لوگ تھے کہ پھر بھی آپس میں لڑائی جھگڑے کی کوئی صورت نکال ہی لیتے تھے جو ان کی جہالت کی کھلی دلیل ہے۔ ہمارے علاقہ کے لوگوں کو ایسے نشانات دیکھنے کے لئے شمالی علاقہ جات ، مری ، ایوبیہ ، نتھیا گلی وغیرہ کی پہاڑیوں کی سیر کرنا چاہیے ان کو جگہ جگہ قدرت الٰہی کے ایسے نشانات ملیں گے کہ کتنی بلندی پر ، کتنے کتنے فاصلہ پر ، کہاں کہاں سے گزر کر ٹھنڈے پانی کے چشمے اور کہیں گرم پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں ایک سیر و سیاحت کرنے والا قافلہ اس حکمت الٰہی کو آج بھی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ الگ الگ اور فاصلہ فاصلہ پر ان سوتوں کے ہونے کے کیا فوائد ہیں ؟ ” اُنَاسٍ “ الناس ہی کی دوسری صورت ہے جو قبیلہ اور طائفہ کے معنی دیتی ہے۔ یہاں یہی معنی لئے گئے ہیں جس سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ بارہ قبیلے علیحدہ علیحدہ چشموں یا سوتوں پر خیمہ زن ہوئے تھے اور قرآنی نظم عبارت سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ بارہ گھاٹ تین مربع گز کے ایک ہی پتھر سے نکلنے کی بات فرضی ہے۔ حقیقت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ فساد سے باز رہنے کا دوبارہ حکم : 124: عثی کے معنی خود ہی فساد میں حد سے تجاوز کرجانے کے ہیں۔ عیث و عثی کے معنی ایک ہی ہیں البتہ ایک باریک فرق دونوں میں موجود ہے کہ عیث کا تعلق فساد حسی سے ہے اور عثی کا فساد معنوی سے۔ مفسدین گویا اس فساد کی مزید تشریح ہے۔ ایسا مت کرو کہ تم زمین میں فساد ہی فساد ہوجاؤ جس کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ تم فساد کی جڑ نہ ثابت ہو جو فساد پھوٹے یا جنم لے تم اس میں پیش پیش یعنی سرفہرست ہو۔ جب کوئی قوم من حیث القوم قانون الٰہی کو چھوڑ کر اپنے ہوائے نفس کے مطاق کوئی روش اختیار کرلیتی ہے تو اس کا نتیجہ دنیا میں لازمی طور پر فتنہ و فساد ، حرب و ضرب اور کثرت جرائم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور امن انفرادی ہو یا اجتماعی دونوں طرح پر اٹھ جاتا ہے۔ فضل و انعام سے سیراب کر کے بنی اسرائیل کو ہدایت یہ ہوئی کہ جو فارغ البالی نصیب ہوئی ہے اس کو غنیمت سمجھو ، قانون الٰہی کی پابندی کرو ، لیکن ان باتوں میں سے کوہ کونسی بات تھی جس پر بنی اسرائیل نے کان دھرا ؟ اچھا ! اگر انہوں نے اس ساری سنی کو اَن سنی کردیا تو نقصان کس کا ہوا ؟ اور آج وہ اس روش سے واپس آرہے ہیں تو قوم مسلم نے وہی راہ اختیار کرلی ہے کیا جو ان کے حق میں نتیجہ نکلا تھا وہ ہمارے حق میں نہیں نکلا ؟ وہ کونسا مسلم ملک ہے جو فساد کا گہوارہ نہیں بن گیا ؟
Top